نہ بھاگ سکیں گے نہ چھپ سکیں گے
او ای سی ڈی کے سیکریٹری جنرل ایجنل گوریا نے ابتدائی اجلاسوں کی صدارت کی
ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) کی باوقار گلوبل ایجنڈا کونسل (جی اے سی) کا دو ٹرموں کے لیے رکن رہنے کے بعد جو انسداد دہشتگردی پر غور و فکر کر رہی تھی یہ بات واضح ہو گئی کہ کرپشن، منظم جرائم اور دہشت گردی کا آپس میں گہرا تعلق ہے لہٰذا دہشت گردی کو مالی امداد ملنے کی راہ روکے بغیر اس عفریت کا کسی بھی صورت قلع قمع نہیں کیا جا سکتا۔
بعدازاں میں بھی جی اے سی سے تبدیلی کروا کے ''انسداد دہشت گردی اور شفافیت'' کے ادارے سے منسلک ہو گیا اور ڈبلیو ای ایف کی پی اے سی آئی (پارٹنرشپ اگینسٹ کرپشن اِنّی شی ایٹو) کا رکن بن گیا۔ یہ ایک ملا جلا تجربہ تھا جس میں مجھے دنیا کے ممتاز ماہرین سے خیالات کے تبادلے کا موقع ملا۔ لیکن اس اعتبار سے خاص نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکا کیونکہ ان ماہرین کا کرپشن ختم کرنے کے عملی اقدامات کے بجائے حکمت عملی بنانے پر زیادہ زور تھا۔ گو کہ یہاں پر ترقی یافتہ ممالک کے معاملات زیر بحث تھے لیکن یہ محسوس ہوا جیسے وہاں بھی مشکلات کا حل نکالنے کے عمل اور سوچ کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔
جن اہم شخصیات جن کے ساتھ مجھے تبادلہ خیال کا موقع ملا ان میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے منیجنگ ڈائریکٹر کو بس ڈی سواردٹ، ییل انسٹی ٹیوٹ آف گورننس کی نکلولا بونوچی، جی اے سی کے ممبران جن میں پانامہ کی نائب صدر اور وزیر خارجہ ازابیل سینٹ مالو ڈی الوراڈو، میانمر سے تعلق رکھنے والے سرج پن، نائیجریا کے یے ٹُنڈے ایلن، امریکا کے بلیئر گلن کورس (ان کا تعلق احتساب لیبارٹری سے تھا) اور جرمنی سے سبین زنڈیرا وغیرہ شامل تھے۔
او ای سی ڈی کے سیکریٹری جنرل ایجنل گوریا نے ابتدائی اجلاسوں کی صدارت کی جن میں انسداد کرپشن کے طریقوں پر سیر حاصل بحث کی گئی۔ ترقی پذیر ملکوں میں کرپشن کی وباء بہت عام ہے اور ان کے مالیاتی امور میں ایسی خامیاں ہیں کہ جن کا بھر پور فائدہ اٹھا کر کرپشن کی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں سے تعلق رکھنے والے میرے مؤقر رفقائے کار نے میری سیدھی سادھی تجاویز کو قدرے توجہ سے سنا جن میں (1)آف شور فرموں کی مفید ملکیت کے قیام کی تجویز اور ان کے اکاؤنٹس اور اثاثوں بالخصوص رئیل اسٹیٹ اور (2) دیگر تمام مالیاتی لین دین باقاعدہ قانونی اداروں کے ذریعے عمل میں لایا جانے پر زور دیا گیا۔ تاہم میری اس بات پر شرکاء کی مسکراہٹ نمایاں تھی۔
''پاناما پیپرز'' نے انسداد کرپشن کے منظر نامے میں واضح طور پر تبدیلی پیدا کر دی ہے۔ جب برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کا نام اس حوالے سے منظرعام پر آیا تو انھوں نے پارلیمنٹ میں وضاحت پیش کر کے تمام شکوک و شبہات رفع کر دیے۔ پاناما لیکس نے دنیا بھر کی حکومتوں کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کرپشن نہ صرف ''نظر آنے والا بلکہ مرکزی'' مسئلہ ہے۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے 12 مئی 2016ء کو لندن میں ''انسداد کرپشن سربراہ کانفرنس'' منعقد کی جو کہ حقیقی معنوں میں کرپشن کے خلاف جنگ میں ''گیم چینجرر'' ثابت ہو سکتی ہے۔
اس کانفرنس میں موجودہ قوانین کے زیادہ مؤثر نفاذ کی سفارش کی گئی۔ جو سفارشات پیش کی گئیں ان میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ کوئی ایسا مؤثر طریقۂ کار وضع کیا جائے جس سے تمام اثاثوں کو بازیاب کرا کے ان کے اصل ملکوں میں واپس بھجوایا جائے۔ اگر لندن میں منظور کیے جانے والے اعلامیے پر 25فیصد بھی عمل درآمد کرایا جا سکے تو اس کا بہت بڑا نتیجہ برآمد ہو گا۔ ''ترقی یافتہ دنیا''کی اصطلاح کو حال ہی میں ورلڈ بینک نے ممنوع قرار دیدیا ہے اور پاکستان جیسے ملک جہاں سے بہت بھاری رقوم باہر بھیج کر برطانیہ جیسے ممالک جنھیں کہ محفوظ جنت کا نام دیا جاتا ہے رئیل اسٹیٹ کی خریداری کی جاتی ہے ان کو ورلڈ بینک نے تیسری دنیا کے بجائے مصیبت زدہ دنیا (Suffering World) کا نام دیدیا ہے۔
لندن میں ہونیوالے سربراہ اجلاس میں 6 ملکوں نے شرکت کی جن میں برطانیہ، افغانستان، کینیا، فرانس، نیدر لینڈ اور نائیجریا شامل تھے جنہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ مستفید ہونیوالے مالکان کا ایک پبلک رجسٹر قائم کیا جائے گا۔ 5 ممالک جن میں آسٹریلیا بھی شامل ہے وہ ان 29 ممالک کے ساتھ شامل ہو جائیں گے جہاں پہلے ہی ''مستفید ہونیوالے مالکان'' کا سرکاری رجسٹر قائم ہے۔
ابھی تک تو اس رجسٹر تک صرف حکومتوں کی رسائی ہے جنھیں عوام کے لیے کھولا نہیں گیا اور ان پر صرف بند کمرے میں غور و خوض کیا جاتا ہے لیکن یہ ابھی اس کام کی ابتدا ہے۔ اس حوالے سے میں ''جوز یوگاز'' (Jose Ugaz) کے مقولے کا حوالہ دوں گا جس میں کہا گیا ہے ''ہم تمام ملکوں پر زور دیں گے کہ وہ کرپشن کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اور مستحکم اقدامات کریں اور کرپشن کرنے والوں کے لیے نہ صرف کڑی سزائیں مقرر کی جائیں بلکہ ان پر عمل درامد بھی کیا جائے۔ بعض ممالک تو اس چیلنج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں لیکن کئی ممالک نے اس طرف سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔''
لندن سربراہ کانفرنس کے ایک ہفتے بعد پی اے سی آئی کی ششماہی کانفرنس 19 مئی کو واشنگٹن ڈی سی میں ''اے پی سی او'' کے ہیڈکوارٹر میں ہوئی جس کی صدارت ڈیوڈ کرئیک شینک (Cruick Shank) نے کی جو ورلڈ بینک کے ڈائریکٹر انٹیگریٹی بھی ہیں۔
20 مئی کو اس کا دوسرا سیشن ہوا جس کی میزبانی لیونارڈ میکارتھی نے ورلڈ بینک کے ہیڈکوارٹر میں کی۔ سربراہی اجلاس کے بعد اس موضوع کے نئے معنی آشکار ہوئے۔ بی آئی او جی کی منیجنگ ڈائریکٹر گریٹا فینر نے اجلاس کی کارروائی میں لندن سے شرکت کی اور کرپشن کے انسداد کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ ان سارے مراحل کا سہرا ڈبلیو ای ایف کے پیڈرو/ وڈریگیوز ڈی المیڈا اور لارین سلوریا کے سر ہے جنہوں نے کانفرنسوں کے شیڈول پر بروقت عملدرآمد کرایا۔
20 مئی کو ''کاروبار میں اعتماد سازی'' کے موضوع پر ششماہی کانفرنس ہوئی جس کی صدارت مشترکہ طور پر ڈیوڈ کروئیک شینک اور لیونارڈ میکارتھی نے کی۔ اس کے بعد پینل مباحثے میں میرے ساتھ صحارا گروپ کے اوڈے آہیمی بھی شریک تھے۔ اس موقع پر میں نے دو تجاویز پیش کیں (1) کہ مالکان کے نیشنل ٹیکس نمبر کا واضح اندراج کیا جائے۔ (2) کوئی لین دین یا خریداری نقد رقوم سے نہ کی جائے۔ میرے پینل کے ساتھیوں نے میری تجویز کی تائید کی کہ 5000 برطانوی پاؤنڈز یا اس کے مساوی رقم کی ترسیل کو منی لانڈرنگ تصور کیا جائے گا۔ اگر موجودہ قوانین پر ہی سختی سے عملدرآمد کرایا جا سکے تو 95 فیصد چوری شدہ اثاثے واپس لیے جا سکتے ہیں۔
میرے لیے یہ فخر کا مقام تھا کہ نادرا نے بائیومیٹرک شناخت کا جو نظام اختیار کیا ہے اس کی بے حد تعریف کی گئی۔ یہ نظام اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ہدایت پر اختیار کیا گیا ہے جس کے بعد 'حوالہ' یا 'ہنڈی' کے ذریعے رقوم کی ترسیل ممکن نہیں رہی۔ گوگل کمپنی کی قانونی مشیر تھریزے لی کا کہنا کہ یہ بحث اس قدر اہمیت کی حامل رہی ہے کہ اس سے ''فائر الارم'' بج سکتا تھا۔
یہاں یہ بات بطور خاص قابل ذکر ہے کہ پاناما پیپرزکا افشا صرف آئس برگ کی چوٹی کی نشاندہی کرتا ہے۔ پاکستانیوں کی 95 فیصد تعداد براۂ راست ٹیکس نہیں دیتی۔ اگرچہ پاناما پیپرز میں ان کے نام نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود برطانیہ میں ان کی جائیدادیں موجود ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا ہے کہ اب کرپٹ لوگوں کے لیے کوئی محفوظ جنت نہیں رہے گی۔ نہ وہ بھاگ سکیں گے نہ چھپ سکیں گے۔
بعدازاں میں بھی جی اے سی سے تبدیلی کروا کے ''انسداد دہشت گردی اور شفافیت'' کے ادارے سے منسلک ہو گیا اور ڈبلیو ای ایف کی پی اے سی آئی (پارٹنرشپ اگینسٹ کرپشن اِنّی شی ایٹو) کا رکن بن گیا۔ یہ ایک ملا جلا تجربہ تھا جس میں مجھے دنیا کے ممتاز ماہرین سے خیالات کے تبادلے کا موقع ملا۔ لیکن اس اعتبار سے خاص نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکا کیونکہ ان ماہرین کا کرپشن ختم کرنے کے عملی اقدامات کے بجائے حکمت عملی بنانے پر زیادہ زور تھا۔ گو کہ یہاں پر ترقی یافتہ ممالک کے معاملات زیر بحث تھے لیکن یہ محسوس ہوا جیسے وہاں بھی مشکلات کا حل نکالنے کے عمل اور سوچ کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔
جن اہم شخصیات جن کے ساتھ مجھے تبادلہ خیال کا موقع ملا ان میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے منیجنگ ڈائریکٹر کو بس ڈی سواردٹ، ییل انسٹی ٹیوٹ آف گورننس کی نکلولا بونوچی، جی اے سی کے ممبران جن میں پانامہ کی نائب صدر اور وزیر خارجہ ازابیل سینٹ مالو ڈی الوراڈو، میانمر سے تعلق رکھنے والے سرج پن، نائیجریا کے یے ٹُنڈے ایلن، امریکا کے بلیئر گلن کورس (ان کا تعلق احتساب لیبارٹری سے تھا) اور جرمنی سے سبین زنڈیرا وغیرہ شامل تھے۔
او ای سی ڈی کے سیکریٹری جنرل ایجنل گوریا نے ابتدائی اجلاسوں کی صدارت کی جن میں انسداد کرپشن کے طریقوں پر سیر حاصل بحث کی گئی۔ ترقی پذیر ملکوں میں کرپشن کی وباء بہت عام ہے اور ان کے مالیاتی امور میں ایسی خامیاں ہیں کہ جن کا بھر پور فائدہ اٹھا کر کرپشن کی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں سے تعلق رکھنے والے میرے مؤقر رفقائے کار نے میری سیدھی سادھی تجاویز کو قدرے توجہ سے سنا جن میں (1)آف شور فرموں کی مفید ملکیت کے قیام کی تجویز اور ان کے اکاؤنٹس اور اثاثوں بالخصوص رئیل اسٹیٹ اور (2) دیگر تمام مالیاتی لین دین باقاعدہ قانونی اداروں کے ذریعے عمل میں لایا جانے پر زور دیا گیا۔ تاہم میری اس بات پر شرکاء کی مسکراہٹ نمایاں تھی۔
''پاناما پیپرز'' نے انسداد کرپشن کے منظر نامے میں واضح طور پر تبدیلی پیدا کر دی ہے۔ جب برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کا نام اس حوالے سے منظرعام پر آیا تو انھوں نے پارلیمنٹ میں وضاحت پیش کر کے تمام شکوک و شبہات رفع کر دیے۔ پاناما لیکس نے دنیا بھر کی حکومتوں کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کرپشن نہ صرف ''نظر آنے والا بلکہ مرکزی'' مسئلہ ہے۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے 12 مئی 2016ء کو لندن میں ''انسداد کرپشن سربراہ کانفرنس'' منعقد کی جو کہ حقیقی معنوں میں کرپشن کے خلاف جنگ میں ''گیم چینجرر'' ثابت ہو سکتی ہے۔
اس کانفرنس میں موجودہ قوانین کے زیادہ مؤثر نفاذ کی سفارش کی گئی۔ جو سفارشات پیش کی گئیں ان میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ کوئی ایسا مؤثر طریقۂ کار وضع کیا جائے جس سے تمام اثاثوں کو بازیاب کرا کے ان کے اصل ملکوں میں واپس بھجوایا جائے۔ اگر لندن میں منظور کیے جانے والے اعلامیے پر 25فیصد بھی عمل درآمد کرایا جا سکے تو اس کا بہت بڑا نتیجہ برآمد ہو گا۔ ''ترقی یافتہ دنیا''کی اصطلاح کو حال ہی میں ورلڈ بینک نے ممنوع قرار دیدیا ہے اور پاکستان جیسے ملک جہاں سے بہت بھاری رقوم باہر بھیج کر برطانیہ جیسے ممالک جنھیں کہ محفوظ جنت کا نام دیا جاتا ہے رئیل اسٹیٹ کی خریداری کی جاتی ہے ان کو ورلڈ بینک نے تیسری دنیا کے بجائے مصیبت زدہ دنیا (Suffering World) کا نام دیدیا ہے۔
لندن میں ہونیوالے سربراہ اجلاس میں 6 ملکوں نے شرکت کی جن میں برطانیہ، افغانستان، کینیا، فرانس، نیدر لینڈ اور نائیجریا شامل تھے جنہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ مستفید ہونیوالے مالکان کا ایک پبلک رجسٹر قائم کیا جائے گا۔ 5 ممالک جن میں آسٹریلیا بھی شامل ہے وہ ان 29 ممالک کے ساتھ شامل ہو جائیں گے جہاں پہلے ہی ''مستفید ہونیوالے مالکان'' کا سرکاری رجسٹر قائم ہے۔
ابھی تک تو اس رجسٹر تک صرف حکومتوں کی رسائی ہے جنھیں عوام کے لیے کھولا نہیں گیا اور ان پر صرف بند کمرے میں غور و خوض کیا جاتا ہے لیکن یہ ابھی اس کام کی ابتدا ہے۔ اس حوالے سے میں ''جوز یوگاز'' (Jose Ugaz) کے مقولے کا حوالہ دوں گا جس میں کہا گیا ہے ''ہم تمام ملکوں پر زور دیں گے کہ وہ کرپشن کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اور مستحکم اقدامات کریں اور کرپشن کرنے والوں کے لیے نہ صرف کڑی سزائیں مقرر کی جائیں بلکہ ان پر عمل درامد بھی کیا جائے۔ بعض ممالک تو اس چیلنج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں لیکن کئی ممالک نے اس طرف سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔''
لندن سربراہ کانفرنس کے ایک ہفتے بعد پی اے سی آئی کی ششماہی کانفرنس 19 مئی کو واشنگٹن ڈی سی میں ''اے پی سی او'' کے ہیڈکوارٹر میں ہوئی جس کی صدارت ڈیوڈ کرئیک شینک (Cruick Shank) نے کی جو ورلڈ بینک کے ڈائریکٹر انٹیگریٹی بھی ہیں۔
20 مئی کو اس کا دوسرا سیشن ہوا جس کی میزبانی لیونارڈ میکارتھی نے ورلڈ بینک کے ہیڈکوارٹر میں کی۔ سربراہی اجلاس کے بعد اس موضوع کے نئے معنی آشکار ہوئے۔ بی آئی او جی کی منیجنگ ڈائریکٹر گریٹا فینر نے اجلاس کی کارروائی میں لندن سے شرکت کی اور کرپشن کے انسداد کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ ان سارے مراحل کا سہرا ڈبلیو ای ایف کے پیڈرو/ وڈریگیوز ڈی المیڈا اور لارین سلوریا کے سر ہے جنہوں نے کانفرنسوں کے شیڈول پر بروقت عملدرآمد کرایا۔
20 مئی کو ''کاروبار میں اعتماد سازی'' کے موضوع پر ششماہی کانفرنس ہوئی جس کی صدارت مشترکہ طور پر ڈیوڈ کروئیک شینک اور لیونارڈ میکارتھی نے کی۔ اس کے بعد پینل مباحثے میں میرے ساتھ صحارا گروپ کے اوڈے آہیمی بھی شریک تھے۔ اس موقع پر میں نے دو تجاویز پیش کیں (1) کہ مالکان کے نیشنل ٹیکس نمبر کا واضح اندراج کیا جائے۔ (2) کوئی لین دین یا خریداری نقد رقوم سے نہ کی جائے۔ میرے پینل کے ساتھیوں نے میری تجویز کی تائید کی کہ 5000 برطانوی پاؤنڈز یا اس کے مساوی رقم کی ترسیل کو منی لانڈرنگ تصور کیا جائے گا۔ اگر موجودہ قوانین پر ہی سختی سے عملدرآمد کرایا جا سکے تو 95 فیصد چوری شدہ اثاثے واپس لیے جا سکتے ہیں۔
میرے لیے یہ فخر کا مقام تھا کہ نادرا نے بائیومیٹرک شناخت کا جو نظام اختیار کیا ہے اس کی بے حد تعریف کی گئی۔ یہ نظام اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ہدایت پر اختیار کیا گیا ہے جس کے بعد 'حوالہ' یا 'ہنڈی' کے ذریعے رقوم کی ترسیل ممکن نہیں رہی۔ گوگل کمپنی کی قانونی مشیر تھریزے لی کا کہنا کہ یہ بحث اس قدر اہمیت کی حامل رہی ہے کہ اس سے ''فائر الارم'' بج سکتا تھا۔
یہاں یہ بات بطور خاص قابل ذکر ہے کہ پاناما پیپرزکا افشا صرف آئس برگ کی چوٹی کی نشاندہی کرتا ہے۔ پاکستانیوں کی 95 فیصد تعداد براۂ راست ٹیکس نہیں دیتی۔ اگرچہ پاناما پیپرز میں ان کے نام نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود برطانیہ میں ان کی جائیدادیں موجود ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا ہے کہ اب کرپٹ لوگوں کے لیے کوئی محفوظ جنت نہیں رہے گی۔ نہ وہ بھاگ سکیں گے نہ چھپ سکیں گے۔