صدرِ مملکت اورسفیرِپاکستان کی کھری کھری باتیں اور دلِ بیقرار
راقم نے انھیں ملک میں سیکیورٹی کے حالات میں آنے والی بہتری کے بارے میں آگاہ کیا
سنگاپور میں اپنے قیام کے آخری روز ہم ظہرانے پرپاکستان کے ہائی کمشنر نصراﷲخان صاحب کے مہمان تھے، سول سروسزاکیڈیمی کے بعد پہلی بار یعنی بتیس سال بعد ملاقات ہو رہی تھی۔ انھوں نے اکیڈیمی کے کئی واقعات کا ذکر کیااور خوشگوار یادیں تازہ کردیں۔کھانے پر چند ایسے سنگاپورین مہمان بھی مدعوتھے جو کچھ عرصے بعد پاکستان کا دورہ کرنے والے تھے اس لیے وہ پاکستان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتے تھے۔ ملک کے عمومی حالات کا تذکرہ کرنے کے بعد امن و امان کی صورتِحال پر بات کرنے کے لیے نصراﷲخان نے مجھے کہہ دیا۔
راقم نے انھیں ملک میں سیکیورٹی کے حالات میں آنے والی بہتری کے بارے میں آگاہ کیااوربتایا کہ اصل پاکستان یہاں ٹی وی اسکرین پر نظر آنے والے پاکستان سے کہیں زیادہ پرامن کہیں زیادہ خوبصورت اور کہیں زیادہ مستحکم ہے۔ راقم نے انھیں پاکستان میں سیر کے لیے چند خوبصورت مقامات کے بارے میں بھی بریف کیا۔ ہائی کمشنرصاحب مجھے کہنے لگے "میں کئی بار سوچتا ہوں کہ آپ کو فارن سروس میں ہونا چاہیے تھا، پولیس سروس میں بھی آپ نے بڑی نیک نامی کمائی ہے مگر فارن سروس میں ہوتے تو آپ کی کارکردگی اس سے بھی بہتر ہوتی"۔ میں نے کہا اﷲتعالیٰ کا مجھ ناچیز پر بہت فضل و کرم رہا ہے۔ کس انسان کا کیا رول ہوگااسکا فیصلہ بھی خالق ہی کرتا ہے۔
میں نے نصراﷲخان کواپنی کتاب" دوٹوک باتیں" پیش کی تو انھوںنے مجھے لی کو آن کی کتاب From third world to first world تحفۃًدی ۔کتا بوں کا ذکر چھڑا تو نصراﷲخان بتانے لگے کہ کل رات پرائم منسٹر (سنگاپور کے موجودہ وزیرِ اعظم Lee Hsien Long بابائے سنگاپور لی کو آن یو کے صاحبزادے ہیں) نے تمام سفیروں کو ڈنر پر بلایا تھا، میں ان کے ساتھ ان کے والد کے کارناموں کے بارے میں باتیں کرتا رہا جب انھیں بتایا کہ "میں نے آپ کے والدصاحب کی پوری کتاب پڑھی ہے" تو اس پر وزیرِ اعظم کہنے لگے "کتاب ابھی مکمل نہیں ہوئی ہم اس میں کچھ اور چیپٹرز کا اضافہ کرنے کی کوشش کرہے ہیں"۔
یعنی عظیم باپ کا بیٹا اس عزم کا اظہار کررہا تھا کہ ہم اپنے عظیم باپ کی روایات کو آگے بڑھائیں گے اور کچھ اورسنہری باب لکھیں گے۔ سفیرِپاکستان نے ایک اور بڑی اہم اور گہری بات کی کہ" کسی بھی ملک کے بارے میں تاثر قائم کرنے کے لیے دوسرے ملکوں کے اہم لوگ تین چیزیں دیکھتے ہیں۔ گورننس ، عدلیہ اور میڈیا کی آزادی،اور سب سے اہم فیکٹر Continuity(تسلسل) ہے۔ جب پارلیمنٹ کی معیاد پوری ہونے سے بہت پہلے ہمارے چینلوں اور اخبارات پر اسطرح کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں کہ حکومت جارہی ہے،کون آرہا ہے ؟۔کیاسیٹ اپ تبدیل ہورہا ہے؟ مارشل لاء لگ رہا ہے؟ تو یہاں سفارتی حلقوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوجاتی ہیں ۔ ایک دم اُس ملک کے بارے میں تاثر پھیل جاتا ہے کہ وہ عدمِ استحکام کا شکار ہے، وہاں کے حالات غیریقینی ہیں اس سے دوسرے ملکوں کی نظروں میں ہمارے ملک کا مقام اور مرتبہ گر جاتا ہے ۔
ہماری پوزیشن کمزور ہوجاتی ہے۔ ہماری تجارت پر بڑے منفی اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ ہمارے دوسرے ملکوں کے ساتھ روابط متاثر ہوتے ہیں، کاش ہمارے سیاسی رہنما اور ہمارا میڈیا یہ بات پیشِ نظر رکھا کرے کہ اس کی کسی بات یا تجزیئے سے ملک پر کیا اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ ٹی وی اینکروں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ غیرآئینی طریقے سے تبدیلی کی (بے بنیاد ہی سہی) خبروں سے ان کے چینل کی ریٹنگ شاید بڑھتی ہو مگر ملک کی ریٹنگ گِر جاتی ہے" ۔ پچھلے چند مہینوں میں اسی سے ملتی جلتی رائے میں چھ اہم ملکوں مین تعینات سینئر پاکستانی سفارتکاروں کی زبانی سن چکا ہوں۔
کراچی میں نیوٹیک کی تقریب
٭٭٭٭
صوبہ سندھ میں نیوٹیک کے زیرِ اہتمام ہنرمندی کے صوبائی مقابلے 2مارچ کو کراچی ایکسپو میں منعقد ہوئے تھے ان مقابلوں میں جیتنے والے ہونہارنوجوانوں نے 3مارچ کو صدرِ پاکستان کے ہاتھوں انعامات وصول کرنے تھے مگر صدر صاحب ناگزیر وجوہات کی بناء پر کراچی نہ پہنچ سکے اورتقریب ملتوی کردی گئی۔۔ 23مارچ کو ایوانِ صدر میں ایوارڈز کی تقریب میں صدرِ مملکت کو راقم نے یاد دلایا تو انھوں نے اپنے اسٹاف کو ہدایات دے دیں۔ سنگاپور جانے سے دو روز قبل صدرِ مملکت کے ملٹری سیکریٹری بریگیڈیئرشاہد نذیرکا فون آیا کہ کراچی میں نیوٹیک کی تقریب کے لیے 14مئی کی تاریخ مقرر کر دی گئی ہے۔ ہم نے اپنے کراچی آفس کو متحرّک کیا اور انھوں نے تیاری شروع کردی۔
ہم بھی سنگاپور سے متعلقہ افسروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے اور انھیں ہدایات دیتے رہے۔ صدرِ مملکت کی تقریب میں صوبائی گورنراور وزیرِ اعلیٰ بھی موجود ہوتے ہیں، لہٰذا ہم نے گورنر سندھ اور وزیرِ اعلیٰ سندھ کو بھی تقریب میں شمولیّت کی تحریری دعوت بھیج دی۔ گورنر سندھ نے نہ صرف شمولیت کی حامی بھرلی بلکہ تقریب گورنر ہاؤس میں ہی منعقد کرنے کی بھی پیشکش کردی۔ لہٰذا 14مئی کی شام کو نیوٹیک کے زیرِ اہتمام تقسیمِ انعامات کی تقریب گورنر ہاؤس کے سبزہ زار میں منعقد ہوئی۔جس میں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر صاحبان ، ماہرینِ تعلیم ، صنعتکار ان، دانشوران ، اعلیٰ سول افسران، پولیس کے آئی جی اور ڈی آئی جی صاحبان ٹیکنکل ٹریننگ کالجز کے سربراہان اور طلباء و طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
پنڈال بقعۂ نور بنا ہوا تھا، پشت پر گورنر ہاؤس کی پرشکوہ عمارت اور سامنے وسیع سبزہ زار میں بیٹھے ہوئے مہمانان اور بیچ میں صدر اسلامی جمہوریۂ پاکستان ، منظر اورماحول شاندار اور پروقار تھا ۔ ہمارا دوست اور فنی تربیّت کا جرمن ماہر مسٹر ہَنس بار بار کہہ رہ تھا Its fascinating, Its amazing۔ پریزیڈنسی کے منظور شدہ پروگرام کے مطابق تین تقاریر تھیں ، حرفِ آغاز میںراقم نے ملک کے لیے ہنرمندی کی اہمیّت کو اجاگر کیا اور کئی ممالک کی مثالیں دیکر بتایا کہ ہم اپنے کروڑوں نوجوانوں کو ہنر مند بنا کر بے روزگاری کا خاتمہ کرسکتے ہیں، اپنے قرضے اتار سکتے ہیں اور ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ میرے بعد گورنر سندھ نے تقریر کی اور ان کے بعد صدرِ مملکت نے خطاب کیا۔ صدر صاحب کا یہ خطاب خصوصی اہمّیت کا حامل تھا، انھوں نے دل کے باتیں دو ٹوک انداز میں کیں ان کی باتوں میں درد مندی اور خلوص کی خوشبو نمایاں تھی۔
صدرِ مملکت کی تقریر کے تین نقاط بہت اہم تھے۔ انھوں نے بڑے پراعتماد لہجے میں زور دیکر کہا کہ" پاکستان کے جتنے حالات خراب ہونے تھے ہوچکے اب حالات بہتر ہونے کا وقت آچکا ہے۔ اب ہم نیچے نہیں اوپر جائیں گے"۔ صدر صاحب نے بہت کھل کر کرپشن سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے اس خوش گمانی کا اظہار کیا کہ کرپشن میں ملوّث بڑے بڑے لٹیرے نہ صرف پکڑے جائیں گے بلکہ اسی ملک میں وہ نشانِ عبرت بھی بنیں گے۔ (صدر صاحب کی دردِ دل سے کہی گئی، اس بات اورخواہش کو بڑے بڑے کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں نے مختلف معنی پہنائے اور اپنے اپنے مطلب کے نتائج اخذ کیے) تیسری بات جس پر صدر صاحب نے بہت زور دیا وہ راقم کی تقریر کے حوالے سے تھی جس میں ذکر کیا گیا تھا کہ ہمارے ہاں نوجوانوں کو فنی تربیّت کی طرف راغب کرنا ایک بڑاچیلنج ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں ہاتھ سے کام کرنے (Manual work)کو کمتر یا توہین آمیزسمجھا جاتا ہے۔
صدر صاحب نے بڑے موثّر طریقے سے سمجھایا کہ محنت میں عظمت ہے اور کئی مثالیں دیکر بتایا کہ ان کے کئی جاننے والوں کے بیٹوں نے ویلڈنگ یا پلمبنگ کو کیرئیر کے طور پر اپنایا اور آج وہ اپنے ڈاکٹر اور انجینئر بھائیوں سے زیادہ پیسے کمارہے ہیں۔ انھوں نے راقم کی درخواست پر لی کوآن کے دورۂ ِ پاکستان کا وہ واقعہ بھی سنایا کہ جب لی کو آن کراچی تشریف لائے توبندرگاہ پر کسی نے سنگاپور پورٹ کی تعریف کرتے ہوئے پوچھا کہ ''جناب ہم کراچی بندرگاہ کو اُس معیار کی پورٹ کیسے بناسکتے ہیں؟'' لی کو آن نے قہقہہ لگایا اور کہا" آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ سنگاپور کی بندرگاہ کی تعمیر ایک پاکستانی انجینئر نے کی تھی"۔
تقریب کا سب سے اہم اور سب سے شاندار مرحلہ وہ تھا جب وادیٔ مہران کے دور دراز علاقوں سے تعلّق رکھنے والے لڑکے اور لڑکیاں اپنے ہنر کا لوہا منوا کر صدرِ مملکت سے انعام وصول کرنے آئے ۔ مِٹھی (تھر) کے روشن کمارکو بھی انعام مل رہا تھا اور ٹنڈوالہ یار کی حمیرا انعام وصول کررہی تھی، خیرپورکے صابرحسین بھی انعام کے حقدار قرار پائے تھے اور سکھرکی میناکماری بھی پچّاس ہزار روپے کا چیک لے رہی تھی۔ انعامات وصول کرنے والوں کی خوشی دیدنی تھی۔ ایک سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ ان مقابلوں سے جہاں نوجوانوں کی استعداد میں اضافہ ہو اہے اور عوام میں Awarenessپیدا ہوئی ہے وہیں ہنرمندی جیسے فراموش کردہ سیکٹر کو عزّت اور احترام ملا ہے۔ ان کی بات صحیح تھی۔
نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہونے سے بڑی تعداد میں نوجوان اس اہم ترین شعبے کی جانب راغب ہورہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ نیوٹیک کے نئے کورس کے لیے پچھلے سال سے چار گنا زیادہ درخواستیں موصول ہوئی ہیں ۔کھانے کی میز پر صدر صاحب کے اسٹاف نے میری نشست ان کے ساتھ رکھی تھی وہاں ان کے ساتھ بلاتکلف باتیں ہوتی رہیں۔ کھانے کے دوران بھی صدر صاحب کرپشن میں ملوّث افراد کو بُرا بھلا کہتے رہے، وہیں انھوں نے سب کے سامنے میز پر بیٹھے ہوئے حکمران جماعت کے ایک رکنِ پارلیمنٹ کی جانب اشارہ کرکے کہا کہ "جب میں گورنر سندھ تھاتو ایک بدنام شخص کی سفارش کے لیے یہ صاحب میرے پاس آئے مگر میں نے ان کی بات نہ مانی"۔ اب رکن پارلیمنٹ کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو، اس کے بعد اس کے منہ سے نہ بات نکلی نہ نوالہ نگلا گیا۔ صدر صاحب کا یہ دوٹوک اانداز قابلِ تحسِین اور قابلِ تقلید ہے ۔ حرام خوروں اور بدنام لوگوں کو ہی نہیں ان کے سفارشیوں کو بھی بے نقاب کرنا ضروری ہے۔
ضروری نوٹ:۔ طرزِ حکومت پرتحفّظات اپنی جگہ،مگر دیکھتی آنکھیں اور سنتے کان ملک بھر میں یہ منظر دیکھ اور سُن رہے ہیں کہ مختلف مذاہب کے مردوں ، عورتوں اور بوڑھوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھالیے ہیں، غریب اور بے سہارا دیہاتی جھولیاں اٹھاکرزندگی اور موت کے مالک سے بیس کروڑ عوام کے منتخب لیڈر نواز شریف کے اس دل کی صحتیابی کی دعا مانگ رہے ہیں جس میں غریبوں اور بیکسوں کے لیے بے پناہ ہمدردی ہے جس میں والدین کے لیے بے مثال محبّت اور خدمت کا جذبہ ہے اور جوملک کو ایک جدید ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے بیقرار رہتاہے۔
سینئر قانون دان ٹھیک کہتے تھے کہ سابق چیف جسٹس جتنا بولیں گے ان کی نالائقی اتنی ہی بے نقاب ہوتی جائے گی۔ اب موصوف وزیرِاعظم کی غیر حاضری پر دوسرے وزیرِ اعظم کا مطالبہ کررہے ہیں۔ جناب ایس ایم ظفر سمیت چوٹی کے آئینی ماہرین نے میڈیا پر بڑی وضاحت سے بتایا ہے کہ وزیرِ اعظم کام چلانے کے لیے کسی بھی دوسرے وزیر کو کہہ سکتے ہیں، قائم مقام وزیرِ اعظم بنانے کی ضرورت نہیں۔ قانونی حلقے ہی بتائیں گے کہ یہ سابق جج صاحب کی آئین سے لاعلمی ہے یا نالائقی ہے ؟ ۔
راقم نے انھیں ملک میں سیکیورٹی کے حالات میں آنے والی بہتری کے بارے میں آگاہ کیااوربتایا کہ اصل پاکستان یہاں ٹی وی اسکرین پر نظر آنے والے پاکستان سے کہیں زیادہ پرامن کہیں زیادہ خوبصورت اور کہیں زیادہ مستحکم ہے۔ راقم نے انھیں پاکستان میں سیر کے لیے چند خوبصورت مقامات کے بارے میں بھی بریف کیا۔ ہائی کمشنرصاحب مجھے کہنے لگے "میں کئی بار سوچتا ہوں کہ آپ کو فارن سروس میں ہونا چاہیے تھا، پولیس سروس میں بھی آپ نے بڑی نیک نامی کمائی ہے مگر فارن سروس میں ہوتے تو آپ کی کارکردگی اس سے بھی بہتر ہوتی"۔ میں نے کہا اﷲتعالیٰ کا مجھ ناچیز پر بہت فضل و کرم رہا ہے۔ کس انسان کا کیا رول ہوگااسکا فیصلہ بھی خالق ہی کرتا ہے۔
میں نے نصراﷲخان کواپنی کتاب" دوٹوک باتیں" پیش کی تو انھوںنے مجھے لی کو آن کی کتاب From third world to first world تحفۃًدی ۔کتا بوں کا ذکر چھڑا تو نصراﷲخان بتانے لگے کہ کل رات پرائم منسٹر (سنگاپور کے موجودہ وزیرِ اعظم Lee Hsien Long بابائے سنگاپور لی کو آن یو کے صاحبزادے ہیں) نے تمام سفیروں کو ڈنر پر بلایا تھا، میں ان کے ساتھ ان کے والد کے کارناموں کے بارے میں باتیں کرتا رہا جب انھیں بتایا کہ "میں نے آپ کے والدصاحب کی پوری کتاب پڑھی ہے" تو اس پر وزیرِ اعظم کہنے لگے "کتاب ابھی مکمل نہیں ہوئی ہم اس میں کچھ اور چیپٹرز کا اضافہ کرنے کی کوشش کرہے ہیں"۔
یعنی عظیم باپ کا بیٹا اس عزم کا اظہار کررہا تھا کہ ہم اپنے عظیم باپ کی روایات کو آگے بڑھائیں گے اور کچھ اورسنہری باب لکھیں گے۔ سفیرِپاکستان نے ایک اور بڑی اہم اور گہری بات کی کہ" کسی بھی ملک کے بارے میں تاثر قائم کرنے کے لیے دوسرے ملکوں کے اہم لوگ تین چیزیں دیکھتے ہیں۔ گورننس ، عدلیہ اور میڈیا کی آزادی،اور سب سے اہم فیکٹر Continuity(تسلسل) ہے۔ جب پارلیمنٹ کی معیاد پوری ہونے سے بہت پہلے ہمارے چینلوں اور اخبارات پر اسطرح کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں کہ حکومت جارہی ہے،کون آرہا ہے ؟۔کیاسیٹ اپ تبدیل ہورہا ہے؟ مارشل لاء لگ رہا ہے؟ تو یہاں سفارتی حلقوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوجاتی ہیں ۔ ایک دم اُس ملک کے بارے میں تاثر پھیل جاتا ہے کہ وہ عدمِ استحکام کا شکار ہے، وہاں کے حالات غیریقینی ہیں اس سے دوسرے ملکوں کی نظروں میں ہمارے ملک کا مقام اور مرتبہ گر جاتا ہے ۔
ہماری پوزیشن کمزور ہوجاتی ہے۔ ہماری تجارت پر بڑے منفی اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ ہمارے دوسرے ملکوں کے ساتھ روابط متاثر ہوتے ہیں، کاش ہمارے سیاسی رہنما اور ہمارا میڈیا یہ بات پیشِ نظر رکھا کرے کہ اس کی کسی بات یا تجزیئے سے ملک پر کیا اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ ٹی وی اینکروں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ غیرآئینی طریقے سے تبدیلی کی (بے بنیاد ہی سہی) خبروں سے ان کے چینل کی ریٹنگ شاید بڑھتی ہو مگر ملک کی ریٹنگ گِر جاتی ہے" ۔ پچھلے چند مہینوں میں اسی سے ملتی جلتی رائے میں چھ اہم ملکوں مین تعینات سینئر پاکستانی سفارتکاروں کی زبانی سن چکا ہوں۔
کراچی میں نیوٹیک کی تقریب
٭٭٭٭
صوبہ سندھ میں نیوٹیک کے زیرِ اہتمام ہنرمندی کے صوبائی مقابلے 2مارچ کو کراچی ایکسپو میں منعقد ہوئے تھے ان مقابلوں میں جیتنے والے ہونہارنوجوانوں نے 3مارچ کو صدرِ پاکستان کے ہاتھوں انعامات وصول کرنے تھے مگر صدر صاحب ناگزیر وجوہات کی بناء پر کراچی نہ پہنچ سکے اورتقریب ملتوی کردی گئی۔۔ 23مارچ کو ایوانِ صدر میں ایوارڈز کی تقریب میں صدرِ مملکت کو راقم نے یاد دلایا تو انھوں نے اپنے اسٹاف کو ہدایات دے دیں۔ سنگاپور جانے سے دو روز قبل صدرِ مملکت کے ملٹری سیکریٹری بریگیڈیئرشاہد نذیرکا فون آیا کہ کراچی میں نیوٹیک کی تقریب کے لیے 14مئی کی تاریخ مقرر کر دی گئی ہے۔ ہم نے اپنے کراچی آفس کو متحرّک کیا اور انھوں نے تیاری شروع کردی۔
ہم بھی سنگاپور سے متعلقہ افسروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے اور انھیں ہدایات دیتے رہے۔ صدرِ مملکت کی تقریب میں صوبائی گورنراور وزیرِ اعلیٰ بھی موجود ہوتے ہیں، لہٰذا ہم نے گورنر سندھ اور وزیرِ اعلیٰ سندھ کو بھی تقریب میں شمولیّت کی تحریری دعوت بھیج دی۔ گورنر سندھ نے نہ صرف شمولیت کی حامی بھرلی بلکہ تقریب گورنر ہاؤس میں ہی منعقد کرنے کی بھی پیشکش کردی۔ لہٰذا 14مئی کی شام کو نیوٹیک کے زیرِ اہتمام تقسیمِ انعامات کی تقریب گورنر ہاؤس کے سبزہ زار میں منعقد ہوئی۔جس میں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر صاحبان ، ماہرینِ تعلیم ، صنعتکار ان، دانشوران ، اعلیٰ سول افسران، پولیس کے آئی جی اور ڈی آئی جی صاحبان ٹیکنکل ٹریننگ کالجز کے سربراہان اور طلباء و طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
پنڈال بقعۂ نور بنا ہوا تھا، پشت پر گورنر ہاؤس کی پرشکوہ عمارت اور سامنے وسیع سبزہ زار میں بیٹھے ہوئے مہمانان اور بیچ میں صدر اسلامی جمہوریۂ پاکستان ، منظر اورماحول شاندار اور پروقار تھا ۔ ہمارا دوست اور فنی تربیّت کا جرمن ماہر مسٹر ہَنس بار بار کہہ رہ تھا Its fascinating, Its amazing۔ پریزیڈنسی کے منظور شدہ پروگرام کے مطابق تین تقاریر تھیں ، حرفِ آغاز میںراقم نے ملک کے لیے ہنرمندی کی اہمیّت کو اجاگر کیا اور کئی ممالک کی مثالیں دیکر بتایا کہ ہم اپنے کروڑوں نوجوانوں کو ہنر مند بنا کر بے روزگاری کا خاتمہ کرسکتے ہیں، اپنے قرضے اتار سکتے ہیں اور ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ میرے بعد گورنر سندھ نے تقریر کی اور ان کے بعد صدرِ مملکت نے خطاب کیا۔ صدر صاحب کا یہ خطاب خصوصی اہمّیت کا حامل تھا، انھوں نے دل کے باتیں دو ٹوک انداز میں کیں ان کی باتوں میں درد مندی اور خلوص کی خوشبو نمایاں تھی۔
صدرِ مملکت کی تقریر کے تین نقاط بہت اہم تھے۔ انھوں نے بڑے پراعتماد لہجے میں زور دیکر کہا کہ" پاکستان کے جتنے حالات خراب ہونے تھے ہوچکے اب حالات بہتر ہونے کا وقت آچکا ہے۔ اب ہم نیچے نہیں اوپر جائیں گے"۔ صدر صاحب نے بہت کھل کر کرپشن سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے اس خوش گمانی کا اظہار کیا کہ کرپشن میں ملوّث بڑے بڑے لٹیرے نہ صرف پکڑے جائیں گے بلکہ اسی ملک میں وہ نشانِ عبرت بھی بنیں گے۔ (صدر صاحب کی دردِ دل سے کہی گئی، اس بات اورخواہش کو بڑے بڑے کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں نے مختلف معنی پہنائے اور اپنے اپنے مطلب کے نتائج اخذ کیے) تیسری بات جس پر صدر صاحب نے بہت زور دیا وہ راقم کی تقریر کے حوالے سے تھی جس میں ذکر کیا گیا تھا کہ ہمارے ہاں نوجوانوں کو فنی تربیّت کی طرف راغب کرنا ایک بڑاچیلنج ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں ہاتھ سے کام کرنے (Manual work)کو کمتر یا توہین آمیزسمجھا جاتا ہے۔
صدر صاحب نے بڑے موثّر طریقے سے سمجھایا کہ محنت میں عظمت ہے اور کئی مثالیں دیکر بتایا کہ ان کے کئی جاننے والوں کے بیٹوں نے ویلڈنگ یا پلمبنگ کو کیرئیر کے طور پر اپنایا اور آج وہ اپنے ڈاکٹر اور انجینئر بھائیوں سے زیادہ پیسے کمارہے ہیں۔ انھوں نے راقم کی درخواست پر لی کوآن کے دورۂ ِ پاکستان کا وہ واقعہ بھی سنایا کہ جب لی کو آن کراچی تشریف لائے توبندرگاہ پر کسی نے سنگاپور پورٹ کی تعریف کرتے ہوئے پوچھا کہ ''جناب ہم کراچی بندرگاہ کو اُس معیار کی پورٹ کیسے بناسکتے ہیں؟'' لی کو آن نے قہقہہ لگایا اور کہا" آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ سنگاپور کی بندرگاہ کی تعمیر ایک پاکستانی انجینئر نے کی تھی"۔
تقریب کا سب سے اہم اور سب سے شاندار مرحلہ وہ تھا جب وادیٔ مہران کے دور دراز علاقوں سے تعلّق رکھنے والے لڑکے اور لڑکیاں اپنے ہنر کا لوہا منوا کر صدرِ مملکت سے انعام وصول کرنے آئے ۔ مِٹھی (تھر) کے روشن کمارکو بھی انعام مل رہا تھا اور ٹنڈوالہ یار کی حمیرا انعام وصول کررہی تھی، خیرپورکے صابرحسین بھی انعام کے حقدار قرار پائے تھے اور سکھرکی میناکماری بھی پچّاس ہزار روپے کا چیک لے رہی تھی۔ انعامات وصول کرنے والوں کی خوشی دیدنی تھی۔ ایک سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ ان مقابلوں سے جہاں نوجوانوں کی استعداد میں اضافہ ہو اہے اور عوام میں Awarenessپیدا ہوئی ہے وہیں ہنرمندی جیسے فراموش کردہ سیکٹر کو عزّت اور احترام ملا ہے۔ ان کی بات صحیح تھی۔
نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہونے سے بڑی تعداد میں نوجوان اس اہم ترین شعبے کی جانب راغب ہورہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ نیوٹیک کے نئے کورس کے لیے پچھلے سال سے چار گنا زیادہ درخواستیں موصول ہوئی ہیں ۔کھانے کی میز پر صدر صاحب کے اسٹاف نے میری نشست ان کے ساتھ رکھی تھی وہاں ان کے ساتھ بلاتکلف باتیں ہوتی رہیں۔ کھانے کے دوران بھی صدر صاحب کرپشن میں ملوّث افراد کو بُرا بھلا کہتے رہے، وہیں انھوں نے سب کے سامنے میز پر بیٹھے ہوئے حکمران جماعت کے ایک رکنِ پارلیمنٹ کی جانب اشارہ کرکے کہا کہ "جب میں گورنر سندھ تھاتو ایک بدنام شخص کی سفارش کے لیے یہ صاحب میرے پاس آئے مگر میں نے ان کی بات نہ مانی"۔ اب رکن پارلیمنٹ کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو، اس کے بعد اس کے منہ سے نہ بات نکلی نہ نوالہ نگلا گیا۔ صدر صاحب کا یہ دوٹوک اانداز قابلِ تحسِین اور قابلِ تقلید ہے ۔ حرام خوروں اور بدنام لوگوں کو ہی نہیں ان کے سفارشیوں کو بھی بے نقاب کرنا ضروری ہے۔
ضروری نوٹ:۔ طرزِ حکومت پرتحفّظات اپنی جگہ،مگر دیکھتی آنکھیں اور سنتے کان ملک بھر میں یہ منظر دیکھ اور سُن رہے ہیں کہ مختلف مذاہب کے مردوں ، عورتوں اور بوڑھوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھالیے ہیں، غریب اور بے سہارا دیہاتی جھولیاں اٹھاکرزندگی اور موت کے مالک سے بیس کروڑ عوام کے منتخب لیڈر نواز شریف کے اس دل کی صحتیابی کی دعا مانگ رہے ہیں جس میں غریبوں اور بیکسوں کے لیے بے پناہ ہمدردی ہے جس میں والدین کے لیے بے مثال محبّت اور خدمت کا جذبہ ہے اور جوملک کو ایک جدید ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے بیقرار رہتاہے۔
سینئر قانون دان ٹھیک کہتے تھے کہ سابق چیف جسٹس جتنا بولیں گے ان کی نالائقی اتنی ہی بے نقاب ہوتی جائے گی۔ اب موصوف وزیرِاعظم کی غیر حاضری پر دوسرے وزیرِ اعظم کا مطالبہ کررہے ہیں۔ جناب ایس ایم ظفر سمیت چوٹی کے آئینی ماہرین نے میڈیا پر بڑی وضاحت سے بتایا ہے کہ وزیرِ اعظم کام چلانے کے لیے کسی بھی دوسرے وزیر کو کہہ سکتے ہیں، قائم مقام وزیرِ اعظم بنانے کی ضرورت نہیں۔ قانونی حلقے ہی بتائیں گے کہ یہ سابق جج صاحب کی آئین سے لاعلمی ہے یا نالائقی ہے ؟ ۔