ہوشیار خبردار ۔۔۔۔ ’گداگروں‘ کا سیزن آرہا ہے

شہر کے لوگ پیشہ ور گداگروں کی مدد کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کسی ضرورت مند کی مدد کرکے بہت نیکی کا کام کیا۔

ایک بھکاری کا کہنا ہے کہ ہم کراچی صرف رمضان میں آتے ہیں، اور رمضان میں اتنا جمع کر لیتے ہیں کہ کافی عرصہ آرام سے گزر جاتا ہے۔

QUETTA:
رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ ایک طرف لوگ اس بابرکت مہینے کی برکتوں کو سمیٹنے کے لیے تیاریاں کررہے ہیں تو دوسری طرف لوگ مالی فوائد کے لیے دماغ لڑا رہے ہیں کہ کس طرح موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جائے۔ ایسے ہی لوگوں میں شامل ہیں 'گداگر'۔ باقی ملک کا حال تو نہیں معلوم لیکن معاشی حب کراچی کا تو ہر سال بُرا ہی حال ہوتا ہے۔ وطن عزیز کے مختلف حصوں سے گداگر رمضان شروع ہونے سے پہلے ہی شہر قائد پہنچ جاتے ہیں، زیادہ تعداد جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ سے آتی ہے۔ شہر کی حالت اِس قدر خراب ہوجاتی ہے کہ ایک کو منع کریں تو دس اور سامنے آکر کھڑے ہوجاتے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق ہر سال 50 سے 60 ہزار بھکاری کراچی آتے ہیں۔ ان کو یہاں لے کر آنے والے ان کو کراچی میں مختلف مقامات ٹھیکے پر دلواتے ہیں، اگر یہ ممکن نہ ہوسکے تو دیہاڑی پر بھیک منگواتے ہیں۔ یہ ایک منظم گروہ ہے جو دورافتادہ علاقوں میں بسنے والوں کو غربت سے نجات دلانے کا جھانسا دے کر شہر میں گداگری کیلئے لاتے ہیں۔ رمضان المبارک ان بھکاریوں کیلئے ایک سیزن کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک خاتون گداگر کے مطابق وہ 1500 سے 2000 رمضان کے دنوں میں کماتی ہے، جبکہ معذور مرد اس سے بھی زیادہ کما لیتے ہیں۔

ہم نے ڈیفنس کے سگنل پر ایک پیشہ ور فقیر کا جائزہ لیا جو 30 منٹ میں 170 روپے سمیٹنے میں کامیاب ہوچکا تھا۔ اب اگر حق حلال کمانے والے مزدوروں کے حالات پر نظر ڈالیں تو پورا دن محنت کے بعد وہ صرف 300 سے 500 روپے ہی کما پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گداگروں میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ دوسری طرف حکومت کی طرف سے اس کی روک تھام کی کوئی کوشش نہیں کی جارہی۔ ہزاروں کی تعداد میں آنے والے بھکاریوں میں سے چند بھکاریوں کو پکڑ کر ایدھی سینٹر بھیج دیا جاتا ہے جہاں سے وہ معافی تلافی کرکے باہر آجاتے ہیں اور دوبارہ اپنی پرانی روش پر لوٹ آتے ہیں۔

رمضان کے ایام میں زیادہ تر جو خواتین اور بچے آپ کو شہر کراچی کی سڑکوں اور بازاروں میں بھیک مانگتے نظر آئیں گے، وہ کچھ اِس طرح کی کہانی سناتے ہوئے ملیں گے۔

  • کوئی کہے گا کہ اس کے شوہر نے گھر سے نکال دیا ہے، بچوں کے ساتھ گاؤں سے شہر کراچی میں کام کی تلاش میں آئی ہے اور اس کے بعد رو رو کر پیسوں کا تقاضہ کرتی ہے۔


  • کئی خواتین یہ کہانی سناتی نظر آتی ہیں کہ انہیں گاؤں واپس جانا ہے اور ان کے پاس کرایہ نہیں ہے۔ اگر آپ ان کو کراچی سے اندرون سندھ کا کرایہ دے دیں تو وہ واپس اپنے گھر چلی جائیں۔


مزے کی بات یہ ہے کہ شہر کے لوگ اس طرح سادہ لوح افراد کی مدد کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کسی ضرورت مند کی مدد کرکے بہت نیکی کا کام کیا۔

ہٹے کٹے افراد مانگنے میں جھجھک محسوس نہیں کرتے، یہ افراد 'کام چور' ہوجاتے ہیں اور اسی کو اپنا پیشہ سمجھ کر اپنے بیوی بچوں کو بھی بھیک مانگنے میں لگا دیتے ہیں۔ ایک بھکاری نے یہ بتایا کہ ہم کراچی صرف رمضان میں آتے ہیں اور رمضان میں اتنا جمع کرلیتے ہیں کہ کافی عرصہ آرام سے گزر جاتا ہے۔ لیکن ہم ہیں کہ یہ سوچ کر ان خانہ بدوشوں کو پیسہ دے رہے ہوتے ہیں کہ ان کے بچے بھی دو وقت کی روٹی پیٹ بھرکر کھا سکیں اور اچھے کپڑے پہن سکیں۔ حالانکہ ان افراد کی اکثریت اس سوچ کی قائل ہے کہ بچوں کو صاف کپڑے پہنانے کے بجائے نیم برہنہ رکھنے میں زیادہ فائدہ ہے کیونکہ اس حالت زار پر لوگ ترس کھا کر زیادہ امداد کرتے ہیں۔

اگر ہم عہد کرلیں کہ اِس رمضان کسی غیر مستحق اور اس طرح کے خانہ بدوشوں کی امداد کے بجائے ایسے سفید پوش افراد کی مدد کریں جو ہمارے اردگرد رہتے ہیں لیکن عزت نفس کی خاطر کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے تو یقیناً معاشرے میں بگاڑ کے بجائے نکھار پیدا ہوگا۔ یہ پیغام خاص کر ایسی خواتین کے لیے ہے جو ہر مانگنے والے کو ضرورت مند سمجھ کر اُن کی مدد کردیتی ہیں، جس کی وجہ سے حقدار محرومی کا شکار رہتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story