نانگا پربت دہشت گرد حملے میں محفوظ رہنے والا شخص قرضے کی ادائیگی کے لیے گردہ بیچنے پر مجبور

افسرجان اپنی بیوی کے علاج کے دوران مقروض ہوگیا اور اب اس کے پاس گردہ بیچنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں

دہشت گرد غیر ملکی کوہ پیماؤں کی تلاش میں تھے اس لیے افسر جان کی جان بچ گئی فوٹو: فائل

نانگا پربت پر کوہ پیماؤں کے کیمپ پر دہشت گرد حملے کے دوران محفوظ رہنے والا شخص قرضے کی ادائیگی کیلئے گردہ بیچنے پر مجبور ہوگیا۔

ہنزہ کے علاقے علی آباد کا 45 سالہ رہائشی افسرجان چائے کا کھوکھا چلاتا ہے، حملے کے وقت وہ کوہ پیماؤں کے کیمپ میں باورچی کے طور پر کام کررہا تھا، افسرجان کے مطابق دہشت گرد غیر ملکی کوہ پیماؤں کی تلاش میں تھے اس لیے اس کی جان بچ گئی۔


افسر جان کا کہنا ہے کہ اس کی بیوی کا 2013 میں دل کا آپریشن ہوا تھا۔ اس کے بھائی نے ابتدائی طور پر تو اسپتال کے بل قسطوں میں ادا کیے تاہم بعد میں اس نے بھی معذوری ظاہر کردی، جو کچھ تھا بیوی کے علاج پر خرچ کردیا، قرضہ ادا کرنے کیلئے گردہ فروخت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

واضح رہے کہ 22 جون 2013 کو 16 حملہ آوروں نے پاکستان کی دوسری بلند ترین چوٹی نانگا پربت کے بیس کیمپ پر حملہ کر کے 10 غیر ملکی کوہ پیماؤں اور ان کے ایک مقامی گائیڈ کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
Load Next Story