میں نہ کہتا تھا ایک ہوجاؤ
نوشہرو فیروز سندھ کے وڈیرے محمد بخش سمیجو کی پجیرو سے مزدور بھائیوں کی گدھا گاڑی ٹکرا گئی۔
نوشہرو فیروز سندھ کے وڈیرے محمد بخش سمیجو کی پجیرو سے مزدور بھائیوں کی گدھا گاڑی ٹکرا گئی۔ پجیرو کو خراشیں آگئیں، ڈینٹ پڑگیا۔ وڈیرے کا پارا آسمان پر چڑھ گیا، اس نے مزدور بھائیوں کو مارنا شروع کردیا، مزدور بھائی مار کھاتے رہے، پھر وڈیرا مزدور بھائیوں کو اپنے ڈیرے پر لے آیا، وڈیرے نے جرگہ بٹھایا، جرگے نے فیصلہ دیا کہ دونوں مزدور بھائی وڈیرے کا جوتا اپنے منہ میں ڈالیں، دانتوں سے پکڑیں اور وڈیرے کے پیروں میں گر کر معافی مانگیں۔ یہ واقعہ گزر گیا، کہیں کسی کو خبر نہ ہوئی حتیٰ کہ اٹھارہ دن گزر گئے۔
شاید وڈیرے محمد بخش سمیجو کی تسلی نہیں ہوئی تھی۔ اس کا کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا، اسی لیے جرگے کے فیصلے کی فلم انٹرنیٹ پر جاری کردی گئی۔ اب تو ساری دنیا نے وڈیرے کا جاہ و جلال دیکھ لیا۔ جالب نے ایسے ہی ایک بڑے واقعے کو شاعری بنایا تھا، جب ایک پاکستانی اداکارہ کو شاہ ایران کے سامنے رقص کرنے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔ یہ فیلڈ مارشل ایوب خان کا دور حکومت تھا، پوری نظم تو نہیں لکھوں گا بس چار مصرعے، جو وڈیرے محمد بخش سمیجو کے اپنے ظلم کی ویڈیو جاری کرنے کی وجہ بتا رہے ہیں۔
لوگ اس منظر جاں کاہ کو جب دیکھیں گے
اور بڑھ جائے گا کچھ سطوتِ شاہی کا جلال
تیرے انجام سے ہر شخص کو عبرت ہوگی
سر اٹھانے کا رعایا کو نہ آئے گا خیال
یعنی آیندہ کوئی مزدور کمی، سائیں کی پجیرو سے نہیں ٹکرائے گا اور اگر ٹکرایا تو اس کا اس سے بدتر انجام ہوگا۔ یہ بھی خبر ہے کہ یہ چار عدد وڈیرے بھائی ہیں، دو پیپلزپارٹی میں ہیں، اور دو مسلم لیگ (ن) میں یعنی پٹ بھی اپنی اور چت بھی اپنی۔ ''ثنا خوان تقدیس سندھ'' کہاں ہیں! قوم پرست کہاں ہیں! جی ایم سید والے کہاں ہیں! ڈاکٹر قادر مگسی، ڈاکٹر دودو مہری، ایاز لطیف پلیجو کہاں ہیں! کہیں کوئی احتجاج نہیں۔
اس لعنتی عمل پر کہیں کوئی مذمتی بیان نہیں۔ یارو! اس وڈیرا شاہی کے خلاف ایک مشترکہ جلوس حیدرآباد سے نوشہروفیروز تک چلتا ہوا جاتا اور پھر وہاں سرخ جھنڈا بردار جلسہ ہوتا۔ مگر کچھ نہیں ہوا۔ خیرپور کے وڈیرے قائم علی شاہ نے وڈیرے محمد بخش سمیجو کو فوری طور پر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔ تھانے میں مقدمہ درج ہوگیا ہے۔ مقدمے کا فیصلہ کیا ہوگا؟ وہی ہوگا جو 1947 سے آج تک درج ہونے والے مقدمات کا ہوا ہے۔
یہ واقعات ہوتے رہیں گے۔ یہ تو وہ چند واقعات ہیں جو منظر عام پر آجاتے ہیں۔ بے شمار چیخیں تو دور دور وہیں جاگیروں کے اندر ہی دم توڑ جاتی ہیں اور کسی کو پتا بھی نہیں چلتا اور ''ہم'' جو انسانیت کے علم بردار بنے ہوئے ہیں، ہمارے اختلافات ہی ختم ہونے میں نہیں آرہے۔ ترقی پسند مصنفین دو حصوں میں تقسیم، مزدور تنظیمیں بے شمار دھڑوں میں تقسیم۔ ترقی پسند سڑک پر آنے کو تیار نہیں۔ جب کہ تاریخ بتاتی ہے کہ وقت پڑنے پر ترقی پسندوں نے بندوقیں اٹھا کر محاذ جنگ پر انسان دشمنوں کا مقابلہ کیا ہے۔ شاید ہم آج کے ترقی پسندوں نے ترجیحات بدل لی ہیں۔ غالباً قتیل شفائی کا مصرعہ ہے ''تائید ستمگر ہے، چپ رہ کے ستم سہنا''۔
سندھ اور پنجاب میں جانا ہوتا رہتا ہے۔ اب تو کراچی میں عرصہ دراز ہوا ''شہری وڈیرے'' پیدا ہوچکے ہیں۔ لوٹ مار، قتل، ڈاکے، کیسے کیسے اچھے انسان ان ''شہری وڈیروں'' نے مروا دیے، گاؤں گوٹھوں میں غریب مزدور ہاری کسان گونگا بہرہ اندھا ہے۔ اور شہر میں بھی یہی عالم ہے بلکہ اس سے بدتر حال ہے۔
یارو! اب تو فیصلے کی گھڑی آن پہنچی، اب تو اپنی ترجیحات بدلو۔ دیکھ رہے ہو! سارے ڈاکو، لٹیرے، بدمعاش ایک ہوگئے ہیں، یہ اسمبلیوں میں جعلی دنگا فساد کرتے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف تقریریں کرتے ہیں، شعبدے بازیاں دکھاتے ہیں اور جب ممبران اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا بل پیش کیا جاتا ہے تو کیا حزب اقتدار، کون حزب اختلاف۔ سب متفقہ طور پر تنخواہوں اور مراعات میں دس گنا اضافے کا بل پاس کرلیتے ہیں۔ یہ سبھی ڈیسک کے طبلے بجاتے گاتے نظر آتے ہیں، سب مل کر کورس کے انداز میں گاتے ہیں، ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کے:
غلط ہیں سب یہ فاصلے
ہے دور کیا قریب کیا
گلے میں ''اختلاف'' کی
یہ میری جاں، صلیب کیا
ہم ایک ہیں
ہم ایک ہیں
جم خانوں میں دیکھ لو، یہ ایک ہیں، ابھی کل اسلام آباد میں کسی بڑے ہوٹل میں یہ سب ''ایک'' نظر آئے۔ ہمارے مستقبل کا ''خیرخواہ'' عمران خان پہلے سے ہوٹل میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا تھا کہ حکومت والے ایاز صادق، رانا تنویر ودیگر اسی ہوٹل میں داخل ہوئے۔ دونوں گروپوں نے ہاتھ ہلاکر مسکراہٹوں کا تبادلہ کیا اور ''ہم ایک ہیں'' کا زبردست مظاہرہ کیا۔ بس ہم مظلوموں میں بھی یہ اتحاد قائم ہوجائے تو بڑا اچھا ہوجائے۔ جو ''ظالم'' نہیں چاہتے۔
غریبوں کے لیے حالات بد سے بدتر ہوتے ہوتے آخری حدوں تک آگئے ہیں۔ برائے نام اسپتال کہلانے والے اسپتالوں میں غریبوں کے لیے دوائیں نہیں ہیں غریبوں کے بچے حفاظتی ٹیکوں سے محروم ہیں، خسرہ، تشنج، ٹی بی، ہیپاٹائٹس اے، بی کے ٹیکے نہیں ہیں۔ بس پولیو پر بڑا زور ہے ابھی صبح ہی ایک چینل کے صبح کی نشریات میں اسپتالوں کی یہ صورتحال بیان کی گئی ہے اور اس کے مقابل ہمارے حکمران گزشتہ ایک ماہ میں دوسری مرتبہ اپنا طبی معائنہ کرانے لندن گئے ہیں۔ آصف زرداری کا مرض بھی باہر والا ہی ہے۔
پانامہ اور آف شور کمپنیوں کے بارے میں حکومتی اور غیر حکومتی کمیٹی کے تین اجلاس ہوچکے، رپورٹ ہے کہ ڈیڈلاک پیدا ہوگیا ہے۔ حکومت کا مطالبہ ہے کہ وزیراعظم کا نام نکال دو، دوسرا سعودیہ سے جو مخالف ملے ہیں، ان کے بارے میں پوچھ گچھ نہ ہو۔ اپوزیشن نے یہ دونوں باتیں مان لی ہیں مگر ساتھ ساتھ اپوزیشن نے یہ شوشا چھوڑا ہے کہ حسین، حسن اور مریم کے والدین کا نام تو ضرور رکھا جائے۔ میں نے لفظ شوشا اس لیے استعمال کیا ہے کہ زبان خلق کہہ رہی ہے کہ ہونا ہوانا کچھ نہیں، اور اسی کو نقارہ خدا کہا جاتا ہے۔
وہ ایک بار ایسا ہوا تھا کہ صدیوں کے گھیراؤ کو توڑ دیا گیا تھا۔ یہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو تھا۔ جس کی طلسماتی شخصیت کا جادو ایسا سر چڑھ کر بولا تھا کہ مختار رانا نے چوک گھنٹہ گھر فیصل آباد میں عوامی عدالت قائم کردی۔ مزدوروں نے ملوں پر قبضہ کرلیا، مل مالکان کا داخلہ بند کردیا گیا۔ فیض کے مصرعے نظر آنے لگے، بڑے بڑے تخت الیکشن میں گرا دیے گئے، تاج اچھالے گئے اور خلق خدا کا راج نظر آنے لگا مگر ''مجرم زمانہ'' آخر غالب آگیا اور اسی نے بھٹو کو دار پر کھنچوا دیا۔ بہت سی کوتاہیاں ''ادھر'' سے بھی ہوئیں۔ اس وقت جالب نے یہ مصرعے لکھے تھے وہ جب صدیوں کا گھیرا مظلوموں نے توڑ دیا تھا۔
صدیوں سے گھیراؤ میں ہم تھے ہمیں بچانے کوئی نہ آیا
کچھ دن ہم نے گھیرا ڈالا، ہر ظالم نے شور مچایا
پھر ہم نے زنجیریں پہنیں، ہر سو پھیلا چپ کا سایا
پھر توڑیں گے ہم زنجیریں، ہر لب کو آزاد کریں گے
جان پہ اپنی کھیل کے پھر ہم شہر وفا آباد کریں گے
آخر کب تک چند گھرانے لوگوں پر بیداد کریں گے
شاید وڈیرے محمد بخش سمیجو کی تسلی نہیں ہوئی تھی۔ اس کا کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا، اسی لیے جرگے کے فیصلے کی فلم انٹرنیٹ پر جاری کردی گئی۔ اب تو ساری دنیا نے وڈیرے کا جاہ و جلال دیکھ لیا۔ جالب نے ایسے ہی ایک بڑے واقعے کو شاعری بنایا تھا، جب ایک پاکستانی اداکارہ کو شاہ ایران کے سامنے رقص کرنے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔ یہ فیلڈ مارشل ایوب خان کا دور حکومت تھا، پوری نظم تو نہیں لکھوں گا بس چار مصرعے، جو وڈیرے محمد بخش سمیجو کے اپنے ظلم کی ویڈیو جاری کرنے کی وجہ بتا رہے ہیں۔
لوگ اس منظر جاں کاہ کو جب دیکھیں گے
اور بڑھ جائے گا کچھ سطوتِ شاہی کا جلال
تیرے انجام سے ہر شخص کو عبرت ہوگی
سر اٹھانے کا رعایا کو نہ آئے گا خیال
یعنی آیندہ کوئی مزدور کمی، سائیں کی پجیرو سے نہیں ٹکرائے گا اور اگر ٹکرایا تو اس کا اس سے بدتر انجام ہوگا۔ یہ بھی خبر ہے کہ یہ چار عدد وڈیرے بھائی ہیں، دو پیپلزپارٹی میں ہیں، اور دو مسلم لیگ (ن) میں یعنی پٹ بھی اپنی اور چت بھی اپنی۔ ''ثنا خوان تقدیس سندھ'' کہاں ہیں! قوم پرست کہاں ہیں! جی ایم سید والے کہاں ہیں! ڈاکٹر قادر مگسی، ڈاکٹر دودو مہری، ایاز لطیف پلیجو کہاں ہیں! کہیں کوئی احتجاج نہیں۔
اس لعنتی عمل پر کہیں کوئی مذمتی بیان نہیں۔ یارو! اس وڈیرا شاہی کے خلاف ایک مشترکہ جلوس حیدرآباد سے نوشہروفیروز تک چلتا ہوا جاتا اور پھر وہاں سرخ جھنڈا بردار جلسہ ہوتا۔ مگر کچھ نہیں ہوا۔ خیرپور کے وڈیرے قائم علی شاہ نے وڈیرے محمد بخش سمیجو کو فوری طور پر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔ تھانے میں مقدمہ درج ہوگیا ہے۔ مقدمے کا فیصلہ کیا ہوگا؟ وہی ہوگا جو 1947 سے آج تک درج ہونے والے مقدمات کا ہوا ہے۔
یہ واقعات ہوتے رہیں گے۔ یہ تو وہ چند واقعات ہیں جو منظر عام پر آجاتے ہیں۔ بے شمار چیخیں تو دور دور وہیں جاگیروں کے اندر ہی دم توڑ جاتی ہیں اور کسی کو پتا بھی نہیں چلتا اور ''ہم'' جو انسانیت کے علم بردار بنے ہوئے ہیں، ہمارے اختلافات ہی ختم ہونے میں نہیں آرہے۔ ترقی پسند مصنفین دو حصوں میں تقسیم، مزدور تنظیمیں بے شمار دھڑوں میں تقسیم۔ ترقی پسند سڑک پر آنے کو تیار نہیں۔ جب کہ تاریخ بتاتی ہے کہ وقت پڑنے پر ترقی پسندوں نے بندوقیں اٹھا کر محاذ جنگ پر انسان دشمنوں کا مقابلہ کیا ہے۔ شاید ہم آج کے ترقی پسندوں نے ترجیحات بدل لی ہیں۔ غالباً قتیل شفائی کا مصرعہ ہے ''تائید ستمگر ہے، چپ رہ کے ستم سہنا''۔
سندھ اور پنجاب میں جانا ہوتا رہتا ہے۔ اب تو کراچی میں عرصہ دراز ہوا ''شہری وڈیرے'' پیدا ہوچکے ہیں۔ لوٹ مار، قتل، ڈاکے، کیسے کیسے اچھے انسان ان ''شہری وڈیروں'' نے مروا دیے، گاؤں گوٹھوں میں غریب مزدور ہاری کسان گونگا بہرہ اندھا ہے۔ اور شہر میں بھی یہی عالم ہے بلکہ اس سے بدتر حال ہے۔
یارو! اب تو فیصلے کی گھڑی آن پہنچی، اب تو اپنی ترجیحات بدلو۔ دیکھ رہے ہو! سارے ڈاکو، لٹیرے، بدمعاش ایک ہوگئے ہیں، یہ اسمبلیوں میں جعلی دنگا فساد کرتے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف تقریریں کرتے ہیں، شعبدے بازیاں دکھاتے ہیں اور جب ممبران اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا بل پیش کیا جاتا ہے تو کیا حزب اقتدار، کون حزب اختلاف۔ سب متفقہ طور پر تنخواہوں اور مراعات میں دس گنا اضافے کا بل پاس کرلیتے ہیں۔ یہ سبھی ڈیسک کے طبلے بجاتے گاتے نظر آتے ہیں، سب مل کر کورس کے انداز میں گاتے ہیں، ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کے:
غلط ہیں سب یہ فاصلے
ہے دور کیا قریب کیا
گلے میں ''اختلاف'' کی
یہ میری جاں، صلیب کیا
ہم ایک ہیں
ہم ایک ہیں
جم خانوں میں دیکھ لو، یہ ایک ہیں، ابھی کل اسلام آباد میں کسی بڑے ہوٹل میں یہ سب ''ایک'' نظر آئے۔ ہمارے مستقبل کا ''خیرخواہ'' عمران خان پہلے سے ہوٹل میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا تھا کہ حکومت والے ایاز صادق، رانا تنویر ودیگر اسی ہوٹل میں داخل ہوئے۔ دونوں گروپوں نے ہاتھ ہلاکر مسکراہٹوں کا تبادلہ کیا اور ''ہم ایک ہیں'' کا زبردست مظاہرہ کیا۔ بس ہم مظلوموں میں بھی یہ اتحاد قائم ہوجائے تو بڑا اچھا ہوجائے۔ جو ''ظالم'' نہیں چاہتے۔
غریبوں کے لیے حالات بد سے بدتر ہوتے ہوتے آخری حدوں تک آگئے ہیں۔ برائے نام اسپتال کہلانے والے اسپتالوں میں غریبوں کے لیے دوائیں نہیں ہیں غریبوں کے بچے حفاظتی ٹیکوں سے محروم ہیں، خسرہ، تشنج، ٹی بی، ہیپاٹائٹس اے، بی کے ٹیکے نہیں ہیں۔ بس پولیو پر بڑا زور ہے ابھی صبح ہی ایک چینل کے صبح کی نشریات میں اسپتالوں کی یہ صورتحال بیان کی گئی ہے اور اس کے مقابل ہمارے حکمران گزشتہ ایک ماہ میں دوسری مرتبہ اپنا طبی معائنہ کرانے لندن گئے ہیں۔ آصف زرداری کا مرض بھی باہر والا ہی ہے۔
پانامہ اور آف شور کمپنیوں کے بارے میں حکومتی اور غیر حکومتی کمیٹی کے تین اجلاس ہوچکے، رپورٹ ہے کہ ڈیڈلاک پیدا ہوگیا ہے۔ حکومت کا مطالبہ ہے کہ وزیراعظم کا نام نکال دو، دوسرا سعودیہ سے جو مخالف ملے ہیں، ان کے بارے میں پوچھ گچھ نہ ہو۔ اپوزیشن نے یہ دونوں باتیں مان لی ہیں مگر ساتھ ساتھ اپوزیشن نے یہ شوشا چھوڑا ہے کہ حسین، حسن اور مریم کے والدین کا نام تو ضرور رکھا جائے۔ میں نے لفظ شوشا اس لیے استعمال کیا ہے کہ زبان خلق کہہ رہی ہے کہ ہونا ہوانا کچھ نہیں، اور اسی کو نقارہ خدا کہا جاتا ہے۔
وہ ایک بار ایسا ہوا تھا کہ صدیوں کے گھیراؤ کو توڑ دیا گیا تھا۔ یہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو تھا۔ جس کی طلسماتی شخصیت کا جادو ایسا سر چڑھ کر بولا تھا کہ مختار رانا نے چوک گھنٹہ گھر فیصل آباد میں عوامی عدالت قائم کردی۔ مزدوروں نے ملوں پر قبضہ کرلیا، مل مالکان کا داخلہ بند کردیا گیا۔ فیض کے مصرعے نظر آنے لگے، بڑے بڑے تخت الیکشن میں گرا دیے گئے، تاج اچھالے گئے اور خلق خدا کا راج نظر آنے لگا مگر ''مجرم زمانہ'' آخر غالب آگیا اور اسی نے بھٹو کو دار پر کھنچوا دیا۔ بہت سی کوتاہیاں ''ادھر'' سے بھی ہوئیں۔ اس وقت جالب نے یہ مصرعے لکھے تھے وہ جب صدیوں کا گھیرا مظلوموں نے توڑ دیا تھا۔
صدیوں سے گھیراؤ میں ہم تھے ہمیں بچانے کوئی نہ آیا
کچھ دن ہم نے گھیرا ڈالا، ہر ظالم نے شور مچایا
پھر ہم نے زنجیریں پہنیں، ہر سو پھیلا چپ کا سایا
پھر توڑیں گے ہم زنجیریں، ہر لب کو آزاد کریں گے
جان پہ اپنی کھیل کے پھر ہم شہر وفا آباد کریں گے
آخر کب تک چند گھرانے لوگوں پر بیداد کریں گے