معاہدہ چاہ بہار خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے

بھارت ’پاک چین اقتصادی راہداری‘ کو ناکام بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہاہے

بھارت ’پاک چین اقتصادی راہداری‘ کو ناکام بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہاہے ۔ فوٹو : فائل

گزشتہ دو ماہ کے دوران تین اہم واقعات رونما ہوئے ہیں جن کا تعلق پاکستان، ایران اور بھارت سے ہے ، ان کے اثرات بھی ان تینوں ممالک پر بہت گہرے ہیں۔ پہلا واقعہ بھارتی خفیہ ایجنسی''را'' کے ایک اہم اہلکار کلبھوشن یادو کی پاکستانی صوبہ بلوچستان سے گرفتاری تھی۔ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس بھارتی جاسوس کو 3 مارچ کو صوبہ بلوچستان میں ایران سے داخل ہونے پر گرفتار کیا تھا۔

اس کے پاس سے ایرانی ویزا برآمد ہوا تھا۔ تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ کلبھوشن گزشتہ 12برس سے ایرانی بندرگاہ ''چاہ بہار'' پر تعینات تھا۔ اس نے صوبہ بلوچستان اور کراچی میں تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا۔ پاکستانی فوج کی طرف سے اس اعتراف کی ایک ویڈیو جاری کی گئی جس میں جاسوس اہلکار کا کہناتھا کہ وہ بھارتی بحریہ کا حاضر سروس کموڈور (بری فوج کے لیفٹیننٹ کرنل کے برابر) ہے۔

پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے بھارتی جاسوس کی گرفتاری کو ایک بڑی کامیابی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس کا ''را'' کے سربراہ کے ساتھ براہ راست رابطہ تھا اور وہی اس کو ہدایات جاری کیا کرتے تھے۔ان کے علاوہ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اور را کے جائنٹ سیکریٹری انیل کمار گپتا بھی اس جاسوس سے رابطے میں تھے اور اس کا اس نے تحقیقات کے دوران اعتراف کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ''اس کا مقصد چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) کو سبوتاژ کرنا تھا اور گوادر بندرگاہ اس کا خصوصی ہدف تھا۔ویڈیو میں اس نے اعتراف کیا ہے کہ وہ بلوچ علیحدگی پسندوں کو رقوم اور اسلحہ مہیا کرتا رہا تھا۔اس کا مشن بلوچ طلبہ تنظیم سے ملنا اور بلوچ مزاحمت کاروں سے مل کر تخریبی کارروائیوں کو منظم کرنا اور انجام دینا تھا۔ ان کے نتیجے میں پاکستانی شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔''

اس سارے واقعے میں ایران کو خاصی پشیمانی کا سامنا کرناپڑا کیونکہ پاک فوج کی طرف سے انکشافات سے قبل اسلام آباد کے دورے پر آئے ہوئے ایرانی صدر حسن روحانی کہہ رہے تھے کہ ایران کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہورہی۔ تاہم کلبھوشن یادو کی گرفتاری کے بعد ایرانی حکومت کو مختلف سوالات کا سامنا تھا کہ اس کی بندرگاہ پر متعین بھارتی اہلکارکیوں پاکستان میں داخل ہوکر جاسوسی اور دہشت گردی کے واقعات میں کردار ادا کرتارہا؟ اس کے پاس دومختلف ناموں سے ایرانی پاسپورٹ بھی ایرانی وزارت داخلہ اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارکردگی پر سوال تھے؟ ظاہر ہے کہ دو ہی باتیں ہوسکتی تھیں، اولاً : ایرانی وزارت داخلہ کے حکام اور انٹیلی جنس ایجنسیاں اس قدر نااہل تھیں کہ وہ ایک غیرملکی کی سرگرمیوں پر نظر ہی نہ رکھ سکیں، اس کے مقاصد کو سمجھ ہی نہ سکیں۔ ثانیاً: ایرانی حکام بھی اس سارے کھیل میں شریک تھے، جس کی ایران جیسے ملک سے توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔

دوسرا واقعہ صوبہ بلوچستان ہی کے ضلع نوشکی میں ایک کار کو ڈرون حملے میں اڑانے کا ہے، جس میں ایک شخص ولی محمد کو نشانہ بنایاگیا۔ اعلیٰ امریکی حکام نے اس شخص کو ملا اختر منصور (طالبان کے امیر) قراردیا۔ جب یہ سطور رقم کی جارہی ہیں، اس نکتہ پر بحث جاری ہے کہ آیا ولی محمد 'ملامنصور' ہی ہے یا نہیں۔ امریکی انٹیلی جنس اداروں نے دعویٰ کیا کہ طالبان کے سینئر کمانڈرز نے اپنے امیر کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے، مغربی خبررساں ایجنسیوں نے دعویٰ کیا کہ ملامنصور کے گھروالوں نے بھی تصدیق کردی ہے۔

امریکی حکام اور مغربی ذرائع ابلاغ جو کہانی سنارہے ہیں، اسے سننے اور پڑھنے کے بعد بھی ایران کی طرف سوالیہ نظریں اٹھ رہی ہیں۔ سب سے اہم سوال یہ کہ کیا ایران نے امریکا کے ساتھ کسی خفیہ ڈیل کے تحت ملا منصور کے قتل میں امریکیوں کی مدد کی ہے؟ اگرچہ ایرانی وزارت خارجہ نے پاکستان کے اس دعوے کی سختی سے تردید کی ہے کہ ملا منصور کی ہلاکت میں اس کا کوئی ہاتھ ہے یا یہ کہ مقتول رہ نما امریکی حملے سے قبل ایران میں تھے۔ بہرحال ایران کے نئے دوست امریکہ نے یہی بتایا کہ ملامنصور(اگروہ ملامنصورتھے) ایران سے پاکستان میں داخل ہورہے تھے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ ولی محمد کے قبضے سے ملنے والا پاسپورٹ ایران میں داخلے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ تہران کی جانب سے پاکستان کی طرف سے مقتول کے پاسپورٹ اور اس پر ایک جعلی نام کی موجودگی کے بارے میں آنے والی اطلاعات کی تردید نہیں کی گئی۔

یہاں ایک ضمنی لیکن اہم سوال یہ بھی ہے کہ طالبان اور ایران کے درمیان کیا تعلق ہے جبکہ وہ کسی دور میں ایک دوسرے کے سخت دشمن تھے۔ اس ضمن میں کچھ خبریں پڑھ لیجئے:

٭مئی2010ء میں افغانستان میں تعینات امریکی فوج کے کمانڈر جنرل اسٹنلی مک کریسٹل نے الزام عائد کیا کہ ایران طالبان کو اسلحہ کی فراہمی کے ساتھ ساتھ جنگجوؤں کی عسکری تربیت بھی کررہا ہے۔ اسی سال مارچ میں امریکی جوائنٹ چیف آف اسٹاف ایڈمرل مائیک مولن نے کہا کہ جنوبی قندھار میں طالبان کو ایران کی جانب سے بے پناہ اسلحہ اور گولہ بارود پہنچ رہا ہے۔ رواں سال فروری میں افغان فورسز نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے صوبہ بامیان میں طالبان کے ایک کمپاؤنڈ سے ایرانی ساختہ بارودی سرنگیں اور دیگر اسلحہ کی بھاری مقدار قبضے میں لی ہے۔

٭امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے امریکی، افغان اور یورپی حکام کے حوالے سے بتایا کہ گذشتہ کچھ عرصے کے دوران ایران طالبان تحریک کو مضبوط بنانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ حکام کا دعویٰ ہے کہ ایران نہ صرف طالبان جنگجوؤں کو عسکری تربیت اور اسلحہ مہیا کرتا ہے بلکہ جنگجوؤں کی مالی مدد بھی کررہا ہے۔


٭سنہ 2014ء میں بھی طالبان کے ایک دوسرے وفد کی خفیہ طور پر تہران آمد کی اطلاعات آئی تھیں۔ 2012ء میں طالبان کے ایک وفد نے ایران میں منعقدہ ایک کانفرنس میں بھی شرکت کی۔

٭مئی 2015ء کو ایرانی خبر رساں ایجنسی 'تسنیم' نے ایک خبر میں دعویٰ کیا کہ طالبان کے سیاسی دفتر کے انچارج طیب آغا کی قیادت میں ایک وفد تہران کے دورے پر آیا۔ وفد نے علاقائی مسائل بالخصوص افغان مہاجرین کے مسائل پر ایرانی حکومت سے تبادلہ خیال کیا۔

٭ برطانوی خبررساں ادارے نے دعویٰ کیاتھا کہ ملا اختر منصور طالبان کے واحد رہنما ہیں جنہوں نے تین روز ایران میں گزارے۔ انہوں نے ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف اور پاسداران انقلاب کی قیادت کے ساتھ بھی تفصیلی بات چیت کی ہے۔

اب تذکرہ تیسرے واقعہ کا، یعنی ایران،بھارت اور افغانستان کے درمیان چاہ بہاربندرگاہ کا معاہدہ جس کے لفظوں کی سیاہی ابھی خشک بھی نہیں ہوئی۔ اس کے تحت ایران بھارت کو چاہ بہار کی بندرگاہ سے زمینی گذرگاہ کے ذریعے افغانستان تک رسائی دے گا۔ بھارت چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر کے لیے پچاس کروڑ ڈالرز کی سرمایہ کاری کرے گا۔اس کے علاوہ بھارت ایران میں اربوں ڈالرز مالیت کے دوسرے منصوبوں میں بھی سرمایہ کاری کرے گا۔

بھارت اور ایران مل کر پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی سرحد کے نزدیک واقع چاہ بہار کی بندرگاہ کو ترقی دیں گے اور وہاں سے افغانستان تک شاہراہیں تعمیر کی جائیں گی۔ ان سے خشکی میں گھرے ہوئے افغانستان کو سمندر کے ذریعے بیرونی دنیا سے تجارتی روابط استوار کرنے کا موقع میسر آئے گا اور بھارت ایران اور افغانستان کے راستے وسط ایشیا تک رسائی حاصل کرسکے گا۔

صدر حسن روحانی نے چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر کو ایران اور بھارت کے درمیان تعاون کی ایک بڑی علامت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایران کے توانائی کے وسائل اور بھارت کی کانیں ایلومینیم ،اسٹیل اور پیٹرو کیمیکل کی صنعتوں میں دوطرفہ تعاون کے فروغ کی راہ ہموار کرسکتی ہیں۔ دونوں ملکوں نے ٹیکنالوجی ،پیٹرو کیمیکل اور بنک کاری کے شعبوں میں دو طرفہ تعاون کو بڑھانے کے بعض منصوبوں پر بھی دستخط کیے ہیں اور بھارت نے ماضی میں ایران سے خرید کیے گئے تیل کے واجبات کی ادائی بھی شروع کردی ہے۔ایران سے تیل کی خریداری کی مد میں چھ ارب ڈالرز قرضے کی شکل میں بھارت کے ذمے واجب الادا ہیں اور اس نے گذشتہ ماہ ایران کو 75 کروڑ ڈالرز ادا کیے تھے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ تیل کے قرضے کی مد میں باقی رقوم بھی جلد ادا کرے گا۔

'چاہ بہارراہداری' کا یہ منصوبہ بھارت کے لئے اس لئے خاصا اہم ہے کہ وہ وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی کے لئے پاکستانی بندرگاہ گوادر پر انحصار نہیں کرناچاہتا۔ بھارتی ذرائع ابلاغ چاہ بہار معاہدہ پر خوشی کے مارے پاگل ہوئے جارہے ہیں، وہ محض اسی بات پر کدکڑے بھر رہے ہیں کہ بھارت پاکستان کو بائی پاس کرنے میں کامیاب ہوگیاہے ۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایرانی صدر حسن روحانی اور ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای سے بھی ملاقات کی اور اس معاہدہ کو دونوں ملکوں کے درمیان سٹریٹیجک پارٹنرشپ کا ایک نیا باب قراردیا۔

بلاشبہ بھارت اس پورے خطے میں 'پاک چین اقتصادی راہداری' کی اہمیت کو کم کرنے کی خواہش رکھتاہے، 'چاہ بہار راہداری' اسی خواہش کی عملی شکل ہے۔ بھارتی بحریہ کے کموڈور(ر) اور سلامتی وتزویراتی امور کے ماہر اودے بھاسکرکاکہناہے کہ چاہ بہار کی بندرگاہ سمندری راستے کے ذریعے بھارت کو ایک متبادل روٹ فراہم کررہی ہے۔ اس معاہدے کا تزویراتی پہلو یہ ہے کہ بھارت کے پاس گوادر بندرگاہ کو بائی پاس کرکے (وسطی ایشیا تک) رسائی کے اپنے آپشن ہیں۔ بقول بھاسکر:''بھارت کی افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی میں پاکستان رکاوٹیں کھڑی کرتا رہاہے''۔ معروف عرب ٹیلی ویژن چینل 'الجزیرہ' سے گفتگو کرتے ہوئے مسٹربھاسکر کا کہناتھا کہ اس متبادل روٹ کے تعمیر ہونے سے پاکستان اور چین خوش نہیں ہوں گے''۔

یقینا چاہ بہار علاقے کی جیوپالیٹیکس میں ایک اہم تبدیلی ہے تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ گوادر کی گہری پانیوں کی بندرگاہ تزویراتی اہمیت کی حامل ہے اور اس تک وسط ایشیا کی ریاستیں بھی رسائی حاصل کرسکتی ہیں جبکہ چاہ بہار کی بندرگاہ ایک تجارتی گزرگاہ کے طور پر ہی استعمال ہوگی اور اس کی ویسی تزویراتی اہمیت نہیں ہے جیسی گوادر بندرگاہ کی ہے۔ نیز چاہ بہار گہرے پانیوں کی بندرگاہ نہیں ہے۔چین اور پاکستان کو چاہ بہار راہداری سے کوئی مسئلہ نہیں ہے البتہ بھارت گوادر راہداری پر برا اثر ڈالنے میں دلچسپی ضرور لے رہاہے۔ اس کی خفیہ اور علانیہ سرگرمیاں اس حقیقت کی غماز ہیں۔ وہ زیادہ سفر اور اخراجات برداشت کرکے وسطی ایشیا تک پہنچنے کی کوشش سے ظاہر ہوتاہے کہ وہ پاکستان دشمنی میں کچھ بھی کرسکتاہے۔

اس سارے تناظر میں ایران کو اس بات کا دھیان ضرور رکھنا ہوگا کہ پاکستان کا روایتی حریف گوادر کی راہداری ناکام بنانے کی کوشش میں اسے استعمال نہ کرسکے۔ دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتی ہوئی گرم جوشی کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ گزشتہ گیارہ مہینوں کے دوران ایران اور بھارت کے درمیان تجارت کے حجم میں9 ارب ڈالر کا اضافہ ہواہے۔ سن 2011-12ء سے اب تک بھارت کو سب سے زیادہ تیل فراہم کرنے والوں میں ایران دوسرے نمبر پر ہے، سب سے زیادہ چین کو فروخت کرتاہے۔ ایران کے لئے بہت مشکل صورت حال ہے، ایک طرف 'پاک چائنہ راہداری' کی ناکامی کے خواب دیکھنے والا بھارت اور دوسری طرف تیل کا سب سے بڑا خریدار چین۔گوادر بندرگاہ کی کامیابی میں کوئی شک وشبہ نہیں، البتہ 'چاہ بہار منصوبہ'کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار مستقبل کے ایرانی اقدامات پر ہے۔
Load Next Story