تجارت اور سیاست

عام طور پر یہ معروف عمل ہے کہ جو لوگ سیاست میں عمل دخل رکھتے ہیں وہ کاروبار سے کم ہی واسطہ رکھتے ہیں

anisbaqar@hotmail.com

عام طور پر یہ معروف عمل ہے کہ جو لوگ سیاست میں عمل دخل رکھتے ہیں وہ کاروبار سے کم ہی واسطہ رکھتے ہیں کیونکہ کاروبار دراصل وہ جہت ہے جو عام طور پر نمایاں ہوتی ہے اور اس کا انسان کے روزمرہ سے براہ راست تعلق ہے۔

موجودہ دور میں تو کاروبار ایک نصاب کا درجہ اختیار کر گیا ہے، ورنہ 1960ء کی دہائی میں کامرس ایک نوزائیدہ بچے کی مانند تھا اور رفتہ رفتہ اس کی جہتیں پروان چڑھ رہی تھیں اور اب تو باقاعدہ اس کے شعبہ جات بن گئے ہیں، مگر پھر بھی اس کو جمالیاتی یا کائناتی علوم کا درجہ نہیں دیا جا سکتا، البتہ زر کے اعتبار سے اس کا ایک واضح عمل سے کاروبار کے رموز پیچ و خم، فروغ اور ترقی کے لیے اس کے اپنے عمل اور درجات ہیں۔ جو لوگ خود کو کاروبار سے وابستہ کرتے ہیں ہمہ وقت اس کی ترقی اور فروغ کے لیے منصوبہ بندی میں مصروف رہتے ہیں، آج سے ہی کل اور پرسوں کے لیے منصوبے بناتے رہتے ہیں اور اس کے دائرہ کار کی وسعت کا گمان کرتے ہیں۔ جس کا جتنا بڑا کاروبار ہے وہ اسی قدر کاروبار میں پھنسا رہتا ہے۔

کاروبار ایک تندرست بچہ ہے جس کو ہمہ وقت کوئی نہ کوئی ضرورت ہوتی ہے اور ہر آن اس کی ضرورت کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اس لیے یہ سوچنا کہ ملازمت آسان ہے اور کاروبار مشکل تر ہے، درحقیقت ایسا ہی ہے۔ کاروبار وقت مانگتا ہے، کسی وقت بھی کوئی خیال ذہن میں نمو پا سکتا ہے، جیسے شاعر کے لیے کوئی مصرعہ۔ اس پر عمل ضروری ہے۔ اب تو تجارت نے رشتے بھی تلاش کر لیے ہیں یعنی پروڈکٹ اور پرائس، یعنی قیمت میں رشتہ، قیمت اور پروڈکٹ میں مناسبت توازن، ہر چیز میں توازن کی موجودگی، پھر پروموشن اور پروڈکٹ کی قیمت میں مناسبت، پروڈکٹ کی گویا قیمت مقرر کرنے کی بھی ایک سائنس ہے۔

اب تو صورتحال یہ ہے کہ تجارت ایک مینجمنٹل Managemental سائنس کا درجہ اختیار کر چکی ہے مگر یہ وہ سائنس ہرگز نہیں بن سکتی جو طبق روشن کرتی ہے۔ یہ دولت کمانے کی سائنس ہے اور دولت سے اس کا رشتہ ہے۔ ایک جائزہ ہے کہ عورت روایت پسند بھی ہے مگر یہی عورت روایت شکن بھی ہے بشرطیکہ اس کی تربیت جس انداز میں ہو، مگر مردوں کے ذہن عورتوں کے مقابلے جلد بدل جاتے ہیں، مرد مفروضوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں جب کہ عورتیں نتائج کا انتظار کرتی ہیں۔


مگر ان عورتوں کو آپ ہرگز اس تجربے میں شریک نہ کریں جن کو عمر، حسن اور لباس کے قید و بند میں ڈپارٹمنٹل اسٹورز پر کھڑا کر دیا جاتا ہے، وہاں ان کی انا کو ختم کر کے اسٹور کی اسپرٹ بھر دی جاتی ہے، یہی حال ان لڑکوں کا بھی ہے جو سیلز میں مصروف ہیں۔ سیلز مین ایک Spirit اسپرٹ میں مصروف رہتا ہے، اس کا دن اور رات ہر لمحہ فروخت کے مرحلے میں گزرتا ہے اور جو مالک ہے شب و روز ان کی مانیٹرنگ میں مصروف رہتا ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کا کارندہ ایک ایسے عمل سے گزرتا رہتا ہے جیسے یہ اس کا مشغلہ یا کھیل ہو جاتا ہے، ہر وقت وہ اسی دوراہے پر کھڑا رہتا ہے خصوصاً بھارت اور پاکستان کے لوگ اسی قماش کے ہوتے ہیں، انھیں تفریحات یا مہم جوئی کا کوئی شوق نہیں لیکن سیاست کے اصل مکینوں کو موت بھی نہ ڈرا سکتی ہے نہ دبوچ سکتی ہے۔ یہ مثالیں تاریخ میں عام ہیں۔

سیاست کا اسیر درحقیقت اس زندگی کا اسیر ہوتا ہے، وہی اس کی زندگی ہوتی ہے،سیاست کی بھٹی چاوش حضرات کی بنائی ہوئی یا دس پانچ سال کے لفافہ فروشوں کے عوض نہیں چلتی، خفیہ طور پر تاریخ رقم کرنے والے ہر دور میں پرورش لوح و قلم کرتے رہتے ہیں۔ لفافہ بردار فوج ہر دور میں باعمل رہی ہے اور حکومتوں کی قصیدہ گوئی اور عوام الناس کو گمراہ کرتی رہی ہے، مگر متوازی اور درست تاریخ لوگ رقم کرتے رہتے ہیں۔

جب ہی تاریخ کے صفحات پر کم حیثیت کے بلند و بالا لوگ تاریخ کے صفحات پر لہراتے ہیں، اگر ایسے لوگ تاریخ نہ لکھتے تو کون ظالموں کو ظالم کہتا اور کون ظالموں سے ٹکرانے کے لیے چھوٹا سا لشکر لے کر نکلتا۔ آخر ظالم و مظلوم کی کشمکش سے بالآخر نصف دنیا تو رات کو چین کی نیند سو رہی ہے، حملہ آور گھروں پر یلغار نہیں کیے ہوئے ہیں اور جو لوگ مشکلات میں ہیں وہ بھی نبرد آزما ہیں۔ یہ سیاہ رات کے سائے سحر کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں گے۔ پاکستان جیسے ممالک بہت نہیں ہیں اور ہیں تو یہاں بھی حق و باطل کی واضح کشمکش نہ سہی کم از کم گونج تو ہے، جس طرح کوئی نئی انٹروڈکشن مارکیٹ میں دھوم مچا دیتی ہے ایسے ہی نیا خیال بھی معاشرے میں دھوم مچا دیتا ہے اور ایک کامیاب سیاست داں نئی محرکات کو جنم دیتا ہے، ابھی بلاول بھٹو نے نواز شریف کے خلاف نعرے لگائے اور حکومت بدلنے کا عندیہ دیا اور حزب اختلاف کی جانب سے بھی یہی نعرے خورشید شاہ نے لگائے مگر مفادات کی سیاست جس میں زرداری اور نواز شریف این آر او (NRO) میں ساجھا کر کے آئے تھے کہ بھلا کیسے ساتھ نہ رہتے۔ ایک سمجھوتہ متوقع ہے۔

اگر یہ سمجھوتہ کھلے عام ہوا تو کم از کم تحریک کمزور و ناتواں ہو جائے گی۔ یہ کوئی مفتی محمود نہیں جو اصولوں کی سیاست ہو گی، مولانا فضل الرحمن صاحب ہر حال میں حکومت کو راضی رکھیں گے۔ ایک اور مسئلہ جو پاکستان کی سیاست کو درپیش ہے عمران خان نہ سہی ان کی پارٹی کے بعض لوگ تو Loan معاف کروانے میں موجود ہیں، اس لیے تحریک میں وزن پیدا کرنا آسان نہ ہو گا، ہاں اسٹریٹ پاور کے اعتبار سے جماعت اسلامی ایک قوت ضرور ہے، مگر آنے والے دن تحریک کے اعتبار سے سازگار نہیں، رمضان گرمی وغیرہ۔ ویسے بھی حکومت تجارت پیشہ افراد کی دست نگر ہے، جو عام طور پر دنیا کی زینت نہیں، اس لیے اس کا مقابلہ آسان نہ ہو گا۔ تاوقتیکہ یہ مزدور، کسان، طلبا اور دانشور تحریک نہ بن جائے۔

کیونکہ اسمبلی کے ارکان اپنی آمدنی سے مطمئن نہیں، گوکہ نہ دماغی کام ہے نہ قانون سازی ہے اور نہ عوام دوستی ہے، کیونکہ موجودہ قومی اسمبلی کاروباری افراد کا سرگرداں ٹولہ ہے اور جو نہیں ہیں ان کا خاصا عمل دخل نہیں۔ عمران خان کے ساتھ بھی چند بڑے کاروباری لگے ہوئے ہیں جن کا کوئی دوسرا موقف نہیں، لہٰذا موجودہ پانامہ پیپرز کا مستقبل بھی کوئی خاص نہ ہو گا۔ البتہ آنے والا وقت عمران خان کے لیے یقیناً بہتر ہے کیونکہ کاروباری افراد دوررس سیاسی بصیرت کے حامل نہیں ہوتے، جیسا کہ موجودہ ملا منصور کے بحران کے نتائج سے ظاہر ہوا۔ ہر اصول سے پاکستانی سیاست پسپائی کا شکار ہوئی، اگر یہاں کوئی دانشور ہوتا تو ہرگز ریاست کی سیاسی پسپائی نہ ہوتی جیسا کہ ملا منصور کے مسئلے پر پاکستان نے ہزیمت اٹھائی کیونکہ یہ کاروباری حکومت کے تانے بانے ہیں۔
Load Next Story