تاریخ کے دو سبق بنام جاوید چوہدری صاحب
تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ’تاریخ کے ان دو اسباق‘ کو پاکستان کے تناظر میں سو فی صد درست سمجهنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔
محترم جاوید چوہدری صاحب نے 29 مئی 2016 بروز اتوار اپنے کالم میں متعدد تاریخی حقائق کا انبار لگا کر ان سے اپنی مرضی کے درج ذیل نتائج اخذ کئے۔
جناب چوہدری صاحب یہاں تک پہنچ کر رک جاتے تو بهی ان کا موقف کسی حد تک قابل قبول ہوتا مگر انہوں نے اس سے آگے بڑھ کر ان دو نتائج کو پاکستان کے لئے تاریخ کے دو اسباق کے طور پر پیش کردیا اور قوم کو یہ باور کروانے کی بهرپور کوشش کی کہ یہ دو اسباق پاکستان پر من و عن لاگو ہوتے ہیں اس لئے،
ورنہ پاکستان کا انجام وہی ہوگا جو ماضی کی تمام فوجی و مذہبی ریاستوں کا ہوا۔ بصد احترام، چوہدری صاحب کے اس کالم پر راقم کو کئی جگہ اختلاف ہے۔ ماضی کے جن بادشاہوں، فرماں رواوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کی تاریخ، مقاصد حیات اور ان کو درپیش حالات یکسر مختلف تهے جبکہ پاکستان کی تاریخ، پاکستان بننے کا مقصد اور پاکستان کے موجودہ معروضی حالات یکسر الگ نوعیت کے ہیں۔ اس حقیقت کو مدنطر رکهتے ہوئے تاریخ کے ان دو اسباق کو پاکستان کے تناظر میں سو فی صد درست سمجهنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔
پاکستان کی آزادی کا مقصد ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تها، جس میں مسلمان اور تمام دوسرے مذاہب کے لوگ اسلام کے اصولوں کے عین مطابق پُرامن زندگی گزار سکیں۔ اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے مسلمانوں نے بے داغ قائدین کے زیر قیادت کئی سال جدوجہد کی اور لاکهوں بے گناہوں کے لہو میں ڈوبی ہوئی ہجرت کے بعد یہ وطن عزیز حاصل ہوا۔
آئیے پہلے چند فوجی ریاستوں کا ذکر کرتے ہیں۔
ہیرلڈ لیم کی چنگیز خان (تموچن) پر لکهی گئی مشہور کتاب کے مطابق چنگیز خان ایک جنگجو تها جو تپتے ہوئے صحرائے گوبی اور اس کے اطراف سے صرف اپنے اور اپنے قبیلے کے تحفظ اور غلبے کی خاطر اٹها اور قلیل عرصے میں اس وقت کی چینی سلطنت سمیت آدهی دنیا کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ وہ ایک ناخواندہ، بے رحم، دلیر اور طاقتور انسان تها۔ ملکوں کو فتح کرنا، مفتوح اور غیر مسلح انسانوں کا لہو بہانا یا انہیں زندہ جلانا اسکا محبوب مشغلہ تها۔ وہ نہ تو کوئی مصلح تها، نہ انسانوں کی فلاح اسکا مقصد تها، نہ ایک فلاحی ریاست بنانا اسکا مطمع نظر تها اور نہ ہی اپنی سلطنت کو دوام بخشنا اس کا خواب تها۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے سوائے چند ایک کامیاب جنگی حکمت عملی کے کوئی نظام وضع نہیں کیا، اور نہ ہی اپنے پیچهے رہ جانے والوں کیلئے کسی قسم کے نظریات چهوڑ گیا جس کی پیروی کی جاتی اور اسکی بنائی گئی سلطنت صدیوں چلتی رہتی۔
ایسی سلطنت کا فنا ہونا ایک منطقی سی بات ہے، مگر اس کے فانی ہونے کی وجہ یہ ہرگز نہیں ہے کہ چنگیز خان ایک فوجی تها اور اسکی حکومت ایک فوجی حکومت تهی، اس لئے وہ دیرپا ثابت نہ ہوسکی جیسا کہ چوہدری صاحب نے استدلال کیا ہے۔
امیر تیمور لنگ اگرچہ مسلمان تها مگر بنیادی طور پر ایک ڈاکو تها۔ اس کا کوئی ایک ٹهکانہ نہیں تها۔ گردش دوراں نے اسے جنگجو بنا دیا اور پهر اسے ایسے حالات میسر آئے کہ اسکی خداداد صلاحیتیں بروئے کار آئیں اور وہ بادشاہوں کا بادشاه بن گیا۔ ایک عظیم بادشاه اس کا مقصد حیات بهی روایتی بادشاہوں سا تها۔ غلبہ و اقتدار کا حصول، دولت کے انبار، تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہنے کی بد ترین اور شدید ترین خواہش۔ ملکوں کے ملک اس لئے تهوڑی تاراج کرتا تها کہ اسے ان ممالک کی عوام کی خوشحالی مقصود تهی۔ جنگ کرتا، سلطنت میں توسیع کرتا، مفتوحہ علاقے میں حاکم مقرر کرتا، مختصر فوج تعینات کرتا اور آگے بڑھ جاتا۔ اس کے جانشین جو اس کی زندگی کے ہر لمحہ کے گواه ہیں انہوں نے اس سے وہی سیکها جو امیر تیمور کیا کرتا تها۔ امیر کے گزر جانے کے بعد جانشینوں نے بهی امور سلطنت اسی مقصد کو مدنظر رکھ کر چلانے کی کوشش کی مگر نااہلی کے سبب ناکام ہوئے اور سلطنت قصہ پارینہ بن گئی۔
امیر تیمور کی سلطنت کے زوال کی وجہ یہ ہرگز نہ تهی کہ وہ ایک فوجی تها اور اسکی حکومت ایک فوجی حکومت تهی۔ زوال کی اصل وجوہات اور ہیں جن پر پوری ایک کتاب لکهی جاسکتی ہے۔
سکندر اعظم اور دوسرے بادشاہوں کے مقاصد حیات اور مقاصد فتوحات بهی تقریباً وہی تهے جو چنگیز خان اور امیر تیمور لنگ کے تهے اور ان سب کی سلطنتوں کے زوال کی وجہ نہ تو ان کا فوجی ہونا تها اور نہ ہی حکومت کا ایک فوجی حکومت ہونا تها۔
ہٹلر کی ناکامی کی واحد وجہ عالمی طاقتوں کا ایٹم بم سے لیس ہونا اور اس کا ظالمانہ استعمال تها ورنہ تاریخ گواه ہے کہ ہٹلر کی پوری قوم اس فوجی کی فوجی حکومت کی پشت پر ثابت قدمی سے کهڑی تهی اور دنیا کی کوئی طاقت جرمنی کی اس فوجی حکومت کو فتح حاصل کرنے سے روک نہیں سکتی تهی.
جو شکست ایٹمی حملے کے سبب ہوئی اس شکست کا سبب چوہدری صاحب فوجی حکومت اور فوجی سربراه بتا رہے ہیں۔ یہاں پہنچ کر میں قارئین کو دعوت فکر دیتا ہوں کہ سوچئے بهلا ان فوجی حکومتوں کے زوال سے یہ نتیجہ کیسے نکالا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں فوجی حکومت کامیاب نہیں ہوسکتی؟ آپ فوجی حکومت کے خلاف بات ضرور کریں مگر استدلال کرتے وقت ایسے حقائق پیش کریں جو ہمارے حالات سے مطابقت رکهتے ہوں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت اللہ کی عطا کردہ حکومت تهی جو کہ ایک معجزہ کے مصداق تهی۔ وہ حکومت اللہ تعالیٰ نے وقت مقررہ کے بعد واپس لے لی۔ اس حکومت کا مقصد یہ تها ہی نہیں کہ اس سلطنت کو دوام ملے یا حضرت سلیمان علیہ السلام کے جانے کے بعد ایک اور ایسا ہی بادشاه حکومت چلائے اور یہ نظام صدیوں یوں ہی چلتا رہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت کے ختم ہوجانے سے یہ استدلال کس قدر مبالغہ آمیز اور گمراه کن ہے کہ مذہبی ریاست کا وجود دیر پا نہیں ہوتا۔
آپ نے حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حکومتوں کا ذکر کیا۔ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ ان جلیل القدر انبیاء نے حکومتیں تشکیل دی ہی نہیں تهیں تو ان مذہبی حکومتوں کے تحلیل ہوجانے کا کیا سوال؟ اور پهر اس بنیاد پر یہ استدلال کیسا کہ مذہبی حکومتیں کبهی نہیں چل سکتیں؟
آپ نے کہا کہ ہماری اسلامی ریاست کی کل تاریخ چار خلفاء راشدین اور حضرت عمر بن عبدالعزیز تک محدود ہے اور یہ پانچ عظیم ہستیاں بهی اندرونی محاذوں پر لڑتی رہیں۔
آپ مدینہ منورہ میں حضرت محمد صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور حکومت کو اسلامی ریاست کی تاریخ سے باہر سمجهتے ہیں؟
اگر آپ کی یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ مذہب کی بنیاد پر ریاست کی تشکیل ایک حماقت ہے کیونکہ یہ تاریخ کا سبق ہے اور جو تاریخ سے سبق نہ سیکهے اور نئے سرے سے پہیہ ایجاد کرے وہ احمق ہے تو آپ یہ بتائیے کہ،
ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ میں جس ریاست کی بنیاد رکهی تهی، کیا وہ مذہبی ریاست نہیں تهی؟ کیا اس ریاست کی بنیاد مذہب پر نہیں رکهی گئی تهی؟
کیا ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں اسلامی ریاست کی بنیاد رکهتے وقت نعوذ باللہ اس حقیقت سے ناواقف تهے، جس حقیقت سے آپ 10 ہزار سالہ ریکارڈ یافتہ انسانی تاریخ پڑھ کر واقف ہوگئے ہیں کہ مذہبی ریاستیں جلد اپنا وجود کهو بیٹهتی ہیں۔
خلفاء راشدین کا دور ایک سنہری تاریخ ہے۔ اگرچہ مسلمان اس دور میں فتوحات کے ساتھ ساتھ داخلی شورشوں سے بهی نبرد آزما رہے، مگر بلاشبہ یہ اسلام کی بطور ایک نظام زندگی اور بطور ایک نظام حکومت درخشندہ مثال تهی جو آج بهی ہمارے لئے مشعل راه ہے۔
آپ کے علم میں ہے کہ اس خلافت راشدہ کے قابل تقلید دور میں چاروں خلفاء راشدین فوجی اور سپہ سالار تهے اور خالصتاً مذہبی اسلامی ریاست کے نمائندہ تهے۔ اس دور میں کیا ترقی نہیں ہوئی؟ کیا انصاف نہیں ملا؟ کیا فتوحات نہیں ہوئیں؟ کیا مال غنیمت نہیں ملا، کیا خوشحالی نہیں تهی؟
راقم حیران ہے کہ آپ کیسے مذہبی اسلامی ریاستوں پر ناپائیدار ہونے کی قدغن لگا سکتے ہیں اور کیسے مذہبی اسلامی ریاستوں کے قیام کے خلاف ہوسکتے ہیں؟
آپ نے یہ بهی کہا کہ جس دن بهارت کو ہندوستان ڈکلئیر کردیا گیا اس دن یہ ملک ختم ہوجائے گا، اور یہ قائم و دائم اسی لئے ہے کہ یہ سیکولر ہے۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کی بقاء بهی اسی میں ہے کہ اسے سیکولر ڈکلئیر کردیا جائے ورنہ مذہبی اسلامی ریاست کا مقدر تو ہے ہی تباہی۔
آپ نے طالبان کی حکومت کے خاتمے کی واحد وجہ یہ بیان کی کہ وہ ایک مذہبی اسلامی ریاست تهی حالانکہ یہ درست نہیں۔ طالبان کی ظالمانہ اور ناقص سفارتی حکمت عملی، پاکستان سمیت تمام مسلمان ہمسایہ ممالک کا دشمن سے تعاون، جدید جنگی ہتهیاروں کی عدم دستیابی، طالبان کے خلاف مضبوط عالمی اتحاد اور دیگر عوامل اس مذہبی اسلامی ریاست کی تباہی کا باعث بنے۔
علاوہ ازیں یہ حقیقت بهی اب طشت از بام ہوچکی کہ نائن الیون ایک سازش تهی جس کے ذریعے عالمی طاقتوں کا مقصد اس خطے میں مستقل قدم جمانا اور مذہبی اسلامی ریاست کے وجود کو مٹانا تها کیونکہ عالمی طاقتیں اس بات سے واقف ہیں کہ اگر کوئی اسلامی ریاست، مذہب اسلام پر 50 فیصد بهی عملدرآمد کروا دے تو اسے عالمی اجارہ داری حاصل کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نوزائیدہ مذہبی اسلامی ریاست کو مٹا دیا گیا جو اگر قائم رہتی تو بتدریج اپنی بہت ساری خامیوں پر قابو پا سکتی تهی۔
نہ تو فوجی حاکم غلط ہے، نہ فوجی حکومتیں غلط ہیں نہ مذہبی اسلامی ریاستیں غلط ہیں۔ کہیں مصطفی کمال اتاترک جیسے فوجی ملک کے باگ دوڑ سنبهال کر قوم کی تقدیر بدل دیتے ہیں۔ آپ فوجی حکومت کو برا بهلا نہ کہیں، بدقسمتی یہ نہیں کہ چار بار اس ملک پر فوجی حکومتیں قائم ہوئیں، بلکہ بدقسمتی تو یہ ہے کہ ایک بار بهی اچها فوجی حکمران نہ ملا۔ ہر فوجی حکمران نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے سیاستدان ساتھ ملائے، کچھ نے تو سیاستدان بنائے بهی، اپنی حکمرانی کو جائز قرار دینے کیلئے سیاسی پارٹیاں بنائیں، انکی سر پرستیاں کیں اور وہ سب کچھ کیا جو ایک بدعنوان سیاستدان کرتا ہے حتیٰ کہ ملک دشمنی اور اقتدار کی ہوس میں انہوں نے اپنے اور سیاستدانوں کے مابین تفریق ہی ختم کردی۔
آج بهی اگر ویسا ہی کوئی فوجی حکمران آن مسلط ہو تو آپ اس حد تک سچے ہیں کہ حالات جوں کے توں رہیں گے مگر یہ ماننا پهر بهی ناممکن ہے کہ فوجی آمر کے آنے سے حالات بدتر ہوجائیں گے۔ یہ اس لئے کہ جتنا جمہوری حکومت پرفارم کر رہی ہے اتنا تو کوئی بهی فوجی حکمران کر لے گا۔
آپ جمہوری حکومتوں کا قبلہ درست کرنے کے لئے زور قلم استعمال کریں جو کہ اصل طریقہ ہے فوجیوں کی مداخلت کو روکنے کا، جن ممالک میں فوجیں اقتدار حاصل کرنے کا سوچ بهی نہیں سکتیں ان ممالک میں جمہوری حکومتیں وہ حرکتیں کرنے کا سوچ بهی نہیں سکتیں جو ہماری منتخب جمہوری حکومتیں انتہائی دیدہ دلیری سے کرتی ہیں۔
یہ کتنی مضحکہ خیز بات لگتی ہے کہ ایک بهرپور مہم کے ذریعے فوجی حکومت اور مارشل لاء کا خوف عوام کے دل میں بٹها دیا جائے مگر جمہوری حکومت اپنی روش برقرار رکهے۔ مگر خاطر جمع رکھئے، مارشل لاء کا جتنا چاہے خوف عوام میں پیدا کریں، خدانخواستہ جب کبهی فوج آئے گی یہ ''خوفزدہ عوام'' مٹهائیاں بانٹنے کی روایت ضرور برقرار رکهے گی۔
ان الفاظ کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ راقم فوجی حکومت کا حامی ہے۔ زور اس بات پر ہے کہ جمہوریت کا تسلسل ہی ہونا چاہیے مگر مارشل لاء سے بچنے کیلئے درست سمت میں کوشش ہونی چاہیے اور وہ سمت اس کے علاوہ کوئی نہیں کہ منتخب جمہوری حکومتیں اپنی امانت، دیانت، صداقت، شرافت، علمیت، انتظامی قابلیت اور اہلیت ثابت کریں جس سے سپاه مرعوب ہوجائے اور سیاستدانوں کو ہی حکومت کے اہل جانیں، اور اگر اِس کے باوجود بھی ایسا کچھ ہو تو لوگ مٹھائیاں بانٹنے کے بجائے بغاوت کریں۔
آپ مذہبی اسلامی ریاست کی مخالفت بهی نہ کریں کیونکہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے طرز عمل سے یہ ثابت کردیا ہے کہ مذہبی اسلامی ریاست کا قیام اسلام کا بنیادی فلسفہ ہے۔ البتہ مذہبی اسلامی ریاست کے قیام کے طریقہ کار میں اختلاف پایا جاتا ہے جس پر جناب خورشید ندیم صاحب اور اوریا مقبول جان صاحب کے حال ہی میں شائع ہونے والے مکالماتی کالموں سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
- اول یہ کہ دنیا میں فوجی ریاستیں کبهی کامیاب نہیں ہوسکتیں۔
- دوم یہ کہ دنیا میں مذہبی ریاستیں ہمیشہ ناکام رہتی ہیں۔
جناب چوہدری صاحب یہاں تک پہنچ کر رک جاتے تو بهی ان کا موقف کسی حد تک قابل قبول ہوتا مگر انہوں نے اس سے آگے بڑھ کر ان دو نتائج کو پاکستان کے لئے تاریخ کے دو اسباق کے طور پر پیش کردیا اور قوم کو یہ باور کروانے کی بهرپور کوشش کی کہ یہ دو اسباق پاکستان پر من و عن لاگو ہوتے ہیں اس لئے،
- بهول کر بهی فوجی حکومت کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے، اور
- انجانے میں بهی پاکستان کو مذہبی اسلامی ریاست بنانے کی طرف قدم نہ بڑهائے جائیں۔
ورنہ پاکستان کا انجام وہی ہوگا جو ماضی کی تمام فوجی و مذہبی ریاستوں کا ہوا۔ بصد احترام، چوہدری صاحب کے اس کالم پر راقم کو کئی جگہ اختلاف ہے۔ ماضی کے جن بادشاہوں، فرماں رواوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کی تاریخ، مقاصد حیات اور ان کو درپیش حالات یکسر مختلف تهے جبکہ پاکستان کی تاریخ، پاکستان بننے کا مقصد اور پاکستان کے موجودہ معروضی حالات یکسر الگ نوعیت کے ہیں۔ اس حقیقت کو مدنطر رکهتے ہوئے تاریخ کے ان دو اسباق کو پاکستان کے تناظر میں سو فی صد درست سمجهنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔
پاکستان کی آزادی کا مقصد ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تها، جس میں مسلمان اور تمام دوسرے مذاہب کے لوگ اسلام کے اصولوں کے عین مطابق پُرامن زندگی گزار سکیں۔ اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے مسلمانوں نے بے داغ قائدین کے زیر قیادت کئی سال جدوجہد کی اور لاکهوں بے گناہوں کے لہو میں ڈوبی ہوئی ہجرت کے بعد یہ وطن عزیز حاصل ہوا۔
آئیے پہلے چند فوجی ریاستوں کا ذکر کرتے ہیں۔
ہیرلڈ لیم کی چنگیز خان (تموچن) پر لکهی گئی مشہور کتاب کے مطابق چنگیز خان ایک جنگجو تها جو تپتے ہوئے صحرائے گوبی اور اس کے اطراف سے صرف اپنے اور اپنے قبیلے کے تحفظ اور غلبے کی خاطر اٹها اور قلیل عرصے میں اس وقت کی چینی سلطنت سمیت آدهی دنیا کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ وہ ایک ناخواندہ، بے رحم، دلیر اور طاقتور انسان تها۔ ملکوں کو فتح کرنا، مفتوح اور غیر مسلح انسانوں کا لہو بہانا یا انہیں زندہ جلانا اسکا محبوب مشغلہ تها۔ وہ نہ تو کوئی مصلح تها، نہ انسانوں کی فلاح اسکا مقصد تها، نہ ایک فلاحی ریاست بنانا اسکا مطمع نظر تها اور نہ ہی اپنی سلطنت کو دوام بخشنا اس کا خواب تها۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے سوائے چند ایک کامیاب جنگی حکمت عملی کے کوئی نظام وضع نہیں کیا، اور نہ ہی اپنے پیچهے رہ جانے والوں کیلئے کسی قسم کے نظریات چهوڑ گیا جس کی پیروی کی جاتی اور اسکی بنائی گئی سلطنت صدیوں چلتی رہتی۔
ایسی سلطنت کا فنا ہونا ایک منطقی سی بات ہے، مگر اس کے فانی ہونے کی وجہ یہ ہرگز نہیں ہے کہ چنگیز خان ایک فوجی تها اور اسکی حکومت ایک فوجی حکومت تهی، اس لئے وہ دیرپا ثابت نہ ہوسکی جیسا کہ چوہدری صاحب نے استدلال کیا ہے۔
امیر تیمور لنگ اگرچہ مسلمان تها مگر بنیادی طور پر ایک ڈاکو تها۔ اس کا کوئی ایک ٹهکانہ نہیں تها۔ گردش دوراں نے اسے جنگجو بنا دیا اور پهر اسے ایسے حالات میسر آئے کہ اسکی خداداد صلاحیتیں بروئے کار آئیں اور وہ بادشاہوں کا بادشاه بن گیا۔ ایک عظیم بادشاه اس کا مقصد حیات بهی روایتی بادشاہوں سا تها۔ غلبہ و اقتدار کا حصول، دولت کے انبار، تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہنے کی بد ترین اور شدید ترین خواہش۔ ملکوں کے ملک اس لئے تهوڑی تاراج کرتا تها کہ اسے ان ممالک کی عوام کی خوشحالی مقصود تهی۔ جنگ کرتا، سلطنت میں توسیع کرتا، مفتوحہ علاقے میں حاکم مقرر کرتا، مختصر فوج تعینات کرتا اور آگے بڑھ جاتا۔ اس کے جانشین جو اس کی زندگی کے ہر لمحہ کے گواه ہیں انہوں نے اس سے وہی سیکها جو امیر تیمور کیا کرتا تها۔ امیر کے گزر جانے کے بعد جانشینوں نے بهی امور سلطنت اسی مقصد کو مدنظر رکھ کر چلانے کی کوشش کی مگر نااہلی کے سبب ناکام ہوئے اور سلطنت قصہ پارینہ بن گئی۔
امیر تیمور کی سلطنت کے زوال کی وجہ یہ ہرگز نہ تهی کہ وہ ایک فوجی تها اور اسکی حکومت ایک فوجی حکومت تهی۔ زوال کی اصل وجوہات اور ہیں جن پر پوری ایک کتاب لکهی جاسکتی ہے۔
سکندر اعظم اور دوسرے بادشاہوں کے مقاصد حیات اور مقاصد فتوحات بهی تقریباً وہی تهے جو چنگیز خان اور امیر تیمور لنگ کے تهے اور ان سب کی سلطنتوں کے زوال کی وجہ نہ تو ان کا فوجی ہونا تها اور نہ ہی حکومت کا ایک فوجی حکومت ہونا تها۔
ہٹلر کی ناکامی کی واحد وجہ عالمی طاقتوں کا ایٹم بم سے لیس ہونا اور اس کا ظالمانہ استعمال تها ورنہ تاریخ گواه ہے کہ ہٹلر کی پوری قوم اس فوجی کی فوجی حکومت کی پشت پر ثابت قدمی سے کهڑی تهی اور دنیا کی کوئی طاقت جرمنی کی اس فوجی حکومت کو فتح حاصل کرنے سے روک نہیں سکتی تهی.
جو شکست ایٹمی حملے کے سبب ہوئی اس شکست کا سبب چوہدری صاحب فوجی حکومت اور فوجی سربراه بتا رہے ہیں۔ یہاں پہنچ کر میں قارئین کو دعوت فکر دیتا ہوں کہ سوچئے بهلا ان فوجی حکومتوں کے زوال سے یہ نتیجہ کیسے نکالا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں فوجی حکومت کامیاب نہیں ہوسکتی؟ آپ فوجی حکومت کے خلاف بات ضرور کریں مگر استدلال کرتے وقت ایسے حقائق پیش کریں جو ہمارے حالات سے مطابقت رکهتے ہوں۔
اب کچھ ذکر مذہبی ریاستوں کا،
حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت اللہ کی عطا کردہ حکومت تهی جو کہ ایک معجزہ کے مصداق تهی۔ وہ حکومت اللہ تعالیٰ نے وقت مقررہ کے بعد واپس لے لی۔ اس حکومت کا مقصد یہ تها ہی نہیں کہ اس سلطنت کو دوام ملے یا حضرت سلیمان علیہ السلام کے جانے کے بعد ایک اور ایسا ہی بادشاه حکومت چلائے اور یہ نظام صدیوں یوں ہی چلتا رہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت کے ختم ہوجانے سے یہ استدلال کس قدر مبالغہ آمیز اور گمراه کن ہے کہ مذہبی ریاست کا وجود دیر پا نہیں ہوتا۔
آپ نے حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حکومتوں کا ذکر کیا۔ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ ان جلیل القدر انبیاء نے حکومتیں تشکیل دی ہی نہیں تهیں تو ان مذہبی حکومتوں کے تحلیل ہوجانے کا کیا سوال؟ اور پهر اس بنیاد پر یہ استدلال کیسا کہ مذہبی حکومتیں کبهی نہیں چل سکتیں؟
آپ نے کہا کہ ہماری اسلامی ریاست کی کل تاریخ چار خلفاء راشدین اور حضرت عمر بن عبدالعزیز تک محدود ہے اور یہ پانچ عظیم ہستیاں بهی اندرونی محاذوں پر لڑتی رہیں۔
آپ مدینہ منورہ میں حضرت محمد صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور حکومت کو اسلامی ریاست کی تاریخ سے باہر سمجهتے ہیں؟
اگر آپ کی یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ مذہب کی بنیاد پر ریاست کی تشکیل ایک حماقت ہے کیونکہ یہ تاریخ کا سبق ہے اور جو تاریخ سے سبق نہ سیکهے اور نئے سرے سے پہیہ ایجاد کرے وہ احمق ہے تو آپ یہ بتائیے کہ،
ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ میں جس ریاست کی بنیاد رکهی تهی، کیا وہ مذہبی ریاست نہیں تهی؟ کیا اس ریاست کی بنیاد مذہب پر نہیں رکهی گئی تهی؟
کیا ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں اسلامی ریاست کی بنیاد رکهتے وقت نعوذ باللہ اس حقیقت سے ناواقف تهے، جس حقیقت سے آپ 10 ہزار سالہ ریکارڈ یافتہ انسانی تاریخ پڑھ کر واقف ہوگئے ہیں کہ مذہبی ریاستیں جلد اپنا وجود کهو بیٹهتی ہیں۔
خلفاء راشدین کا دور ایک سنہری تاریخ ہے۔ اگرچہ مسلمان اس دور میں فتوحات کے ساتھ ساتھ داخلی شورشوں سے بهی نبرد آزما رہے، مگر بلاشبہ یہ اسلام کی بطور ایک نظام زندگی اور بطور ایک نظام حکومت درخشندہ مثال تهی جو آج بهی ہمارے لئے مشعل راه ہے۔
آپ کے علم میں ہے کہ اس خلافت راشدہ کے قابل تقلید دور میں چاروں خلفاء راشدین فوجی اور سپہ سالار تهے اور خالصتاً مذہبی اسلامی ریاست کے نمائندہ تهے۔ اس دور میں کیا ترقی نہیں ہوئی؟ کیا انصاف نہیں ملا؟ کیا فتوحات نہیں ہوئیں؟ کیا مال غنیمت نہیں ملا، کیا خوشحالی نہیں تهی؟
راقم حیران ہے کہ آپ کیسے مذہبی اسلامی ریاستوں پر ناپائیدار ہونے کی قدغن لگا سکتے ہیں اور کیسے مذہبی اسلامی ریاستوں کے قیام کے خلاف ہوسکتے ہیں؟
آپ نے یہ بهی کہا کہ جس دن بهارت کو ہندوستان ڈکلئیر کردیا گیا اس دن یہ ملک ختم ہوجائے گا، اور یہ قائم و دائم اسی لئے ہے کہ یہ سیکولر ہے۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کی بقاء بهی اسی میں ہے کہ اسے سیکولر ڈکلئیر کردیا جائے ورنہ مذہبی اسلامی ریاست کا مقدر تو ہے ہی تباہی۔
آپ نے طالبان کی حکومت کے خاتمے کی واحد وجہ یہ بیان کی کہ وہ ایک مذہبی اسلامی ریاست تهی حالانکہ یہ درست نہیں۔ طالبان کی ظالمانہ اور ناقص سفارتی حکمت عملی، پاکستان سمیت تمام مسلمان ہمسایہ ممالک کا دشمن سے تعاون، جدید جنگی ہتهیاروں کی عدم دستیابی، طالبان کے خلاف مضبوط عالمی اتحاد اور دیگر عوامل اس مذہبی اسلامی ریاست کی تباہی کا باعث بنے۔
علاوہ ازیں یہ حقیقت بهی اب طشت از بام ہوچکی کہ نائن الیون ایک سازش تهی جس کے ذریعے عالمی طاقتوں کا مقصد اس خطے میں مستقل قدم جمانا اور مذہبی اسلامی ریاست کے وجود کو مٹانا تها کیونکہ عالمی طاقتیں اس بات سے واقف ہیں کہ اگر کوئی اسلامی ریاست، مذہب اسلام پر 50 فیصد بهی عملدرآمد کروا دے تو اسے عالمی اجارہ داری حاصل کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نوزائیدہ مذہبی اسلامی ریاست کو مٹا دیا گیا جو اگر قائم رہتی تو بتدریج اپنی بہت ساری خامیوں پر قابو پا سکتی تهی۔
نہ تو فوجی حاکم غلط ہے، نہ فوجی حکومتیں غلط ہیں نہ مذہبی اسلامی ریاستیں غلط ہیں۔ کہیں مصطفی کمال اتاترک جیسے فوجی ملک کے باگ دوڑ سنبهال کر قوم کی تقدیر بدل دیتے ہیں۔ آپ فوجی حکومت کو برا بهلا نہ کہیں، بدقسمتی یہ نہیں کہ چار بار اس ملک پر فوجی حکومتیں قائم ہوئیں، بلکہ بدقسمتی تو یہ ہے کہ ایک بار بهی اچها فوجی حکمران نہ ملا۔ ہر فوجی حکمران نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے سیاستدان ساتھ ملائے، کچھ نے تو سیاستدان بنائے بهی، اپنی حکمرانی کو جائز قرار دینے کیلئے سیاسی پارٹیاں بنائیں، انکی سر پرستیاں کیں اور وہ سب کچھ کیا جو ایک بدعنوان سیاستدان کرتا ہے حتیٰ کہ ملک دشمنی اور اقتدار کی ہوس میں انہوں نے اپنے اور سیاستدانوں کے مابین تفریق ہی ختم کردی۔
آج بهی اگر ویسا ہی کوئی فوجی حکمران آن مسلط ہو تو آپ اس حد تک سچے ہیں کہ حالات جوں کے توں رہیں گے مگر یہ ماننا پهر بهی ناممکن ہے کہ فوجی آمر کے آنے سے حالات بدتر ہوجائیں گے۔ یہ اس لئے کہ جتنا جمہوری حکومت پرفارم کر رہی ہے اتنا تو کوئی بهی فوجی حکمران کر لے گا۔
آپ جمہوری حکومتوں کا قبلہ درست کرنے کے لئے زور قلم استعمال کریں جو کہ اصل طریقہ ہے فوجیوں کی مداخلت کو روکنے کا، جن ممالک میں فوجیں اقتدار حاصل کرنے کا سوچ بهی نہیں سکتیں ان ممالک میں جمہوری حکومتیں وہ حرکتیں کرنے کا سوچ بهی نہیں سکتیں جو ہماری منتخب جمہوری حکومتیں انتہائی دیدہ دلیری سے کرتی ہیں۔
یہ کتنی مضحکہ خیز بات لگتی ہے کہ ایک بهرپور مہم کے ذریعے فوجی حکومت اور مارشل لاء کا خوف عوام کے دل میں بٹها دیا جائے مگر جمہوری حکومت اپنی روش برقرار رکهے۔ مگر خاطر جمع رکھئے، مارشل لاء کا جتنا چاہے خوف عوام میں پیدا کریں، خدانخواستہ جب کبهی فوج آئے گی یہ ''خوفزدہ عوام'' مٹهائیاں بانٹنے کی روایت ضرور برقرار رکهے گی۔
ان الفاظ کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ راقم فوجی حکومت کا حامی ہے۔ زور اس بات پر ہے کہ جمہوریت کا تسلسل ہی ہونا چاہیے مگر مارشل لاء سے بچنے کیلئے درست سمت میں کوشش ہونی چاہیے اور وہ سمت اس کے علاوہ کوئی نہیں کہ منتخب جمہوری حکومتیں اپنی امانت، دیانت، صداقت، شرافت، علمیت، انتظامی قابلیت اور اہلیت ثابت کریں جس سے سپاه مرعوب ہوجائے اور سیاستدانوں کو ہی حکومت کے اہل جانیں، اور اگر اِس کے باوجود بھی ایسا کچھ ہو تو لوگ مٹھائیاں بانٹنے کے بجائے بغاوت کریں۔
آپ مذہبی اسلامی ریاست کی مخالفت بهی نہ کریں کیونکہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے طرز عمل سے یہ ثابت کردیا ہے کہ مذہبی اسلامی ریاست کا قیام اسلام کا بنیادی فلسفہ ہے۔ البتہ مذہبی اسلامی ریاست کے قیام کے طریقہ کار میں اختلاف پایا جاتا ہے جس پر جناب خورشید ندیم صاحب اور اوریا مقبول جان صاحب کے حال ہی میں شائع ہونے والے مکالماتی کالموں سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔