بس یہ بتائیں بجٹ کے بعد مہنگائی کم ہوگی یا نہیں
یعنی ہمیشہ کی طرح پھر وہی گول مول بجٹ، حکومت اپنی تعریف کرتی رہے گی اور اپوزیشن اپنا ہنگامہ؟
لاہور:
''وقاص بیٹا!'' میں ابھی یونیورسٹی جانے کے لیے بس سٹاپ پر پہنچا ہی تھا کہ احمد چاچا نے آواز لگائی جوہاتھ میں اخبار پکڑے ساتھ والے ہوٹل میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔
''مارے گئے! آج پھر پورا اخبار پڑھ کر سنانا پڑے گا۔'' میں نے دل ہی دل میں سوچا۔
''بیٹا! بجٹ پیش ہوگیا ہے۔ ٹی وی والے بجٹ کی تو مجھے بالکل بھی سمجھ نہیں آتی، نہ جانے کس زبان میں بول رہے ہوتے ہیں۔ تم یہ اخبار سے ہی دو چار سُرخیاں پڑھ کر سنا دو۔'' احمد چاچا کے لہجے میں التجا تھی۔
''چاچا جی! یونیورسٹی کی بس پہنچنے والی ہے۔'' میں نے گھڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے معذرت کرنا چاہی۔
''بیٹا! بس بجٹ والی دو چارموٹی موٹی خبریں، جب تمھاری بس آجائے تو چلے جانا۔ مجھ سے اب عینک لگا کر بھی صحیح طرح سے پڑھا نہیں جاتا اور تمھارے علاوہ اس محلے میں اور کوئی میری سنتا نہیں ہے۔'' احمد چاچا نے اخبار میری طرف بڑھاتے ہوئے بیچارگی سے کہا تو مجھے اُن پر ترس آگیا اور میں اخبار پکڑ کر اُن کے سامنے والے بینچ پر بیٹھ گیا۔
''بیالیس کھرب بارہ ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش، ٹیکس وصولیوں کا ہدف اکتیس سو تین اعشاریہ چار ارب، نان ٹیکس ریونیو کا ہدف آٹھ سو نوے ارب روپے مقرر۔'' میں نے شہ سرخی پڑھ کر سنائی تو اُنہوں نے فوراََ آگے پڑھنے کا اشارہ کردیا۔
''بجٹ میں وفاق اور صوبوں کے مجموعی حجم میں سے وسائل کی دستیابی کا تخمینہ اکتالیس سو ساٹھ ارب روپے ہے۔'' میں نے مزید پڑھا ۔
''بیٹا! مجھے جلدی جلدی صرف بجٹ کا پڑھ کر سنا دو، پھر تمھاری بس آجائے گی اور تم چلے جاؤ گے۔'' احمد چاچا نے بے چینی سے کہا۔
''قطعی مالیاتی وصولیات کا تخمینہ چوبیس سو پچاس ارب روپے اور وفاقی مالیاتی وصولیات میں صوبائی حصے کا تخمینہ اٹھارہ سو پچاس ارب روپے ہے۔ قطعی سرمایہ جاتی وصولیات کا تخمینہ چھ سو پانچ ارب روپے، بیرونی وصولیوں کا تخمینہ سات سو پچاس ارب روپے، کُل اخراجات کا تخمینہ چوالیس سو ساٹھ ارب روپے لگایا گیا ہے۔''
''یہ سب فضولیات چھوڑو، یہ ساری فارسی تو کل پی ٹی وی پر بھی چلتی رہی ہے، تم بس مجھے یہ بتاؤ کہ بجٹ کا کیا بنا؟'' چاچا جی بیزاری سے میری بات کاٹتے ہوئے بولے۔
''چاچا جی! وہی تو پڑھ کر سنا رہا ہوں۔'' میں نے اُنہیں اخبار دکھاتے ہوئے کہا۔
''جاریہ اخراجات کے لیے چونتیس سو اسی ارب روپے اور ترقیاتی اخراجات کے لیے نو سو چالیس ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ خام تیل پر رائلٹی میں صوبوں کا حصہ اٹھارہ ارب روپے، قدرتی گیس پر رائلٹی سے صوبوں کو اُنتالیس ارب روپے اور گیس کی ترقی کے سرچارج میں صوبوں کو تیس ارب روپے ملیں گے۔ زرعی ترقی کا ہدف تین اعشاریہ آٹھ فیصد، صنعت چھ اعشاریہ پانچ فیصد اور خدمات کے شعبے میں پانچ اعشاریہ چھ فیصد ترقی کا ہدف۔۔۔'' میرا فقرہ مکمل ہونے سے پہلے ہی چاچا جی نے اپنا سَر پکڑ لیا۔
''بیٹا! میں نے تو بس تھوڑی بہت ہی تعلیم حاصل کی ہے اس لیے مجھے ان پیچیدہ باتوں کی کوئی سمجھ نہیں آرہی ہے، تم تو ماشاء اللہ اچھے خاصے پڑھے لکھے ہو اور ابھی بھی پڑھ رہے ہو تمھیں تو ساری سمجھ آرہی ہوگی کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ تم مجھے بس ان سب کا ترجمہ کرکے یہ بتا دو کہ اس بجٹ کے بعد مہنگائی زیادہ ہوگی یا کم، اس سے زیادہ مجھے کچھ نہیں جاننا۔'' احمد چاچا نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔ میں انہیں کیا بتاتا کہ یونیورسٹی میں پڑھنے کے باوجود ان باتوں کی تو مجھے بھی سمجھ نہیں ہے اور شاید معاشیات کی سوجھ بوجھ رکھنے والوں کے سوا کوئی بھی ان کا مطلب نہ جانتا ہو۔
''حکومت تو یہی کہہ رہی کہ یہ بجٹ عوام دوست ہے اور حکومت کی بہت بڑی کامیابی ہے۔'' میں نے ایک دوسری خبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
''یعنی مہنگائی کم ہوئی ہے؟'' چاچا جی نے خوش ہوتے ہوئے پوچھا۔
مگر اپوزیشن نے اس بجٹ کو غریب عوام سے دشمنی قرار دیتے ہوئے احتجاج کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے تو یہی لگتا ہے کہ مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔'' میں نے ایک اور خبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وضاحت کرنا چاہی۔
''یعنی ہمیشہ کی طرح پھر وہی گول مول بجٹ، حکومت اپنی تعریف کرتی رہے گی اور اپوزیشن اپنا ہنگامہ؟'' انہوں نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ اُن کی بات میں وزن تھا لہذا میں بھی اتفاق کیے بغیر نہ رہ سکا۔
''عام آدمی کو تو بس یہ جاننا ہے کہ اس بجٹ کے بعد مہنگائی کم ہوگی یا زیادہ؟ اُسے اس بات سے کیا غرض کہ قطعی سرمایہ جاتی وصولیات کا تخمینہ کتنا اور وفاقی مالیاتی وصولیات کا تخمینہ کتنا لگایا گیا ہے؟ ٹیکس وصولیوں کا ہدف کتنا ہوگا اور نان ٹیکس ریوینو کا ہدف کتنا مقرر کیا گیا ہے؟ یہ سب تو سادہ لوح عوام کو اُلجھا کر بیوقوف بنانے کے لیے ہے۔'' احمدچاچا نے مایوسی سے کہا اور چائے کا بل ادا کرنے کے لیے''چھوٹو'' کو آواز لگا دی۔
[poll id="1133"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
''وقاص بیٹا!'' میں ابھی یونیورسٹی جانے کے لیے بس سٹاپ پر پہنچا ہی تھا کہ احمد چاچا نے آواز لگائی جوہاتھ میں اخبار پکڑے ساتھ والے ہوٹل میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔
''مارے گئے! آج پھر پورا اخبار پڑھ کر سنانا پڑے گا۔'' میں نے دل ہی دل میں سوچا۔
''بیٹا! بجٹ پیش ہوگیا ہے۔ ٹی وی والے بجٹ کی تو مجھے بالکل بھی سمجھ نہیں آتی، نہ جانے کس زبان میں بول رہے ہوتے ہیں۔ تم یہ اخبار سے ہی دو چار سُرخیاں پڑھ کر سنا دو۔'' احمد چاچا کے لہجے میں التجا تھی۔
''چاچا جی! یونیورسٹی کی بس پہنچنے والی ہے۔'' میں نے گھڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے معذرت کرنا چاہی۔
''بیٹا! بس بجٹ والی دو چارموٹی موٹی خبریں، جب تمھاری بس آجائے تو چلے جانا۔ مجھ سے اب عینک لگا کر بھی صحیح طرح سے پڑھا نہیں جاتا اور تمھارے علاوہ اس محلے میں اور کوئی میری سنتا نہیں ہے۔'' احمد چاچا نے اخبار میری طرف بڑھاتے ہوئے بیچارگی سے کہا تو مجھے اُن پر ترس آگیا اور میں اخبار پکڑ کر اُن کے سامنے والے بینچ پر بیٹھ گیا۔
''بیالیس کھرب بارہ ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش، ٹیکس وصولیوں کا ہدف اکتیس سو تین اعشاریہ چار ارب، نان ٹیکس ریونیو کا ہدف آٹھ سو نوے ارب روپے مقرر۔'' میں نے شہ سرخی پڑھ کر سنائی تو اُنہوں نے فوراََ آگے پڑھنے کا اشارہ کردیا۔
''بجٹ میں وفاق اور صوبوں کے مجموعی حجم میں سے وسائل کی دستیابی کا تخمینہ اکتالیس سو ساٹھ ارب روپے ہے۔'' میں نے مزید پڑھا ۔
''بیٹا! مجھے جلدی جلدی صرف بجٹ کا پڑھ کر سنا دو، پھر تمھاری بس آجائے گی اور تم چلے جاؤ گے۔'' احمد چاچا نے بے چینی سے کہا۔
''قطعی مالیاتی وصولیات کا تخمینہ چوبیس سو پچاس ارب روپے اور وفاقی مالیاتی وصولیات میں صوبائی حصے کا تخمینہ اٹھارہ سو پچاس ارب روپے ہے۔ قطعی سرمایہ جاتی وصولیات کا تخمینہ چھ سو پانچ ارب روپے، بیرونی وصولیوں کا تخمینہ سات سو پچاس ارب روپے، کُل اخراجات کا تخمینہ چوالیس سو ساٹھ ارب روپے لگایا گیا ہے۔''
''یہ سب فضولیات چھوڑو، یہ ساری فارسی تو کل پی ٹی وی پر بھی چلتی رہی ہے، تم بس مجھے یہ بتاؤ کہ بجٹ کا کیا بنا؟'' چاچا جی بیزاری سے میری بات کاٹتے ہوئے بولے۔
''چاچا جی! وہی تو پڑھ کر سنا رہا ہوں۔'' میں نے اُنہیں اخبار دکھاتے ہوئے کہا۔
''جاریہ اخراجات کے لیے چونتیس سو اسی ارب روپے اور ترقیاتی اخراجات کے لیے نو سو چالیس ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ خام تیل پر رائلٹی میں صوبوں کا حصہ اٹھارہ ارب روپے، قدرتی گیس پر رائلٹی سے صوبوں کو اُنتالیس ارب روپے اور گیس کی ترقی کے سرچارج میں صوبوں کو تیس ارب روپے ملیں گے۔ زرعی ترقی کا ہدف تین اعشاریہ آٹھ فیصد، صنعت چھ اعشاریہ پانچ فیصد اور خدمات کے شعبے میں پانچ اعشاریہ چھ فیصد ترقی کا ہدف۔۔۔'' میرا فقرہ مکمل ہونے سے پہلے ہی چاچا جی نے اپنا سَر پکڑ لیا۔
''بیٹا! میں نے تو بس تھوڑی بہت ہی تعلیم حاصل کی ہے اس لیے مجھے ان پیچیدہ باتوں کی کوئی سمجھ نہیں آرہی ہے، تم تو ماشاء اللہ اچھے خاصے پڑھے لکھے ہو اور ابھی بھی پڑھ رہے ہو تمھیں تو ساری سمجھ آرہی ہوگی کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ تم مجھے بس ان سب کا ترجمہ کرکے یہ بتا دو کہ اس بجٹ کے بعد مہنگائی زیادہ ہوگی یا کم، اس سے زیادہ مجھے کچھ نہیں جاننا۔'' احمد چاچا نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔ میں انہیں کیا بتاتا کہ یونیورسٹی میں پڑھنے کے باوجود ان باتوں کی تو مجھے بھی سمجھ نہیں ہے اور شاید معاشیات کی سوجھ بوجھ رکھنے والوں کے سوا کوئی بھی ان کا مطلب نہ جانتا ہو۔
''حکومت تو یہی کہہ رہی کہ یہ بجٹ عوام دوست ہے اور حکومت کی بہت بڑی کامیابی ہے۔'' میں نے ایک دوسری خبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
''یعنی مہنگائی کم ہوئی ہے؟'' چاچا جی نے خوش ہوتے ہوئے پوچھا۔
مگر اپوزیشن نے اس بجٹ کو غریب عوام سے دشمنی قرار دیتے ہوئے احتجاج کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے تو یہی لگتا ہے کہ مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔'' میں نے ایک اور خبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وضاحت کرنا چاہی۔
''یعنی ہمیشہ کی طرح پھر وہی گول مول بجٹ، حکومت اپنی تعریف کرتی رہے گی اور اپوزیشن اپنا ہنگامہ؟'' انہوں نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ اُن کی بات میں وزن تھا لہذا میں بھی اتفاق کیے بغیر نہ رہ سکا۔
''عام آدمی کو تو بس یہ جاننا ہے کہ اس بجٹ کے بعد مہنگائی کم ہوگی یا زیادہ؟ اُسے اس بات سے کیا غرض کہ قطعی سرمایہ جاتی وصولیات کا تخمینہ کتنا اور وفاقی مالیاتی وصولیات کا تخمینہ کتنا لگایا گیا ہے؟ ٹیکس وصولیوں کا ہدف کتنا ہوگا اور نان ٹیکس ریوینو کا ہدف کتنا مقرر کیا گیا ہے؟ یہ سب تو سادہ لوح عوام کو اُلجھا کر بیوقوف بنانے کے لیے ہے۔'' احمدچاچا نے مایوسی سے کہا اور چائے کا بل ادا کرنے کے لیے''چھوٹو'' کو آواز لگا دی۔
[poll id="1133"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔