شاہد ریاض گوندل کا خاموش استعفیٰ
اسی طر ح کے تاثرات تھے جو مختلف ذہنوں میں اُبھرتے تھے جب تک کسی نے اس کے ساتھ گفتگو نہ کی ہوتی۔
KARACHI:
چند روز قبل وزیر اعلیٰ پنجاب کے کوآڈینیٹر برائے توانائی شاہد ریاض گوندل نے وزیر اعلیٰ کے اعتماد اور رضا مندی سے اپنی ذاتی مصروفیات کی بنا پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ 2013 کے الیکشن کے بعد جب میاں شہباز شریف نے اسے انرجی پر اپنا مشیر بنایا تو بہت سے لوگوں کی طرح مجھے بھی یہی گمان ہوا کہ وزیراعلیٰ نے اس نوجوان کو کسی قابلیت کے بجائے ،اپنی ذاتی پسند اور انعام کے طور پر ایک سرکاری عہدہ دیا ہے۔ وہ لباس سے بیوروکریٹ لگتا ، اکثر نئے ملنے والے اس سے اس کا ًکامن ِ ً ضرور پوچھتے ہیں اور وہ جواب میں کہتا ،'' ائے کامن مین''۔ کچھ دوستوں کی نظر میں وہ یورپ پلٹ لااُبالی جوان ہے جو شاید سر مائے کو سیڑھی بنا کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ گیا۔
اسی طر ح کے تاثرات تھے جو مختلف ذہنوں میں اُبھرتے تھے جب تک کسی نے اس کے ساتھ گفتگو نہ کی ہوتی۔ اس کی گفتگو کا مخصوص اور لازمی حصہ تو میاں شہبا ز شریف کی تعریف و توصیف اور حکومت کے انقلابی اقدامات کی تفصیلات پر مبنی ہوتا ،اس کی گفتگو کے بعد آپ اس یقین کے ساتھ اُٹھتے کہ شہباز شریف مہاتیر محمد سے بڑا لیڈر ہے، خیر یہ تو اس گفتگو کی سیاسی قسط ہوتی باقی جتنا گفتگو میں کھلتا جاتا اتنا ہی آپ اس کی شخصیت سے واقف ہوتے جاتے، آخر میں یہ حقیقت آشکار ہوتی کہ وہ ایک دیہاتی بیک گراؤنڈ کا سیلف میڈ آدمی ہے، اس کے نانا چوہدری جہان خان بوسال 1946سے 1964تک وقفوں کے ساتھ ممبر پارلیمنٹ رہے ،اس خاندانی پس منظر کے سوا اسے کسی قسم کی سیاسی پشت پناہی حاصل نہیں رہی۔
اسکالر شپ اور اپنی مدد آپ کے تحت پاکستان،جرمنی،امریکا اور برطانیہ کی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی اور یورپ میں کاروبار بھی سیٹ کیا ، پنجابی ، اردو ، انگلش اور جرمن زبان روانی کے ساتھ بولتا ہے جب کہ ہسپانوی زبان کی بھی اچھی سوجھ بوجھ ہے۔ پنجابی زبان کا ذکر اس لیے بھی خاص طور پر خصوصا اس لیے کیا ہے،آپ شاہدر یاض گوندل کویورپین کے ساتھ بیٹھا دیکھیں تو یہ آپ کو گوروں سے زیادہ گورا لگے گا، لیکن آپ کبھی پنجابی زبان اور اس کی تاریخ پر بات کریں تو آشکار ہوگا کہ گوندل کو پنجابی زبان اور اس کے کلچر سے جذباتی لگاؤ ہے۔
اس کو دھرتی کا بیٹا ہونے پر بڑا فخر ہے، حضرت پیر بابا فرید شکر گنج کے دربار پر حاضری معمول ہے اس کا، اس کا کہنا ہے میں بابا جی کے دربار پر حاضری اپنی منتیں اور مرادیں پوری کرانے کے لیے نہیں دیتا بلکہ ان کی دینی خدمات اور پنجابی زبان پر اور اس خطہ پاک و ہند پر ان کے کرم خاص کو خراجِ عقیدت پیش کر نے لیے دیتا ہوں اور اس سے اپنا روحانی لطف بھی کشید کرتا ہوں۔ بات پنجابی زبان کی چل نکلے تو پھر پیر سلطان باہو، حضرت پیر بلھے شاہ، خواجہ غلام فرید، میاں محمد بخش اور شاہ حسین پر اس کا مطالعہ واضع ہوتا جائے گا۔
تاریخ اور سیاحت اس کے سب بڑے شغف ہیں جب کہ سیاست خون میں شامل ہے۔ گوندل کے خیال میں تمام لوگوںکو جو چھوٹے یا بڑے فیصلہ کن عہدوں پر بیٹھے ہیں ان کی تاریخِ اسلام ،تاریخ بر صغیر پاک و ھند ، اپنے ہمسایہ ممالک ایران، افغانستان اور چین کی تاریخ کے علاوہ یورپ،امریکا اور مصرکی تاریخ پر گہری نظر ہونی چاہیے۔ تاریخ پر گہری نظر کے بغیر مستقبل کے لیے اچھے فیصلے کر نا ممکن ہی نہیں۔پاکستان کے دانشور طبقے سے اس کی دوستیاں اور ملاقاتیں اس کی علم اور ادب سے گہر ی دلچسپی کی غمازی کرتی ہیں۔
کوئی تیس کے قریب ممالک دیکھنے بعد گوندل کے خیال میں جتنی صلاحیتیں اور اُ منگیں اس نے پاکستانی نوجوانوں کی آنکھوں میں دیکھیں اور کہیں نہیں دیکھیں۔ جتنے قدرتی وسائل اور ممکنات اس دھرتی میں ہیں شاید ہی کسی ملک میں ہوں ، وہ پر اُمید ہے کہ ہم اپنی زندگی میں اس ملک کو خوشحالی کا سفر طے کرتے دیکھیں گے اور اس دیس سے مفلوک الحالی اور مصائب کا خاتمہ ہوتے دیکھیں گے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ یورپین لٹریچر اور تصوف سے اس کا لگاؤ ایک اچھوتاامتزاج ہے، اسی وجہ سے گوندل میں کدورت، نفرت اور حسد کے جذبات عام آدمی سے بہت کم ہیں، خصوصاً سیاستدانوں میں یہ خوبی خا ل خال ہی پائی جاتی ہے۔
توانائی کے شعبے میںجس متحرک طریقے سے شاہد ریاض گوندل نے اپنا کردار اد کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ انرجی پالیسی ، اور دنیا میں انرجی مارکیٹ میں ہونے والی تبدیلیوں پر اس کی گہری نظر ہے، پن بجلی، تھرمل بجلی، ہوا سے بجلی ، LNGاور شمسی توانائی کی مشکلات اور ان کے فوائدسے نہ صرف بخوبی آگاہ بلکہ آسان ترین الفاظ میں عام آدمی کو سمجھانے کی صلاحیتوںسے لیس۔ گوندل نے جس طرح سے حکومت کے انرجی پراجیکٹس اور پالیسیوں کانہ صرف دفاع کیا بلکہ پروموٹ کیا شاید ہی کسی اور حکومتی رکن نے اتنے مدلل انداز میں حکومت کا کیس میڈیا میں پیش کیا ہو۔
ہم سمجھتے تھے کہ لاہور میںافسروں اور اشرافیہ کی حد تک اس کی خوب میل جول ہے لیکن شاید اس کے لیے عوام میں گھلنا ملنا ایک مشکل مشق ثابت ہو، لیکن ہمیں گوندل کے ساتھ ایک عوامی تقریب کے لیے منڈی بہاؤالدین ساتھ جانے کا موقع ملا، ہم نے خود عوام میں اس کی مقبولیت کے مناظر دیکھے ہمیں محسوص ہواء کہ منڈی بہاؤالدین کے نوجوانون میںخاص کر اس کے لیے والہانہ پذیرائی پائی جاتی ہے۔ دوسرا منظر ابھی بلدیاتی انتخابات میں اس کے گاؤں بھکھی شریف میں دیکھا جو سید محفوظ مشہدی (جو پیر آف بھکھی شریف اور ممبر پنجاب اسمبلی ہیں)کا بھی گاؤں ہے ۔ شاہد ریاض گوندل نے اپنے چچا جو کئی سالوں سے اسپین میں مقیم تھے، اسے وہاں سے واپس بلوا کر محفوظ مشہدی کے چھوٹے بھائی کے مقابلے میں چیئرمین کے الیکشن پر کھڑا کر دیا، کسی ترقیاتی فنڈکے بغیر گوندل نے کیمپین کی او ر اس کے چچا الیکشن جیتے گئے۔
ویسے تو کوئی سیاستدان جب مستعفی ہوتا ہے تو وجہ ذاتی مصروفیات ہی بتاتا ہے، لیکن جب پرائیوٹ مجلسوں میں بیٹھتا ہے تو اپنی تلخی اور غصے کے علاوہ اصل وجوہات بھی بیان کر دیتا ہے۔ استعفیٰ کے بعد شاہد ریاض گوندل سے جب ملاقات ہوئی تو اُ س کی زبان پر میاں شہباز شریف کے لیے تشکر ، تعریف و توصیف کے وہی کلمات تھے، وہی یقین دھرا رہے تھے کہ بجلی کا بحران 2018سے پہلے یقیناً ختم ہوجائے گا۔کسی قسم کی تلخی نہیں تھی۔ سیاستدان اکثر بیوروکریسی کا گلہ شکوہ کرتے رہتے ہیں کہ وہ اپنے سوا کسی اور کو چلنے نہیں دیتے۔
شاہد گوندل کے بقو ل بیورکریسی کے بغیر کہیں بھی نظامِ سلطنت نہیں چل سکتا اورپاکستان کے پاس ایک باصلاحیت بیوروکریسی ہے، اگر اس کو اپنا کام کرنے دیا جائے تو یقیناً پرفارمنس دے سکتی ہے۔ بیوروہ کریسی میں ریفارمز کی ضرورت تو ہمیشہ ہی رہتی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ مجھے نہ صرف بیوروکریسی نے مکمل طور قبول بلکہ پیار اور عزت بھی دی۔ حالانکہ اقتدار کے ایوانوں میں محلاتی سازشیں تاریخ اور روایات کا حصہ ہیں، اقتدار میں شامل لوگ ایک دوسرے کو گرانے اور بلاک کرنے کے عمل کو اقتدار کے کھیل کا حصہ سمجھتے ہیں۔
گوندل نے کہا کہ میرے خلاف کسی نے کوئی محاذ نہیں بنایا ،کسی نے کوئی سازش نہیں کی اور مجھے آج بھی وزیراعلیٰ کا اعتماد حاصل ہے۔ ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ سیاستدان ہر عہدے سے استعفیٰ دے سکتا ہے لیکن سیاست سے مستعفی نہیں ہو سکتا۔ میری دعا ہے کہ شاہدریاض گوندل اور اس جیسے اور نوجوان پاکستان کی سیاست میں متحرک کردار ادا کرتے رہیں۔ آخر میں شاہد ریاض گوندل کی پنجابی نظم پڑھیے اور اُس کی اس دھرتی کے لیے کسک محسوس کیجیے۔
ایہہ دھرتی ای اوہ دھرتی اے (یہ عظیم دھرتی ہے)
جس دیاں ماواں وڈیاں نیں (جہاں کی مائیں عظیم ہیں)
جس دیاں چھاواں گھنیاں نیں (درختوں کے سائے گھنے ہیں)
ایتھے کئی لٹیرے آئے نیں (یہاں کئی لٹیرے آئے ہیں)
اُنھاں کئی کئی پھیرے پائے نیں (وہ بار بار آئے ہیں)
ایتھے اج وی فصلاں ھریاں نیں ( فصلیں لہلہا رہی ہیں)
ایتھے اج وی چھٹاں بھریاں نیں (اناج بھرپور ہے)
ایہہ دھرتی گبھرو ویراں دی (یہ بہادروں کی دھرتی ہے)
سسیاں، سوہنیاں ، ہیراں دی (سسی سوہنی ہیر کی دھرتی)
ایہہ دھرتی بابے نانک دی (گرونانک کی دھرتی)
نالے کرماں والیاں پیراں دی (کرماں والی سرکار کی دھرتی)
ایہہ دھرتی ای، اوہ دھرتی اے (یہ عظیم دھرتی)
چند روز قبل وزیر اعلیٰ پنجاب کے کوآڈینیٹر برائے توانائی شاہد ریاض گوندل نے وزیر اعلیٰ کے اعتماد اور رضا مندی سے اپنی ذاتی مصروفیات کی بنا پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ 2013 کے الیکشن کے بعد جب میاں شہباز شریف نے اسے انرجی پر اپنا مشیر بنایا تو بہت سے لوگوں کی طرح مجھے بھی یہی گمان ہوا کہ وزیراعلیٰ نے اس نوجوان کو کسی قابلیت کے بجائے ،اپنی ذاتی پسند اور انعام کے طور پر ایک سرکاری عہدہ دیا ہے۔ وہ لباس سے بیوروکریٹ لگتا ، اکثر نئے ملنے والے اس سے اس کا ًکامن ِ ً ضرور پوچھتے ہیں اور وہ جواب میں کہتا ،'' ائے کامن مین''۔ کچھ دوستوں کی نظر میں وہ یورپ پلٹ لااُبالی جوان ہے جو شاید سر مائے کو سیڑھی بنا کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ گیا۔
اسی طر ح کے تاثرات تھے جو مختلف ذہنوں میں اُبھرتے تھے جب تک کسی نے اس کے ساتھ گفتگو نہ کی ہوتی۔ اس کی گفتگو کا مخصوص اور لازمی حصہ تو میاں شہبا ز شریف کی تعریف و توصیف اور حکومت کے انقلابی اقدامات کی تفصیلات پر مبنی ہوتا ،اس کی گفتگو کے بعد آپ اس یقین کے ساتھ اُٹھتے کہ شہباز شریف مہاتیر محمد سے بڑا لیڈر ہے، خیر یہ تو اس گفتگو کی سیاسی قسط ہوتی باقی جتنا گفتگو میں کھلتا جاتا اتنا ہی آپ اس کی شخصیت سے واقف ہوتے جاتے، آخر میں یہ حقیقت آشکار ہوتی کہ وہ ایک دیہاتی بیک گراؤنڈ کا سیلف میڈ آدمی ہے، اس کے نانا چوہدری جہان خان بوسال 1946سے 1964تک وقفوں کے ساتھ ممبر پارلیمنٹ رہے ،اس خاندانی پس منظر کے سوا اسے کسی قسم کی سیاسی پشت پناہی حاصل نہیں رہی۔
اسکالر شپ اور اپنی مدد آپ کے تحت پاکستان،جرمنی،امریکا اور برطانیہ کی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی اور یورپ میں کاروبار بھی سیٹ کیا ، پنجابی ، اردو ، انگلش اور جرمن زبان روانی کے ساتھ بولتا ہے جب کہ ہسپانوی زبان کی بھی اچھی سوجھ بوجھ ہے۔ پنجابی زبان کا ذکر اس لیے بھی خاص طور پر خصوصا اس لیے کیا ہے،آپ شاہدر یاض گوندل کویورپین کے ساتھ بیٹھا دیکھیں تو یہ آپ کو گوروں سے زیادہ گورا لگے گا، لیکن آپ کبھی پنجابی زبان اور اس کی تاریخ پر بات کریں تو آشکار ہوگا کہ گوندل کو پنجابی زبان اور اس کے کلچر سے جذباتی لگاؤ ہے۔
اس کو دھرتی کا بیٹا ہونے پر بڑا فخر ہے، حضرت پیر بابا فرید شکر گنج کے دربار پر حاضری معمول ہے اس کا، اس کا کہنا ہے میں بابا جی کے دربار پر حاضری اپنی منتیں اور مرادیں پوری کرانے کے لیے نہیں دیتا بلکہ ان کی دینی خدمات اور پنجابی زبان پر اور اس خطہ پاک و ہند پر ان کے کرم خاص کو خراجِ عقیدت پیش کر نے لیے دیتا ہوں اور اس سے اپنا روحانی لطف بھی کشید کرتا ہوں۔ بات پنجابی زبان کی چل نکلے تو پھر پیر سلطان باہو، حضرت پیر بلھے شاہ، خواجہ غلام فرید، میاں محمد بخش اور شاہ حسین پر اس کا مطالعہ واضع ہوتا جائے گا۔
تاریخ اور سیاحت اس کے سب بڑے شغف ہیں جب کہ سیاست خون میں شامل ہے۔ گوندل کے خیال میں تمام لوگوںکو جو چھوٹے یا بڑے فیصلہ کن عہدوں پر بیٹھے ہیں ان کی تاریخِ اسلام ،تاریخ بر صغیر پاک و ھند ، اپنے ہمسایہ ممالک ایران، افغانستان اور چین کی تاریخ کے علاوہ یورپ،امریکا اور مصرکی تاریخ پر گہری نظر ہونی چاہیے۔ تاریخ پر گہری نظر کے بغیر مستقبل کے لیے اچھے فیصلے کر نا ممکن ہی نہیں۔پاکستان کے دانشور طبقے سے اس کی دوستیاں اور ملاقاتیں اس کی علم اور ادب سے گہر ی دلچسپی کی غمازی کرتی ہیں۔
کوئی تیس کے قریب ممالک دیکھنے بعد گوندل کے خیال میں جتنی صلاحیتیں اور اُ منگیں اس نے پاکستانی نوجوانوں کی آنکھوں میں دیکھیں اور کہیں نہیں دیکھیں۔ جتنے قدرتی وسائل اور ممکنات اس دھرتی میں ہیں شاید ہی کسی ملک میں ہوں ، وہ پر اُمید ہے کہ ہم اپنی زندگی میں اس ملک کو خوشحالی کا سفر طے کرتے دیکھیں گے اور اس دیس سے مفلوک الحالی اور مصائب کا خاتمہ ہوتے دیکھیں گے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ یورپین لٹریچر اور تصوف سے اس کا لگاؤ ایک اچھوتاامتزاج ہے، اسی وجہ سے گوندل میں کدورت، نفرت اور حسد کے جذبات عام آدمی سے بہت کم ہیں، خصوصاً سیاستدانوں میں یہ خوبی خا ل خال ہی پائی جاتی ہے۔
توانائی کے شعبے میںجس متحرک طریقے سے شاہد ریاض گوندل نے اپنا کردار اد کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ انرجی پالیسی ، اور دنیا میں انرجی مارکیٹ میں ہونے والی تبدیلیوں پر اس کی گہری نظر ہے، پن بجلی، تھرمل بجلی، ہوا سے بجلی ، LNGاور شمسی توانائی کی مشکلات اور ان کے فوائدسے نہ صرف بخوبی آگاہ بلکہ آسان ترین الفاظ میں عام آدمی کو سمجھانے کی صلاحیتوںسے لیس۔ گوندل نے جس طرح سے حکومت کے انرجی پراجیکٹس اور پالیسیوں کانہ صرف دفاع کیا بلکہ پروموٹ کیا شاید ہی کسی اور حکومتی رکن نے اتنے مدلل انداز میں حکومت کا کیس میڈیا میں پیش کیا ہو۔
ہم سمجھتے تھے کہ لاہور میںافسروں اور اشرافیہ کی حد تک اس کی خوب میل جول ہے لیکن شاید اس کے لیے عوام میں گھلنا ملنا ایک مشکل مشق ثابت ہو، لیکن ہمیں گوندل کے ساتھ ایک عوامی تقریب کے لیے منڈی بہاؤالدین ساتھ جانے کا موقع ملا، ہم نے خود عوام میں اس کی مقبولیت کے مناظر دیکھے ہمیں محسوص ہواء کہ منڈی بہاؤالدین کے نوجوانون میںخاص کر اس کے لیے والہانہ پذیرائی پائی جاتی ہے۔ دوسرا منظر ابھی بلدیاتی انتخابات میں اس کے گاؤں بھکھی شریف میں دیکھا جو سید محفوظ مشہدی (جو پیر آف بھکھی شریف اور ممبر پنجاب اسمبلی ہیں)کا بھی گاؤں ہے ۔ شاہد ریاض گوندل نے اپنے چچا جو کئی سالوں سے اسپین میں مقیم تھے، اسے وہاں سے واپس بلوا کر محفوظ مشہدی کے چھوٹے بھائی کے مقابلے میں چیئرمین کے الیکشن پر کھڑا کر دیا، کسی ترقیاتی فنڈکے بغیر گوندل نے کیمپین کی او ر اس کے چچا الیکشن جیتے گئے۔
ویسے تو کوئی سیاستدان جب مستعفی ہوتا ہے تو وجہ ذاتی مصروفیات ہی بتاتا ہے، لیکن جب پرائیوٹ مجلسوں میں بیٹھتا ہے تو اپنی تلخی اور غصے کے علاوہ اصل وجوہات بھی بیان کر دیتا ہے۔ استعفیٰ کے بعد شاہد ریاض گوندل سے جب ملاقات ہوئی تو اُ س کی زبان پر میاں شہباز شریف کے لیے تشکر ، تعریف و توصیف کے وہی کلمات تھے، وہی یقین دھرا رہے تھے کہ بجلی کا بحران 2018سے پہلے یقیناً ختم ہوجائے گا۔کسی قسم کی تلخی نہیں تھی۔ سیاستدان اکثر بیوروکریسی کا گلہ شکوہ کرتے رہتے ہیں کہ وہ اپنے سوا کسی اور کو چلنے نہیں دیتے۔
شاہد گوندل کے بقو ل بیورکریسی کے بغیر کہیں بھی نظامِ سلطنت نہیں چل سکتا اورپاکستان کے پاس ایک باصلاحیت بیوروکریسی ہے، اگر اس کو اپنا کام کرنے دیا جائے تو یقیناً پرفارمنس دے سکتی ہے۔ بیوروہ کریسی میں ریفارمز کی ضرورت تو ہمیشہ ہی رہتی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ مجھے نہ صرف بیوروکریسی نے مکمل طور قبول بلکہ پیار اور عزت بھی دی۔ حالانکہ اقتدار کے ایوانوں میں محلاتی سازشیں تاریخ اور روایات کا حصہ ہیں، اقتدار میں شامل لوگ ایک دوسرے کو گرانے اور بلاک کرنے کے عمل کو اقتدار کے کھیل کا حصہ سمجھتے ہیں۔
گوندل نے کہا کہ میرے خلاف کسی نے کوئی محاذ نہیں بنایا ،کسی نے کوئی سازش نہیں کی اور مجھے آج بھی وزیراعلیٰ کا اعتماد حاصل ہے۔ ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ سیاستدان ہر عہدے سے استعفیٰ دے سکتا ہے لیکن سیاست سے مستعفی نہیں ہو سکتا۔ میری دعا ہے کہ شاہدریاض گوندل اور اس جیسے اور نوجوان پاکستان کی سیاست میں متحرک کردار ادا کرتے رہیں۔ آخر میں شاہد ریاض گوندل کی پنجابی نظم پڑھیے اور اُس کی اس دھرتی کے لیے کسک محسوس کیجیے۔
ایہہ دھرتی ای اوہ دھرتی اے (یہ عظیم دھرتی ہے)
جس دیاں ماواں وڈیاں نیں (جہاں کی مائیں عظیم ہیں)
جس دیاں چھاواں گھنیاں نیں (درختوں کے سائے گھنے ہیں)
ایتھے کئی لٹیرے آئے نیں (یہاں کئی لٹیرے آئے ہیں)
اُنھاں کئی کئی پھیرے پائے نیں (وہ بار بار آئے ہیں)
ایتھے اج وی فصلاں ھریاں نیں ( فصلیں لہلہا رہی ہیں)
ایتھے اج وی چھٹاں بھریاں نیں (اناج بھرپور ہے)
ایہہ دھرتی گبھرو ویراں دی (یہ بہادروں کی دھرتی ہے)
سسیاں، سوہنیاں ، ہیراں دی (سسی سوہنی ہیر کی دھرتی)
ایہہ دھرتی بابے نانک دی (گرونانک کی دھرتی)
نالے کرماں والیاں پیراں دی (کرماں والی سرکار کی دھرتی)
ایہہ دھرتی ای، اوہ دھرتی اے (یہ عظیم دھرتی)