Acrophobia یا بلندی کا خوف

اس ذہنی مسئلے سے نجات کے لیے اعتماد کی ضرورت ہے

اس ذہنی مسئلے سے نجات کے لیے اعتماد کی ضرورت ہے ۔ فوٹو : فائل

بلندی کا خوف ایک ایسی کیفیت ہے جس میں متاثرہ فرد کو اونچی جگہ پر کھڑے ہونے سے ڈر لگتا ہے اور یہ ڈر اتنا شدید ہوجاتا ہے کہ اسے سوتے میں بھی ایسے ہی خواب دکھائی دیتے ہیں کہ وہ کسی بلند مقام پر کھڑا ہے اور وہاں سے گرنے کا خوف اسے بے چین کررہا ہے۔ اس کیفیت کو انگریزی میں Acrophobiaکہتے ہیں۔ یہ ایک یونانی لفظ سے لیا گیا ہے جس کے معنیٰ ہیں: چوٹی، اونچی جگہ یا کنارا۔ گویا Acrophobia بلندی کا خوف نہایت شدید اور ناقابل برداشت خوف ہے، بلکہ اس خوف کو ہم فوبیا کہہ سکتے ہیں، یعنی دماغی خبط۔

ہم نے عام زندگی میں دیکھا ہے کہ اکثر لوگ جب کبھی کسی بلند جگہ یا مقام پر جاکر کھڑے ہوتے ہیں تو ان کے اندر قدرتی طور پر ایک قسم کا نامعلوم خوف پیدا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے بعض لوگوں کو چکر آنے لگتے ہیں اور بعض لوگوں کے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے۔ ایسا کسی بلند پہاڑ، چوٹی، مینار، اونچی عمارت کی چھت یا کسی بھی بلند جگہ پر جاکر ہوتا ہے اور بلندی پر کھڑے ہونے والا یکایک خوف سے کانپنے لگتا ہے، اس کے جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ جیسے بس اب کچھ ہی پل میں وہ اس بلند جگہ سے نیچے گرجائے گا اور زندہ نہیں بچے گا۔



دوسری جانب کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو بلندی سے ڈرتے تو ہیں، لیکن اتنا زیادہ نہیں، وہ اس خوف کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیتے۔ یہ تجربہ ان لوگوں کو زیادہ ہوتا ہے جو مہم جو قسم کے ہوتے ہیں، وہ بلند پہاڑوں کی چوٹیوں کو سر کرتے ہیں، کوہ پیمائی ان کا جنون ہوتا ہے، اس لیے وہ بے دھڑک ہر بلند جگہ پر جانے کو تیار رہتے ہیں۔ ان لوگوں کے علاوہ بلندیوں پر جانے والے کچھ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو اپنی روزی روٹی کے لیے یہ کام کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ وہ مزدور ہوتے ہیں جو تعمیراتی کام سے وابستہ ہوتے ہیں۔ ان کا کام ہی بلند عمارتوں، شاپنگ مال، پلازا اور کثیر منزلہ عمارتوں کی تعمیر ہے، وہ بہ حیثیت ایک مزدور مجبوری میں یہ کام کرتے ہیں۔ ممکن ہے انہیں بلندی کا خوف یعنی Acrophobia پریشان کرتا ہو، مگر وہ اپنے پیٹ کی خاطر یہ محنت مزدوری کرتے ہیں اور اپنی روزی کے لیے اس خوف سے لڑتے ہیں۔

Acrophobia یعنی بلندی کے خوف میں مبتلا لوگ اچانک ہی کسی بلند مقام پر پہنچ کر شدید قسم کی ذہنی اور جسمانی اینٹھن میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ان کی حالت اس قدر تکلیف دہ ہوجاتی ہے کہ دیکھنے والے پریشان ہوجاتے ہیں۔ اس بیماری سے متاثرہ لوگوں کو بلندی کا خوف تو ہوتا ہی ہے، لیکن بعد میں وہ یہ سوچ کر دہشت زدہ ہوجاتے ہیں کہ وہ واپس نیچے کیسے جائیں گے؟ کہیں واپسی میں ان کے ساتھ کوئی سنگین حادثہ تو پیش نہیں آجائے گا؟ وہ بلندی سے نیچے گرکر کہیں مرتو نہیں جائیں گے؟ یہ کیفیت انہیں بے حال کردیتی ہے اور وہ اسی شش و پنج میں بڑی مشکل سے اپنا واپسی کا سفر طے کرتے ہیں۔

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ اکثر ملکوں کی عام آبادی کا لگ بھگ 2فی صد حصہ ایسا ہوتا ہے جو یقینی طور پر مذکورہ کیفیت یعنی Acrophobia یا بلندی کے خوف میں مبتلا ہوتا ہے، لیکن خواتین اس کیفیت میں مردوں کے مقابلے میں دگنی زیادہ مبتلا ہوتی ہیں۔ اس کی بنیادی علامات میں پہلی اور اہم یہ ہے کہ جب آپ کسی بلند مقام یا عمارت سے نیچے کی طرف دیکھتے ہیں تو آپ کو چکر محسوس ہوتے ہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے آپ گرجائیں گے ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کو اپنے معدے میں تتلیاں سی اڑتی یا پھلجھڑیاں سی پھوٹتی محسوس ہوتی ہیں اور آپ کی کیفیت عجیب ہوجاتی ہے۔

٭اسباب اور وجوہ:
روایتی طور پر Acrophobia کو بھی فوبیاز میں ہی شمار کیا جاتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ایک ایسا تکلیف دہ تجربہ ہے جس کے پیچھے کوئی نہ کوئی بڑا اور ناخوش گوار سبب ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی بھی انسان خواہ مخواہ یا بغیر کسی وجہ کے ہی بلندی سے خوف کھانے لگے، بلکہ اس کے پس پردہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کیفیت پیدائشی ہوتی ہے، مگر بعض کہتے ہیں کہ یہ non-associative یا غیرتلازمی خوف ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جو انسان اس دنیا کو اپنے یا اپنے گھر والوں کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ سمجھتا ہے، وہ ہر طرح کی بلندی اور اونچائی سے ڈرتا ہے۔ لیکن اس خوف کا درجہ ہر کیفیت اور ہر شخصیت میں الگ الگ ہوتا ہے، کوئی اس سے بہت زیادہ ڈرتا ہے تو کوئی کم، مگر اصل میں Acrophobia یا بلندی کے خوف میں وہ لوگ مبتلا سمجھے جاتے ہیں جو اس کے انتہائی درجے پر ہوتے ہیں، یعنی یہ خوف ان کی زندگی کو حرام کردیتا ہے۔

ماہرین اور تحقیق کرنے والے افراد یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ Acrophobia یا بلندی کے خوف میں متعدد ممالیے بھی مبتلا دیکھے گئے ہیں، لیکن ان میں یہ خوف کھلم کھلا ظاہر نہیں ہوتا، بل کہ ان کے اندر ایک پوشیدہ کیفیت میں ڈیرا ڈالے بیٹھا ہوتا ہے۔ گھریلو جانور اور انسان تو اس کیفیت میں بہت ہی کھلم کھلا دکھائی دیتے ہیں۔

اس ضمن میں ماہرین نے مختلف تجربات کیے۔ انہوں نے انسان اور جانور دونوں میں ہی Acrophobia یا بلندی کے خوف کو جانچنے کی کوشش کی اور اس کے لیے وہ انہیں کسی بلند عمارت کے شیشے سے بنائے گئے فرش پر لے گئے جہاں سے نیچے کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ حالاں کہ یہ بلندی چند میٹر سے زیادہ نہیں تھی، مگر ان کے اندر وہ خوف نمایاں ہوا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کے اندر کی کیفیت اسے بلندی سے محتاط رہنے کا درس دیتی ہے اور یہ چیز انسان کے اندر اس کی بقا اور سلامتی کا احساس بھی پیدا کرتی ہے، مگر جب یہ خوف انتہائی شدید ہوجائے تو پھر یہ انسان کی زندگی کو بھی بری طرح متاثر کرتا ہے اور اس کے روز مرہ کاموں کی انجام دہی بھی مشکل بنادیتا ہے۔ بعض لوگ تو اس کیفیت میں کچھ اتنی شدت سے مبتلا ہوجاتے ہیں کہ وہ ایک کرسی یا سیڑھی پر بھی کھڑے نہیں ہوسکتے، بعض لوگوں کے لیے زینے پر چڑھنا بھی مشکل ہوجاتا ہے اور وہ عام طور سے نیچے کے گھروں یا مکانوں کی تلاش میں رہتے ہیں، تاکہ بلندی کا خوف ان کی زندگی کو مصیبت نہ بنائے۔

بعض ماہرین نے یہ بھی جواز پیش کیا ہے کہ کچھ لوگ اپنا توازن برقرار رکھنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں، ایسے لوگوں میں Acrophobia یا بلندی کے خوف کی کیفیت عام ہوتی ہے۔ ایسے افراد میں فکر و تشویش بھی پائی جاتی ہے جو اس خوف کو اور بھی جلا بخشتی ہے۔

انسان کے اندر جبلی اور قدرتی طور پر جو بیلنس سسٹم یا نظام توازن موجود ہے، وہ انسان کو متوازن اور مستحکم انداز سے چلنے پھرنے یا نقل و حرکت میں مدد دیتا ہے۔ اسی کی مدد سے انسان صحیح طور سے دیکھ بھی سکتا ہے اور چیزوں پر اپنی گرفت بھی کرسکتا ہے۔


ماہرین کا کہنا ہے کہ نارمل لوگوں میں جیسے جیسے بلندی بڑھتی چلی جاتی ہے، ویسے ویسے اس کا بصری اور توازنی نظام کم زور پڑتا چلا جاتا ہے۔
Acrophobia یا بلندی کے خوف میں مبتلا افراد غلط حکمت عملی کی وجہ سے خود کو متوازن نہیں رکھ پاتے۔ ایسے لوگوں کے لیے مضبوط بصری عوامل کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ visual cortex ذہنی الجھن کی وجہ سے اوور لوڈڈ ہوجاتا ہے یعنی اس پر دباؤ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اور مذکورہ کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے مذکورہ بالا کیفیت میں مبتلا افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے اپنے vestibular یعنی توازنی مسائل کو حل کریں، اس کے بغیر خواہ مخواہ خود کو بہادر سمجھتے ہوئے بلندیوں کے خطرے میں نہ ڈالیں۔

٭vertigo کیا ہے؟
اکثر لوگ vertigo کو غلط طور بلندی کا خوف بیان کرتے ہیں، مگر ایسا نہیں ہے، بل کہ یہ کیفیت غنودگی کا نام ہے، جس میں انسانی ذہن چکراتا رہتا ہے۔ حالاں کہ انسان گھوم نہیں رہا ہوتا، مگر اسے ایسا لگتا ہے جیسے وہ گھوم رہا ہے۔ لیکن اگر ایسا انسان کسی بلند مقام پر چلا جائے تو اس کی مذکورہ بالا کیفیت اور بھی زیادہ شدید ہوجاتی ہے۔ لیکن یہ بھی تنہا اس کیفیت کی صحیح تعریف نہیں ہے، اصل میں vertigo کی کیفیت کسی بھی قسم کی نقل و حرکت سے بڑھ سکتی ہے (جیسے کھڑے ہونے سے، بیٹھنے سے، چلنے سے) یہ کیفیت بصری منظر بدلنے سے بھی تیز ہوجاتی ہے (جیسے اونچائی پر جانے، نیچے اترنے یا سیڑھیوں پر چڑھنے یا اترنے سے، کسی چلتی ہوئی ٹرین یا کار کی کھڑکی سے باہر دیکھنے سے)

٭بڑھتی عمر میں Acrophobia یا بلندی کا خوف:
ہم میں سے بعض لوگ عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ Acrophobia یا بلندی کے خوف میں مبتلا ہوجاتے ہیں، جب کہ اپنی نوجوانی میں وہ ایسے نہیں ہوتے، نہ انہیں کسی بلند مینار پر چڑھنے خوف آتا تھا اور نہ کوہ پیمائی سے، وہ کسی بھی بلند جگہ پر چھلانگیں مارتے ہوئے بے دھڑک چڑھ جاتے تھے، مگر جب وہ بوڑھے ہونے لگے تو اس مشکل یعنی Acrophobia یا بلندی کے خوف میں مبتلا ہوگئے۔ کچھ نوجوان بھی مذکورہ کیفیت میں مبتلا ہوئے، ایسے نوجوان پندرہ سے پچیس سال کی عمر کے درمیان میں Acrophobia یا بلندی کے خوف کی لپیٹ میں آئے۔ بڑھاپے میں اس کیفیت میں مبتلا ہونے کے حوالے سے ماہرین کا خیال ہے کہ جب بڑھاپے میں انسان توازن کا احساس یا سینس آف بیلنس کھودیتا ہے تو وہ اس کیفیت میں چلا جاتا ہے جس کا بنیادی سبب اس کے توازنی اعضا کا کمزور پڑنا ہے۔ توازن متاثر ہونے سے انسان غنودگی میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے اور اس کو نیند بھی زیادہ آنے لگتی ہے۔ اس کیفیت میں ذہن زیادہ دیر چاق چوبند نہیں رہ پاتا اور اسی لیے نیند کا احساس ہوتا ہے۔

٭Acrophobia یعنی بلندی کے خوف سے کیسے نجات حاصل کی جائے:
اس کیفیت سے نجات دلانے کے لیے ماضی میں بھی متعدد مطالعات (اسٹڈیز) کی گئی ہیں اور اب بھی ہورہی ہیں۔ اس سلسلے میں ورچوئل ریئلیٹی تھراپی کا طریقہ استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کے لیے کئی طرح کے علاج ہورہے ہیں۔

ویسے بھی فوبیاز سے نجات کے لیے ماہرین مختلف اقسام کی anti-anxiety دوائیں تجویز کرتے رہیں، مگر ان میں سے کوئی بھی دوا کسی بھی ماہر کے مشورے کے بغیر نہیں لینی چاہیے۔ جو لوگ اس کیفیت کا شکار ہوں، انہیں چاہیے کہ پہلے تو اپنے اندر کا خوف بالکل سختی سے جھٹک دیں، کیوں کہ یہ انسان کو اس کے روز مرہ امور انجام دینے کے قابل نہیں چھوڑتا۔ اگر مناسب سمجھیں تو کسی ماہر نفسیات سے رجوع کرلیں، مگر اس کے حوالے سے کہیں نیٹ پر دیکھ کر یا کسی کتاب یا اخبار میں پڑھ کر کوئی دوا استعمال نہ کریں۔ اس کے لیے ماہرین کے پاس بہت سی تھراپیز اور دوائیں موجود ہیں اور یہ ایک ماہر ہی جانتا ہے کہ کب اور کونسی دوا استعمال کرانی ہے۔ معتدل Acrophobia یعنی بلندی کے خوف سے نجات پانے کے لیے ذیل میں کچھ مشورے دیے جارہے ہیں:

٭اپنا اعتماد بحال کریں:
پہلے اپنا اعتماد بحال کریں اور یہ عہد کرلیں کہ آپ کو اس خوف سے بہرصورت نجات حاصل کرنی ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ صرف ذہنی معاملہ ہے اور ذہن سے ہی حل ہوسکتا ہے۔ اپنی آنکھیں بند کرکے ایک جگہ سکون سے بیٹھ جائیں اور پھر اس صورت حال کے بارے میں سوچیں۔ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ اس کیفیت سے آپ کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے، بس ہر معاملے میں احتیاط سے کام لیں اور خود کو پُراعتماد رکھیں، پرسکون رہیں اور یہ طے کرلیں کہ آپ کو اس نام نہاد بیماری کو شکست دینی ہے۔



٭رفتار معتدل رکھیں:
اس معاملے میں نہ تیزی دکھائیں اور نہ ہی زیادہ جوش سے کام لیں، کیوں کہ آپ کو اس کیفیت سے لڑنا ہے جو اصل زندگی میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور آپ کے اعتماد سے ہی ختم ہوسکتی ہے۔ اپنے سامنے چھوٹے اہداف رکھیں اور ان کی طرف نہایت احتیاط، اعتماد اور معتدل رفتار کے ساتھ پیش قدمی کریں۔ اگر آپ کسی بلند مقام پر جارہے ہیں تو بہت آہستگی کے ساتھ آگے بڑھیں، تیزی نہ دکھائیں، آپ خود محسوس کریں گے کہ کنارے تک جاتے جاتے آپ کا آدھا خوف ختم ہوگیا۔

٭لمبے اور گہرے سانس لیں:
جب بھی آپ پر بلندی کا خوف حملہ کرے تو آپ لمبے لمبے اور گہرے سانس لیں۔ بعض لوگ پریشانی میں سانس لینا ہی بھول جاتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں دگنی پریشانی برداشت کرنی پڑتی ہے۔ چاہے آپ کسی بلند جھولے پر سوار ہورہے ہوں یا کسی پہاڑ کی چوٹی کی طرف بڑھ رہے ہوں یا کسی لفٹ پر جارہے ہوں، اپنا جسم ڈھیلا چھوڑ دیں اور گہرے سانس لیتے ہوئے نہایت سکون کے ساتھ آگے بڑھیں۔ درمیان میں سانس لیتے اور باہر چھوڑتے رہیں، اس میں ایک ردھم ہونا چاہیے، عجلت کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔

یہ عمل آپ کو اندرونی اور بیرونی طور پر بالکل پرسکون کردے گا اور آپ کا خوف اس طرح بھاگ جائے گا جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔
Load Next Story