22 سال تک بھارت کی جیل میں قید رکھا گیا بے گناہ مسلمان شہری رہا

حراست کے دوران پولیس نے مجھے مارا پیٹا، الٹا لٹکایا اور میں ان سے یہی پوچھتا رہا کہ میرا قصور تو بتاؤ،نثارالدین

حراست کے دوران پولیس نے مجھے مارا پیٹا، الٹا لٹکایا اور میں ان سے یہی پوچھتا رہا کہ میرا قصور تو بتاؤ،نثارالدین۔ فوٹو: بی بی سی

بھارتی عدالت نے 22 سال تک بے قصور جیل میں قیدی کی زندگی گزارنے والے 43 سالہ مسلمان شخص کو رہا کردیا۔

حیدرآباد کی پولیس نے 1994 میں اے پی ایکسپریس ٹرین میں ہونے والے بم دھماکے میں ملوث ہونے کے الزام میں نوجوان نثارالدین کو حراست میں لیا تھا اور اس وقت ان کی عمر محض 20 سال تھی تاہم ایک طویل قانونی جنگ کے بعد بالاخر سپریم کورٹ نے نثارالدین اور ان کے بھائی ظہیرالدین کی سزا منسوخ کرتے ہوئے انہیں گزشتہ ماہ فوری رہا کرنے کا حکم دیا۔

جسٹس كلی پھلا اور يويو للت پر مشتمل سپریم کورٹ کے 2 رکنی بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ نثارالدین پرکوئی الزام ثابت نہیں ہوا لہٰذا ان کی قید کی سزا کو جاری نہیں رکھا جا سکتا، عدالت نے کہا کہ پختہ ثبوت کی عدم موجودگی میں صرف شریک ملزمان کے اقبال جرم کی بنیاد پرنثارالدین اوران کے بھائی کی سزا کو برقرارنہیں رکھا جا سکتا، دونوں بھائیوں کو آج تک معلوم ہی نہیں کہ آخر پولیس نے انھیں اس کیس میں ملزم کیوں بنایا تھا۔

نثارالدین کے وکیل کا کہنا ہے کہ عام طورپرایک پولیس افسرکے سامنے دیے گئے اقبالی بیان کوعدالت میں قبول نہیں کیا جاتا لیکن ٹاڈا (انسداد دہشت گردی قانون) کے تحت ایسے بیان کو قانونی سمجھا جاتا ہے بشرطیکہ وہ ایس پی رینک کے کسی افسرکے سامنے دیا گیا ہو لیکن نثارالدین کے کیس میں بغیر کسی سینیئر پولیس افسر کی اجازت کے اس کا اقرارنامہ لیا گیا تھا جو درست نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کورٹ میں کیس اسی وقت خارج ہو جانا چاہیے تھا لیکن پھر سی بی آئی نے کیس اپنے ہاتھ میں لیا اوراسی اقبالی بیان کو اجمیرکی ٹاڈا عدالت میں پیش کیا اورپھرعدالت نے نثار کوعمرقید کی سزا سنائی۔




نثارالدین کا کہنا ہے کہ وہ 15 جنوری 1994 کو گھر سے اپنے فارمیسی کالج جانے کے لیے نکلے تھے کہ راستے میں انہیں پولیس نے اٹھا لیا اور انہیں 43 روز تک غیر قانونی طریقے سے حراست میں رکھا جس کے بعد مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔ نثارالدین کہتے ہیں کہ حراست کے دوران پولیس نے مجھے مارا پیٹا، الٹا لٹکایا اور میں ان سے یہی پوچھتا رہا کہ میرا قصور تو بتاؤ لیکن انھوں نے مجھے کچھ نہیں بتایا اوراہلکاروں نے ایک من گھڑت اقبالی بیان پرزبردستی میرے دستخط کروا لیے جس پر پولیس کا کہنا تھا کہ یہ میری رہائی کے لیے ہے لیکن مجھے بعد میں پتہ چلا کہ مجھے دہشت گردی کے الزام میں پھنسا دیا گیا ہے۔



جوانی کا طویل دورجیل میں گزارنے والے نثار کو معلوم نہیں کہ انھیں آگے کرنا کیا ہے جن کا کہنا ہے کہ جب رہائی کے بعد میں اپنے گھر پہنچا تب جا کرمجھے احساس ہوا کہ میں رہا ہو چکا ہوں لیکن اس وقت تک سب کچھ بدل چکا تھا، میں اپنے ہی شہر میں خود کو اجنبی محسوس کر رہا تھا، میری رہائی کی لڑائی لڑتے لڑتے میرے ابّا دنیا سے رخصت ہو چکے تھے، میری ماں میرے لیے بہت تڑپتی رہی، میں نہیں چاہتا کہ دوسری ماؤں کے ساتھ ایسا ہو، بہت سے لوگ ایسے ہیں جو میری طرح بغیر قصور برسوں سے جیل میں سڑ رہے ہیں، میری یہ واحد خواہش ہے کہ بے گناہوں کو اس طرح سے مشقت نہ جھیلنا پڑے۔
Load Next Story