صدر کو ججوں کی تقرری کا نوٹیفکیشن روکنے کا اختیار نہیں سپریم کورٹ
اسلام آبادہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری سے متعلق رٹ پروفاق سے جواب طلب،صدر
سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوںکی تقرری کے متعلق آئینی پٹیشن باقاعدہ سماعت کیلیے منظورکرتے ہوئے وفاقی حکومت سے جواب طلب کر لیا اور قرار دیا کہ ججوں کی تقرری کے بارے میں جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کی منظوری کے بعد صدر، وزیر اعظم کا کردار ڈاکخانے کا ہے۔
صدر کے پاس نوٹیفیکیشن روکنے کا اختیار نہیں، عدالت نے اٹارنی جنرل کو جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے کی وجوہ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی، جسٹس خلجی عارف حسین کی سربراہی میں4 رکنی بنچ نے ندیم احمد کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی جس میں جسٹس اقبال حمیدالرحمٰن کو سپریم کورٹ کا جج، جسٹس انورکاسی کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ مقرر کرنے، جسٹس شوکت عزیز کی مستقلی اور جسٹس قادری کی مدت میں توسیع کی سفارشات کی منظوری سے صدرکے انکارکو چیلنج کیا گیا ہے، عدالت نے اٹارنی جنرل کے جارحانہ رویے کا بھی نوٹس لیا اور انھیں تحمل کیساتھ دلائل دینے کی ہدایت کی۔
عدالت نے آبزرویشن دی کہ ججوں کی تقرری کے بارے میں جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کی منظوری کے بعد وزیر اعظم اور صدر کا کردار ڈاکخانے کا ہے، صدر کے پاس نوٹیفیکیشن روکنے کا اختیار نہیں۔ درخواست گزار کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ پٹیشن کیلیے سپریم کورٹ ہی مناسب فورم ہے۔ جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کی منظوری کے بعد صدر کے پاس نوٹیفکیشن روکنے کا اختیار نہیں، 6 ہفتے ہوگئے مگر نوٹیفکیشن نہیں ہوا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ 19ویں ترمیم کے بعد پارلیمانی کمیٹی سے نام منظور ہونے کے بعد وزیر اعظم معاملہ صدر کو بھیجیں گے اور صدر نوٹیفکیشن جاری کرنے کی ہدایت کرینگے۔
اکرم شیخ نے کہا کہ ججوں کی تقرری میں صدر، وزیر اعظم کا کردارکلیریکل ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا وزیر اعظم کے پاس نام صدر کو نہ بھیجنے اور صدر کے پاس نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے کا اختیار نہیں۔ اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کی سفارشات کی پارلیمانی کمیٹی سے منظوری کے بعد قانونی عمل مکمل ہو جاتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے ان دلائل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر10سالہ تجربے والے وکیل کو ہائیکورٹ کا جج لگا دیا جائے تو صدر کو اسکا جائزہ لینے کا اختیار ہے، ججوں کا تقرر معمولی معاملہ نہیں کہ صدر لاتعلق رہیں۔
پٹیشن قابل پذیرائی نہیں، اس میں چیف جسٹس کی خواہش شامل ہے، انھوں نے رجسٹرار سپریم کورٹ پر اعتراض اٹھائے اور کہا کہ انکے طرز عمل پر شدید تحفظات ہیں، وہ درخواست گزار کیساتھ ملے ہوئے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے جوڈیشل کمیشن پر بھی اعتراض کیا اور کہا کہ کمیشن کی کمپوزیشن پر تحفظات ہیں، صدر کے راستے میں سفارشات کی منظوری میں آئین رکاوٹ ہے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ کمیشن پر اعتراض تھا تو اسکو چیلنج کر دیتے، اٹارنی جنرل نے کہا چیلنج کرنے کی ضرورت نہیں، اعلیٰ حکام غیر آئینی احکامات پر عملدرآمدکے پابند نہیں۔
جسٹس کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ خطرناک دلائل دے رہے ہیں، انہیں مان لیں تو افراتفری پیدا ہو گی، آئین کے تحت سرانجام دیے جانے والے امور کو کسی کو غیر آئینی کہنے کا اختیار نہیں، اس کیلئے متعلقہ فورم سے رجوع کیا جاتا ہے۔ عدالت نے مزید کارروائی جمعرات تک ملتوی کر دی اور اٹارنی جنرل کو حکومت سے ہدایات لینے کیلئے کہا، جسٹس کھوسہ نے کہا کہ وہ یہ ہدایات بھی لیں کہ انھوں نے اپنی دلیل تحمل اور پیار محبت سے پیش کرنی ہے یا لڑائی کرنی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا آئینی معاملات پر جارحانہ رویہ اپنانا چاہیے، آواز پیدائشی اونچی ہے اور سرگوشی میں کی گئی بات بھی اونچی ہو جاتی ہے۔
ججوں کی تقرری پر عدالت کے گزشتہ 3 سال کے فیصلوں پر بھی تفصیلی بحث کرینگے، ان فیصلوں پر تحفظات ہیں اور ہو سکتا ہے کہ عدالت کو ان پر نظر ثانی کرنا پڑے۔ آئی این پی کے مطابق عدالت نے اٹارنی جنرل کے جارحانہ رویہ پر برہمی کا اظہار کیا۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ آرٹیکل 175اے میں صدرکوکسی جج کی نامزدگی واپس کرنے کا ذکر نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ صدرکے پاس نوٹیفکیشن جاری کرنے کے علاوہ آپشن نہیں۔ اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ کیس چیف جسٹس کی ایما پر دائر کیا گیا۔ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے نظرانداز کیے جا سکتے ہیں۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ اسکا مطلب یہ ہو گا کہ عدالتی فیصلہ کوئی بھی رد کر سکتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر ریاست کاسربراہ ہے، آئین پر عمل کرنا اس کا اختیار ہے۔ این این آئی کے مطابق عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کے تقرر کے حوالے سے صدر کے فیصلے کیخلاف حکم امتناعی جاری کرنے کی استدعا مسترد کر دی، اکرم شیخ نے کہا کہ جسٹس شوکت صدیقی اور جسٹس نورالحق این قادری کی مدت میں توسیع کا نوٹیفکیشن جاری نہ ہوا تو اسلام آباد ہائیکورٹ خالی ہو جائے گی۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ججز کی تقرری کا نوٹیفکیشن صدر نے کرنا ہے، یہ اختیار عدالت کیسے غصب کر سکتی ہے؟ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں عدالت صدر کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے؟ اکرم شیخ نے موقف اختیار کیا کہ آئین کے تحت صدر نے محض منظوری دینی ہے۔ اٹارنی جنرل نے الزام عائد کیا کہ درخواست چیف جسٹس افتخار چودھری کے ایما پر دائر کی گئی۔ آئین کے تحت صدر اور وزیر اعظم سپریم کورٹ کو جوابدہ نہیں۔
صدر کے پاس نوٹیفیکیشن روکنے کا اختیار نہیں، عدالت نے اٹارنی جنرل کو جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے کی وجوہ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی، جسٹس خلجی عارف حسین کی سربراہی میں4 رکنی بنچ نے ندیم احمد کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی جس میں جسٹس اقبال حمیدالرحمٰن کو سپریم کورٹ کا جج، جسٹس انورکاسی کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ مقرر کرنے، جسٹس شوکت عزیز کی مستقلی اور جسٹس قادری کی مدت میں توسیع کی سفارشات کی منظوری سے صدرکے انکارکو چیلنج کیا گیا ہے، عدالت نے اٹارنی جنرل کے جارحانہ رویے کا بھی نوٹس لیا اور انھیں تحمل کیساتھ دلائل دینے کی ہدایت کی۔
عدالت نے آبزرویشن دی کہ ججوں کی تقرری کے بارے میں جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کی منظوری کے بعد وزیر اعظم اور صدر کا کردار ڈاکخانے کا ہے، صدر کے پاس نوٹیفیکیشن روکنے کا اختیار نہیں۔ درخواست گزار کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ پٹیشن کیلیے سپریم کورٹ ہی مناسب فورم ہے۔ جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کی منظوری کے بعد صدر کے پاس نوٹیفکیشن روکنے کا اختیار نہیں، 6 ہفتے ہوگئے مگر نوٹیفکیشن نہیں ہوا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ 19ویں ترمیم کے بعد پارلیمانی کمیٹی سے نام منظور ہونے کے بعد وزیر اعظم معاملہ صدر کو بھیجیں گے اور صدر نوٹیفکیشن جاری کرنے کی ہدایت کرینگے۔
اکرم شیخ نے کہا کہ ججوں کی تقرری میں صدر، وزیر اعظم کا کردارکلیریکل ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا وزیر اعظم کے پاس نام صدر کو نہ بھیجنے اور صدر کے پاس نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے کا اختیار نہیں۔ اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کی سفارشات کی پارلیمانی کمیٹی سے منظوری کے بعد قانونی عمل مکمل ہو جاتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے ان دلائل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر10سالہ تجربے والے وکیل کو ہائیکورٹ کا جج لگا دیا جائے تو صدر کو اسکا جائزہ لینے کا اختیار ہے، ججوں کا تقرر معمولی معاملہ نہیں کہ صدر لاتعلق رہیں۔
پٹیشن قابل پذیرائی نہیں، اس میں چیف جسٹس کی خواہش شامل ہے، انھوں نے رجسٹرار سپریم کورٹ پر اعتراض اٹھائے اور کہا کہ انکے طرز عمل پر شدید تحفظات ہیں، وہ درخواست گزار کیساتھ ملے ہوئے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے جوڈیشل کمیشن پر بھی اعتراض کیا اور کہا کہ کمیشن کی کمپوزیشن پر تحفظات ہیں، صدر کے راستے میں سفارشات کی منظوری میں آئین رکاوٹ ہے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ کمیشن پر اعتراض تھا تو اسکو چیلنج کر دیتے، اٹارنی جنرل نے کہا چیلنج کرنے کی ضرورت نہیں، اعلیٰ حکام غیر آئینی احکامات پر عملدرآمدکے پابند نہیں۔
جسٹس کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ خطرناک دلائل دے رہے ہیں، انہیں مان لیں تو افراتفری پیدا ہو گی، آئین کے تحت سرانجام دیے جانے والے امور کو کسی کو غیر آئینی کہنے کا اختیار نہیں، اس کیلئے متعلقہ فورم سے رجوع کیا جاتا ہے۔ عدالت نے مزید کارروائی جمعرات تک ملتوی کر دی اور اٹارنی جنرل کو حکومت سے ہدایات لینے کیلئے کہا، جسٹس کھوسہ نے کہا کہ وہ یہ ہدایات بھی لیں کہ انھوں نے اپنی دلیل تحمل اور پیار محبت سے پیش کرنی ہے یا لڑائی کرنی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا آئینی معاملات پر جارحانہ رویہ اپنانا چاہیے، آواز پیدائشی اونچی ہے اور سرگوشی میں کی گئی بات بھی اونچی ہو جاتی ہے۔
ججوں کی تقرری پر عدالت کے گزشتہ 3 سال کے فیصلوں پر بھی تفصیلی بحث کرینگے، ان فیصلوں پر تحفظات ہیں اور ہو سکتا ہے کہ عدالت کو ان پر نظر ثانی کرنا پڑے۔ آئی این پی کے مطابق عدالت نے اٹارنی جنرل کے جارحانہ رویہ پر برہمی کا اظہار کیا۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ آرٹیکل 175اے میں صدرکوکسی جج کی نامزدگی واپس کرنے کا ذکر نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ صدرکے پاس نوٹیفکیشن جاری کرنے کے علاوہ آپشن نہیں۔ اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ کیس چیف جسٹس کی ایما پر دائر کیا گیا۔ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے نظرانداز کیے جا سکتے ہیں۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ اسکا مطلب یہ ہو گا کہ عدالتی فیصلہ کوئی بھی رد کر سکتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر ریاست کاسربراہ ہے، آئین پر عمل کرنا اس کا اختیار ہے۔ این این آئی کے مطابق عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کے تقرر کے حوالے سے صدر کے فیصلے کیخلاف حکم امتناعی جاری کرنے کی استدعا مسترد کر دی، اکرم شیخ نے کہا کہ جسٹس شوکت صدیقی اور جسٹس نورالحق این قادری کی مدت میں توسیع کا نوٹیفکیشن جاری نہ ہوا تو اسلام آباد ہائیکورٹ خالی ہو جائے گی۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ججز کی تقرری کا نوٹیفکیشن صدر نے کرنا ہے، یہ اختیار عدالت کیسے غصب کر سکتی ہے؟ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں عدالت صدر کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے؟ اکرم شیخ نے موقف اختیار کیا کہ آئین کے تحت صدر نے محض منظوری دینی ہے۔ اٹارنی جنرل نے الزام عائد کیا کہ درخواست چیف جسٹس افتخار چودھری کے ایما پر دائر کی گئی۔ آئین کے تحت صدر اور وزیر اعظم سپریم کورٹ کو جوابدہ نہیں۔