یومِ تکبیر کے اٹھارہ برس بعد
البتہ بھارت اور پاکستان کو یقین ہے کہ جو کام روس اور امریکا جیسی عظیم طاقتیں نہ کر سکیں وہ یہ دونوں کر لیں گے۔
آج کے دن اٹھارہ برس پہلے پاکستان نے بھارت کے پانچ جوہری دھماکوں کے مقابلے میں پانچ اور دو روز بعد ایک اور اضافی دھماکا کر کے اعلان کیا کہ ہم کسی سے کم نہیں۔ یہاں سے وہاں تک یہ سوچ کر پورا ملک ناچ اٹھا کہ اب ہمارا کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا۔ دلی ہو کہ اسلام آباد دفاعی پنڈتوں نے خوشخبری دی کہ اب روائیتی اسلحے کی دوڑ تھم جائے گی کیونکہ جوہری انشورنس جنگ نہیں ہونے دے گی۔ جو پیسہ بچے گا وہ تعمیر و ترقی کے کام آئے گا۔
آج اٹھارہ برس بعد حالات یہ ہیں کہ روائیتی ہتھیاروں پر سب سے زیادہ اخراجات کرنے والے دس ممالک کی سال دو ہزار پندرہ کی فہرست میں بھارت دوسرے اور پاکستان دسویں نمبر پر ہے۔ بھارت نے گزشتہ برس ہتھیاروں کی خریداری پر تین ہزار اٹھتر ملین ڈالر اور پاکستان نے سات سو پینتیس ملین ڈالر خرچ کیے۔ ان میں ان ہتھیاروں کی لاگت شامل نہیں جو دونوں ممالک مقامی طور پر تیار کر رہے ہیں۔
جہاں تک جوہری ہتھیاروں سے حاصل ہونے والے تحفظ کا معاملہ ہے تو بھارت کے پاس اس وقت اندازاً ایک سو دس اور پاکستان کے پاس ایک سو بیس چھوٹے بڑے جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے کہ دونوں ممالک میں احساسِ عدمِ تحفظ بھی ایک سو دس اور ایک سو بیس گنا بڑھ جائے۔ مگر ایسا کہاں ہوتا ہے؟ اگر ہوتا تو امریکا اور روس کے پاس دو ہزار چھیاسی میں موجود ساٹھ ہزار جوہری ہتھیار دنیا کو باغِ امن بنا چکے ہوتے۔ مگر سایہ پکڑ میں نہ آ سکا اور آج دونوں ممالک اپنے ذخیرے کو کم کرتے کرتے نو سے دس ہزار جوہری ہتھیاروں تک لے آئے ہیں۔
البتہ بھارت اور پاکستان کو یقین ہے کہ جو کام روس اور امریکا جیسی عظیم طاقتیں نہ کر سکیں وہ یہ دونوں کر لیں گے۔ یعنی دنیا کو دکھا دیں گے کہ جوہری ہتھیاروں کی دوڑ جیتی بھی جا سکتی ہے۔ چنانچہ دونوں ممالک وہی پہیہ پھر سے ایجاد کرنے میں لگے پڑے ہیں جسے چلانے کی کوشش میں بڑی طاقتوں کے انگور کھٹے ہو گئے۔
بھارت کا خیال ہے کہ اگر جوہری ہتھیاروں کو صرف زمین پر ساکت ذخیرہ کرنے کے بجائے سمندر میں حرکت پذیر آبدوزوں پر نصب کر دیا جائے تو فائدہ یہ ہو گا کہ اگر دشمن کے اچانک حملے میں زمین پر موجود تمام ایٹمی ہتھیار تباہ بھی ہو جاتے ہیں تو آبدوزوں پر نصب ہتھیاروں کے جوابی حملے سے دشمن کی شرطیہ قبر بنائی جا سکتی ہے۔ اس نظریے کو ''سیکنڈ اسٹرائیک کی صلاحیت'' کہا جاتا ہے۔ لہذا ڈیڑھ ماہ قبل اریہانت نامی ایٹمی آبدوز سے کے فور میزائیل چھوڑنے کا تجربہ کیا گیا اور یہ اعلان ہوا کہ بھارت اب سیکنڈ سٹرائک صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔ جب کہ ایٹمی ہتھیار لے جانے والے برہموس میزائلوں کی چار بیٹریاں گزشتہ برس ہی بھارتی بحریہ کے حوالے ہو چکی ہیں۔
پاکستان نے دو ہزار بارہ میں نیول سٹرٹیجک کمانڈ قائم کرنے کا اعلان کیا اور فوج کے شعبہِ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے وضاحت کی گئی کہ اس کمانڈ کا مقصد سیکنڈ سٹرائک صلاحیت حاصل کرنا ہے۔ دو ہزار پندرہ میں سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) نعیم خالد لودھی نے دعوی کیا کہ پاکستان سیکنڈ سٹرائک صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔ تاہم اکثر دفاعی ماہرین اس دعوی کو قبل از وقت قرار دیتے ہیں۔
اکتوبر دو ہزار پندرہ میں نواز شریف کے دورہِ امریکا سے پہلے سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے بریکنگ نیوز دی کہ پاکستان نے محاذِ جنگ پر دشمن کے خلاف محدود علاقے میں استعمال کے لیے مختصر حجم کے ''ٹکٹیکل جوہری ہتھیار'' بھی تیار کر لیے ہیں۔ جو بھارت کے کولڈ اسٹارٹ نظریے کا ترکی بہ ترکی جواب ثابت ہوں گے۔
کولڈ اسٹارٹ تھیوری کے تحت بھارتی فوج اچانک کئی محاز کھول کے تیزی سے پیشقدمی کرتے ہوئے دشمن کی سپلائی لائن درمیان سے کاٹ کر اسے مفلوج کر دے گی۔ چنانچہ فیلڈ کمانڈرز محدود تباہی پھیلانے والے ''ٹکٹیکل جوہری ہتھیار'' استعمال کر کے دشمن کی برق رفتار پیشقدمی کو بریک لگا سکیں گے۔ مفروضہ یہ ہے کہ ان ہتھیاروں کے استعمال سے دشمن کے اوسان خطا ہو جائیں گے اور وہ مزید کسی بڑی جوہری مہم جوئی سے باز رہے گا۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ دنیا کی ہر جنگ جنرلوں کے مفروضوں سے شروع ہوتی ہے اور ایسے ناقابلِ یقین نتائج پر ختم ہوتی ہے جو نہ فاتح کے گمان میں ہوتے ہیں نہ مفتوح کے۔
چنانچہ اب دشمن کو نیچا دکھانے کا ایک نیا مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔ بھارت نے جوہری دھماکوں کی اٹھارویں سالگرہ (پندرہ مئی) کو حملہ آور میزائلوں کو راستے میں ہی تباہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والے اشوین میزائل کا کامیاب تجربہ کیا جس نے خلیج بنگال میں ایک بحری جہاز سے چھوڑے جانے والے پرتھوی میزائل کو ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی فضا میں جا لیا۔ گویا امریکا، روس اور اسرائیل کے بعد بھارت میزائیل ڈھال کی صلاحیت حاصل کرنے والا چوتھا ملک قرار پایا۔ یہ شیلڈ دو طرح کے میزائلوں پر مشتمل ہے۔ پرتھوی ایئر ڈیفنس میزائیل جو دشمن میزائیل کو خلا میں پچاس تا اسی کلو میٹر کی اونچائی پر شکار کرے گا اور اشوین جس کی مار فضا میں تیس کلو میٹر تک ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب پاکستان یا تو بھارتی میزائلوں سے بچنے کے لیے اپنی ڈھال تیار کرے یا پھر بھارتی ڈھال کو ناکام بنانے کے لیے ایک کے بجائے دس میزائیل بنائے تا کہ اگر بھارتی ڈھال دس میں سے آٹھ میزائیل روک بھی لے تو دو پھر بھی ہدف تک پہنچ جائیں۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ اب اربوں ڈالر کی دوڑ کا ایک نیا دروازہ کھل گیا۔
دوڑ کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایٹمی جنگ بھی ہو۔ لیکن امریکا اور روس کو حادثاتی طور پر ایٹمی جنگ سے بچنے کے لیے یہ قدرتی جغرافیائی سہولت میسر ہے کہ اگر ایک کی جانب سے غلطی سے بھی میزائیل فائر ہو جائے تو دوسرے کے پاس جوابی کاروائی سے پہلے نو تا بارہ منٹ کا وقت ہے جس میں یہ تصدیق ہو سکے کہ میزائیل جان بوجھ کر داغا گیا ہے یا کوئی اتفاقی و حادثاتی واردات ہے۔
مگر بھارت اور پاکستان کے پاس میزائیل چل جانے کے بعد نئیت اور حالات کی تصدیق کے لیے اٹھارہ سے تیس سیکنڈ کا وقت ہے۔
اگلا مرحلہ خلا میں ہتھیاروں کی دوڑ ہے یعنی تھرڈ سٹرائک صلاحیت کے اصول کا ہے۔
پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے حملے سے کیا بچانا چاہ رہے ہیں؟ بھوک، ننگ، پسماندگی؟ جہاں تک تحفظ کا معاملہ ہے تو گزشتہ سات ہزار برس میں کوئی فوج بھی ایسی نہیں گزری جس نے یہ کہا ہو کہ اس کے پاس جو ہتھیار ہیں وہ کافی ہیں۔ ایسا ہو جائے تو ملٹری انڈسریل کمپلیکس کا کیا ہو گا؟ جو کپڑے روس اور امریکا نے کئی برس پہلے اتار دیے وہی اترن پہن کر بھارت اور پاکستان ایٹمی کلب کے نئے جنٹلمین بن رہے ہیں۔ مگر اس سے ہو گا کیا؟
کیا یہ مسئلہ ہے کہ ناک نیچی نہ ہو جائے ؟ کسی دن کسی سبب ناک ہی نہ رہی تو پھر کیا اونچا کریں گے؟
تو کیوں نہ ایسا ہتھیار بنانے کا سوچا جائے جو خوف اور غلط فہمی کو ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی تباہ کر دے؟
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے)
آج اٹھارہ برس بعد حالات یہ ہیں کہ روائیتی ہتھیاروں پر سب سے زیادہ اخراجات کرنے والے دس ممالک کی سال دو ہزار پندرہ کی فہرست میں بھارت دوسرے اور پاکستان دسویں نمبر پر ہے۔ بھارت نے گزشتہ برس ہتھیاروں کی خریداری پر تین ہزار اٹھتر ملین ڈالر اور پاکستان نے سات سو پینتیس ملین ڈالر خرچ کیے۔ ان میں ان ہتھیاروں کی لاگت شامل نہیں جو دونوں ممالک مقامی طور پر تیار کر رہے ہیں۔
جہاں تک جوہری ہتھیاروں سے حاصل ہونے والے تحفظ کا معاملہ ہے تو بھارت کے پاس اس وقت اندازاً ایک سو دس اور پاکستان کے پاس ایک سو بیس چھوٹے بڑے جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے کہ دونوں ممالک میں احساسِ عدمِ تحفظ بھی ایک سو دس اور ایک سو بیس گنا بڑھ جائے۔ مگر ایسا کہاں ہوتا ہے؟ اگر ہوتا تو امریکا اور روس کے پاس دو ہزار چھیاسی میں موجود ساٹھ ہزار جوہری ہتھیار دنیا کو باغِ امن بنا چکے ہوتے۔ مگر سایہ پکڑ میں نہ آ سکا اور آج دونوں ممالک اپنے ذخیرے کو کم کرتے کرتے نو سے دس ہزار جوہری ہتھیاروں تک لے آئے ہیں۔
البتہ بھارت اور پاکستان کو یقین ہے کہ جو کام روس اور امریکا جیسی عظیم طاقتیں نہ کر سکیں وہ یہ دونوں کر لیں گے۔ یعنی دنیا کو دکھا دیں گے کہ جوہری ہتھیاروں کی دوڑ جیتی بھی جا سکتی ہے۔ چنانچہ دونوں ممالک وہی پہیہ پھر سے ایجاد کرنے میں لگے پڑے ہیں جسے چلانے کی کوشش میں بڑی طاقتوں کے انگور کھٹے ہو گئے۔
بھارت کا خیال ہے کہ اگر جوہری ہتھیاروں کو صرف زمین پر ساکت ذخیرہ کرنے کے بجائے سمندر میں حرکت پذیر آبدوزوں پر نصب کر دیا جائے تو فائدہ یہ ہو گا کہ اگر دشمن کے اچانک حملے میں زمین پر موجود تمام ایٹمی ہتھیار تباہ بھی ہو جاتے ہیں تو آبدوزوں پر نصب ہتھیاروں کے جوابی حملے سے دشمن کی شرطیہ قبر بنائی جا سکتی ہے۔ اس نظریے کو ''سیکنڈ اسٹرائیک کی صلاحیت'' کہا جاتا ہے۔ لہذا ڈیڑھ ماہ قبل اریہانت نامی ایٹمی آبدوز سے کے فور میزائیل چھوڑنے کا تجربہ کیا گیا اور یہ اعلان ہوا کہ بھارت اب سیکنڈ سٹرائک صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔ جب کہ ایٹمی ہتھیار لے جانے والے برہموس میزائلوں کی چار بیٹریاں گزشتہ برس ہی بھارتی بحریہ کے حوالے ہو چکی ہیں۔
پاکستان نے دو ہزار بارہ میں نیول سٹرٹیجک کمانڈ قائم کرنے کا اعلان کیا اور فوج کے شعبہِ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے وضاحت کی گئی کہ اس کمانڈ کا مقصد سیکنڈ سٹرائک صلاحیت حاصل کرنا ہے۔ دو ہزار پندرہ میں سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) نعیم خالد لودھی نے دعوی کیا کہ پاکستان سیکنڈ سٹرائک صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔ تاہم اکثر دفاعی ماہرین اس دعوی کو قبل از وقت قرار دیتے ہیں۔
اکتوبر دو ہزار پندرہ میں نواز شریف کے دورہِ امریکا سے پہلے سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے بریکنگ نیوز دی کہ پاکستان نے محاذِ جنگ پر دشمن کے خلاف محدود علاقے میں استعمال کے لیے مختصر حجم کے ''ٹکٹیکل جوہری ہتھیار'' بھی تیار کر لیے ہیں۔ جو بھارت کے کولڈ اسٹارٹ نظریے کا ترکی بہ ترکی جواب ثابت ہوں گے۔
کولڈ اسٹارٹ تھیوری کے تحت بھارتی فوج اچانک کئی محاز کھول کے تیزی سے پیشقدمی کرتے ہوئے دشمن کی سپلائی لائن درمیان سے کاٹ کر اسے مفلوج کر دے گی۔ چنانچہ فیلڈ کمانڈرز محدود تباہی پھیلانے والے ''ٹکٹیکل جوہری ہتھیار'' استعمال کر کے دشمن کی برق رفتار پیشقدمی کو بریک لگا سکیں گے۔ مفروضہ یہ ہے کہ ان ہتھیاروں کے استعمال سے دشمن کے اوسان خطا ہو جائیں گے اور وہ مزید کسی بڑی جوہری مہم جوئی سے باز رہے گا۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ دنیا کی ہر جنگ جنرلوں کے مفروضوں سے شروع ہوتی ہے اور ایسے ناقابلِ یقین نتائج پر ختم ہوتی ہے جو نہ فاتح کے گمان میں ہوتے ہیں نہ مفتوح کے۔
چنانچہ اب دشمن کو نیچا دکھانے کا ایک نیا مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔ بھارت نے جوہری دھماکوں کی اٹھارویں سالگرہ (پندرہ مئی) کو حملہ آور میزائلوں کو راستے میں ہی تباہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والے اشوین میزائل کا کامیاب تجربہ کیا جس نے خلیج بنگال میں ایک بحری جہاز سے چھوڑے جانے والے پرتھوی میزائل کو ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی فضا میں جا لیا۔ گویا امریکا، روس اور اسرائیل کے بعد بھارت میزائیل ڈھال کی صلاحیت حاصل کرنے والا چوتھا ملک قرار پایا۔ یہ شیلڈ دو طرح کے میزائلوں پر مشتمل ہے۔ پرتھوی ایئر ڈیفنس میزائیل جو دشمن میزائیل کو خلا میں پچاس تا اسی کلو میٹر کی اونچائی پر شکار کرے گا اور اشوین جس کی مار فضا میں تیس کلو میٹر تک ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب پاکستان یا تو بھارتی میزائلوں سے بچنے کے لیے اپنی ڈھال تیار کرے یا پھر بھارتی ڈھال کو ناکام بنانے کے لیے ایک کے بجائے دس میزائیل بنائے تا کہ اگر بھارتی ڈھال دس میں سے آٹھ میزائیل روک بھی لے تو دو پھر بھی ہدف تک پہنچ جائیں۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ اب اربوں ڈالر کی دوڑ کا ایک نیا دروازہ کھل گیا۔
دوڑ کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایٹمی جنگ بھی ہو۔ لیکن امریکا اور روس کو حادثاتی طور پر ایٹمی جنگ سے بچنے کے لیے یہ قدرتی جغرافیائی سہولت میسر ہے کہ اگر ایک کی جانب سے غلطی سے بھی میزائیل فائر ہو جائے تو دوسرے کے پاس جوابی کاروائی سے پہلے نو تا بارہ منٹ کا وقت ہے جس میں یہ تصدیق ہو سکے کہ میزائیل جان بوجھ کر داغا گیا ہے یا کوئی اتفاقی و حادثاتی واردات ہے۔
مگر بھارت اور پاکستان کے پاس میزائیل چل جانے کے بعد نئیت اور حالات کی تصدیق کے لیے اٹھارہ سے تیس سیکنڈ کا وقت ہے۔
اگلا مرحلہ خلا میں ہتھیاروں کی دوڑ ہے یعنی تھرڈ سٹرائک صلاحیت کے اصول کا ہے۔
پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے حملے سے کیا بچانا چاہ رہے ہیں؟ بھوک، ننگ، پسماندگی؟ جہاں تک تحفظ کا معاملہ ہے تو گزشتہ سات ہزار برس میں کوئی فوج بھی ایسی نہیں گزری جس نے یہ کہا ہو کہ اس کے پاس جو ہتھیار ہیں وہ کافی ہیں۔ ایسا ہو جائے تو ملٹری انڈسریل کمپلیکس کا کیا ہو گا؟ جو کپڑے روس اور امریکا نے کئی برس پہلے اتار دیے وہی اترن پہن کر بھارت اور پاکستان ایٹمی کلب کے نئے جنٹلمین بن رہے ہیں۔ مگر اس سے ہو گا کیا؟
کیا یہ مسئلہ ہے کہ ناک نیچی نہ ہو جائے ؟ کسی دن کسی سبب ناک ہی نہ رہی تو پھر کیا اونچا کریں گے؟
تو کیوں نہ ایسا ہتھیار بنانے کا سوچا جائے جو خوف اور غلط فہمی کو ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی تباہ کر دے؟
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے)