پاکستان ’ایٹمی طاقت‘ نہ ہوتا تو
شاید آپ یہ بھول رہے ہیں کہ پاکستان بھی ایٹمی طاقت ہے اور یہ جنگ کسی بھی صورت دونوں ممالک کے حق میں بہتر نہیں ہوگی۔
جہاز آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا تھا۔ بھارتی وزیراعظم اپنے چند وزراء اور بھارتی آرمی چیف کے ہمراہ حال ہی میں دہشت گردی کے ایک واقعے سے متاثر ہونے والے شہر کی طرف رواں دواں تھے، اس سانحے میں 8 لوگوں کی جانیں چلی گئیں تھیں اور تقریباََ 20 افراد زخمی ہوئے تھے۔
جنگی جنون میں مبتلا بھارت نے اس دہشت گردی کا الزام بھی پاکستان پر لگا دیا تھا، ویسے یہ کوئی حیران کن بات نہیں تھی کیونکہ وہ تو ہمیشہ سے ہی اپنے ملک میں ہونے والی ہر چھوٹی بڑی تخریب کاری کا ذمّہ دار پاکستان کو ٹھہراتا آیا تھا۔ اِس الزام کی پاکستانی سول اور عسکری قیادت نے فوری طور پر تردید بھی کردی، مگر بھارت یہ ماننے کو تیار نہیں تھا اور اُس نے اس واقعے کو بنیاد بنا کر پاکستان پر حملے کی پلاننگ شروع کردی۔ پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایٹمی طاقت بھارت کے لیے یہ اندازہ لگانا قطعاََ مشکل نہیں تھا کہ پاکستان کے ساتھ یہ جنگ یکطرفہ ہوگی اور بھارت ایٹمی صلاحیت سے محروم پاکستان کو باآسانی شکست دے کر اپنا دیرینہ خواب پورا کرلے گا۔
دوسری طرف پاکستان بھارت کے جنگی عزائم سے مکمل طور پر باخبر تو تھا مگر اس کے پاس معاملہ بات چیت سے حل کرنے کے سوا کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں تھا۔ وزیراعظم پاکستان کے ماضی میں لیے گئے ایک بزدلانہ فیصلے نے پاکستان کو کمزور ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا تھا جو کسی بھی صورت ایک ایٹمی طاقت سے جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ 1998ء میں پاکستان بھی اس پوزیشن میں تھا کہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکہ کرکے دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت ہونے کا اعلان کردے، مگر وزیراعظم پاکستان نے عالمی دباؤ کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے نہ صرف ایٹمی دھماکہ کرنے سے گریز کیا بلکہ خود کو اچھا بچہ ثابت کرنے کے چکر میں اپنا ایٹمی پروگرام بھی ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔
یہی وجہ تھی کہ پاکستان جو ہمیشہ روایتی دشمن بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا آیا تھا اور اُس کی ہر جارحیت کا منہ توڑ جواب دیتا تھا، لیکن اب کمزوری کے سبب اُس کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح یہ معاملہ سفارتی سطح پر حل کرلیا جائے۔ مگر بھارت کے انتہا پسند حکمران کسی بھی صورت اس معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے میں سنجیدگی نہیں دکھا رہے تھے کیونکہ وہ اچھی طرح سے جانتے تھے کہ جنگ کی صورت میں پاکستان کا انجام بھی لیبیا سے مختلف ہرگز نہیں ہوگا جس نے عالمی طاقتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنا ایٹمی پروگرام ختم کردیا تھا۔ پھر عراق، شام اور یوکرائن کے حالات بھی سب کے سامنے تھے۔ ایٹمی طاقت ہونے کا نشہ بھارت کے سَر چڑھ کر بول رہا تھا۔ اگر آج پاکستان بھی ایٹمی پاور ہوتا تو بھارت جنگ کا سوچنے کی بھی جرأت نہیں کرسکتا تھا، مگر پاکستانی حکومت کے ایک غلط فیصلے کی سزا پوری پاکستانی قوم بھگتنے جا رہی تھی۔ پاکستان کی طرف سے مزاحمت کی صورت میں بھارت ایٹمی میزائل داغ کر ہیروشیما اور ناگاساکی کی تاریخ دہرا سکتا تھا، جس کا سوچ کر ہی روح کانپ اُٹھتی تھی کیونکہ جو ملک اتنی قربانیوں سے حاصل کیا تھا، ہاتھ سے نکلتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔
''بس فیصلہ ہوگیا، ہم پاکستان پر حملہ کرنے جا رہے ہیں،'' بھارتی وزیراعظم جو پچھلے آدھے گھنٹے سے آنکھیں بند کیے پُرسکون بیٹھے تھے اچانک بولے تو سب نے اُن کی طرف چونک کر دیکھا۔
''آپ یہ بیان پاکستان کو دھمکانے کے لیے دینا چاہتے ہیں؟'' انڈین آرمی چیف نے استفسار کیا۔
''نہیں، یہ کوئی بیان نہیں ہے بلکہ اٹل فیصلہ ہے۔'' وزیراعظم نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
''پرائم منسٹر صاحب! آپ جانتے بھی ہیں کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں اور اس کا کیا مطلب ہے؟'' آرمی چیف نے حیران ہوکر پوچھا، دیگر افسران اور حکومتی وزراء بھی حیرت سے وزیراعظم کی طرف دیکھ رہے تھے۔
''تو اس میں حرج کیا ہے، ہم ایٹمی طاقت ہیں اور ہمارے پاس اتنے ایٹمی ہتھیار تو ہیں کہ ہم پاکستان جیسے کمزور ملک کو سبق سکھا سکیں۔''
''سر، شاید آپ یہ بھول رہے ہیں کہ پاکستان بھی ایٹمی طاقت ہے اور یہ جنگ کسی بھی صورت دونوں ممالک کے حق میں بہتر نہیں ہوگی۔'' آرمی چیف نے فوری طور پر وضاحت کی کیونکہ اُنہیں وزیراعظم کی باتوں پر ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا۔
''کیا؟ پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیار کہاں سے آئے؟ وہ کب ایٹمی طاقت بنا؟'' بھارتی وزیراعظم نے چونک کر پوچھا تو سب ایک بار پھر ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے کہ آ خر وزیراعظم صاحب کو اچانک ہو کیا گیا ہے جو ایسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں۔
''م۔م۔ میں تو مذاق کر رہا تھا۔'' بھارتی وزیراعظم صورتحال بھانپتے ہوئے بولے، پھر انہوں نے اپنی شرمندگی چھپانے کے لیے ایک جھوٹا قہقہ لگایا تو سب ساتھ میں ہنس پڑے۔ درحقیقت وہ اب پوری طرح نیند سے بیدار ہوکر اُس خواب کے حصار سے باہر آچکے تھے جس نے پچھلے کچھ لمحوں سے اُنہیں خوش فہمی میں اور ساتھ بیٹھے افراد کو مخمصے میں ڈال رکھا تھا۔
[poll id="1126"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
جنگی جنون میں مبتلا بھارت نے اس دہشت گردی کا الزام بھی پاکستان پر لگا دیا تھا، ویسے یہ کوئی حیران کن بات نہیں تھی کیونکہ وہ تو ہمیشہ سے ہی اپنے ملک میں ہونے والی ہر چھوٹی بڑی تخریب کاری کا ذمّہ دار پاکستان کو ٹھہراتا آیا تھا۔ اِس الزام کی پاکستانی سول اور عسکری قیادت نے فوری طور پر تردید بھی کردی، مگر بھارت یہ ماننے کو تیار نہیں تھا اور اُس نے اس واقعے کو بنیاد بنا کر پاکستان پر حملے کی پلاننگ شروع کردی۔ پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایٹمی طاقت بھارت کے لیے یہ اندازہ لگانا قطعاََ مشکل نہیں تھا کہ پاکستان کے ساتھ یہ جنگ یکطرفہ ہوگی اور بھارت ایٹمی صلاحیت سے محروم پاکستان کو باآسانی شکست دے کر اپنا دیرینہ خواب پورا کرلے گا۔
دوسری طرف پاکستان بھارت کے جنگی عزائم سے مکمل طور پر باخبر تو تھا مگر اس کے پاس معاملہ بات چیت سے حل کرنے کے سوا کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں تھا۔ وزیراعظم پاکستان کے ماضی میں لیے گئے ایک بزدلانہ فیصلے نے پاکستان کو کمزور ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا تھا جو کسی بھی صورت ایک ایٹمی طاقت سے جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ 1998ء میں پاکستان بھی اس پوزیشن میں تھا کہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکہ کرکے دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت ہونے کا اعلان کردے، مگر وزیراعظم پاکستان نے عالمی دباؤ کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے نہ صرف ایٹمی دھماکہ کرنے سے گریز کیا بلکہ خود کو اچھا بچہ ثابت کرنے کے چکر میں اپنا ایٹمی پروگرام بھی ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔
یہی وجہ تھی کہ پاکستان جو ہمیشہ روایتی دشمن بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا آیا تھا اور اُس کی ہر جارحیت کا منہ توڑ جواب دیتا تھا، لیکن اب کمزوری کے سبب اُس کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح یہ معاملہ سفارتی سطح پر حل کرلیا جائے۔ مگر بھارت کے انتہا پسند حکمران کسی بھی صورت اس معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے میں سنجیدگی نہیں دکھا رہے تھے کیونکہ وہ اچھی طرح سے جانتے تھے کہ جنگ کی صورت میں پاکستان کا انجام بھی لیبیا سے مختلف ہرگز نہیں ہوگا جس نے عالمی طاقتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنا ایٹمی پروگرام ختم کردیا تھا۔ پھر عراق، شام اور یوکرائن کے حالات بھی سب کے سامنے تھے۔ ایٹمی طاقت ہونے کا نشہ بھارت کے سَر چڑھ کر بول رہا تھا۔ اگر آج پاکستان بھی ایٹمی پاور ہوتا تو بھارت جنگ کا سوچنے کی بھی جرأت نہیں کرسکتا تھا، مگر پاکستانی حکومت کے ایک غلط فیصلے کی سزا پوری پاکستانی قوم بھگتنے جا رہی تھی۔ پاکستان کی طرف سے مزاحمت کی صورت میں بھارت ایٹمی میزائل داغ کر ہیروشیما اور ناگاساکی کی تاریخ دہرا سکتا تھا، جس کا سوچ کر ہی روح کانپ اُٹھتی تھی کیونکہ جو ملک اتنی قربانیوں سے حاصل کیا تھا، ہاتھ سے نکلتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔
''بس فیصلہ ہوگیا، ہم پاکستان پر حملہ کرنے جا رہے ہیں،'' بھارتی وزیراعظم جو پچھلے آدھے گھنٹے سے آنکھیں بند کیے پُرسکون بیٹھے تھے اچانک بولے تو سب نے اُن کی طرف چونک کر دیکھا۔
''آپ یہ بیان پاکستان کو دھمکانے کے لیے دینا چاہتے ہیں؟'' انڈین آرمی چیف نے استفسار کیا۔
''نہیں، یہ کوئی بیان نہیں ہے بلکہ اٹل فیصلہ ہے۔'' وزیراعظم نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
''پرائم منسٹر صاحب! آپ جانتے بھی ہیں کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں اور اس کا کیا مطلب ہے؟'' آرمی چیف نے حیران ہوکر پوچھا، دیگر افسران اور حکومتی وزراء بھی حیرت سے وزیراعظم کی طرف دیکھ رہے تھے۔
''تو اس میں حرج کیا ہے، ہم ایٹمی طاقت ہیں اور ہمارے پاس اتنے ایٹمی ہتھیار تو ہیں کہ ہم پاکستان جیسے کمزور ملک کو سبق سکھا سکیں۔''
''سر، شاید آپ یہ بھول رہے ہیں کہ پاکستان بھی ایٹمی طاقت ہے اور یہ جنگ کسی بھی صورت دونوں ممالک کے حق میں بہتر نہیں ہوگی۔'' آرمی چیف نے فوری طور پر وضاحت کی کیونکہ اُنہیں وزیراعظم کی باتوں پر ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا۔
''کیا؟ پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیار کہاں سے آئے؟ وہ کب ایٹمی طاقت بنا؟'' بھارتی وزیراعظم نے چونک کر پوچھا تو سب ایک بار پھر ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے کہ آ خر وزیراعظم صاحب کو اچانک ہو کیا گیا ہے جو ایسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں۔
''م۔م۔ میں تو مذاق کر رہا تھا۔'' بھارتی وزیراعظم صورتحال بھانپتے ہوئے بولے، پھر انہوں نے اپنی شرمندگی چھپانے کے لیے ایک جھوٹا قہقہ لگایا تو سب ساتھ میں ہنس پڑے۔ درحقیقت وہ اب پوری طرح نیند سے بیدار ہوکر اُس خواب کے حصار سے باہر آچکے تھے جس نے پچھلے کچھ لمحوں سے اُنہیں خوش فہمی میں اور ساتھ بیٹھے افراد کو مخمصے میں ڈال رکھا تھا۔
[poll id="1126"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔