پرائمری تعلیم انحطاط کا شکار
تیسرے نمبر پر پنجاب ہے، صوبے میں مجموعی طور پراسکولوں کے حالات بہتر ہیں
ملک میں سرکاری تعلیمی شعبے میں 81 فیصد پرائمری اسکول ہیں۔ ان میں سے 48 فیصد اسکولوں میں پینے کے پانی اور بیت الخلاء کی سہولتیں نہیں ہیں۔ بنیادی سہولتوں کے اعتبار سے سندھ کی صورتحال سب سے بدتر ہے۔
تعلیمی معیارکے اعتبار سے وفاقی دار الحکومت پہلے نمبر پر ہے، آزاد کشمیر دوسرے، پنجاب تیسرے،گلگت بلتستان چوتھے، خیبر پختون خواہ پانچویں ، سندھ چھٹے، فاٹا ساتویں اور بلوچستان آٹھویں نمبر پر ہے۔ پرائمری تعلیم میں ابتدائی 40 شہروں میں سندھ کا کوئی شہرشامل نہیں ہے۔کراچی پرائمری تعلیم کے اعتبار سے 43 ویں نمبر پر ہے۔ تعلیم کے بارے میں تحقیق کرنے والی غیر سرکاری تنظیم الف اعلان اور (Sustainable Development Policy Institute, SDPI)کی مشترکہ تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کے لیے پرائمری اسکول کے قیام کی منظوری آسان تھی، جس کی وجہ سے دوکمروں کے ہزاروں اسکول قائم ہوئے جن میں ایک استاد تمام فرائض انجام دیتا ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کے 52 فیصد اسکولوں میں تمام سہولتیں مثلاً بیت الخلاء، چاردیواری، بجلی اور پانی موجود ہے۔ وفاقی حکومت کی حدود اسلام آباد تک محدود ہے، یوں اسلام آباد میں حکمرانوں کے علاوہ بیوروکریٹس رہتے ہیں۔ان کے بچے سرکاری اسکولوں میں نہیں پڑھتے مگر اچھی طرزِ حکومت کی بناء پر وہاں اسکولوں کی حالت سب سے بہتر ہے۔ پھرآزاد کشمیرکی حکومتوں نے تعلیم کی اہمیت کو محسوس کیا ہے۔ اگرچہ 2005ء کے آنے والے زلزلے کے نتیجے میں سرکاری اسکولوں کی عمارتیں تباہ ہوگئی تھیں اور اسکولوں کی ناقص چھتوں کے گرنے سے ہزاروں بچے جاں بحق ہوگئے تھے مگر برسرِ اقتدار حکومتوں کی دلچسپی کی بناء پر وہاں اسکولوں میں بنیادی سہولتیں موجود ہیں اور برطانیہ میں آباد شہریوں کے رشتے دار سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اسی بناء پر الف اعلان کی رپورٹ میں آزاد کشمیرکو دوسرے نمبر پر تعینات کیا گیا ہے۔
تیسرے نمبر پر پنجاب ہے، صوبے میں مجموعی طور پراسکولوں کے حالات بہتر ہیں مگر دیہی علاقوں میں بچے اب بھی سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں موٹر ویز اور اورنج ٹرین جیسے منصوبوں کے آغازکے بعد اسکولوں میں سب سہولتیں فراہم نہ کرنا ایک ناقص پالیسی کا واضح ثبوت ہے۔ اب بھی بہت سے اسکولوں میں طلبہ کے لیے فرنیچر دستیاب نہیں ہے۔
بعض اسکولوں کی چاردیواری موجود نہیں۔ طالب علم فرش پر دریاں بچھا کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں اور بعض اسکولوں میں اساتذہ کا تقرر نہیں ہوا اورکچھ میں اساتذہ کی تعداد زیادہ اور طالب علموں کی تعداد کم ہے۔ حکومت پنجاب نے دانش اسکول جیسے قیمتی اسکول قائم کرنے کی اسکیمیں شروع کی ہیں اور حکومت اسکولوں کو نجی شعبے کے سپرد کرکے یا ایجوکیشن اتھارٹی بنا کر اپنا فرض ادا کرنا چاہتی ہے، جس پر اسکولوں کے اساتذہ سخت غصے کی حالت میں تھے اور کئی دن لاہور میں دھرنا دیتے رہے۔ اگرچہ حکومت نے اساتذہ کے تحفظات کو دورکرنے کی یقین دہانی کرائی ہے مگر اس اہم تحقیق میں پنجاب کے تیسرے نمبر پر آنے کا مطلب پنجاب کی حکومت کی ناقص پالیسی کا ایکسپوزر ہے۔
گلگت بلتستان کواس فہرست میں چوتھے نمبر پر تعینات کیا گیا ہے، مگر یہ حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان کو علیحدہ صوبے کی حیثیت گزشتہ حکومت میں دی گئی اور یہ طویل پہاڑی سلسلے پر مشتمل صوبہ ہے۔ اس صوبے میں جدید تعلیم کا سلسلہ دوسرے صوبوں سے دیر میں شروع ہوا مگر اچھی طرزِ حکومت کی بناء پر وہاں اسکولوں کی حالت زیادہ بہتر ہے۔ گلگت بلتستان کی صورتحال سے واقفیت رکھنے والے کہتے ہیں کہ وہاں غیر سرکاری تنظیم آغا خان ایجوکیشن فاؤنڈیشن اورآغا خان رورل ڈیولپمنٹ سپورٹ پروگرام کی بناء پر والدین میں بچوں کو تعلیم دلانے خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت زیادہ بڑھی ہے، جس کا اظہار گلگت کے اسکولوں کی صورتحال سے ہوتاہے، مگر گلگت میں تعلیم کی صورتحال کو زیادہ اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پختون خواہ میں تحریکِ انصاف کی حکومت کا نعرہ اچھی طرزِحکومت اورکرپشن کا خاتمہ ہے مگر تعلیم کے بجٹ میں اضافے کے باوجود اسکولوں کی سہولتیں بہت زیادہ بہتر نہیں ہوسکیں، خیبرپختون خواہ میں جدید تعلیم کو انتہاپسندی سے شدید خطرہ ہے۔
طالبان اسکولوں کی عمارتوںخاص طور پر خواتین کے اسکولوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اب تک سیکڑوں اسکولوں کی عمارتوں کو تباہ کیا گیا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے اسکولوں کے حالات کو بہتر بنانے اور نصاب کو جدید خطوط پر استوارکرنے کے لیے بنیادی اصلاحات کی تھیں مگر عمران خان نے خیبر پختون خواہ میں حکومت حاصل کرنے کے لیے جماعت اسلامی کو ساتھ ملایا۔اب یہاں مخصوص مائنڈ سیٹ کے حامل استاد بھرتی کیے جاتے ہیں۔ نصاب سے کئی باب خارج کیے گئے ہیں ۔اس رپورٹ میں پختون خواہ کا پانچواں نمبرعمران خان کے نعروں کے کھوکھلے ہونے کی دلیل ہے۔
سندھ کا اس رپورٹ میں چھٹا نمبر ہے جو پیپلزپارٹی کی حکومت کے لیے ایک شرم ناک صورتحال ہے۔ سندھ پرگزشتہ 8 برسوں سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ سندھ کے عوام نے 70ء کی دہائی سے پیپلز پارٹی کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ خاص طور پر جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے خلاف پیپلز پارٹی نے تاریخی جدوجہد کی تھی۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق کو مارشل لاء ختم کرکے انتخابات کرانے پر مجبور ہونا پڑا تھا اور اس طرح پیپلز پارٹی کے لیے اقتدار سنبھالنے کا راستہ بن گیا تھا۔
پیپلزپارٹی کی حکومتوں کی 1988 سے 1999 تک کارکردگی مایوس کن تھی مگر سندھ کے عوام پیپلزپارٹی کے ساتھ رہے مگر 2008 سے پیپلزپارٹی کی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ کے عوام کو سزا دے رہی ہے۔ سندھ بدترین طرزِ حکومت کا شکار ہے اور ہر سطح پر بدعنوانی اور رشوت کا راج ہے۔ بدترین طرزِحکومت اور رشوت کے کلچر سے سندھ براہِ راست متاثرہوا ہے۔ سابق وزیر تعلیم پیر مظہر الحق کے دور میں محکمہ تعلیم بدترین صورتحال کا شکار ہوا۔اس دور میں نائب قاصد سے ڈائریکٹر تک کی آسامی فروخت ہوئی۔کئی ہزار افراد کو پیسے لے کر استاد بنادیا گیا۔ اسی طرح اسکولوں کے لیے مختص فنڈزکوخردبردکیا گیا۔
موجودہ وزیر تعلیم نثار کھوڑو کے دور میں حالات میں کچھ تبدیلی آئی ہے مگر سندھ کے وزیراعلیٰ بے اختیار ہیں۔ زرداری خاندان سے قربت رکھنے والے اہم افراد وزیر اعلیٰ کے اختیارات استعمال کرتے ہیں۔ اب بھی رشوت اور سفارش کی بنیاد پر اعلیٰ افسروں کا تقرر ہوتا ہے۔ اس بناء پر احتساب کا کوئی نظام عملی طور پر موجود نہیں ہے۔ صوبے کے سیکریٹری تعلیم خود یہ اقرارکرتے ہیں کہ صوبے میں اب بھی گھوسٹ اسکول موجود ہیں، جہاں پر اساتذہ کا تقررہوتا ہے اور ترقیاتی فنڈز مختص کیے جاتے ہیں جب کہ ان اسکولوں میں جانور باندھے جاتے ہیں ، بااثرافراد کے گودام قائم ہیں یا کہیں وڈیروں کی اوطاق قائم ہیں مگر سندھ کی حکومت ان اسکولوں کو فعال کرنے میں ناکام رہی ہے۔
بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ محکمہ تعلیم کے لیے ہر بجٹ میں وافر مقدار میں فنڈز مختص کیے جاتے ہیں مگر ان میں سے بیشتر فنڈز استعمال نہیں ہوتے۔ ان فنڈز کے استعمال نہ ہونے کی مختلف وجوہات ہیں مگر وزیر اعلیٰ اور وزیر تعلیم ترقیاتی فنڈز کو استعمال کرکے اسکولوں کے حالات کو بہتر بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت سندھ کراچی شہر میں سرکاری اسکولوں کو غیر سرکاری تنظیموں کو گود دینے کی اسکیم کے ذریعے اپنی ذمے داریوں سے بچنا چاہتی ہے۔ یہ این جی اوز ان اسکولوں کی قیمتی زمینوں میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں، سندھ کی حکومت حیدرآباد او کراچی میں اسکول اور کالج قائم کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ سندھ کے سیکریٹری تعلیم کہتے ہیں کہ 30 برسوں سے میرٹ کے بغیر اساتذہ کا تقرر ہورہا ہے۔ ماہرینِ تعلیم کہتے ہیں کہ ملک کی ترقی کا پرائمری تعلیم سے گہرا تعلق ہے لیکن عملا صورت حال یہ ہے کہ پرائمری تعلیم ریاست کی ترجیح نہیں ہے یوں عوام کا تعلیم حاصل کرنے کا بنیادی حق متاثر ہوتا ہے۔
سندھ کے بعد فاٹا کا ساتواں نمبر ہے۔ پہلے فاٹا آٹھویں نمبر پر تھا، یوں فاٹا کے حالات بہتر ہونا ایک اچھی خبر ہے۔ بلوچستان میں تعلیم کے حوالے سے صورتحال زیادہ خراب ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک اسکولوں کے حالات بہتر بنانے میں ناکام رہے تو موجودہ وزیر اعلیٰ سے بھی کوئی امید نہیں رکھی جاسکتی۔ بہرحال یہ رپورٹ تعلیم کی حقیقی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔
تعلیمی معیارکے اعتبار سے وفاقی دار الحکومت پہلے نمبر پر ہے، آزاد کشمیر دوسرے، پنجاب تیسرے،گلگت بلتستان چوتھے، خیبر پختون خواہ پانچویں ، سندھ چھٹے، فاٹا ساتویں اور بلوچستان آٹھویں نمبر پر ہے۔ پرائمری تعلیم میں ابتدائی 40 شہروں میں سندھ کا کوئی شہرشامل نہیں ہے۔کراچی پرائمری تعلیم کے اعتبار سے 43 ویں نمبر پر ہے۔ تعلیم کے بارے میں تحقیق کرنے والی غیر سرکاری تنظیم الف اعلان اور (Sustainable Development Policy Institute, SDPI)کی مشترکہ تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کے لیے پرائمری اسکول کے قیام کی منظوری آسان تھی، جس کی وجہ سے دوکمروں کے ہزاروں اسکول قائم ہوئے جن میں ایک استاد تمام فرائض انجام دیتا ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کے 52 فیصد اسکولوں میں تمام سہولتیں مثلاً بیت الخلاء، چاردیواری، بجلی اور پانی موجود ہے۔ وفاقی حکومت کی حدود اسلام آباد تک محدود ہے، یوں اسلام آباد میں حکمرانوں کے علاوہ بیوروکریٹس رہتے ہیں۔ان کے بچے سرکاری اسکولوں میں نہیں پڑھتے مگر اچھی طرزِ حکومت کی بناء پر وہاں اسکولوں کی حالت سب سے بہتر ہے۔ پھرآزاد کشمیرکی حکومتوں نے تعلیم کی اہمیت کو محسوس کیا ہے۔ اگرچہ 2005ء کے آنے والے زلزلے کے نتیجے میں سرکاری اسکولوں کی عمارتیں تباہ ہوگئی تھیں اور اسکولوں کی ناقص چھتوں کے گرنے سے ہزاروں بچے جاں بحق ہوگئے تھے مگر برسرِ اقتدار حکومتوں کی دلچسپی کی بناء پر وہاں اسکولوں میں بنیادی سہولتیں موجود ہیں اور برطانیہ میں آباد شہریوں کے رشتے دار سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اسی بناء پر الف اعلان کی رپورٹ میں آزاد کشمیرکو دوسرے نمبر پر تعینات کیا گیا ہے۔
تیسرے نمبر پر پنجاب ہے، صوبے میں مجموعی طور پراسکولوں کے حالات بہتر ہیں مگر دیہی علاقوں میں بچے اب بھی سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں موٹر ویز اور اورنج ٹرین جیسے منصوبوں کے آغازکے بعد اسکولوں میں سب سہولتیں فراہم نہ کرنا ایک ناقص پالیسی کا واضح ثبوت ہے۔ اب بھی بہت سے اسکولوں میں طلبہ کے لیے فرنیچر دستیاب نہیں ہے۔
بعض اسکولوں کی چاردیواری موجود نہیں۔ طالب علم فرش پر دریاں بچھا کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں اور بعض اسکولوں میں اساتذہ کا تقرر نہیں ہوا اورکچھ میں اساتذہ کی تعداد زیادہ اور طالب علموں کی تعداد کم ہے۔ حکومت پنجاب نے دانش اسکول جیسے قیمتی اسکول قائم کرنے کی اسکیمیں شروع کی ہیں اور حکومت اسکولوں کو نجی شعبے کے سپرد کرکے یا ایجوکیشن اتھارٹی بنا کر اپنا فرض ادا کرنا چاہتی ہے، جس پر اسکولوں کے اساتذہ سخت غصے کی حالت میں تھے اور کئی دن لاہور میں دھرنا دیتے رہے۔ اگرچہ حکومت نے اساتذہ کے تحفظات کو دورکرنے کی یقین دہانی کرائی ہے مگر اس اہم تحقیق میں پنجاب کے تیسرے نمبر پر آنے کا مطلب پنجاب کی حکومت کی ناقص پالیسی کا ایکسپوزر ہے۔
گلگت بلتستان کواس فہرست میں چوتھے نمبر پر تعینات کیا گیا ہے، مگر یہ حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان کو علیحدہ صوبے کی حیثیت گزشتہ حکومت میں دی گئی اور یہ طویل پہاڑی سلسلے پر مشتمل صوبہ ہے۔ اس صوبے میں جدید تعلیم کا سلسلہ دوسرے صوبوں سے دیر میں شروع ہوا مگر اچھی طرزِ حکومت کی بناء پر وہاں اسکولوں کی حالت زیادہ بہتر ہے۔ گلگت بلتستان کی صورتحال سے واقفیت رکھنے والے کہتے ہیں کہ وہاں غیر سرکاری تنظیم آغا خان ایجوکیشن فاؤنڈیشن اورآغا خان رورل ڈیولپمنٹ سپورٹ پروگرام کی بناء پر والدین میں بچوں کو تعلیم دلانے خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت زیادہ بڑھی ہے، جس کا اظہار گلگت کے اسکولوں کی صورتحال سے ہوتاہے، مگر گلگت میں تعلیم کی صورتحال کو زیادہ اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پختون خواہ میں تحریکِ انصاف کی حکومت کا نعرہ اچھی طرزِحکومت اورکرپشن کا خاتمہ ہے مگر تعلیم کے بجٹ میں اضافے کے باوجود اسکولوں کی سہولتیں بہت زیادہ بہتر نہیں ہوسکیں، خیبرپختون خواہ میں جدید تعلیم کو انتہاپسندی سے شدید خطرہ ہے۔
طالبان اسکولوں کی عمارتوںخاص طور پر خواتین کے اسکولوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اب تک سیکڑوں اسکولوں کی عمارتوں کو تباہ کیا گیا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے اسکولوں کے حالات کو بہتر بنانے اور نصاب کو جدید خطوط پر استوارکرنے کے لیے بنیادی اصلاحات کی تھیں مگر عمران خان نے خیبر پختون خواہ میں حکومت حاصل کرنے کے لیے جماعت اسلامی کو ساتھ ملایا۔اب یہاں مخصوص مائنڈ سیٹ کے حامل استاد بھرتی کیے جاتے ہیں۔ نصاب سے کئی باب خارج کیے گئے ہیں ۔اس رپورٹ میں پختون خواہ کا پانچواں نمبرعمران خان کے نعروں کے کھوکھلے ہونے کی دلیل ہے۔
سندھ کا اس رپورٹ میں چھٹا نمبر ہے جو پیپلزپارٹی کی حکومت کے لیے ایک شرم ناک صورتحال ہے۔ سندھ پرگزشتہ 8 برسوں سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ سندھ کے عوام نے 70ء کی دہائی سے پیپلز پارٹی کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ خاص طور پر جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے خلاف پیپلز پارٹی نے تاریخی جدوجہد کی تھی۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق کو مارشل لاء ختم کرکے انتخابات کرانے پر مجبور ہونا پڑا تھا اور اس طرح پیپلز پارٹی کے لیے اقتدار سنبھالنے کا راستہ بن گیا تھا۔
پیپلزپارٹی کی حکومتوں کی 1988 سے 1999 تک کارکردگی مایوس کن تھی مگر سندھ کے عوام پیپلزپارٹی کے ساتھ رہے مگر 2008 سے پیپلزپارٹی کی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ کے عوام کو سزا دے رہی ہے۔ سندھ بدترین طرزِ حکومت کا شکار ہے اور ہر سطح پر بدعنوانی اور رشوت کا راج ہے۔ بدترین طرزِحکومت اور رشوت کے کلچر سے سندھ براہِ راست متاثرہوا ہے۔ سابق وزیر تعلیم پیر مظہر الحق کے دور میں محکمہ تعلیم بدترین صورتحال کا شکار ہوا۔اس دور میں نائب قاصد سے ڈائریکٹر تک کی آسامی فروخت ہوئی۔کئی ہزار افراد کو پیسے لے کر استاد بنادیا گیا۔ اسی طرح اسکولوں کے لیے مختص فنڈزکوخردبردکیا گیا۔
موجودہ وزیر تعلیم نثار کھوڑو کے دور میں حالات میں کچھ تبدیلی آئی ہے مگر سندھ کے وزیراعلیٰ بے اختیار ہیں۔ زرداری خاندان سے قربت رکھنے والے اہم افراد وزیر اعلیٰ کے اختیارات استعمال کرتے ہیں۔ اب بھی رشوت اور سفارش کی بنیاد پر اعلیٰ افسروں کا تقرر ہوتا ہے۔ اس بناء پر احتساب کا کوئی نظام عملی طور پر موجود نہیں ہے۔ صوبے کے سیکریٹری تعلیم خود یہ اقرارکرتے ہیں کہ صوبے میں اب بھی گھوسٹ اسکول موجود ہیں، جہاں پر اساتذہ کا تقررہوتا ہے اور ترقیاتی فنڈز مختص کیے جاتے ہیں جب کہ ان اسکولوں میں جانور باندھے جاتے ہیں ، بااثرافراد کے گودام قائم ہیں یا کہیں وڈیروں کی اوطاق قائم ہیں مگر سندھ کی حکومت ان اسکولوں کو فعال کرنے میں ناکام رہی ہے۔
بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ محکمہ تعلیم کے لیے ہر بجٹ میں وافر مقدار میں فنڈز مختص کیے جاتے ہیں مگر ان میں سے بیشتر فنڈز استعمال نہیں ہوتے۔ ان فنڈز کے استعمال نہ ہونے کی مختلف وجوہات ہیں مگر وزیر اعلیٰ اور وزیر تعلیم ترقیاتی فنڈز کو استعمال کرکے اسکولوں کے حالات کو بہتر بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت سندھ کراچی شہر میں سرکاری اسکولوں کو غیر سرکاری تنظیموں کو گود دینے کی اسکیم کے ذریعے اپنی ذمے داریوں سے بچنا چاہتی ہے۔ یہ این جی اوز ان اسکولوں کی قیمتی زمینوں میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں، سندھ کی حکومت حیدرآباد او کراچی میں اسکول اور کالج قائم کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ سندھ کے سیکریٹری تعلیم کہتے ہیں کہ 30 برسوں سے میرٹ کے بغیر اساتذہ کا تقرر ہورہا ہے۔ ماہرینِ تعلیم کہتے ہیں کہ ملک کی ترقی کا پرائمری تعلیم سے گہرا تعلق ہے لیکن عملا صورت حال یہ ہے کہ پرائمری تعلیم ریاست کی ترجیح نہیں ہے یوں عوام کا تعلیم حاصل کرنے کا بنیادی حق متاثر ہوتا ہے۔
سندھ کے بعد فاٹا کا ساتواں نمبر ہے۔ پہلے فاٹا آٹھویں نمبر پر تھا، یوں فاٹا کے حالات بہتر ہونا ایک اچھی خبر ہے۔ بلوچستان میں تعلیم کے حوالے سے صورتحال زیادہ خراب ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک اسکولوں کے حالات بہتر بنانے میں ناکام رہے تو موجودہ وزیر اعلیٰ سے بھی کوئی امید نہیں رکھی جاسکتی۔ بہرحال یہ رپورٹ تعلیم کی حقیقی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔