ڈھائی صدی کی زندگی۔۔۔حقیقت یا افسانہ
چین سے تعلق رکھنے والے معمر شخصLi Ching Yuen نے 256سال کی عمر میں وفات پائی؟
1930میں نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک مضمون میںChengdu University یونی ورسٹی کے پروفیسر Wu Chung-chieh نے یہ انکشاف کیا تھا کہ شاہی چینی حکومت کے 1827کے ریکارڈ کے مطابق Li Ching-Yuenکی عمر اس وقت ڈیڑھ سو برس ہوگئی تھی اور پروفیسر نے انہیں 150ویں سال گرہ پر مبارک باد پیش کی تھی۔ بعد میں مزید دستاویزات سے یہ بھی پتا چلا کہ پروفیسر صاحب نے Li Ching-Yuen کو 1877میں ان کی 200ویں سال گرہ پر بھی مبارک باد پیش کی تھی۔
1928میں نیویارک ٹائمز کے نامہ نگار نے لکھا تھا:''Li Ching-Yuen کے پڑوس میں بہت سے معمر افراد رہتے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ ہمارے دادا اس وقت بھی Li Ching-Yuen کو جانتے تھے جب ہم کم عمر لڑکے تھے، مگر Li Ching-Yuen اس وقت ایک بھرپور اور پورے بالغ تھے۔''
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ Li Ching-Yuen نے جڑی بوٹیوں سے علاج کرنے والے ایک طبیب کی حیثیت سے صرف دس سال کی عمر میں اپنا کیریئر شروع کیا تھا۔ اس وقت وہ پہاڑوں اور جنگلات سے جڑی بوٹیاں جمع کرتے تھے، اسی زمانے میں انہوں نے ان جڑی بوٹیوں کے درازی عمر کے خواص بھی دریافت کرلیے تھے۔ لگ بھگ 40سال تک وہ جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ ایک خاص خوراک کھاتے رہے، جس میں lingzhi, goji berry, جنگلی جن سنگ، , he shoo wu اور gotu kola کے علاوہ چاول کی شراب بھی شامل تھی۔
1749میں ان کی عمر 71سال تھی۔ اس وقت انہوں نے مارشل آرٹس کے استاد کی حیثیت سے فوج میں شمولیت اختیار کرلی۔ Li Ching-Yuen کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی کمیونٹی میں بہت مقبول اور پسندیدہ انسان تھے۔
انہوں نے 23شادیاں کیں اور ان کے 200سے بھی زیادہ بچے تھے۔ لی کے بارے میں عام طور پر جو کہانیاں سنائی جاتی ہیں، ان میں یہ بھی شامل ہے کہ جب Li Ching-Yuen چھوٹے بچے تھے، اسی زمانے میں لکھنے پڑھنے لگے تھے اور اپنی دسویں سال گرہ تک وہ جڑی بوٹیاں جمع کرنے کے لیے تبت، Kansu, Shansi, Annam, Siam اور منچوریا کے سفر کرچکے تھے۔ اپنی عمر کی پہلی سینچری میں وہ اسی پیشے سے وابستہ رہے۔ اس کے بعد انہوں نے دوسروں کی جمع کردہ جڑی بوٹیاں فروخت کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ دوسری نادر و نایاب چینی جڑی بوٹیوں کے ساتھ انہوں نے lingzhi, goji berry, wild ginseng, he shou wu اور gotu kola کی فروخت بھی جاری رکھی۔ اس دوران ان کی یومیہ خوراک مذکورہ جڑی بوٹیوں اور چاول کی شراب پر مشتمل ہوتی تھی۔
٭وہ اکیلے ہی ایسے فرد نہیں تھے:
لی کے شاگردوں کا کہنا ہے کہ ایک بار انہیں اپنے سے بھی کہیں زیادہ معمر شخص ملا تھا جس کی عمر 500سال تھی۔ اسی شخص نے انہیں Qigong ورزشیں سکھائی تھیں، یہ ورزشیں سانس کے ذریعے کی جاتی ہیں۔ ساتھ ہی مذکورہ بالا معمر ترین شخص نے انہیں غذائی سفارشات بھی دی تھیں جن پر عمل کرکے وہ صحت مند طویل عمر پاتے ہوئے سپرہیومن بن سکتے تھے۔ مذکورہ ورزشوں اور جڑی بوٹیوں سے مالامال خوراک کے علاوہ بھی ہم نے اس عظیم ماسٹر سے طویل عمر پانے کے لیے بہت کچھ سیکھا تھا۔
اپنی موت سے پہلے بستر مرگ پر لیٹے ہوئے لی نے کہا تھا:''اس دنیا میں، میں جو کچھ کرسکتا تھا، وہ سب میں نے کرلیا۔''
کیا لی کی زندگی کے یہ آخری اور پرسکون الفاظ ہمیں یہ نہیں بتارہے کہ یہی طویل عمری اور خوش حال زندگی کے سب سے بڑے راز ہیں؟
یہاں یہ بات دل چسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ مغرب میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ بڑھاپے سے مقابلہ کرنے اور اسے شکست دینے کے لیے ہائی ٹیک انفرا ریڈ ڈیوائسز اور جدید قسم کے علاج سے مدد لینی چاہیے۔
٭طویل عمری کا لی کا اہم راز:
جب لی سے پوچھا گیا کہ آپ کی درازی عمر کا اہم راز کیا ہے تو انہوں نے جواب دیا:''اپنے دل کو بالکل سکون میں رکھیں، ایک کچھوے کی طرح بیٹھیں، جب بھی چلیں تو کبوتر کی طرح چلیں جو جوش کے عالم میں چلتا ہے، اور جب سوئیں تو کتے کی طرح سوئیں۔''
یہ الفاظ لی نے ایک سپہ سالار سے کہے تھے جو انہیں اپنے گھر اس لیے لے گیا تھا، تاکہ ان سے طویل عمر پانے کا راز معلوم کرسکے۔ لی نے یہ بھی کہا تھا کہ طویل عمر پانے کا بنیادی راز اس میں ہے کہ انسان نہایت پرسکون رہے، اپنے دل و دماغ کو کسی افراتفری یا دباؤ میں نہ ڈالے، ساتھ ہی سانس کی مختلف ورزشیں بھی کرتا رہے، وہ یقینی طور پر طویل عمر پائے گا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انسان کی طویل عمر میں اس کی خوراک اہم کردار ادا کرتی ہے، مگر جب ہم ماضی کا ریکارڈ اٹھاکر دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ہر وہ شخص طویل عمر پاتا تھا جو اپنے دل و دماغ کو پرسکون رکھتا تھا، یعنی اس نے خود کو دولت کی آلودگی سے بچایا تھا اور اپنے آپ کو خواہشات کا غلام نہیں بننے دیا تھا۔
٭انسان کیوں نہیں مانتا؟
موجودہ صورت حال یہ ہے کہ آج کی دنیا میں اوسطاً ہر انسان 70 سے85 کے درمیان کی عمر پاتا ہے، اور کسی کے 100سال تک پہنچنے کو تو ناقابل یقین سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں کسی انسان کے 200 سال سے زیادہ عمر پانے کے دعوے پر شکوک وشبہات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ تاہم طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ انسان یہ حقیقت کیوں نہیں مانتا کہ وہ واقعی اس طویل عمر تک پہنچ سکتا ہے؟ ہمیں اپنے ذہن میں یہ حقیقت ضرور رکھنی چاہیے کہ انسان اگر ہمت کرے تو وہ طویل عمر پاسکتا ہے۔ اس کے لیے کچھ شرائط ہیں جیسے وہ قرض جیسی لعنت کے شکنجے میں نہ پھنسے اور اس مالی دباؤ کا شکار نہ ہو۔
وہ ترقی یافتہ شہروں کی آلودہ فضاؤں میں سانس نہ لیں اور ورزش پابندی اور باقاعدگی سے کریں، اس میں وقفہ نہ آنے دیں۔ بے شک ہر وہ انسان طویل عمر پاسکتا ہے جو ریفائنڈ شکر یا آٹا نہ کھائے اور ایسی خوراک ہرگز استعمال نہ کرے جن پر جراثیم کش ادویہ کا اسپرے کیا جاتا ہے۔ طویل عمر کے خواہش مند لوگ چربی والا گوشت استعمال نہ کریں، شکر سے تیار کردہ پکوان اور جینیاتی طور پر تبدیل شدہ خوراک سے بھی پرہیز کریں۔ کبھی اینٹی بایوٹکس نہ لیں، شراب اور تمباکو سے دور رہیں۔
جنک فوڈز کے قریب نہ جائیں، جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ خوراک ان کے لیے بہترین ہے۔ ایسی اشیا سے پرہیز کریں جو جسم کی قوت مدافعت کو ختم کردیتی ہیں۔ باقاعدگی کے ساتھ پرفضا مقامات پر وقت گزاریں، کھلی ہوا میں گہرے سانس لیں، مراقبہ کریں جو ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔ ہر انسان کو چاہیے کہ وہ سادہ زندگی بسر کرے، مناسب اور پوری نیند لے، اپنا زیادہ وقت کھلی فضا اور چمک دار دھوپ میں گزارے۔ دھوپ انسان کے جسم کو چاق چوبند کرتی ہوئے اسے ایک بار پھر کام کے لیے تیار کردیتی ہے۔ پہاڑوں، سبزہ زاروں میں گزارا جانے والا وقت ہماری عمر میں اضافہ کرتا ہے، اس سے روحانی، جسمانی اور ذہنی صحت بنتی ہے جو انسان کی طویل عمر کے لیے لازمی ہیں۔
انسان کو اپنے جسم کی بات سننی چاہیے۔ اس کا جسم اس سے بہت کچھ کہتا ہے، بہت کچھ مانگتا ہے، بہت کچھ کرنے کا تقاضا کرتا ہے، اگر انسان اس کی بات سمجھ کر جواب دے تو وہ طویل عمر پاسکتا ہے، کیوں کہ اس طرح وہ اپنے دل و دماغ کو سکون اور اطمینان کی دولت عطا کرتا ہے اور یہی دولت طویل عمری کا بنیادی راز ہے۔
٭کچھ شکوک کچھ شبہات:
کیا واقعی Li Ching-Yuen کی عمر 256سال تھی؟ اس حوالے سے دنیا بھر کے عام لوگوں نے اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ پہلی بات ہمیں اپنے ذہن میں یہ رکھنی چاہیے کہ آج دور جدید میں ہم جس طرح وقت کی پیمائش کرتے ہیں، ہمارے آباواجداد اس طرح نہیں کرتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ماضی قدیم میں اگر بعض لوگوں کو 200یا300سال کی عمر کا حامل بتایا گیا تھا، وہ درحقیقت اتنی عمر کے نہیں ہوتے تھے، بل کہ صرف 80 یا90سال کے ہوتے تھے اور یہ فرق وقت کی پیمائش کے طریقے کے اختلاف کی وجہ سے تھا۔
ایسا ہی کچھ Li Ching-Yuenکی عمر کے حوالے سے بھی ہوا ہے۔ اس میں متعدد شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں اور لی کی جو عمر بیان کی گئی ہے، یہ درست نہیں ہوسکتی۔ انسانوں میں یہ عمر ایک ناقابل یقین چیز ہے۔
پھر یہ کہنا کہ لی نے اپنی زندگی میں 23شادیاں کی تھیں اور اس کی لگ بھگ 200اولادیں تھیں، کسی بھی طرح درست نہیں مانا جاسکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے معمر ترین انسان کا اعزاز ایک فرانسیسی خاتون Jeanne Louise Calment کو حاصل ہے جو 1997ء میں 122سال کی عمر میں وفات پاگئی تھیں۔
عام لوگوں کا خیال ہے کہ لی واقعتاً دنیا کا سب سے معمر ترین انسان نہیں تھا، بل کہ یہ ایک فرضی یا افسانوی بات ہے، البتہ یہ صحیح ہے کہ لی نے طویل عمر پائی اور اس کا راز یہ ہے کہ وہ جڑی بوٹیوں پر مشتمل خوراک کھاتا تھا اور پابندی سے ورزش بھی کرتا تھا۔ اس حوالے سے اس کی صحت قابل رشک تھی جو اس کی موت تک رہی۔
ایک یورپی اخبار نے لکھا ہے کہ اگر Li Ching-Yuen کا تعلق افریقا سے ہوتا تو واقعی یہ انسان قابل رشک قرار دیا جاتا، کیوں کہ وہاں کے لوگ
اتنی بیویوں اور اتنی ساری اولاد کے ساتھ بہت عزت و اکرام پاتے ہیں اور انہیں فخر کی بات سمجھا جاتا ہے۔
ویسے بھی Li Ching-Yuen نے لوگوں کو اچھی اور صحت مند زندگی گزارنے کے جو اصول بتائے ہیں، وہ بہت عام سے ہیں، یعنی: انسان ہر قسم کی خواہشات سے بچے، دولت کے حصول کے دباؤ سے خود کو آزاد رکھے اور شراب اور تمباکو سے پرہیز کرے، یہ تو صحت مند زندگی گزارنے کے عام اصول ہیں جن کی وجہ سے انسان طویل عمر بھی پاسکتا ہے، مگر یہ کہانی مشکوک ہے، اس کی صداقت پر کوئی بھی یقین نہیں کرسکتا۔ اب یہ بات کہ لی آخری عمر تک صحت مند رہا اور وہ اپنے سبھی کام اپنے ہاتھوں سے انجام دیتا تھا، اس میں بھی کوئی حیرت کی بات نہیں ہے، ایشیا، یورپ، افریقا اور مشرق بعید کے کئی ملکوں کے معمر افراد یہ سب کام خود کرتے ہیں۔
Li Ching-Yuen کی طول عمری کے حوالے سے Alex Browingنامی ایک طالب علم نے لکھا ہے کہ اس ضمن میں کوئی ناقابل تردید دستاویز پیش نہیں کی گئی کہ لی کی عمر 256سال تھی، ہم تک جو کچھ پہنچا ہے، وہ مقامی لوگوں کی زبانی پہنچا ہے۔ اس دور میں اکثر چینی ناخواندہ تھے اور انہوں نے یہ ایک فرضی کہانی بنالی جو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی ہوئی ہم تک پہنچ گئی۔ میری اس گستاخی پر مجھے معاف کردیا جائے، مگر جو کچھ میرے ذہن میں تھا، وہ میں نے آپ حضرات کے سامنے پیش کردیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ Li Ching-Yuen معمر ہوں گے، مگر وہ 256سال کی عمر تک پہنچے، اس پر کوئی یقین نہیں کرسکتا۔
1928میں نیویارک ٹائمز کے نامہ نگار نے لکھا تھا:''Li Ching-Yuen کے پڑوس میں بہت سے معمر افراد رہتے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ ہمارے دادا اس وقت بھی Li Ching-Yuen کو جانتے تھے جب ہم کم عمر لڑکے تھے، مگر Li Ching-Yuen اس وقت ایک بھرپور اور پورے بالغ تھے۔''
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ Li Ching-Yuen نے جڑی بوٹیوں سے علاج کرنے والے ایک طبیب کی حیثیت سے صرف دس سال کی عمر میں اپنا کیریئر شروع کیا تھا۔ اس وقت وہ پہاڑوں اور جنگلات سے جڑی بوٹیاں جمع کرتے تھے، اسی زمانے میں انہوں نے ان جڑی بوٹیوں کے درازی عمر کے خواص بھی دریافت کرلیے تھے۔ لگ بھگ 40سال تک وہ جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ ایک خاص خوراک کھاتے رہے، جس میں lingzhi, goji berry, جنگلی جن سنگ، , he shoo wu اور gotu kola کے علاوہ چاول کی شراب بھی شامل تھی۔
1749میں ان کی عمر 71سال تھی۔ اس وقت انہوں نے مارشل آرٹس کے استاد کی حیثیت سے فوج میں شمولیت اختیار کرلی۔ Li Ching-Yuen کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی کمیونٹی میں بہت مقبول اور پسندیدہ انسان تھے۔
انہوں نے 23شادیاں کیں اور ان کے 200سے بھی زیادہ بچے تھے۔ لی کے بارے میں عام طور پر جو کہانیاں سنائی جاتی ہیں، ان میں یہ بھی شامل ہے کہ جب Li Ching-Yuen چھوٹے بچے تھے، اسی زمانے میں لکھنے پڑھنے لگے تھے اور اپنی دسویں سال گرہ تک وہ جڑی بوٹیاں جمع کرنے کے لیے تبت، Kansu, Shansi, Annam, Siam اور منچوریا کے سفر کرچکے تھے۔ اپنی عمر کی پہلی سینچری میں وہ اسی پیشے سے وابستہ رہے۔ اس کے بعد انہوں نے دوسروں کی جمع کردہ جڑی بوٹیاں فروخت کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ دوسری نادر و نایاب چینی جڑی بوٹیوں کے ساتھ انہوں نے lingzhi, goji berry, wild ginseng, he shou wu اور gotu kola کی فروخت بھی جاری رکھی۔ اس دوران ان کی یومیہ خوراک مذکورہ جڑی بوٹیوں اور چاول کی شراب پر مشتمل ہوتی تھی۔
٭وہ اکیلے ہی ایسے فرد نہیں تھے:
لی کے شاگردوں کا کہنا ہے کہ ایک بار انہیں اپنے سے بھی کہیں زیادہ معمر شخص ملا تھا جس کی عمر 500سال تھی۔ اسی شخص نے انہیں Qigong ورزشیں سکھائی تھیں، یہ ورزشیں سانس کے ذریعے کی جاتی ہیں۔ ساتھ ہی مذکورہ بالا معمر ترین شخص نے انہیں غذائی سفارشات بھی دی تھیں جن پر عمل کرکے وہ صحت مند طویل عمر پاتے ہوئے سپرہیومن بن سکتے تھے۔ مذکورہ ورزشوں اور جڑی بوٹیوں سے مالامال خوراک کے علاوہ بھی ہم نے اس عظیم ماسٹر سے طویل عمر پانے کے لیے بہت کچھ سیکھا تھا۔
اپنی موت سے پہلے بستر مرگ پر لیٹے ہوئے لی نے کہا تھا:''اس دنیا میں، میں جو کچھ کرسکتا تھا، وہ سب میں نے کرلیا۔''
کیا لی کی زندگی کے یہ آخری اور پرسکون الفاظ ہمیں یہ نہیں بتارہے کہ یہی طویل عمری اور خوش حال زندگی کے سب سے بڑے راز ہیں؟
یہاں یہ بات دل چسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ مغرب میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ بڑھاپے سے مقابلہ کرنے اور اسے شکست دینے کے لیے ہائی ٹیک انفرا ریڈ ڈیوائسز اور جدید قسم کے علاج سے مدد لینی چاہیے۔
٭طویل عمری کا لی کا اہم راز:
جب لی سے پوچھا گیا کہ آپ کی درازی عمر کا اہم راز کیا ہے تو انہوں نے جواب دیا:''اپنے دل کو بالکل سکون میں رکھیں، ایک کچھوے کی طرح بیٹھیں، جب بھی چلیں تو کبوتر کی طرح چلیں جو جوش کے عالم میں چلتا ہے، اور جب سوئیں تو کتے کی طرح سوئیں۔''
یہ الفاظ لی نے ایک سپہ سالار سے کہے تھے جو انہیں اپنے گھر اس لیے لے گیا تھا، تاکہ ان سے طویل عمر پانے کا راز معلوم کرسکے۔ لی نے یہ بھی کہا تھا کہ طویل عمر پانے کا بنیادی راز اس میں ہے کہ انسان نہایت پرسکون رہے، اپنے دل و دماغ کو کسی افراتفری یا دباؤ میں نہ ڈالے، ساتھ ہی سانس کی مختلف ورزشیں بھی کرتا رہے، وہ یقینی طور پر طویل عمر پائے گا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انسان کی طویل عمر میں اس کی خوراک اہم کردار ادا کرتی ہے، مگر جب ہم ماضی کا ریکارڈ اٹھاکر دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ہر وہ شخص طویل عمر پاتا تھا جو اپنے دل و دماغ کو پرسکون رکھتا تھا، یعنی اس نے خود کو دولت کی آلودگی سے بچایا تھا اور اپنے آپ کو خواہشات کا غلام نہیں بننے دیا تھا۔
٭انسان کیوں نہیں مانتا؟
موجودہ صورت حال یہ ہے کہ آج کی دنیا میں اوسطاً ہر انسان 70 سے85 کے درمیان کی عمر پاتا ہے، اور کسی کے 100سال تک پہنچنے کو تو ناقابل یقین سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں کسی انسان کے 200 سال سے زیادہ عمر پانے کے دعوے پر شکوک وشبہات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ تاہم طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ انسان یہ حقیقت کیوں نہیں مانتا کہ وہ واقعی اس طویل عمر تک پہنچ سکتا ہے؟ ہمیں اپنے ذہن میں یہ حقیقت ضرور رکھنی چاہیے کہ انسان اگر ہمت کرے تو وہ طویل عمر پاسکتا ہے۔ اس کے لیے کچھ شرائط ہیں جیسے وہ قرض جیسی لعنت کے شکنجے میں نہ پھنسے اور اس مالی دباؤ کا شکار نہ ہو۔
وہ ترقی یافتہ شہروں کی آلودہ فضاؤں میں سانس نہ لیں اور ورزش پابندی اور باقاعدگی سے کریں، اس میں وقفہ نہ آنے دیں۔ بے شک ہر وہ انسان طویل عمر پاسکتا ہے جو ریفائنڈ شکر یا آٹا نہ کھائے اور ایسی خوراک ہرگز استعمال نہ کرے جن پر جراثیم کش ادویہ کا اسپرے کیا جاتا ہے۔ طویل عمر کے خواہش مند لوگ چربی والا گوشت استعمال نہ کریں، شکر سے تیار کردہ پکوان اور جینیاتی طور پر تبدیل شدہ خوراک سے بھی پرہیز کریں۔ کبھی اینٹی بایوٹکس نہ لیں، شراب اور تمباکو سے دور رہیں۔
جنک فوڈز کے قریب نہ جائیں، جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ خوراک ان کے لیے بہترین ہے۔ ایسی اشیا سے پرہیز کریں جو جسم کی قوت مدافعت کو ختم کردیتی ہیں۔ باقاعدگی کے ساتھ پرفضا مقامات پر وقت گزاریں، کھلی ہوا میں گہرے سانس لیں، مراقبہ کریں جو ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔ ہر انسان کو چاہیے کہ وہ سادہ زندگی بسر کرے، مناسب اور پوری نیند لے، اپنا زیادہ وقت کھلی فضا اور چمک دار دھوپ میں گزارے۔ دھوپ انسان کے جسم کو چاق چوبند کرتی ہوئے اسے ایک بار پھر کام کے لیے تیار کردیتی ہے۔ پہاڑوں، سبزہ زاروں میں گزارا جانے والا وقت ہماری عمر میں اضافہ کرتا ہے، اس سے روحانی، جسمانی اور ذہنی صحت بنتی ہے جو انسان کی طویل عمر کے لیے لازمی ہیں۔
انسان کو اپنے جسم کی بات سننی چاہیے۔ اس کا جسم اس سے بہت کچھ کہتا ہے، بہت کچھ مانگتا ہے، بہت کچھ کرنے کا تقاضا کرتا ہے، اگر انسان اس کی بات سمجھ کر جواب دے تو وہ طویل عمر پاسکتا ہے، کیوں کہ اس طرح وہ اپنے دل و دماغ کو سکون اور اطمینان کی دولت عطا کرتا ہے اور یہی دولت طویل عمری کا بنیادی راز ہے۔
٭کچھ شکوک کچھ شبہات:
کیا واقعی Li Ching-Yuen کی عمر 256سال تھی؟ اس حوالے سے دنیا بھر کے عام لوگوں نے اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ پہلی بات ہمیں اپنے ذہن میں یہ رکھنی چاہیے کہ آج دور جدید میں ہم جس طرح وقت کی پیمائش کرتے ہیں، ہمارے آباواجداد اس طرح نہیں کرتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ماضی قدیم میں اگر بعض لوگوں کو 200یا300سال کی عمر کا حامل بتایا گیا تھا، وہ درحقیقت اتنی عمر کے نہیں ہوتے تھے، بل کہ صرف 80 یا90سال کے ہوتے تھے اور یہ فرق وقت کی پیمائش کے طریقے کے اختلاف کی وجہ سے تھا۔
ایسا ہی کچھ Li Ching-Yuenکی عمر کے حوالے سے بھی ہوا ہے۔ اس میں متعدد شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں اور لی کی جو عمر بیان کی گئی ہے، یہ درست نہیں ہوسکتی۔ انسانوں میں یہ عمر ایک ناقابل یقین چیز ہے۔
پھر یہ کہنا کہ لی نے اپنی زندگی میں 23شادیاں کی تھیں اور اس کی لگ بھگ 200اولادیں تھیں، کسی بھی طرح درست نہیں مانا جاسکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے معمر ترین انسان کا اعزاز ایک فرانسیسی خاتون Jeanne Louise Calment کو حاصل ہے جو 1997ء میں 122سال کی عمر میں وفات پاگئی تھیں۔
عام لوگوں کا خیال ہے کہ لی واقعتاً دنیا کا سب سے معمر ترین انسان نہیں تھا، بل کہ یہ ایک فرضی یا افسانوی بات ہے، البتہ یہ صحیح ہے کہ لی نے طویل عمر پائی اور اس کا راز یہ ہے کہ وہ جڑی بوٹیوں پر مشتمل خوراک کھاتا تھا اور پابندی سے ورزش بھی کرتا تھا۔ اس حوالے سے اس کی صحت قابل رشک تھی جو اس کی موت تک رہی۔
ایک یورپی اخبار نے لکھا ہے کہ اگر Li Ching-Yuen کا تعلق افریقا سے ہوتا تو واقعی یہ انسان قابل رشک قرار دیا جاتا، کیوں کہ وہاں کے لوگ
اتنی بیویوں اور اتنی ساری اولاد کے ساتھ بہت عزت و اکرام پاتے ہیں اور انہیں فخر کی بات سمجھا جاتا ہے۔
ویسے بھی Li Ching-Yuen نے لوگوں کو اچھی اور صحت مند زندگی گزارنے کے جو اصول بتائے ہیں، وہ بہت عام سے ہیں، یعنی: انسان ہر قسم کی خواہشات سے بچے، دولت کے حصول کے دباؤ سے خود کو آزاد رکھے اور شراب اور تمباکو سے پرہیز کرے، یہ تو صحت مند زندگی گزارنے کے عام اصول ہیں جن کی وجہ سے انسان طویل عمر بھی پاسکتا ہے، مگر یہ کہانی مشکوک ہے، اس کی صداقت پر کوئی بھی یقین نہیں کرسکتا۔ اب یہ بات کہ لی آخری عمر تک صحت مند رہا اور وہ اپنے سبھی کام اپنے ہاتھوں سے انجام دیتا تھا، اس میں بھی کوئی حیرت کی بات نہیں ہے، ایشیا، یورپ، افریقا اور مشرق بعید کے کئی ملکوں کے معمر افراد یہ سب کام خود کرتے ہیں۔
Li Ching-Yuen کی طول عمری کے حوالے سے Alex Browingنامی ایک طالب علم نے لکھا ہے کہ اس ضمن میں کوئی ناقابل تردید دستاویز پیش نہیں کی گئی کہ لی کی عمر 256سال تھی، ہم تک جو کچھ پہنچا ہے، وہ مقامی لوگوں کی زبانی پہنچا ہے۔ اس دور میں اکثر چینی ناخواندہ تھے اور انہوں نے یہ ایک فرضی کہانی بنالی جو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی ہوئی ہم تک پہنچ گئی۔ میری اس گستاخی پر مجھے معاف کردیا جائے، مگر جو کچھ میرے ذہن میں تھا، وہ میں نے آپ حضرات کے سامنے پیش کردیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ Li Ching-Yuen معمر ہوں گے، مگر وہ 256سال کی عمر تک پہنچے، اس پر کوئی یقین نہیں کرسکتا۔