اقوام عالم کے ہاتھوں انسانوں کا قتل عام

آپ ایک بڑے کینوس پر انسانی ترقی کا جائزہ لیں تو آپ کو حیران کن نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

saifuzzaman1966@gmail.com

آپ ایک بڑے کینوس پر انسانی ترقی کا جائزہ لیں تو آپ کو حیران کن نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آپ دیکھیں گے کہ سپر پاور امریکا نے انسانوں کو برباد کرنے کے لیے مزید کتنے مہلک ایٹمی میزائل ایجاد کر لیے جنھیں استعمال کرنے کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں آپ گھر بیٹھ کر ایک بٹن کے ذریعے لاکھوں انسانوں کا قتل عام بڑی آسانی سے کر سکتے ہیں۔ سپر پاور...واقعی سپر پاور ہے۔

جدید ترین ٹیکنالوجی پر مشتمل طیارے، ایٹم بم، راکٹ، ٹینک، روبوٹس جو مکھی اور مچھر کے سائز پر بھی تیار۔ سب کچھ ملے گا اور یہ سب کچھ کسی خلائی مخلوق پر حملے کے لیے یا اس کے حملے سے دفاع کے لیے نہیں صرف اور صرف حضرت انسان کی نسل کُشی، تباہی و بربادی کے لیے ہے۔ کیونکہ ان کے مطابق امریکا میں انسان نہیں۔ عظیم امریکی رہتے ہیں ایک عظیم قوم جو زندہ ہے لیکن انسان نہیں۔ بالکل اسی طرح درجہ بندی پر آنے والے تمام ممالک مثلاً روس، چین، برطانیہ، فرانس، شمالی کوریا، آسٹریلیا، جرمنی، ہندوستان، پاکستان، ایران کا جائزہ لینے پر ایسے ہی حقائق کا سامنا ہے۔ جہاں ہر ملک کی ترقی کا نقطہ عروج خطہ ارض سے انسانوں کا خاتمہ کرنا جلد از جلد خاتمہ، بھیانک خاتمہ، اذیت ناک موت دے کر ختم کرنا ہے اور اپنے اپنے تئیں خود کو عظیم قوم، عظیم ملک کہلوانا ہے۔

دنیا کے وسائل پر قابض ہونا، اپنی علمیت کے سامنے باقی دنیا کو، اقوام عالم کو جاہل گرداننا ہے۔ میں ابھی دو روز قبل میڈیا کے جملہ ذرایع پر انڈیا کے ایک میزائل تجربے کی روداد پڑھ، سن رہا تھا۔ جس کے بعد پاکستان کی سالمیت کو شدید خطرات لاحق ہونے جا رہے تھے۔ اسی طرح کچھ عرصہ قبل پاکستان کے میزائل تجربات پر انڈیا کے تحفظات تھے۔

مجھے ہنسی آ گئی کیونکہ میں انڈیا اپنے عزیزوں سے ملنے کئی ایک بار جا چکا ہوں، جب کہ پاکستان میرا ملک ہے۔ دونوں ممالک میں عوام الناس کا حال اس قدر دگرگوں ہے کہ بیان سے باہر۔ بھوک، افلاس، مفلوک الحالی، مہنگائی نے انھیں اس بری طرح جکڑا ہوا ہے کہ رہائی مشکل۔ دونوں ممالک کے کروڑوں لوگ بنیادی سہولتوں سے محروم شہروں قصبوں کی فٹ پاتھوں پر محو خرام۔ آئے دن فضا میں میزائل تجربات کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ پیٹ میں روٹی نہیں تو ہاتھ میں سوٹی کا کیا کرنا۔ لیکن ایک دوسرے کو نیچا دکھانا، عظیم قوم کا درجہ حاصل کرنا ہے۔ عظیم انسان یا انسان کی عظمت سے انھیں کیا سروکار۔

یہ عجیب طرفہ تماشا ہے۔ یعنی ایک مخلوق جو مخلوقات عالم میں خود کو اشرف کہتی ہے اقوام میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے کے خاتمے پر تلی ہے۔ خالق نے جسے خلق کر کے انسان کا نام دیا۔ اسے اپنے نام میں اختراع انگیزیوں کی، اپنی جنس کو تقسیم کے بعد امریکی، روسی، فرانسیسی، انگریز، ترک، مصری اور جانے کیا کیا کہلوایا۔ اس کے نزدیک انسان ہونا ارزاں ہے۔ انسانیت کچھ نہیں۔ یہ رشتہ اسے قبول نہیں۔ اس کے ہم قوم ہیں تو اس کے رشتے دار پناہ میں ہیں۔ تب انصاف کے حقدار ہیں، ورنہ غدار ہیں۔ عراقی، ویت نامی، افغانی ہیں، جاپانی، جرمنی، اسرائیلی ہیں۔ یعنی حکم عام لگتا ہے۔


''انسان کو جہاں پاؤ پکڑو اور قتل کر دو۔''اس پر مذاق یہ کہ ترقی ہو رہی ہے، تیز رفتار ترقی۔ ہر میدان زندگی میں نت نئے انکشافات۔ جینیاتی سائنس، میڈیکل سائنس، خلاء، فضا، سمندر، تہہ سمندر، حتیٰ کہ قدرت کے اسرار و رموز تک پہنچنے کے دعوے۔ سمجھ میں نہیں آتا۔ بعد از عقل ہے کہ شعور (sense) آپ کا راہنما ہے؟ یا راہزن۔ کیا ہے؟ اب تک ہم جس قدر انسانی ارتقا کا جائزہ لیتے ہیں۔ ارتقائی حیات پر ارتکاز کرتے ہیں ۔ ہمارے ہاتھ اگر کچھ آتا ہے تو جنگیں۔ پہلے نوکیلے پتھر سے، پھر تیز دھار لکڑی سے پھر لوہے، تانبے کے ہتھیاروں سے۔رفتہ رفتہ ایٹم بم سے جو ہیرو شیما و ناگاساکی پر برسائے گئے، کروڑوں انسان فنا ہوئے، معذور ہو گئے۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ ایسا اس لیے ہے کہ کائنات کی آبادی قابو میں رہے۔

لیکن پھر الٰہی احکامات پر نظر جاتی ہے جہاں پر آسمانی کتاب میں ایک انسان کی جان کو انسانیت سے تشبیہ دی گئی۔ اور بلاوجہ کسی کی جان لینے کی سخت ترین ممانعت کرتے ہوئے اسے ناقابل معافی جرم قرار دیا گیا۔ تب اس کا سراغ کہاں لگائیں۔ کیسے معلوم ہو کہ یہ ناقابل علاج بیماری جو ظاہر ہے نفسیاتی ہے۔ حضرت انسان کو کب، کہاں، کس دور میں لگی۔ اور ایسی بیماری جو جا کر نہیں دے رہی۔ جس میں ہر آنے والے دن کے ساتھ بلا کا اضافہ ہے۔ ایسا مرض جو بلاشبہ ایک دن کرہ ارض پر انسانی حیات کے خاتمے کا سبب ہو گا۔ ظاہر ہے کہ انسان ہی نہیں ہو گا تو کون سی قوم، کس کا ملک، لیکن یہ بات کون کس کو سمجھائے۔ کیا طریقہ ہو، بظاہر تو میں بھی کہہ سکتا ہوں۔ امریکا ظالم ہے۔ مسلم دشمن ہے، انڈیا اسلام اور مسلمانوں کی پسپائی چاہتا ہے۔ کچھ ایسا ہی وہ بھی ہمارے لیے سوچتے اور کہتے ہوں گے۔

اگر مذاہب عالم کو یا نظریات کے تضاد کو اختلاف کی وجہ قرار دیں مان لیں کہ یہ مذاہب کی برتری یا سچائی کی جنگیں ہیں تب بھی کوئی نقطہ نظر قبول کرنے کے لیے انسان کا اول زندہ ہونا ضروری ہے۔ دوم وہ آپ کی بات صرف پیار سے، نرمی سے سمجھ سکتا ہے۔ آپ جبراً اس سے کچھ کہلوا بھی لیں تو وہ موقع پاتے ہی مکر جائے گا۔ جیسے قرآن کریم میں اللہ نے فرمایا ''لااِکراہ فی الدین'' دین میں جبر نہیں۔

اور اس معاملے پر مذاکرات بڑی آسانی سے ہو سکتے ہیں۔ مثلاً مذاہب عالم کا ہر قوم، ملک احترام کرے۔ نیز ہر ایک دوسرے پر تبلیغ کی اجازت ہو۔ جس کا دل جو مانے اسے وہ کرنے کی مکمل آزادی دی جائے۔ آخر ہم بہت سے دیگر نظام بھی تو کامیابی سے چلا رہے ہیں جیسے جمہوریت جس میں ہم ہر ایک کو اظہار رائے کی آزدی دیتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنے کا کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آتا کہ فلاں ملک فلاں قوم، ہنود و یہود و نصاریٰ ہمارے اولین دشمن ہیں یا دوسری طرف سے یہ دعویٰ کرنا کہ مسلمان دہشت گردی کے موجود ہیں اور مذاہب سے ہٹ کر جو اقوام نظریات پر کاربند ہیں۔ انھیں بھی زبردستی مذہب کے دائرہ کار میں لانا۔ مناسب نہیں۔ البتہ نرمی سے اپنی بات دوسرے تک پہنچانے کا حق ہے۔

کوئی بھی کسی کو قائل کرے اسے اجازت ہونی چاہیے، لیکن خود اپنے ہاتھوں اپنا قتل عام یہ کہہ کر کرنا کہ میں فلاں قوم کا فرد ہوں یا قوم ہوں، انسانیت کی کھلم کھلا توہین ہے۔ جب کہ ہم جانتے ہیں ہم سب انسانوں کا ایک ہی باپ ہے ایک ہی ماں۔ ہم یہاں ایک مثال دیتے ہیں۔ 9/11 کا حادثہ جس میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر جیسی عمارتوں پر حملے میں سیکڑوں امریکی مارے گئے۔ اور امریکا نے جواباً عراق، افغانستان، جزوی طور پر پاکستان پر جوابی حملوں کے ذریعے لاکھوں انسانوں کا قتل عام کیا۔ اس سے امریکا کو، امریکی قوم کو ملا کیا؟ بدقسمتی سے بعد میں پتہ چلا کہ جن سے بدلہ لیا گیا وہ تو وہ لوگ ہی نہ تھے جس کا 9/11 حملوں سے کوئی تعلق تھا۔ سارے بے قصور۔

قارئین کرام! آپ میرے موضوع سے یہ کہہ کر اختلاف کر سکتے ہیں کہ ہدف ناقابل حصول ہے۔ محض انسان مان کر،کسی کو رشتے دار مان لینا، اس کا احترام کرنا، اس کی حفاظت کرنا، آپس میں جنگیں نہ کرنا، مہلک ہتھیار نہ بنانا، یہ کیا مذاق ہے۔ (جاری ہے)
Load Next Story