کیا ہم شتر مرغ ہیں

18 ویں اور 19 ویں صدی میں انگلستان ہندوستان کی لوٹی ہوئی دولت کے سبب صنعتی انقلاب سے دوچار ہوا

zahedahina@gmail.com

یہ تاریخ کی عجب ستم ظریفی ہے کہ ہندوستان جس کے مسلمانوں اور ہندوئوں ، دونوں نے اپنی عورتوں کو پس دیوار رکھا۔

اسی برصغیر کی قسمت کے بنیادی فیصلے دو عورتوں نے کیے۔ برصغیر سے تجارت کا فرمان ملکہ الزبتھ اول کے نوک قلم سے نکلا اور اس کی غلامی پر مہر تصدیق ملکہ وکٹوریہ نے ثبت کی۔ یہ ملکہ الزبتھ اول تھی جس نے 31 دسمبر 1599 کو لندن کے چند تاجروں کو ایک شاہی فرمان کے ذریعے یہ اجازت دی کہ وہ دی آنریبل ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے ایک تجارتی ادارہ قائم کرسکتے ہیں اور ہندوستان سے تجارت کا آغاز کرسکتے ہیں۔

وقایع نگار ہمیں بتاتے ہیں کہ 1599سے ایک سو سات برس پہلے 1492 سے ہی تمام مغربی اقوام شاندار مہمات میں مصروف تھیں ان مہمات کا مقصد نئی سرزمینوںپر اپنا فوجی تسلط قائم کرنا اور سمندری راستوں کے ذریعے ساری دنیا سے تجارت کرنا تھا۔ ایک طرف ان کے تجارتی بحری بیڑے دنیا کے سات سمندروں کی سیاحی کررہے تھے تو دوسری طرف ان کے بڑے بڑے شہروں میں بینک اورچیمبرآف کامرس قائم ہورہے تھے۔

مار سیلز میں پہلے چیمبر آف کامرس کی داغ بیل پڑتی ہے۔ 1600 میں ایمسٹرڈیم میں بینک قائم ہوتا ہے۔ 1600 میں ہی ستر ہزار پونڈ کے خطیر سرمائے سے ایسٹ انڈیا کمپنی وجود میں آتی ہے یورپ میں بینکاری نظام اس تیزی سے ترقی کرتا ہے کہ 1608 میں ''چیک'' سے لین دین رائج ہوتا ہے۔ اور 1610ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی پہلی مرتبہ شیئر''حصص'' کا اجراء کرتی ہے۔

افراد مہم جوئی پر نکلتے ہیں اور1600 میں ایک انگریز انجینئر اور جہاز راں ولیم ایڈمز ٹوکیو (پرانا نام یدو) پہنچتا ہے۔ اس وقت کے شہنشاہ جاپان کے دربار میںجہاز سازی کی صنعت کا مشیر ونگراں مقرر ہوتا ہے اور جاپانیوں کے لیے ترقی کے راہیں کھولتا ہے۔ ایجادات کی رفتار تیز ہوجاتی ہے اور 1600 میںہی ایک طرف پرتگیزی ٹیلی اسکوپ ایجاد کرتے ہیں اور دوسری طرف جرمن میجک لینٹرن۔ غرض زندگی کے ہر شعبے میں سارا یورپ ایک ہما ہمی، ایک سرشاری اور مہم جوئی میںمبتلا ہے۔

اگر ہم اسی زمانے میں اپنی تاریخ کی ورق گردانی کریں تو شہنشاہ اکبر برصغیر سے باہر اپنی نوآبادیات قائم کرنے کی فکر میںمبتلا ہونے کے بجائے اپنے نافرمان ولی عہد شہزادہ سلیم سے لڑائیاں لڑتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کے دربار میں تان سین جس وقت سروں سے کھیل رہا تھا تو ٹھیک اسی وقت نیوٹن کشش ثقل کا قانون دریافت کرچکا تھا۔ ادھر جرمنی اور مغرب کے دوسرے ملکوں میں روزنامے شایع ہورہے ہیں۔ عوامی شعور کو بے دار کیا جارہا ہے۔

سائنس اورکلیسا کے درمیان ہونے والی لڑائی میں خواص سائنس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ یورپ میں دانشوروں اور سائنسدانوں کی سرپرستی ہورہی ہے اور ہمارے یہاں 1601 میں شہنشاہ اکبر کا اکلوتا بیٹا اور چہیتا ولی عہد اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم اور دانشور شیخ الوالفضل کو قتل کرتا ہے۔ باپ کی ناراضگی مول لیتا ہے اور پھر اپنی ''توزک'' میں اس قتل پر فخر بھی کرتا ہے۔

1610 میں برصغیر کا شہنشاہ جہانگیر نیل گائے اور شیر کے شکار میں مصروف تھا اور عین اسی وقت ہندوستان کی سرزمین پر قدم جمانے اور تجارتی کوٹھیاں قائم کرنے کے لیے انگریزوں اورپرتگیزی فوجوں اور بحریہ میںلڑائیاں ہورہی تھیں اور مغل شہنشاہ کو اس کی پروا نہ تھی کہ اس کی مملکت میں دوسری قوموں کے فوجی کیا کررہے ہیں اور ایک دوسرے سے دست و گریباں کیوں ہیں۔

1611 جب شہنشاہ جہانگیر اپنی توزک میں ایک دن میں 330 مچھلیوں کے شکار کا اندراج کررہا تھا اور ایک سائیس اور دو کہاروں کے سامنے آجانے کے سبب نیل گائے کے بھڑک کر بھاگ جانے کی سزا میں سائیس کو قتل کروا رہا تھا اور دونوں کہاروں کے پیر کٹوا کر انھیں نشان عبرت کے طور پر گائوں گائوں پھروا رہا تھا عین اسی برس انگلستان میں پارلیمنٹ اور شاہ جیمز اول کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی ہورہی تھی۔


برصغیر کے حکمران اور امراء شان و شوکت کے مظاہروں اور قصیدہ خواں شعراء پر اپنی دولت لٹا رہے تھے جب کہ یورپ کے امراء سائنسدانوں اور عالموں کی سرپرستی کررہے تھے۔ اس سرپرستی کے ثمرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس زمانے میں انگلستان میں ایجادات اس تیزی سے شروع ہوئیں کہ 1623 میں انگلستان میں ''پینٹنٹ'' کے قوانین کا اجراء ہوا اور سرکاری طور پر موجدوں کے حقوق کا تحفظ کیا جانے لگا۔

ہمارے مبلغین آج بھی فروعی معاملات پر بحث میں مصروف رہتے ہیں۔ لیکن عیسائی مبلغین میں ایک مبلغ انٹونیوڈی آندرادے آگرہ میں اپنے ''مشن'' کی عمارت سے نکل کر ہمالیہ اور تبت کی کوہ پیمائی اور اس علاقے کے بارے میں جغرافیائی اور موسمیاتی معلومات اکٹھا کرنے کے لیے روانہ ہوچکا تھا۔ انیسویں صدی میں آنے والی ایک انگریز افسر کی بیوی فینی پارکس ہندوستانی پہاڑوں کے بلندیوں اور دریائوں کی گہرائی ناپ رہی تھی اور آج اس کی کتاب حوالے کے طورپر استعمال ہوتی ہے۔

غرض 1600 سے 1857 تک واقعات و معاملات کا ایک ہجوم ہے اور جب ہم ان معاملات کا موازنہ اس زمانے کے برصغیر سے کرتے ہیں تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ ہمارے صناع، کاریگر، معمار، نجار اور ہنر کار انگلستان کے ہنر وروں سے کم نہ تھے۔ لیکن مسئلہ ان کی سرپرستی اور درست سمت میں ان کی رہنمائی کا تھا۔ ہمارے معمار ایک شہنشاہ کے اشارہ ابرو پر سترہویں صدی میں تاج محل ایسا شاہکار اس کی ذاتی تسکین کے لیے تعمیر کررہے تھے اور مغرب کے معمار تیرہویں اور چودھویں صدی میں آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں سے الحاق شدہ بیشتر ان کالجوں کی تعمیر مکمل کرچکے تھے جن میں داخلے ملنے کے خواب ہمارا ہر ذہین نوجوان آج بھی دیکھتا ہے۔

غرض مسئلہ ترجیحات کا تھا۔ ہمارے شہنشاہ اپنے مقبرے اور محل تعمیر کراتے تھے، ان کے بادشاہ محلات کے ساتھ تعلیمی ادارے، سائنسی تجربہ گاہیں اور کتب خانوں کی تعمیر پر بھی توجہ دیتے تھے۔ ہندوستان میں بڑے اور قابل جرنیلوں کی کمی نہ تھی۔ لیکن ان قابل اور جری جرنیلوں کی کمان میں لڑنے والی فوج غیر پیشہ ور اور غیر منظم افراد پر مشتمل ہوتی تھی جو تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود برطانوی جرنیلوں کی کمان میں لڑنے والی منظم اور تربیت یافتہ دیسی فوج سے شکست کھا جاتی تھی۔

انگریزوں نے برصغیر کی سرزمین پر قدم رکھنے سے لے کر 1857 میں لال قلعے پر اپنا پرچم لہرانے تک ہر آن ہمیں اس بات کا احساس دلایا کہ ان کی بحری بالادستی نے برصغیر میں انھیں اپنی گرفت مضبوط کرنے میں بے پناہ معاونت کی اور یہ بھی کہ آلات حرب اور دفاعی سائنس میں ان کا اور ہمارا کوئی مقابلہ نہ تھا۔ ان کے فوجی اور سول افسران قواعدو ضوابط کے مکمل طور پر پابند ہوتے اور یہی ڈسپلن وہ اپنی دیسی فوج کو بھی تعلیم کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ 1757، 1764 اور 1857 میں جب بھی برصغیر کے مفادات کا تحفظ کرنے والی غیر منظم ہندوستانی فوج، کرائے کے منظم اور تربیت یافتہ دیسی فوجیوں کے سامنے آئی تو ٹھہر نہ سکی۔

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ 18 ویں اور 19 ویں صدی میں انگلستان ہندوستان کی لوٹی ہوئی دولت کے سبب صنعتی انقلاب سے دوچار ہوا اور وہاں علم و دانش اور سائنس کا ابھار ہوا۔ نوبیل جس کا اجراء 1901 میں ہوا اسے حاصل کرنے والے 10 سائنس دان اور 9 ادیب 1857 سے کئی برس پہلے پیدا ہوچکے تھے۔ سائنسدانوں کی اس فوج ظفر موج تھی جو تاج برطانیہ ،انگریز اور یورپی امراء کی سرپرستی میں انگلستان اور مغرب کے لیے ہر گھڑی گھنٹہ کوئی نیا کارنامہ انجام دے رہی تھی۔

ان تمام حقائق پر نظر ڈالی جائے تو سمجھ میں آتا ہے کہ 1857 میں جو کچھ بھی ہوا، اسے ہونا ہی چاہیے تھا ہم کسی بھی مرحلے پر انگریز کی ذہانت اور ذکاوت کے مقابل نہ آسکے۔ نہ ہمارے اندر قوم پرستی کا وہ شدید جذبہ تھا جو انگریز کے سینے میں موجزن تھا۔ قوم پرستی کے جذبے کے فقدان کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ عوام سیاسی شعور سے بے بہرہ تھے اور جب کسی ملک کے باشندوں میں سیاسی شعور نہ ہو تو ان سے منظم انداز میں کسی انقلاب کے برپا کرنے کی توقع عبث ہے۔

آج جب ہم اپنی موجودہ تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ ہم نے نو آبادیاتی تسلط کی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ ہماری آپس کی رنجشیں، چشمکیں، ذاتی ہواوہوس، خواص میں سیاسی شعور اور قوم پرستی کا فقدان ہمیں ایک بار پھر اغیار کا دست نگر بنا رہا ہے۔ پہلے وہ ہمارے قلعوں پر اپنے پرچم لہراتے تھے۔ اب ہماری معیشت اور اقتصادیات کی شہ رگ میں ان کے دانت اترے ہوئے ہیں۔ پہلے ہمارے کسان انھیں لگان ادا کرتے تھے۔ اب ہمارے نوجوان انھیں اپنی ذہانتوں کا خراج ادا کررہے ہیں ۔ فکری اور معاشی پسماندگی کے باعث ہم فقہی، مسلکی، نسلی اور لسانی ٹکڑیوں میں تقسیم ہوکر ایک دوسرے کو قتل کررہے ہیں۔

ہم احساس کمتری میں مبتلا ہیں، اپنی ناکامیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے سارا الزام مغرب اور دوسروں پر عائد کرتے ہیں۔ حالات اوروں کو گالیاں دینے اور موردِ الزام ٹہرانے سے نہیں بلکہ ماضی کی غلطیوں کی تلافی کرنے سے بدلتے ہیں۔ ہمیں جان لینا چاہیے کہ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپانے سے حقائق تبدیل نہیں ہوتے۔
Load Next Story