آئی ایس آئی نے ساڑھے 4ارب لے لیے دہشت گردوں کا ڈیٹا نہیں بنایا اکائونٹس کمیٹی کا اظہار تشویش
وزارت داخلہ میں3 کروڑ کے فنڈ کے استعمال پر رپورٹ طلب، لوگ رشوت دیکر6 ماہ میں پاسپورٹ حاصل کرتے ہیں، رکن کمیٹی نور عالم
قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے 2007-08 ء میں وزارت داخلہ کی جانب سے آئی ایس آئی کو دہشت گردوں کا ڈیٹاتیارکرنے کے لیے ساڑھے 4 ارب روپے دینے کے باوجودتاحال ڈیٹا تیارنہ کیے جانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور اس سلسلے میں20دن میں رپورٹ طلب کرلی۔
جبکہ کمیٹی نے وزارت داخلہ کی جانب سے مجاز اتھارٹی سے منظوری کے بغیر3 کروڑ روپے کے خفیہ فنڈ استعمال کیے جانے کے معاملے پربھی 20دن میں رپورٹ طلب کرلی اور قرار دیا ہے کہ خفیہ فنڈ کو آڈٹ کے بغیر نہیں چھوڑا جاسکتا ،وزارت خزانہ کو پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان کو ادائیگی کیلیے پاسپورٹ اینڈ امیگریشن ڈپارٹمنٹ کو فنڈ جاری کرکے 15روز میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ، نادرا میں خلاف قواعد دو ڈپٹی چیئرمینوں کی تعیناتی پر تحریری جواب طلب کرلیا گیا ۔
منگل کواکائونٹس کمیٹی کااجلاس چیئرمین کمیٹی ندیم افضل گوندل کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ا جلاس میں وزارت داخلہ کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی نے سیکریٹری داخلہ صدیق اکبر کی اجلاس میں عدم حاضری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیکریٹری داخلہ مصروف آدمی ہیں رات کو دیر تک جاگتے ہیں ان کے لیے پارلیمنٹ کی کوئی اہمیت نہیں تو ہمیں بھی ان کی شکل دیکھنے کا شوق نہیں ۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سلسلے میں2007-08 ء میں حکومت نے ایک منصوبہ تیار کیا جس کا مقصد ملک میں دہشت گردوں کا ڈیٹا جمع کرنا ہے تاکہ پولیس کے نظام کو مربوط بنایا جائے اور پولیس فورس کی ابتدائی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جائے۔
منصوبے کے تحت آئی ایس آئی کو ساڑھے4 ارب روپے پولیس کی جانب سے دیے گئے۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ منصوبے کے لیے افسروں کا انتخاب اور فنڈ کی تقسیم یک طرفہ طور پر ہوتی رہی۔ جس کے نتیجے میں 6 سال گزرنے کے باوجود دہشت گردوں کا ڈیٹا بیس قائم نہیں ہو سکا۔ وزارت داخلہ نے کہا کہ آئی ایس آئی کو اس حوالے سے6 خط لکھے گئے مگر کوئی جواب نہیں آیا۔ کمیٹی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ دو قومی اداروں کے درمیان طے شدہ سمجھوتے پر عمل نہیں ہو سکا اور نہ ہی کئی ارب روپے کے اخراجات کا کوئی حساب سامنے آسکا ۔ کمیٹی نے کہا کہ قومی سلامتی کے معاملے پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن خرچ شدہ رقوم کا بھی کوئی حساب کتاب ہونا چاہیے۔
کمیٹی نے 20 روز میں سارے معاملے کی انکوائری کرکے رپورٹ مانگ لی ہے۔ قائمہ کمیٹی نے وزارت داخلہ، اسلام آباد ٹریفک پولیس اور ایف آئی اے کی جانب سے 3 کروڑ کے خفیہ فنڈ اتھارٹی کی منظوری کے بغیر خرچ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ کا ٹھیکہ قواعد کے خلاف2003 ء میں نادرا کو دیا گیا۔ رکن کمیٹی نور عالم نے کہا کہ پاسپورٹ کے اجراء میں تاخیر ہو رہی ہے لوگ رشوت دے کر4 سے6 ماہ میں پاسپورٹ حاصل کرتے ہیں۔
پاسپورٹ اینڈ امیگریشن ڈپارٹمنٹ کے ذمے پرنٹنگ کارپوریشن کے 60 سے70 کروڑ روپے واجب الادا ہیں رقم وصول نہ ہونے کے باعث پرنٹنگ کارپوریشن نے پاسپورٹ کی پرنٹنگ 15ہزار سے کم کرکے 5 ہزار کر دی ہے۔کمیٹی نے15 روز میں پاسپورٹ وامیگریشن کو رقم جاری کرکے وزارت خزانہ کو رپورٹ دینے کی ہدایت کر دی ۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ نیشنل بینک کو صرف2 روپے پاسپورٹ فیس پر لینے کی اجازت ہے مگر وہ غیر قانونی طور پر25 روپے وصول کر رہا ہے جوکئی ارب روپے بن جاتے ہیں۔ کمیٹی نے تحقیقات کرکے ذمے داروں کا تعین کرنے کی ہدایت کی ہے۔
جبکہ کمیٹی نے وزارت داخلہ کی جانب سے مجاز اتھارٹی سے منظوری کے بغیر3 کروڑ روپے کے خفیہ فنڈ استعمال کیے جانے کے معاملے پربھی 20دن میں رپورٹ طلب کرلی اور قرار دیا ہے کہ خفیہ فنڈ کو آڈٹ کے بغیر نہیں چھوڑا جاسکتا ،وزارت خزانہ کو پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان کو ادائیگی کیلیے پاسپورٹ اینڈ امیگریشن ڈپارٹمنٹ کو فنڈ جاری کرکے 15روز میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ، نادرا میں خلاف قواعد دو ڈپٹی چیئرمینوں کی تعیناتی پر تحریری جواب طلب کرلیا گیا ۔
منگل کواکائونٹس کمیٹی کااجلاس چیئرمین کمیٹی ندیم افضل گوندل کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ا جلاس میں وزارت داخلہ کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی نے سیکریٹری داخلہ صدیق اکبر کی اجلاس میں عدم حاضری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیکریٹری داخلہ مصروف آدمی ہیں رات کو دیر تک جاگتے ہیں ان کے لیے پارلیمنٹ کی کوئی اہمیت نہیں تو ہمیں بھی ان کی شکل دیکھنے کا شوق نہیں ۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سلسلے میں2007-08 ء میں حکومت نے ایک منصوبہ تیار کیا جس کا مقصد ملک میں دہشت گردوں کا ڈیٹا جمع کرنا ہے تاکہ پولیس کے نظام کو مربوط بنایا جائے اور پولیس فورس کی ابتدائی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جائے۔
منصوبے کے تحت آئی ایس آئی کو ساڑھے4 ارب روپے پولیس کی جانب سے دیے گئے۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ منصوبے کے لیے افسروں کا انتخاب اور فنڈ کی تقسیم یک طرفہ طور پر ہوتی رہی۔ جس کے نتیجے میں 6 سال گزرنے کے باوجود دہشت گردوں کا ڈیٹا بیس قائم نہیں ہو سکا۔ وزارت داخلہ نے کہا کہ آئی ایس آئی کو اس حوالے سے6 خط لکھے گئے مگر کوئی جواب نہیں آیا۔ کمیٹی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ دو قومی اداروں کے درمیان طے شدہ سمجھوتے پر عمل نہیں ہو سکا اور نہ ہی کئی ارب روپے کے اخراجات کا کوئی حساب سامنے آسکا ۔ کمیٹی نے کہا کہ قومی سلامتی کے معاملے پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن خرچ شدہ رقوم کا بھی کوئی حساب کتاب ہونا چاہیے۔
کمیٹی نے 20 روز میں سارے معاملے کی انکوائری کرکے رپورٹ مانگ لی ہے۔ قائمہ کمیٹی نے وزارت داخلہ، اسلام آباد ٹریفک پولیس اور ایف آئی اے کی جانب سے 3 کروڑ کے خفیہ فنڈ اتھارٹی کی منظوری کے بغیر خرچ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ کا ٹھیکہ قواعد کے خلاف2003 ء میں نادرا کو دیا گیا۔ رکن کمیٹی نور عالم نے کہا کہ پاسپورٹ کے اجراء میں تاخیر ہو رہی ہے لوگ رشوت دے کر4 سے6 ماہ میں پاسپورٹ حاصل کرتے ہیں۔
پاسپورٹ اینڈ امیگریشن ڈپارٹمنٹ کے ذمے پرنٹنگ کارپوریشن کے 60 سے70 کروڑ روپے واجب الادا ہیں رقم وصول نہ ہونے کے باعث پرنٹنگ کارپوریشن نے پاسپورٹ کی پرنٹنگ 15ہزار سے کم کرکے 5 ہزار کر دی ہے۔کمیٹی نے15 روز میں پاسپورٹ وامیگریشن کو رقم جاری کرکے وزارت خزانہ کو رپورٹ دینے کی ہدایت کر دی ۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ نیشنل بینک کو صرف2 روپے پاسپورٹ فیس پر لینے کی اجازت ہے مگر وہ غیر قانونی طور پر25 روپے وصول کر رہا ہے جوکئی ارب روپے بن جاتے ہیں۔ کمیٹی نے تحقیقات کرکے ذمے داروں کا تعین کرنے کی ہدایت کی ہے۔