’بلوچستان پر ڈرون حملہ‘ ایک خبر…سانحہ
جنرل راحیل شریف کا دہشت گردوں کے خلاف مضبوط عزم اور عزائم سب کے سامنے ہیں
جنرل راحیل شریف کا دہشت گردوں کے خلاف مضبوط عزم اور عزائم سب کے سامنے ہیں، کراچی سے لے کر خیبر پختونخوا تک ان کے فولادی ارادوں کی صرف دھاک ہی نہیں بیٹھی بلکہ عملی طور پر اس کا مظاہرہ بھی دیکھا گیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل کراچی میں امن و امان کی ناقص صورتحال کے باعث اندرونی طور پر تجارتی اور معاشرتی اعتبار سے ہجرت کا ایک سفر شروع ہو چکا تھا جس نے پنجاب کے علاقوں میں جائیداد کی مالیت میں اضافہ ظاہر کر دیا تھا، لیکن حالیہ عملی اقدامات کے باعث کراچی کی کیفیت میں واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ عوام کا اعتماد بھی مستحکم ہوا ہے، ایسے حالات میں ڈرون حملے کا شور کچھ عجیب سا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا امریکی قیادت کو پاکستانی افواج کی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں ہے؟ یا وہ پاکستانی سیاسی و فوجی قیادت کو ناقابل اعتبار سمجھتی ہے؟ یا ان دونوں سوالوں کے درپیش کچھ اور وجوہات ہیں۔
پاکستانی سیاسی صورتحال کچھ عرصے سے پانامہ لیکس کے باعث دشواریوں میں ہے، اسے سنبھلنے میں ذرا وقت لگے گا، ملک کے دو مضبوط ادارے سیاسی اور فوجی میں سے اس وقت ایک ادارہ ذرا کمزور ہوتا دکھائی دیا اور اوپر سے ڈرون حملے کا تحفہ وصول ہوا۔ آپ کسی بھی ملک یا ادارے کی تاریخ دیکھ لیں ہمیشہ اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا گیا ہے چاہے وہ امریکا ہو یا روس ایسا ہوتا آیا ہے کچھ عرصہ تک اس قسم کے حملوں میں ٹھنڈ سی پڑگئی تھی لیکن اس حملے کے ردعمل میں ملک میں بظاہر کوئی خاص ایکشن نہیں دیکھا گیا۔ دہشت گردی کے حوالے سے اس قسم کے حملے کسی بھی ملک کی سالمیت پر کیا اثر ڈالتے ہیں، اب اس قسم کے حوالے بھی بے اثر ہو چکے ہیں کیونکہ دنیا بھر میں جس قسم کے تاثرات فلسطین، شام، عراق اور افغانستان کے حوالے سے آتے رہے ہیں اس کے بیچ یہ بھی ایک روٹین کا حصہ بن گیا ہے۔ کسی بھی عمل کا ایک معقول جواز ہوتا ہے بظاہر ہمیں نظر نہیں آتا لیکن عمل کرنے والے اس سے بخوبی واقف ہوتے ہیں، پھر وہ کسی بھی لیکس کے ذریعے سامنے آ جاتے ہیں۔
نائن الیون سے چند برس پہلے جب کیسپین کے علاقے میں تیل اور گیس کے عظیم الشان ذخائر سامنے آئے تو اس تک رسائی کے لیے اس وقت کی طالبان حکومت کو راضی کرنے کی کوشش کی گئی، تجویز تھی کہ افغانستان کے راستے ترکمانستان سے پاکستان تک پائپ لائن کا معاہدہ طے پا جائے، اس کے لیے بی بی سی کی چار ستمبر 1997ء کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی کمپنی یونوکال نے ٹیکساس میں واقع اپنے ہیڈکوارٹر میں طالبان حکومت کے اہم ذمے داروں کو مدعو کیا تھا۔ بظاہر یہ آسان نظر آتا تھا کیونکہ اس کے بدلے بہت کچھ دیا جانا تھا، لیکن ایسا نہ ہوا اور اس باعث طالبان حکومت پر بیرونی دباؤ بڑھایا جاتا رہا، بظاہر یہ ایک کاروباری معاملہ تھا جسے بعد میں انسانی ہلاکتوں کے اژدہام میں دبا دیا گیا۔ 23 جون 1998ء کو توانائی کے شعبے میں دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہیلی برٹن کے سربراہ کی حیثیت سے سابق امریکی نائب صدر ڈک چینی نے کیٹو انسٹیٹیوٹ کے زیراہتمام ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔
''خدا نے تیل اور گیس کے ذخائر کو صرف ان جمہوری ملکوں میں رکھنا مناسب نہیں سمجھا، جن سے امریکا کے دوستانہ روابط ہیں، لہٰذا بعض اوقات ہمیں ان علاقوں میں بھی کام کرنا پڑتا ہے جہاں کوئی عمومی حالات میں جانے کا فیصلہ نہیں کرتا مگر ہم ہر اس جگہ جاتے ہیں جہاں بزنس ہو'' اور یہ کہ ''میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب کیسپین کا علاقہ اچانک اس قدر اسٹرٹیجک اہمیت اختیار کر لے گا۔''
ڈک چینی کا یہ خطاب ان کی کاروباری سوچ کو ظاہر کرتا ہے بظاہر یہ برا عمل نہیں ہے لیکن اس کے منفی ردعمل کی صورت میں جو کچھ روا رکھا گیا وہ بہت خوفناک تھا۔ ترقی یافتہ دور میں بھی 1857ء جیسی حکمت عملی کو دہرایا گیا۔ اس سے پہلے بش انتظامیہ طالبان سے بات چیت کرتی رہی۔ انٹر پریس سروس کی ایک رپورٹ جو پندرہ نومبر 2001ء کو شایع ہوئی کے مطابق اگست 2001ء تک بات چیت کا عمل چلتا رہا مگر جب طالبان حکومت پائپ لائن کے سلسلے میں امریکا کو اجارہ دارانہ اختیارات دینے کے معاملے میں مزاحمت پر قائم رہے تو ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے تحت ہونے والے اجلاس میں ان کو سخت پیغام دیا گیا۔
سابق صدر پرویز مشرف نے بھی اپنی کتاب ''آن دی لائن آف فائر'' میں لکھا ہے کہ امریکی حکمرانوں نے حکومت پاکستان کو افغانستان کے خلاف فوج کشی میں تعاون پر بصورت دیگر پتھر کے زمانے میں پہنچا دینے کی دھمکی دے کر مجبور کیا تھا، اگر ہم جنرل صاحب کو بزدل قرار دے کر یہ مفروضہ اختیار کر لیں کہ وہ کیوں امریکا کی دھمکی میں آ گئے تھے تو حالیہ شام میں ہونے والی ہولناک جنگی کارروائیوں اور دلخراش ہلاکتوں پر کس دنیا کے ٹھیکیدار نے روس کا گلا پکڑ لیا، کس نے اسرائیلی افواج کے ظالمانہ رویوں کی دل کھول کر مذمت کی کس نے عراق میں بہنے والے خون پر آنسو بہائے۔
بات پہلے بھی بزنس سے شروع ہوئی تھی اور اب بھی بزنس سے شروع ہوئی تھی۔ یہ دنیا کا دستور ہے، ایک کم حیثیت کم رتبے والے کے پاس خزانہ نکل آئے تو اونچے رتبے اور اعلیٰ حیثیت والے دل ہی دل میں لعن طعن کرنے لگتے ہیں اور اسے کسی بھی طرح ظاہر کر دیتے ہیں یہ ان کی اپنی حیثیت کے مطابق ہوتا ہے۔ ہمیں کیا کرنا ہے کیا کسی کے بڑے رتبے سے دب کر ڈر کر بیٹھ جانا ہے یا غرا کر آنا ہے۔
فیصلے کرنے کا حق دنیا کی کسی بڑی طاقت کے پاس نہیں ہے یہ ہماری اولین سوچ ہونی چاہیے اس کے بعد حق، سچائی، انصاف اور رواداری سے اور باہم مشورے ہی کسی بھی قوم کو اس کے رتبے سے محروم نہیں کر سکتی، فرق صرف سوچ کا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا امریکی قیادت کو پاکستانی افواج کی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں ہے؟ یا وہ پاکستانی سیاسی و فوجی قیادت کو ناقابل اعتبار سمجھتی ہے؟ یا ان دونوں سوالوں کے درپیش کچھ اور وجوہات ہیں۔
پاکستانی سیاسی صورتحال کچھ عرصے سے پانامہ لیکس کے باعث دشواریوں میں ہے، اسے سنبھلنے میں ذرا وقت لگے گا، ملک کے دو مضبوط ادارے سیاسی اور فوجی میں سے اس وقت ایک ادارہ ذرا کمزور ہوتا دکھائی دیا اور اوپر سے ڈرون حملے کا تحفہ وصول ہوا۔ آپ کسی بھی ملک یا ادارے کی تاریخ دیکھ لیں ہمیشہ اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا گیا ہے چاہے وہ امریکا ہو یا روس ایسا ہوتا آیا ہے کچھ عرصہ تک اس قسم کے حملوں میں ٹھنڈ سی پڑگئی تھی لیکن اس حملے کے ردعمل میں ملک میں بظاہر کوئی خاص ایکشن نہیں دیکھا گیا۔ دہشت گردی کے حوالے سے اس قسم کے حملے کسی بھی ملک کی سالمیت پر کیا اثر ڈالتے ہیں، اب اس قسم کے حوالے بھی بے اثر ہو چکے ہیں کیونکہ دنیا بھر میں جس قسم کے تاثرات فلسطین، شام، عراق اور افغانستان کے حوالے سے آتے رہے ہیں اس کے بیچ یہ بھی ایک روٹین کا حصہ بن گیا ہے۔ کسی بھی عمل کا ایک معقول جواز ہوتا ہے بظاہر ہمیں نظر نہیں آتا لیکن عمل کرنے والے اس سے بخوبی واقف ہوتے ہیں، پھر وہ کسی بھی لیکس کے ذریعے سامنے آ جاتے ہیں۔
نائن الیون سے چند برس پہلے جب کیسپین کے علاقے میں تیل اور گیس کے عظیم الشان ذخائر سامنے آئے تو اس تک رسائی کے لیے اس وقت کی طالبان حکومت کو راضی کرنے کی کوشش کی گئی، تجویز تھی کہ افغانستان کے راستے ترکمانستان سے پاکستان تک پائپ لائن کا معاہدہ طے پا جائے، اس کے لیے بی بی سی کی چار ستمبر 1997ء کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی کمپنی یونوکال نے ٹیکساس میں واقع اپنے ہیڈکوارٹر میں طالبان حکومت کے اہم ذمے داروں کو مدعو کیا تھا۔ بظاہر یہ آسان نظر آتا تھا کیونکہ اس کے بدلے بہت کچھ دیا جانا تھا، لیکن ایسا نہ ہوا اور اس باعث طالبان حکومت پر بیرونی دباؤ بڑھایا جاتا رہا، بظاہر یہ ایک کاروباری معاملہ تھا جسے بعد میں انسانی ہلاکتوں کے اژدہام میں دبا دیا گیا۔ 23 جون 1998ء کو توانائی کے شعبے میں دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہیلی برٹن کے سربراہ کی حیثیت سے سابق امریکی نائب صدر ڈک چینی نے کیٹو انسٹیٹیوٹ کے زیراہتمام ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔
''خدا نے تیل اور گیس کے ذخائر کو صرف ان جمہوری ملکوں میں رکھنا مناسب نہیں سمجھا، جن سے امریکا کے دوستانہ روابط ہیں، لہٰذا بعض اوقات ہمیں ان علاقوں میں بھی کام کرنا پڑتا ہے جہاں کوئی عمومی حالات میں جانے کا فیصلہ نہیں کرتا مگر ہم ہر اس جگہ جاتے ہیں جہاں بزنس ہو'' اور یہ کہ ''میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب کیسپین کا علاقہ اچانک اس قدر اسٹرٹیجک اہمیت اختیار کر لے گا۔''
ڈک چینی کا یہ خطاب ان کی کاروباری سوچ کو ظاہر کرتا ہے بظاہر یہ برا عمل نہیں ہے لیکن اس کے منفی ردعمل کی صورت میں جو کچھ روا رکھا گیا وہ بہت خوفناک تھا۔ ترقی یافتہ دور میں بھی 1857ء جیسی حکمت عملی کو دہرایا گیا۔ اس سے پہلے بش انتظامیہ طالبان سے بات چیت کرتی رہی۔ انٹر پریس سروس کی ایک رپورٹ جو پندرہ نومبر 2001ء کو شایع ہوئی کے مطابق اگست 2001ء تک بات چیت کا عمل چلتا رہا مگر جب طالبان حکومت پائپ لائن کے سلسلے میں امریکا کو اجارہ دارانہ اختیارات دینے کے معاملے میں مزاحمت پر قائم رہے تو ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے تحت ہونے والے اجلاس میں ان کو سخت پیغام دیا گیا۔
سابق صدر پرویز مشرف نے بھی اپنی کتاب ''آن دی لائن آف فائر'' میں لکھا ہے کہ امریکی حکمرانوں نے حکومت پاکستان کو افغانستان کے خلاف فوج کشی میں تعاون پر بصورت دیگر پتھر کے زمانے میں پہنچا دینے کی دھمکی دے کر مجبور کیا تھا، اگر ہم جنرل صاحب کو بزدل قرار دے کر یہ مفروضہ اختیار کر لیں کہ وہ کیوں امریکا کی دھمکی میں آ گئے تھے تو حالیہ شام میں ہونے والی ہولناک جنگی کارروائیوں اور دلخراش ہلاکتوں پر کس دنیا کے ٹھیکیدار نے روس کا گلا پکڑ لیا، کس نے اسرائیلی افواج کے ظالمانہ رویوں کی دل کھول کر مذمت کی کس نے عراق میں بہنے والے خون پر آنسو بہائے۔
بات پہلے بھی بزنس سے شروع ہوئی تھی اور اب بھی بزنس سے شروع ہوئی تھی۔ یہ دنیا کا دستور ہے، ایک کم حیثیت کم رتبے والے کے پاس خزانہ نکل آئے تو اونچے رتبے اور اعلیٰ حیثیت والے دل ہی دل میں لعن طعن کرنے لگتے ہیں اور اسے کسی بھی طرح ظاہر کر دیتے ہیں یہ ان کی اپنی حیثیت کے مطابق ہوتا ہے۔ ہمیں کیا کرنا ہے کیا کسی کے بڑے رتبے سے دب کر ڈر کر بیٹھ جانا ہے یا غرا کر آنا ہے۔
فیصلے کرنے کا حق دنیا کی کسی بڑی طاقت کے پاس نہیں ہے یہ ہماری اولین سوچ ہونی چاہیے اس کے بعد حق، سچائی، انصاف اور رواداری سے اور باہم مشورے ہی کسی بھی قوم کو اس کے رتبے سے محروم نہیں کر سکتی، فرق صرف سوچ کا ہے۔