ہندوستان پسندیدہ ملک کیوں نہیں…

یہ ماننا پڑے گا کہ برصغیر میں دو قومی نظریے کی حقانیت کے باوجود بہت سے ثقافتی معاملات یکساں ہیں ۔

حکومت کی جانب سے بھارت کو انتہائی پسندیدہ ملک قرار دینے کے خلاف مذہبی جماعتوں کا اتحاد بنام ''دفاعِ پاکستان کونسل'' وجود میں آ چکا ہے۔

ملک بھر میں اس حکومتی فیصلے کے خلاف طاقت کے مظاہرے کیے جا رہے ہیں اور ہندوستان کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی خاطر باقاعدہ مہم چلائی جا رہی ہے کہ یہ کشمیر کی جدوجہد آزادی کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے دینے والوں کے لہو سے غداری ہے اور اب تک کے ہونے والے مسلم کش فسادات سے بابری مسجد کی شہادت تک کے سانحات پر سمجھوتہ کرنے کے مترادف ہے۔

مزید یہ کہ بھارت کی آبی جارحیت کے حوالے بھی خوب اُجاگر کیے جا رہے ہیں کہ وہاں ڈیم بنا کر ہمیں صحرا بنانے کے انتظامات کیے جا رہے ہیں اور ہم واہگہ کے راستے پیاز لہسن کے ٹرک نہیں آنے دیں گے وغیرہ وغیرہ۔ہندوستان کے پاکستان کے حوالے سے ان تمام معاملات اور مسائل سے مکمل طور پر انکار ممکن نہیں، مگر خطے کی مجموعی صورتحال کو حقائق اور امکانات کے وسیع تناظر بالخصوص مسلمانوں کے حوالے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔

مسلمانوں کی ایک وسیع آبادی پاکستان اور بنگلہ دیش میں جا بسنے کے باوجود آج بھی بھارت میں دنیا کے کسی بھی مسلمان ملک سے زیادہ مسلمان آباد ہیں۔ یوں تو پاکستان خطے بھر کے مسلمانوں کے رہنے کے لیے بنا، مگر اس کے باوجود مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد وہیں رہ گئی۔ قائداعظم نے جس ہندو اکثریت سے نجات کے لیے الگ وطن کا مطالبہ کیا تھا پاکستان بننے کے بعد اب ان کی عددی اقلیت ہندوؤں کے مقابلے میں مزید گھٹ گئی جس کے نتیجے میں متحدہ ہندوستان کے وقت کے مسلمانوں کے مسائل میں بھی اضافہ ہوا اور منقسم ہندوستان کی تاریخ میں قدم قدم پر اس کی مثالیں موجود ہیں۔ یہ کبھی پاک بھارت کشیدگی کی صورت دکھائی دیتی ہے تو کبھی ہندوستان کے اندر مسلمان مخالف واقعے کے نتیجے میں برپا ہوتی ہے۔

ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ برصغیر میں دو قومی نظریے کی حقانیت کے باوجود بہت سے ثقافتی معاملات یکساں ہیں، دونوں قوموں کے تہذیب و تمدن میں تضادات کے باوجود بہت سی اقدار مشترک ہیں جس کی سب سے بڑی واضح ترین مثال اُردو زبان ہے جسے 1947 سے قبل جہاں مسلمانوں کی زبان قرار دیا گیا تو 1947 کے بعد یہ اس ملک کے وڈیروں اور جاگیرداروں نے متنازع بنائی۔ دوسری طرف اب آزاد بھارت کو اس خطے کی سب سے اہم ترین زبان جو سیکڑوں زبان بولنے والوں کے درمیان ایک رابطے کا ذریعہ اور اتحاد کی علامت تھی کو ٹھکانے لگانے کی کھلی آزادی مل گئی۔

اس زبان کی اہمیت سے تو انھیں بھی انکار نہ تھا، مگر مسلمانوں سے ان کا تعصب اور بغض اسے بالجبر ''ہندی'' کرنے کے درپے تھا اور اس کے سیکڑوں الفاظ کے ساتھ اس کی بنیاد یعنی رسم الخط سے زبان کا رشتہ منقطع کرنا چاہتے تھے اور آزادی کے بعد اب مزاحمت کئی گنا گھٹ چکی تھی بلکہ تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی۔ لہٰذا جنگی بنیادوں پر ہندی کے لیے کام کیا گیا اور اُردو کو مسلمانیت کی علامت سمجھ کر بیخ کنی کی گئی گو کہ انھیں پینسٹھ برسوں میں اپنے عزائم میں مکمل کامیابی تو نہ مل سکی، مگر اب اگر ہندوستان میں اُردو کا جائزہ لیا جائے تو انجام کوئی ڈھکا چھپا نہیں رہتا۔

اس کی ایک جھلک یوں دیکھیے کہ لکھنؤ جیسے اُردو کے مرکز میں صورتحال یہ ہے کہ لفظ ''مسجد'' تک دیو ناگری میں لکھا جانے لگا ہے جسے وہاں ہندی قرار دیا جاتا ہے، یعنی نوبت یہاں تک آ چکی ہے کہ لفظ مسجد کا ابلاغ بھی اب اُردو میں مشکل ہو چلا ہے۔ انٹرنیٹ پر اگر ہندوستان کے اُردو اخبارات انقلاب، سیاست اور اُردو ٹائمز کا جائزہ لیں تو واضح طور پر یہ امر نمایاں نظر آتا ہے کہ اُردو اب وہاں کلی طور پر مسلمانوں کا ہی مسئلہ بن چکی ہے کیونکہ ان اخبارات میں مسلمانوں کی چھاپ نہ صرف واضح ہے بلکہ لکھنے والوں، حتیٰ کہ مراسلہ نگاروں تک میں کوئی غیر مسلم نام نہیں ملتا۔


دوسری چیز جسے وہاں کے اُردو اخبارات میں وقتاً فوقتاً نمایاں جگہ ملتی ہے وہ یہی اُردو زبان کے خلاف حکومتی رویہ اور اقدام کے حوالے سے ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اب وہاں اُردو تدریس کے لیے ترغیب دینے والا بھی کوئی نہیں۔ وہاں مسلمانوں کی نئی نسلیں اب اُردو سے نابلد ہیں، وہاں کی تعلیم اور ماحول سے لے کر سارے رنگ ڈھنگ اب ہندی ہو چکے ہیں، اگرچہ وہاں بھی اُردو کے لیے قائم اداروں کو سرکاری امداد ہمارے یہاں سے زیادہ بہتر طریقے سے ملتی ہے، مگر جب اُردو پڑھنے والے نہ رہیں تو پھر یہ کار بے کار کے سوا کچھ نہیں۔

برصغیر اور اُردو کے لازم و ملزوم ہونے کے حوالے سے اہم مثال یہ ہے کہ حال ہی میں بنگلہ دیش میں پریمئر لیگ کے کرکٹ ٹورنانمنٹ کا انعقاد ہوا، جس میں کرکٹ کے بے شمار بین الاقوامی کھلاڑیوں نے حصہ لیا، اس پریمئر لیگ کی افتتاحی تقریب میں بھی اُردو کے گانے بجے، اگرچہ یہ ہندوستانی طائفے نے پیش کیے، لیکن ایک ایسے خطے میں جس نے اپنے استحصال کے ردِعمل میں اُردو زبان کو ہندوستان کی طرح اپنے ہاں سے نکال باہر کیا تھا وہاں چالیس برس بعد بھی اس زبان کی موجودگی نہایت اہم امر ہے۔

صورتحال گو کہ زبان کے حوالے سے اچھی نہیں، مگر پاکستان کے چونکہ بنیادی نظریے میں یہ زبان بھی شامل ہے لہٰذا ہندوستان کو پسندیدہ ملک قرار دینے کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ یہ امر ایک سطح پر اس خطے کے لوگوں بالخصوص مسلمانوں کے ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ جس کے لیے ظاہر ہے زبان کے حوالے سے تحقیق و تدریس کے امور میں تبادلہ خیال، اُردو کتابوں کے تبادلے اور ان کی سستی اور آسان ترسیل کو ممکن بنانا ہو گا۔ یہ امر سرحد کے اس پار کے مسلمانوں کے ثقافتی مستقبل کے لیے ضروری ہے جو کہ براہِ راست ان کے مذہب سے بھی جڑا ہے۔

کشمیر سے لے کر گجرات اور ایودھیا تک ہندوستان کے مسلمان نہایت زبوں حالی کا شکار ہیں اور انھیں ہر دور میں گویا پاکستان بننے کی سزا دی جاتی ہے، اتنے برسوں میں انھوں نے کس کس طرح ہماری آزادی کا خراج ادا نہیں کیا لہٰذا ہندوستان کو پسندیدہ ملک کا درجہ دینے کے مخالفین کو اس پہلو کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔ ہم کیسے نظریاتی مسلمان ملک ہیں کہ اپنے پڑوس میں دنیا کی سب سے بڑی مسلمان آبادی کے تحفظ کی خاطر آج تک خاطر خواہ اقدام نہ کر سکے۔ ہمیں اس سمت میں بھی جائزہ لینا ہو گا کہ ہم کس طرح بھارتی مسلمانوں کے مذہبی و ثقافتی تحفظ کے ضامن اور اس کے لیے معاون ہو سکتے ہیں۔

یہ امر خود ہمارے لیے بھی نہایت سود مند ثابت ہو گا اور ہمیں اپنے ثقافتی و مذہبی مسائل حل کرنے میں خاطر خواہ مدد ملے گی کیونکہ وہاں ہر دو طرح کے اچھے مراکز بہرحال موجود ہیں۔بدقسمتی سے بھارت سے تعلقات کے حوالے سے دو طرح کی انتہائیں نظر آتی ہیں کہ وہ جو گویا اسے ملیا میٹ کر دینے کے در پے ہوں، دوم وہ جو ایسے آپے سے باہر ہوتے ہیں کہ اپنی روایات و اقدار سے لے کر ساری تاریخ چھوڑ کر سرحدیں مٹانے کی باتیں کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ درمیانہ اور حقیقت پسندانہ راستہ نکالا جائے اور معاملات میں توازن رکھا جائے تاکہ خطے میں امن بھی ہو اور لوگوں کے مسائل حل ہوں۔

اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ ہم ایک الگ ملک ہیں، جس کا طویل تاریخی پس منظر اور اپنا نظریہ ہے، خواہ مخواہ کے مملکت کے جواز کا بحران کے ڈھنڈورے پیٹ کر ''روشن خیالی'' کے سودے نہ بیچے جائیں، دوسری طرف بھارت مخالف سوچ رکھنے والوں کے جن تحفظات کا ذکر ابتدا میں کیا گیا کے بارے میں بھی قطعاً دو رائے نہیں ہیں، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے لیے کیا اقدام کیے اور 1947 تا حال تعلقات کے دور میں اپنے ملک اور بالخصوص اس خطے میں دونوں اطراف بسنے والوں کے مشترک مسائل اور معاملات میں کیا حاصل کیا؟ ہم سے کئی گنا زیادہ مسائل کے باوجود بھارت قائم ہے جب کہ ہم فقط چوبیس برس میں اپنے اکثریتی علاقے سے ہاتھ دھو بیٹھے، جہاں تک بات ہے کشمیر اور دیگر متنازع امور کی، تو ان کی حیثیت پر ہمارا اصول پسندانہ نقطہ نظر اپنی جگہ قائم ہے۔

دریاؤں کا پانی روکنے اور ڈیم بنانے کے معاملے کا جائزہ لیں تو ظاہر ہے ہر ملک اپنے عوام کے لیے ایسے اقدام کر ہی جاتا ہے، قابل ذکر امر یہ ہے کہ ہم نے کتنے ڈیم بنائے اور مستقبل کے لیے کیا پیش بینی کی؟ ہم صرف تصویر کا ایک رُخ دکھا کر پروپیگنڈہ نہیں کر سکتے، متنازع امور اور اختلافات اپنی جگہ، لیکن مشترکہ ثقافتی و مذہبی امور بھی قائم ہیں اور ہم کچھ بھی کر لیں دونوں ممالک کی سرحدیں ملی ہوئی ہیں لہٰذا باہمی مفادات کے حصول سے بے توجہ ہونا دانشمندی نہیں وہ بھی ایسی صورت میں کہ جب آپ کا فائدہ زیادہ ہو۔ بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے مخالفین خود کو اسلام کا جری سپاہی سمجھتے ہیں۔

ذرا یہ سوچیں کہ وہاں ہمارے ملک سے زیادہ مسلمان بستے ہیں، ہم نے اپنی سابقہ روش کے نتیجے میں انھیں کیا دیا؟ انھوں نے تو ہماری آزادی کی ہر قیمت ادا کی، مگر ہم اپنی آزادی کا اصل مقصد ہی حاصل نہ کر سکے، ان کے لیے کچھ کرنے کی توقع ہی عبث ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سرحد کے اس پار بسنے والے مسلمانوں کی ہی خاطر اپنے مؤقف میں توازن پیدا کریں، تاہم اس کے بعد اگر ہماری مقتدر اشرافیہ کوئی غلطی یا غفلت کرتی ہے تو اس پر احتجاج کیا جا سکتا ہے، لیکن اس غفلت اور بگاڑ کے جواز پر مخالفت برائے مخالفت کرنا مناسب نہیں۔
Load Next Story