سیاسی جوڑ توڑ کا آغاز
سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف راہ نمائوں نے عوام کو سہولیات کی فراہمی اور ان کے حقوق کے لیے کبھی بات نہیں کی۔
ایک لاکھ سے زاید نفوس پر مشتمل خان پور قومی اسمبلی کے حلقہ 202 اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ 11 پر مشتمل ہے۔
اگلے عام انتخابات کے لیے مقامی سیاست میں ہلچل شروع ہوگئی ہے۔ این پی پی (سندھ) کے صدر محمد ابراہیم جتوئی نے پچھلے ہفتے جسقم کے زیر اہتمام منعقدہ جلسے میں شرکت کی اور اپنے خطاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، انھوں نے اپنے حلقے میں سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے، جب کہ آفتاب شعبان میرانی بدستور خاموش اور اپنے قومی اسمبلی کے حلقۂ انتخاب 202 سے کافی عرصے سے لاتعلق نظر آتے ہیں، باخبر ذرایع کے مطابق اس مرتبہ اس حلقے سے آفتاب شعبان میرانی کو پی پی پی کا ٹکٹ نہ دیے کا امکان ہے، پی پی پی اس حلقے پر دوسرا امیدوار کھڑا کر سکتی ہے۔
دوسری جانب مقامی سطح پر 'پہوڑ اتحاد' کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، جس کی قیادت پہوڑ برادری کے نوجوان کر رہے ہیں۔ جے یو آئی کے ضلعی امیر، درگاہ جرار پہوڑ شریف کے گدی نشین مولانا عبداللہ پہوڑ ہمیشہ این اے 202 سے الیکشن لڑتے ہیں، مگر کبھی کام یاب نہیں ہوئے، لیکن یہ اتحاد اس حلقے سے ان کے مخالف این پی پی اور پی پی پی کے امیدواروں کو سخت مقابلے کی طرف لے جاسکتا ہے۔ پہوڑ برادری کا مضبوط ووٹ بینک اور اپنے علاقے میں کافی اثر رسوخ ہے، لیکن ماضی میں یہ اس طرح متحرک نہیں ہوسکی، جیسا کہ ان دنوں نظر آتی ہے، پہوڑ اتحاد کی سرپرستی اور صدارت صفدر حسین پہوڑ کر رہے ہیں۔
وہ ڈاکٹر ہونے کے ساتھ زمیں دار بھی ہیں اور حلقہ پی ایس 11 پر خاصا اثر رکھتے ہیں۔ دوسری جانب ایم کیو ایم شہری علاقوں اور گرد و نواح میں مضبوط ہے، تاہم فی الوقت ایم کیو ایم کی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ خان پور میں ایم کیو ایم کے ایک صوبائی وزیر اپنے حلقے میں اکثر نظر آتے تھے، لیکن وہ بھی چھے ماہ سے اپنے علاقے سے دور ہیں۔ اس جماعت کے ملک گیر ریفرنڈم کے سلسلے میں بھی مقامی سطح پر کوئی سرگرمی شروع نہیں ہوئی ہے۔ گذشتہ دنوں ن لیگ کے راہ نما ممنون حسین، خان پور تشریف لائے اور پارٹی کے مقامی آفس کا افتتاح کیا۔ واضح رہے کہ ن لیگ اس حلقے میں کوئی اثر نہیں رکھتی۔
باخبر ذرایع کے مطابق خان پور میں پہوڑ اتحاد اور جے یو آئی میں قومی اور صوبائی حلقوں سے متعلق بات چیت چل رہی ہے اور این اے 202 سے مولانا عبداللہ پہوڑ اور پی ایس 11 سے پہوڑ اتحاد کا کوئی راہ نما حصہ لے گا۔ اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر پہوڑ اتحاد کے راہ نما غلام محمد پہوڑ نے کہا کہ وہ میدان خالی نہیں چھوڑیں گے، جے یو آئی سے بات چیت کے بعد حتمی فیصلے کا اعلان کر دیا جائے گا، انھوں نے کہا کہ آزاد امیدوار یا ایم کیو ایم کے ٹکٹ کے لیے بھی کوشش کی جائے گی۔
سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف راہ نمائوں نے عوام کو سہولیات کی فراہمی اور ان کے حقوق کے لیے کبھی بات نہیں کی، لیکن انتخابی معرکے سے قبل خوش رنگ اعلانات اور دعووں کا سلسلہ ضرور شروع ہو گیا ہے۔ اس وقت شہری کئی مسائل سے دوچار ہیں اور سہولیات کی عدم فراہمی پر حکومت اور اپنے منتخب کردہ نمایندوں سے نالاں نظر آتے ہیں۔ یہاں کا رورل ہیلتھ سینٹر سرکاری سطح پر عدم توجہی کا شکار ہے، جس کے باعث عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ بدامنی، اسٹریٹ کرائمز، قبائلی تنازعات اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں نے عوام سے زندگی کی خوشیاں چھین لی ہیں۔
اگلا انتخابی معرکہ جیتنے کے لیے سیاسی جماعتیں ان مسائل اور مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے عوام کو اپنے مخالفین سے بدظن کرنے اور اپنا ووٹ بینک بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ہمیشہ کی طرح انتخابات کا وقت قریب آنے پر سیاسی راہ نماؤں کے دورے اور اجتماعات میں عوام سے وعدوں اور اعلانات کا سلسلہ بھی زوروں پر ہو گا، لیکن ان کی حقیقت سیاسی جماعتوں کے کام یاب نمایندوں سے ایوانِ اقتدار سجنے کے بعد ظاہر ہو گی۔
اگلے عام انتخابات کے لیے مقامی سیاست میں ہلچل شروع ہوگئی ہے۔ این پی پی (سندھ) کے صدر محمد ابراہیم جتوئی نے پچھلے ہفتے جسقم کے زیر اہتمام منعقدہ جلسے میں شرکت کی اور اپنے خطاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، انھوں نے اپنے حلقے میں سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے، جب کہ آفتاب شعبان میرانی بدستور خاموش اور اپنے قومی اسمبلی کے حلقۂ انتخاب 202 سے کافی عرصے سے لاتعلق نظر آتے ہیں، باخبر ذرایع کے مطابق اس مرتبہ اس حلقے سے آفتاب شعبان میرانی کو پی پی پی کا ٹکٹ نہ دیے کا امکان ہے، پی پی پی اس حلقے پر دوسرا امیدوار کھڑا کر سکتی ہے۔
دوسری جانب مقامی سطح پر 'پہوڑ اتحاد' کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، جس کی قیادت پہوڑ برادری کے نوجوان کر رہے ہیں۔ جے یو آئی کے ضلعی امیر، درگاہ جرار پہوڑ شریف کے گدی نشین مولانا عبداللہ پہوڑ ہمیشہ این اے 202 سے الیکشن لڑتے ہیں، مگر کبھی کام یاب نہیں ہوئے، لیکن یہ اتحاد اس حلقے سے ان کے مخالف این پی پی اور پی پی پی کے امیدواروں کو سخت مقابلے کی طرف لے جاسکتا ہے۔ پہوڑ برادری کا مضبوط ووٹ بینک اور اپنے علاقے میں کافی اثر رسوخ ہے، لیکن ماضی میں یہ اس طرح متحرک نہیں ہوسکی، جیسا کہ ان دنوں نظر آتی ہے، پہوڑ اتحاد کی سرپرستی اور صدارت صفدر حسین پہوڑ کر رہے ہیں۔
وہ ڈاکٹر ہونے کے ساتھ زمیں دار بھی ہیں اور حلقہ پی ایس 11 پر خاصا اثر رکھتے ہیں۔ دوسری جانب ایم کیو ایم شہری علاقوں اور گرد و نواح میں مضبوط ہے، تاہم فی الوقت ایم کیو ایم کی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ خان پور میں ایم کیو ایم کے ایک صوبائی وزیر اپنے حلقے میں اکثر نظر آتے تھے، لیکن وہ بھی چھے ماہ سے اپنے علاقے سے دور ہیں۔ اس جماعت کے ملک گیر ریفرنڈم کے سلسلے میں بھی مقامی سطح پر کوئی سرگرمی شروع نہیں ہوئی ہے۔ گذشتہ دنوں ن لیگ کے راہ نما ممنون حسین، خان پور تشریف لائے اور پارٹی کے مقامی آفس کا افتتاح کیا۔ واضح رہے کہ ن لیگ اس حلقے میں کوئی اثر نہیں رکھتی۔
باخبر ذرایع کے مطابق خان پور میں پہوڑ اتحاد اور جے یو آئی میں قومی اور صوبائی حلقوں سے متعلق بات چیت چل رہی ہے اور این اے 202 سے مولانا عبداللہ پہوڑ اور پی ایس 11 سے پہوڑ اتحاد کا کوئی راہ نما حصہ لے گا۔ اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر پہوڑ اتحاد کے راہ نما غلام محمد پہوڑ نے کہا کہ وہ میدان خالی نہیں چھوڑیں گے، جے یو آئی سے بات چیت کے بعد حتمی فیصلے کا اعلان کر دیا جائے گا، انھوں نے کہا کہ آزاد امیدوار یا ایم کیو ایم کے ٹکٹ کے لیے بھی کوشش کی جائے گی۔
سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف راہ نمائوں نے عوام کو سہولیات کی فراہمی اور ان کے حقوق کے لیے کبھی بات نہیں کی، لیکن انتخابی معرکے سے قبل خوش رنگ اعلانات اور دعووں کا سلسلہ ضرور شروع ہو گیا ہے۔ اس وقت شہری کئی مسائل سے دوچار ہیں اور سہولیات کی عدم فراہمی پر حکومت اور اپنے منتخب کردہ نمایندوں سے نالاں نظر آتے ہیں۔ یہاں کا رورل ہیلتھ سینٹر سرکاری سطح پر عدم توجہی کا شکار ہے، جس کے باعث عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ بدامنی، اسٹریٹ کرائمز، قبائلی تنازعات اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں نے عوام سے زندگی کی خوشیاں چھین لی ہیں۔
اگلا انتخابی معرکہ جیتنے کے لیے سیاسی جماعتیں ان مسائل اور مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے عوام کو اپنے مخالفین سے بدظن کرنے اور اپنا ووٹ بینک بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ہمیشہ کی طرح انتخابات کا وقت قریب آنے پر سیاسی راہ نماؤں کے دورے اور اجتماعات میں عوام سے وعدوں اور اعلانات کا سلسلہ بھی زوروں پر ہو گا، لیکن ان کی حقیقت سیاسی جماعتوں کے کام یاب نمایندوں سے ایوانِ اقتدار سجنے کے بعد ظاہر ہو گی۔