شمیم آرا کا فن جیسے انگوٹھی میں نگینہ حصہ دوم
شمیم آرا کی فلم ’’لاکھوں میں ایک‘‘ واقعی اپنے نام کی مناسبت سے اور ہر اعتبار سے لاکھوں میں ایک فلم تھی۔
شمیم آرا کی فلم ''لاکھوں میں ایک'' واقعی اپنے نام کی مناسبت سے اور ہر اعتبار سے لاکھوں میں ایک فلم تھی۔ اس فلم کا اسکرپٹ، ڈائریکشن، نثار بزمی کی موسیقی اور فیاض ہاشمی کا گیت اور اس پر شمیم آرا کی سحر انگیز اداکاری نے لاکھوں دلوں کو موہ لیا تھا۔ یہ فلم ایک یادگار اور ناقابل فراموش فلم کا درجہ رکھتی ہے، شمیم آرا ہر ہیرو کی پسندیدہ ہیروئن رہی ہے اس نے کبھی کسی ہیرو کے ساتھ اپنے آپ کو منسلک نہیں کیا یہ کبھی کسی ایک ہیرو کی ہیروئن نہیں کہلائی اور اس نے اپنی ساری فلمی زندگی میں کبھی بھی کسی ہیرو کے ساتھ اپنا Pair بنانے کی کوشش نہیں کی اور یہی بات شمیم آرا کی شخصیت کو سب سے منفرد اور ممتاز بناتی ہے۔
یہاں میں واضح کرتا چلوں کہ جب وحید مراد کی دو فلمیں ''ہیرا اور پتھر'' اور ''ارمان'' اداکارہ زیبا کے ساتھ سپرہٹ ہو گئیں تو وحید مراد نے زیبا کے ساتھ اپنی فلمی جوڑی بنانے کی کوشش کی مگر جب زیبا کے ساتھ وحید مراد کی تیسری فلم ''احسان'' بری طرح فلاپ ہو گئی تو اس نے اپنی چوتھی فلم ''دوراہا'' میں شمیم آرا کو ہیروئن لے لیا اور زیبا پس منظر میں چلی گئی مگر ''دوراہا'' میں فلم بینوں نے وحید مراد کو شمیم آرا کے ساتھ زیادہ پسند نہیں کیا جب کہ شمیم آرا کی اداکاری کو ''دوراہا'' میں بھی بڑا سراہا گیا۔ اب وحید مراد نے اپنی ایک اور فلم ''سمندر'' میں اداکارہ شبنم کو کاسٹ کیا مگر فلم ''سمندر'' میں بھی وہ شبنم کے ساتھ اپنا Pair نہ بنا سکا اور زیبا اداکار محمد علی ہی کی ہو کے رہ گئی اس طرح وحید مراد مایوسی کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ اور آہستہ آہستہ منشیات کا شکار ہوتا چلا گیا اور فلموں سے بھی دور ہوتا گیا۔
یہ اداکارہ شمیم آرا کا کمال تھا کہ وہ جس ہیرو کے ساتھ بھی آتی اس نے اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ہر ہیرو کو اپنا ہیرو بنا کے رکھا اور سنتوش کمار، درپن، محمد علی، ندیم اور کمال کے ساتھ جتنی بھی فلمیں کیں وہ اپنی مثال آپ تھیں اور ان تمام ہیروز نے شمیم آرا کے ساتھ جس فلم میں بھی کام کیا شمیم آرا کی فنی صلاحیتوں کے معترف رہے۔
اب شمیم آرا میں ایک ایسا اعتماد آ گیا تھا کہ اس نے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے فلم کی ڈائریکشن دینے کا بھی فیصلہ کر لیا۔ مگر ڈائریکشن دینے سے پہلے اس نے ہدایت کار لئیق اختر کی معاونت میں اپنی پہلی فلم ''صاعقہ'' پروڈیوس کی۔ ''صاعقہ'' مشہور ناول نگار رضیہ بٹ کے ناول سے ماخوذ تھی اور ناول بھی اسی نام سے عوام میں بڑی مقبول ہوا تھا۔
''صاعقہ'' میں شمیم آرا کو ہدایت کاری کے شعبے سے بھی دلچسپی ہوئی اور کافی سے زیادہ حصہ شمیم آرا نے ہدایت کار لئیق اختر کے ساتھ شیئر کیا اور اس طرح شمیم آرا نے اپنی ہدایت کاری کی داغ بیل ڈال دی تھی، پھر فلم ''بھول'' بنائی اور 1976ء میں فلم ''جیو اور جینے دو'' میں ڈائریکشن کی تمام تر ذمے داری شمیم آرا کے کاندھوں پر تھی اس فلم کی کامیابی نے شمیم آرا کو حوصلہ دیا اور پھر اس نے 1975ء میں فلم ''منڈا بگڑا جائے'' پروڈیوس بھی کی اور ڈائریکشن بھی دی اور اب بحیثیت ہدایت کارہ فلم انڈسٹری میں اس کی بھی ایک ساکھ بنتی چلی گئی اور پھر اس نے اداکاری کی طرف سے اپنی توجہ کم کر دی اور بحیثیت فلمساز و ہدایت کار فلموں سے وابستہ کر لیا اس دوران اس نے سوشل فلموں کے علاوہ کئی ایکشن فلمیں بھی بنائیں جن میں مس سنگاپور، مس کولمبو، لیڈی کمانڈو، لیڈی اسمگلر، ہاتھی میرے ساتھی، ہم تو چلے سسرال اور مس استنبول جیسی مختلف انداز کی فلمیں بنائیں اور کامیابی شمیم آرا کے ہر قدم ساتھ ساتھ رہی اس کی زیادہ فلموں کے کیمرہ مین جان محمد جمن تھے اور جان محمد جمن کراچی ہی سے شمیم آرا کے مزاج سے اچھی طرح واقف تھے۔
جان محمد سے میری بہت اچھی دوستی اور بے تکلفی بھی تھی، میں نے ایک دن باتوں ہی باتوں میں پوچھا: جان بھائی! آپ نے شمیم آرا کے ساتھ بہت سی فلمیں کی ہیں۔ شمیم آرا ایک مایہ ناز اداکارہ ہے اس میں تو کوئی شبہ ہی نہیں ہے آپ نے شمیم آرا کو بحیثیت ہدایت کارہ کیسا پایا؟ تو جان محمد نے بے ساختہ کہا۔ ایک ایسی اداکارہ جیسے انگوٹھی میں نگینہ۔ ایک ذہین کیمرہ مین کا یہ جملہ کافی تھا اور یہ جملہ شمیم آرا کی ڈائریکشن کے لیے ایک سند کی حیثیت رکھتا ہے۔
اب میں شمیم آرا کی ذاتی زندگی اور اس کی شخصیت کی طرف آتا ہوں۔ شمیم آرا کا اصلی نام نیلی بائی تھا اور شمیم آرا غیر منقسم ہندوستان میں 1938ء میں علی گڑھ میں پیدا ہوئی تھی، اس کی پرورش اس کی نانی نے کی تھی اور اس کو جوانی کی دہلیز سے فلم کی دنیا میں لانے تک اس کی نانی کی کاوشوں کا بھی دخل تھا۔ شمیم آرا نے پہلی شادی بلوچستان کے ایک رئیس سردار رند سے کی تھی مگر قدرت کی ستم ظریفی یہ ہوئی کہ سردار رند کار کے ایک حادثے میں ہلاک ہو گیا، جب شمیم آرا اس صدمے سے باہر نکلی تو زندگی کی راہ میں دوسرا شریک سفر ہدایت کار ڈبلیو زیڈ احمد کا جواں سال بیٹا فرید احمد مل گیا، کچھ عرصے کی ملاقاتوں کے بعد شمیم آرا کی دوسری شادی ہو گئی مگر قسمت کی کج روی دیکھیے کہ اس کا دوسرا شوہر فرید احمد بھی صرف چند دن اس کا شوہر رہا اور ہفتے بھر ہی میں یہ شادی طلاق میں بدل گئی۔ شمیم آرا نے یہ ناگوار حادثہ بھی برداشت کر لیا اور پھر زندگی کا سفر آگے بڑھتا رہا اس دوران اگفا گیورٹ کمپنی کے مالک مجید کریم اس کی زندگی میں آ گئے جو پہلے ہی سے شادی شدہ اور کئی بچوں کے باپ تھے۔
مگر دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ شمیم آرا کے تیسرے شوہر بن کر اس کی زندگی میں آئے اور شمیم آرا مجید کریم کی دوسری بیوی بن کر ان کے ساتھ رہنے لگی مگر ایک بیٹے کی پیدائش کے بعد یہ شادی بھی باعث تنازعہ بن گئی اور پہلی بیوی کے اصرار اور بیوی بچوں کی مسلسل ناراضگی کی وجہ سے مجید کریم کو شمیم آرا کو طلاق دینی پڑی جب کہ بیٹا شمیم آرا کے اختیار میں آ گیا تھا۔ اب شمیم آرا نے پھر سے تنہا زندگی گزارنے پر اپنے آپ سے سمجھوتہ کر لیا تھا مگر قدرت بھی کبھی کبھی بڑے عجیب کھیل کھیلتی ہے۔ کچھ عرصے بعد فلمساز دبیرالحسن شمیم آرا کی زندگی میں محبت کا نذرانہ لے کر آیا۔ شمیم آرا نے کافی دنوں تک دبیرالحسن کی طرف کوئی توجہ نہیں دی مگر دبیر الحسن نے آہستہ آہستہ شمیم آرا کو یہ احساس بھی اور یہ اعتبار بھی دلایا کہ وہ اس کے ساتھ زندگی کے آخری سانسوں تک وفا کرے گا۔ قدم قدم پر ساتھ دے گا اور پھر دبیر الحسن کی محبت اور وفا نے شمیم آرا کا دل جیت ہی لیا اور شمیم آرا نے چوتھی شادی دبیرالحسن سے کر لی اب یہاں مجھے ماضی کا ایک بہت ہی دلچسپ اور ایک تاریخی انٹرویو یاد آ گیا جو اس نے نگار ویکلی کے معاون ایڈیٹر بشیر نیازکو دیا تھا۔
اس وقت بشیر نیاز صرف فلمی صحافی تھے اور نگار اخبار کے لیے فلمی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتے تھے۔ بشیر نیاز نے بہت سوالوں کے بعد ایک چبھتا ہوا سوال شمیم آرا سے یہ بھی پوچھا تھا کہ آپ کے بے شمار پرستار ہیں۔ لاکھوں چاہنے والے ہیں اور انھی میں کچھ ایسے بھی ہیں جو آپ سے شادی کرنے کے خواہش مند ہیں آپ کو بھی کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی سے تو ایک دن شادی کرنی ہی ہو گی شادی کے بارے میں آپ کا کیا آئیڈیل ہے۔ آپ کس قسم کے شخص سے شادی کرنا پسند کریں گی تو شمیم آرا نے نہ جانے کس موڈ میں بے ساختہ یہ کہا تھا کہ ''میں اس نوجوان سے شادی کروں گی جو کشمیر پر پاکستان کا جھنڈا لہرائے گا'' شمیم آرا کے اس انٹرویو کی اس زمانے میں بڑی دھوم مچی تھی جب میں نے ایک دن بشیر نیاز سے شمیم آرا کے اس جواب کے بارے میں پوچھا تھا کہ کیا شمیم آرا یہ جواب دیتے ہوئے واقعی سنجیدہ تھی تو بشیر نیاز جواب میں صرف مسکرا دیے تھے۔
نوٹ: گزشتہ کالم میں گیت:
ہوا سے موتی برس رہے ہیں
فضا ترانے سنا رہی ہے
میں سہواً فلم ''راز'' درج ہو گیا، جب کہ یہ گیت فلم ''آگ کا دریا'' کا ہے۔
یہاں میں واضح کرتا چلوں کہ جب وحید مراد کی دو فلمیں ''ہیرا اور پتھر'' اور ''ارمان'' اداکارہ زیبا کے ساتھ سپرہٹ ہو گئیں تو وحید مراد نے زیبا کے ساتھ اپنی فلمی جوڑی بنانے کی کوشش کی مگر جب زیبا کے ساتھ وحید مراد کی تیسری فلم ''احسان'' بری طرح فلاپ ہو گئی تو اس نے اپنی چوتھی فلم ''دوراہا'' میں شمیم آرا کو ہیروئن لے لیا اور زیبا پس منظر میں چلی گئی مگر ''دوراہا'' میں فلم بینوں نے وحید مراد کو شمیم آرا کے ساتھ زیادہ پسند نہیں کیا جب کہ شمیم آرا کی اداکاری کو ''دوراہا'' میں بھی بڑا سراہا گیا۔ اب وحید مراد نے اپنی ایک اور فلم ''سمندر'' میں اداکارہ شبنم کو کاسٹ کیا مگر فلم ''سمندر'' میں بھی وہ شبنم کے ساتھ اپنا Pair نہ بنا سکا اور زیبا اداکار محمد علی ہی کی ہو کے رہ گئی اس طرح وحید مراد مایوسی کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ اور آہستہ آہستہ منشیات کا شکار ہوتا چلا گیا اور فلموں سے بھی دور ہوتا گیا۔
یہ اداکارہ شمیم آرا کا کمال تھا کہ وہ جس ہیرو کے ساتھ بھی آتی اس نے اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ہر ہیرو کو اپنا ہیرو بنا کے رکھا اور سنتوش کمار، درپن، محمد علی، ندیم اور کمال کے ساتھ جتنی بھی فلمیں کیں وہ اپنی مثال آپ تھیں اور ان تمام ہیروز نے شمیم آرا کے ساتھ جس فلم میں بھی کام کیا شمیم آرا کی فنی صلاحیتوں کے معترف رہے۔
اب شمیم آرا میں ایک ایسا اعتماد آ گیا تھا کہ اس نے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے فلم کی ڈائریکشن دینے کا بھی فیصلہ کر لیا۔ مگر ڈائریکشن دینے سے پہلے اس نے ہدایت کار لئیق اختر کی معاونت میں اپنی پہلی فلم ''صاعقہ'' پروڈیوس کی۔ ''صاعقہ'' مشہور ناول نگار رضیہ بٹ کے ناول سے ماخوذ تھی اور ناول بھی اسی نام سے عوام میں بڑی مقبول ہوا تھا۔
''صاعقہ'' میں شمیم آرا کو ہدایت کاری کے شعبے سے بھی دلچسپی ہوئی اور کافی سے زیادہ حصہ شمیم آرا نے ہدایت کار لئیق اختر کے ساتھ شیئر کیا اور اس طرح شمیم آرا نے اپنی ہدایت کاری کی داغ بیل ڈال دی تھی، پھر فلم ''بھول'' بنائی اور 1976ء میں فلم ''جیو اور جینے دو'' میں ڈائریکشن کی تمام تر ذمے داری شمیم آرا کے کاندھوں پر تھی اس فلم کی کامیابی نے شمیم آرا کو حوصلہ دیا اور پھر اس نے 1975ء میں فلم ''منڈا بگڑا جائے'' پروڈیوس بھی کی اور ڈائریکشن بھی دی اور اب بحیثیت ہدایت کارہ فلم انڈسٹری میں اس کی بھی ایک ساکھ بنتی چلی گئی اور پھر اس نے اداکاری کی طرف سے اپنی توجہ کم کر دی اور بحیثیت فلمساز و ہدایت کار فلموں سے وابستہ کر لیا اس دوران اس نے سوشل فلموں کے علاوہ کئی ایکشن فلمیں بھی بنائیں جن میں مس سنگاپور، مس کولمبو، لیڈی کمانڈو، لیڈی اسمگلر، ہاتھی میرے ساتھی، ہم تو چلے سسرال اور مس استنبول جیسی مختلف انداز کی فلمیں بنائیں اور کامیابی شمیم آرا کے ہر قدم ساتھ ساتھ رہی اس کی زیادہ فلموں کے کیمرہ مین جان محمد جمن تھے اور جان محمد جمن کراچی ہی سے شمیم آرا کے مزاج سے اچھی طرح واقف تھے۔
جان محمد سے میری بہت اچھی دوستی اور بے تکلفی بھی تھی، میں نے ایک دن باتوں ہی باتوں میں پوچھا: جان بھائی! آپ نے شمیم آرا کے ساتھ بہت سی فلمیں کی ہیں۔ شمیم آرا ایک مایہ ناز اداکارہ ہے اس میں تو کوئی شبہ ہی نہیں ہے آپ نے شمیم آرا کو بحیثیت ہدایت کارہ کیسا پایا؟ تو جان محمد نے بے ساختہ کہا۔ ایک ایسی اداکارہ جیسے انگوٹھی میں نگینہ۔ ایک ذہین کیمرہ مین کا یہ جملہ کافی تھا اور یہ جملہ شمیم آرا کی ڈائریکشن کے لیے ایک سند کی حیثیت رکھتا ہے۔
اب میں شمیم آرا کی ذاتی زندگی اور اس کی شخصیت کی طرف آتا ہوں۔ شمیم آرا کا اصلی نام نیلی بائی تھا اور شمیم آرا غیر منقسم ہندوستان میں 1938ء میں علی گڑھ میں پیدا ہوئی تھی، اس کی پرورش اس کی نانی نے کی تھی اور اس کو جوانی کی دہلیز سے فلم کی دنیا میں لانے تک اس کی نانی کی کاوشوں کا بھی دخل تھا۔ شمیم آرا نے پہلی شادی بلوچستان کے ایک رئیس سردار رند سے کی تھی مگر قدرت کی ستم ظریفی یہ ہوئی کہ سردار رند کار کے ایک حادثے میں ہلاک ہو گیا، جب شمیم آرا اس صدمے سے باہر نکلی تو زندگی کی راہ میں دوسرا شریک سفر ہدایت کار ڈبلیو زیڈ احمد کا جواں سال بیٹا فرید احمد مل گیا، کچھ عرصے کی ملاقاتوں کے بعد شمیم آرا کی دوسری شادی ہو گئی مگر قسمت کی کج روی دیکھیے کہ اس کا دوسرا شوہر فرید احمد بھی صرف چند دن اس کا شوہر رہا اور ہفتے بھر ہی میں یہ شادی طلاق میں بدل گئی۔ شمیم آرا نے یہ ناگوار حادثہ بھی برداشت کر لیا اور پھر زندگی کا سفر آگے بڑھتا رہا اس دوران اگفا گیورٹ کمپنی کے مالک مجید کریم اس کی زندگی میں آ گئے جو پہلے ہی سے شادی شدہ اور کئی بچوں کے باپ تھے۔
مگر دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ شمیم آرا کے تیسرے شوہر بن کر اس کی زندگی میں آئے اور شمیم آرا مجید کریم کی دوسری بیوی بن کر ان کے ساتھ رہنے لگی مگر ایک بیٹے کی پیدائش کے بعد یہ شادی بھی باعث تنازعہ بن گئی اور پہلی بیوی کے اصرار اور بیوی بچوں کی مسلسل ناراضگی کی وجہ سے مجید کریم کو شمیم آرا کو طلاق دینی پڑی جب کہ بیٹا شمیم آرا کے اختیار میں آ گیا تھا۔ اب شمیم آرا نے پھر سے تنہا زندگی گزارنے پر اپنے آپ سے سمجھوتہ کر لیا تھا مگر قدرت بھی کبھی کبھی بڑے عجیب کھیل کھیلتی ہے۔ کچھ عرصے بعد فلمساز دبیرالحسن شمیم آرا کی زندگی میں محبت کا نذرانہ لے کر آیا۔ شمیم آرا نے کافی دنوں تک دبیرالحسن کی طرف کوئی توجہ نہیں دی مگر دبیر الحسن نے آہستہ آہستہ شمیم آرا کو یہ احساس بھی اور یہ اعتبار بھی دلایا کہ وہ اس کے ساتھ زندگی کے آخری سانسوں تک وفا کرے گا۔ قدم قدم پر ساتھ دے گا اور پھر دبیر الحسن کی محبت اور وفا نے شمیم آرا کا دل جیت ہی لیا اور شمیم آرا نے چوتھی شادی دبیرالحسن سے کر لی اب یہاں مجھے ماضی کا ایک بہت ہی دلچسپ اور ایک تاریخی انٹرویو یاد آ گیا جو اس نے نگار ویکلی کے معاون ایڈیٹر بشیر نیازکو دیا تھا۔
اس وقت بشیر نیاز صرف فلمی صحافی تھے اور نگار اخبار کے لیے فلمی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتے تھے۔ بشیر نیاز نے بہت سوالوں کے بعد ایک چبھتا ہوا سوال شمیم آرا سے یہ بھی پوچھا تھا کہ آپ کے بے شمار پرستار ہیں۔ لاکھوں چاہنے والے ہیں اور انھی میں کچھ ایسے بھی ہیں جو آپ سے شادی کرنے کے خواہش مند ہیں آپ کو بھی کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی سے تو ایک دن شادی کرنی ہی ہو گی شادی کے بارے میں آپ کا کیا آئیڈیل ہے۔ آپ کس قسم کے شخص سے شادی کرنا پسند کریں گی تو شمیم آرا نے نہ جانے کس موڈ میں بے ساختہ یہ کہا تھا کہ ''میں اس نوجوان سے شادی کروں گی جو کشمیر پر پاکستان کا جھنڈا لہرائے گا'' شمیم آرا کے اس انٹرویو کی اس زمانے میں بڑی دھوم مچی تھی جب میں نے ایک دن بشیر نیاز سے شمیم آرا کے اس جواب کے بارے میں پوچھا تھا کہ کیا شمیم آرا یہ جواب دیتے ہوئے واقعی سنجیدہ تھی تو بشیر نیاز جواب میں صرف مسکرا دیے تھے۔
نوٹ: گزشتہ کالم میں گیت:
ہوا سے موتی برس رہے ہیں
فضا ترانے سنا رہی ہے
میں سہواً فلم ''راز'' درج ہو گیا، جب کہ یہ گیت فلم ''آگ کا دریا'' کا ہے۔