خلق خدا کے معاشی عذاب اور زمینی حقائق
خدا کرے ایسا دن آئے کہ وطن عزیز ایشین ٹائیگر ثابت ہو اور دہشت گردی ختم ہوتے ہی عوام کو معاشی ریلیف مل جائے ۔
ISLAMABAD:
وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے کہا ہے کہ ڈی ایٹ بزنس فورم رکن ممالک کی ترقی اور خوشحالی یقینی بنا سکتا ہے۔
رکن ممالک کے درمیان باہمی تجارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، پاکستان ابھرتی ہوئی معاشی منڈی ہے، رکن ممالک 2018 تک باہمی تجارت کو 500ارب ڈالر تک لا کر باہمی تجارت کے فروغ کے خواب کو حقیقی رنگ دیں، پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری ادارے مستحکم ہوئے ہیں، معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے۔
اسلام آباد میں ڈی ایٹ بزنس فورم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اقتصادی ترقی کے مقصد کے حصول کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ساتھ سازگار ماحول پیدا کرنا ہو گا، غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں دستیاب وسیع مواقعے سے استفادہ کر سکتے ہیں۔یہاں نجی شعبے کا اعتماد کافی حد تک بحال ہو گیا ہے۔ پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بھی بہتر ہوئی ہے۔وزیراعظم کا خطاب اپنے متن اور معاشی صورتحال کے اجمالی جائزہ کے حوالے سے خوش آیند ضرور ہے تاہم حقیقی اقتصادی ترقی اور عوام کو اس ترقی کے ثمرات سے بہرہ ور ہونے کے ٹھوس شواہد بھی ملنے چاہئیں ۔
یہ لمبا سفر ہے جس میں اقتصادی استحکام جب تک ملکی معیشت کو اتنا مضبوط نہیں بنائے گا کہ وہ سیاسی استحکام اور جمہوری نظام کی مضبوطی کی بنیاد بن سکے تو عوام حکمرانوں کے بیانات سے مطمئن نہیں ہوں گے ، جب کہ اقتصادی فورموں اور دیگر عالمی اقتصادی سربراہ کانفرنسوں میں ہونے والے اعلانات اور معاہدوں کے باوجود پاکستان حالت جنگ میں ہے، اسے دہشت گردی کے عذاب اور مختلف النوع اقتصادی،سماجی،سیاسی اورا سٹرٹیجکل چیلنجوں کا سامنا ہے۔اسی تناظر میں وزیراعظم نے پاکستان کو ایک ابھرتی ہوئی معاشی منڈی سے تعبیر کیا ہے، خدا کرے ایسا دن آئے کہ وطن عزیز ایشین ٹائیگر ثابت ہو اور دہشت گردی ختم ہوتے ہی عوام کو معاشی ریلیف مل جائے ۔
تاہم حقیقت تو یہ ہے کہ معاشی معاملات سے آشنا سابق وزیر اعظم شوکت عزیز اسی قسم کے دعوے کرتے ہوئے رخصت ہوگئے اور قوم '' کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے'' والی پوزیشن میں پیچھے رہ گئی۔ ان کے معاشی منصوبوں کے ٹرکل ڈائون کی امید ہی دم توڑ گئی۔اس لیے معیشت کی بہتری کے دعوے کافی نہیں ہوں گے۔اب جب کہ حکومت اپنی آئینی مدت تقریباً پوری کرچکی ہے ، جو ایک ریکارڈ ہے ،، بس چند ماہ رہ گئے ہیں لیکن یہی عرصۂ محشر ہے جس میں قوم نئے انتخابات کے حوالے سے حکمرانوں کی اب تک کی کارکردگی کو ووٹ کے ترازو میں تولے گی۔
جہاں تک ملکی معیشت کے استحکام کا تعلق ہے بلاشبہ کئی شعبوں میں مثبت قانون سازی ہوئی ہے، عوام کو متعدد منصوبوں کے فوائد بھی حاصل ہوئے ہیں تاہم مجموعی اقتصادی صورتحال بدستور دہشت گردی کے تھپیڑوں کی زد میں ہے اور عوام کا جو حال ہے وہ ملکی اشرافیہ سے چھپا ہو توہو مگر زمینی اقتصادی حقائق ملکی معیشت کی کچھ اور ہی درد انگیزکہانیاں سناتے ہیں ۔یہ جرائم اور بیروزگاری سے پیدا شدہ وہ سنگین سماجی حالات ہیں جو غربت ، ناانصافی، کرپشن ، سیاسی مصلحتوں ، دولت کی نامنصفانہ تقسیم اور غریب کے غریب تر ہونے کے طبقاتی نظام کا شاخسانہ ہیں۔
ناخواندگی،آبادی میں بے محابہ پھیلائو، دہشت گردی کی آڑ میں ریاستی نظام کو تلپٹ کرنے کے لیے انتہا پسندوں کے اعصاب شکن خود کش حملے اور بم دھماکے چشم کشا ہیں۔ادھر ایک ایٹمی ملک ہونے کے باوجود بجلی،گیس، سی این جی کے مسلسل بحران، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں رد و بدل سے عوام کی عجیب درگت بنی ہے ۔کھاد کی قیمتوں کا آسمان سے باتیں کرنا اور عدلیہ کا حکومتی فیصلوں اور ہنگامی اقدامات کے خلاف ازخود نوٹسوں سے حکومت کے بارے میں پیدا ہونے والا بے یقینی کا ماحول کسی طور جمہوری عمل کے حق میں دکھائی نہیں دیتا۔یہ ساری صورتحال عوام کے مفاد میں تبدیل ہونی چاہیے تھی ۔بجلی کی لگاتار اور بے رحمانہ لوڈ شیڈنگ کے ساتھ ساتھ ہزاروں صنعتی یونٹوں کی بندش، مزدوروں کی جبری چھانٹی اور روزگار کے سکڑتے شب و روز سے ایک زندہ ، تابندہ اور متحرک و فعال معیشت کی نشاندہی نہیںہوتی ۔
بلکہ عدم تحفظ کے شکار کروڑوں اہل وطن کو نامساعد حالات کا سامنا ہے، تاجر برادری خوف میں مبتلا ہے۔ سرمایہ کار ملکی ہو یا غیر ملکی اس جگہ کیسے سرمایہ کاری کی حماقت کرسکتا ہے جہاں بم دھماکے اور دہشت گردی روزکا معمول ہوں۔ بھتہ خوروں نے زندگی گزارنا اور کاروبار کرنا اذیت ناک بنادیا ہو۔ملک کے سب سے بڑے شہر میں نیا کاروبار کرنا مشکل ہے،جب کہ ملک بھر میں چھوٹے پیمانہ کی گھریلو انڈسٹری سے وابستہ لاکھوں بیوپاریوں اور عام دکانداروں کے لیے اپنے اہل خانہ کے جسم وجاں کا رشتہ برقرار رکھنا دوبھر ہوگیا ہے۔ اگر مملکت پاک کو ایشین ٹائیگر بنانا ہے تو پہلے داخلی امن قائم کریں، پھرعلاقائی اور عالمی منڈی میں پاکستان اہم کردار ادا کرسکے گا۔
قابل غور نکتہ یہ ہے کہ انھیں بینک آف پاکستان کے ڈپٹی گورنر قاضی عبدالمقتدر نے بھی ڈی ایٹ کے مرکزی بینکوں کے تعاون کے حوالے سے ڈی ایٹ ممالک میں شمولیتی معاشی نمو کو فروغ دینے کے لیے اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔انھوں نے کہا کہ ہمیں ڈی ایٹ ممالک کے اندر نئے معاشی نظام میں نمو کو پائیدار بنانے اور تجارت اور سرمائے کے بہاؤ کے ذریعے تعاون میں اضافہ کرنے پر غور وخوض کرنا ہوگا۔ڈی ایٹ کی معیشتیں تیز رفتاری سے نئے مرحلے میں داخل ہو رہی ہیں اس لیے یہ ضروری ہے کہ درست مانیٹری پالیسیوں اور معاشی انتظام کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ قریبی اقتصادی اور مالی اتحاد قائم کرنے کے لیے کام کریں۔
معاشی نمو کی پائیداری کو جدت پسندی اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی ترغیبات اور نئے کاروبار کے فروغ کے ذریعے یقینی بنایا جاسکتا ہے جب کہ اسلامی مالی نظام کی حقیقی روح ہی وہ راستہ ہے جسے اپنانے سے عالمی مالی نظام کی بحالی اور اسٹیک ہولڈرز کے کھوئے ہوئے اعتماد کو بحال کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
دریں اثنا آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے بدھ کو پاکستان کی اقتصادی کارکردگی کے بارے میں جائزہ مشن کی مرتب کردہ پوسٹ پروگرام مانیٹرنگ رپورٹ کی منظوری دینے اورایمنسٹی اسکیم لانے کے حوالے سے آئی ایم ایف کو اعتماد میں لینے کے لیے پیش کی جانے والی رپورٹ کے بھی جائزہ لینے کی اطلاعات آئی ہیں ۔ عالمی مالیاتی اداروں اور اپنے بینکوں سے لیے جانے والے خطیر قرضوںاور غیرملکی فنڈزکے حصول اور ان کے استعمال کے حوالہ سے عدم شفافیت ایک بڑا مسئلہ ہے جس پر عدلیہ بجا طور پر برہم ہے۔بلاشبہ ملک میں ایک طرف جگر سوزغربت اور دوسری جانب قرضوں کا بوجھ اور کرپشن کا سمندر ہے۔ کیا اس تلاطم میں اہل اقتدار کو خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی کچھ خبر بھی ہے؟
وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے کہا ہے کہ ڈی ایٹ بزنس فورم رکن ممالک کی ترقی اور خوشحالی یقینی بنا سکتا ہے۔
رکن ممالک کے درمیان باہمی تجارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، پاکستان ابھرتی ہوئی معاشی منڈی ہے، رکن ممالک 2018 تک باہمی تجارت کو 500ارب ڈالر تک لا کر باہمی تجارت کے فروغ کے خواب کو حقیقی رنگ دیں، پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری ادارے مستحکم ہوئے ہیں، معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے۔
اسلام آباد میں ڈی ایٹ بزنس فورم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اقتصادی ترقی کے مقصد کے حصول کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ساتھ سازگار ماحول پیدا کرنا ہو گا، غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں دستیاب وسیع مواقعے سے استفادہ کر سکتے ہیں۔یہاں نجی شعبے کا اعتماد کافی حد تک بحال ہو گیا ہے۔ پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بھی بہتر ہوئی ہے۔وزیراعظم کا خطاب اپنے متن اور معاشی صورتحال کے اجمالی جائزہ کے حوالے سے خوش آیند ضرور ہے تاہم حقیقی اقتصادی ترقی اور عوام کو اس ترقی کے ثمرات سے بہرہ ور ہونے کے ٹھوس شواہد بھی ملنے چاہئیں ۔
یہ لمبا سفر ہے جس میں اقتصادی استحکام جب تک ملکی معیشت کو اتنا مضبوط نہیں بنائے گا کہ وہ سیاسی استحکام اور جمہوری نظام کی مضبوطی کی بنیاد بن سکے تو عوام حکمرانوں کے بیانات سے مطمئن نہیں ہوں گے ، جب کہ اقتصادی فورموں اور دیگر عالمی اقتصادی سربراہ کانفرنسوں میں ہونے والے اعلانات اور معاہدوں کے باوجود پاکستان حالت جنگ میں ہے، اسے دہشت گردی کے عذاب اور مختلف النوع اقتصادی،سماجی،سیاسی اورا سٹرٹیجکل چیلنجوں کا سامنا ہے۔اسی تناظر میں وزیراعظم نے پاکستان کو ایک ابھرتی ہوئی معاشی منڈی سے تعبیر کیا ہے، خدا کرے ایسا دن آئے کہ وطن عزیز ایشین ٹائیگر ثابت ہو اور دہشت گردی ختم ہوتے ہی عوام کو معاشی ریلیف مل جائے ۔
تاہم حقیقت تو یہ ہے کہ معاشی معاملات سے آشنا سابق وزیر اعظم شوکت عزیز اسی قسم کے دعوے کرتے ہوئے رخصت ہوگئے اور قوم '' کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے'' والی پوزیشن میں پیچھے رہ گئی۔ ان کے معاشی منصوبوں کے ٹرکل ڈائون کی امید ہی دم توڑ گئی۔اس لیے معیشت کی بہتری کے دعوے کافی نہیں ہوں گے۔اب جب کہ حکومت اپنی آئینی مدت تقریباً پوری کرچکی ہے ، جو ایک ریکارڈ ہے ،، بس چند ماہ رہ گئے ہیں لیکن یہی عرصۂ محشر ہے جس میں قوم نئے انتخابات کے حوالے سے حکمرانوں کی اب تک کی کارکردگی کو ووٹ کے ترازو میں تولے گی۔
جہاں تک ملکی معیشت کے استحکام کا تعلق ہے بلاشبہ کئی شعبوں میں مثبت قانون سازی ہوئی ہے، عوام کو متعدد منصوبوں کے فوائد بھی حاصل ہوئے ہیں تاہم مجموعی اقتصادی صورتحال بدستور دہشت گردی کے تھپیڑوں کی زد میں ہے اور عوام کا جو حال ہے وہ ملکی اشرافیہ سے چھپا ہو توہو مگر زمینی اقتصادی حقائق ملکی معیشت کی کچھ اور ہی درد انگیزکہانیاں سناتے ہیں ۔یہ جرائم اور بیروزگاری سے پیدا شدہ وہ سنگین سماجی حالات ہیں جو غربت ، ناانصافی، کرپشن ، سیاسی مصلحتوں ، دولت کی نامنصفانہ تقسیم اور غریب کے غریب تر ہونے کے طبقاتی نظام کا شاخسانہ ہیں۔
ناخواندگی،آبادی میں بے محابہ پھیلائو، دہشت گردی کی آڑ میں ریاستی نظام کو تلپٹ کرنے کے لیے انتہا پسندوں کے اعصاب شکن خود کش حملے اور بم دھماکے چشم کشا ہیں۔ادھر ایک ایٹمی ملک ہونے کے باوجود بجلی،گیس، سی این جی کے مسلسل بحران، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں رد و بدل سے عوام کی عجیب درگت بنی ہے ۔کھاد کی قیمتوں کا آسمان سے باتیں کرنا اور عدلیہ کا حکومتی فیصلوں اور ہنگامی اقدامات کے خلاف ازخود نوٹسوں سے حکومت کے بارے میں پیدا ہونے والا بے یقینی کا ماحول کسی طور جمہوری عمل کے حق میں دکھائی نہیں دیتا۔یہ ساری صورتحال عوام کے مفاد میں تبدیل ہونی چاہیے تھی ۔بجلی کی لگاتار اور بے رحمانہ لوڈ شیڈنگ کے ساتھ ساتھ ہزاروں صنعتی یونٹوں کی بندش، مزدوروں کی جبری چھانٹی اور روزگار کے سکڑتے شب و روز سے ایک زندہ ، تابندہ اور متحرک و فعال معیشت کی نشاندہی نہیںہوتی ۔
بلکہ عدم تحفظ کے شکار کروڑوں اہل وطن کو نامساعد حالات کا سامنا ہے، تاجر برادری خوف میں مبتلا ہے۔ سرمایہ کار ملکی ہو یا غیر ملکی اس جگہ کیسے سرمایہ کاری کی حماقت کرسکتا ہے جہاں بم دھماکے اور دہشت گردی روزکا معمول ہوں۔ بھتہ خوروں نے زندگی گزارنا اور کاروبار کرنا اذیت ناک بنادیا ہو۔ملک کے سب سے بڑے شہر میں نیا کاروبار کرنا مشکل ہے،جب کہ ملک بھر میں چھوٹے پیمانہ کی گھریلو انڈسٹری سے وابستہ لاکھوں بیوپاریوں اور عام دکانداروں کے لیے اپنے اہل خانہ کے جسم وجاں کا رشتہ برقرار رکھنا دوبھر ہوگیا ہے۔ اگر مملکت پاک کو ایشین ٹائیگر بنانا ہے تو پہلے داخلی امن قائم کریں، پھرعلاقائی اور عالمی منڈی میں پاکستان اہم کردار ادا کرسکے گا۔
قابل غور نکتہ یہ ہے کہ انھیں بینک آف پاکستان کے ڈپٹی گورنر قاضی عبدالمقتدر نے بھی ڈی ایٹ کے مرکزی بینکوں کے تعاون کے حوالے سے ڈی ایٹ ممالک میں شمولیتی معاشی نمو کو فروغ دینے کے لیے اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔انھوں نے کہا کہ ہمیں ڈی ایٹ ممالک کے اندر نئے معاشی نظام میں نمو کو پائیدار بنانے اور تجارت اور سرمائے کے بہاؤ کے ذریعے تعاون میں اضافہ کرنے پر غور وخوض کرنا ہوگا۔ڈی ایٹ کی معیشتیں تیز رفتاری سے نئے مرحلے میں داخل ہو رہی ہیں اس لیے یہ ضروری ہے کہ درست مانیٹری پالیسیوں اور معاشی انتظام کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ قریبی اقتصادی اور مالی اتحاد قائم کرنے کے لیے کام کریں۔
معاشی نمو کی پائیداری کو جدت پسندی اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی ترغیبات اور نئے کاروبار کے فروغ کے ذریعے یقینی بنایا جاسکتا ہے جب کہ اسلامی مالی نظام کی حقیقی روح ہی وہ راستہ ہے جسے اپنانے سے عالمی مالی نظام کی بحالی اور اسٹیک ہولڈرز کے کھوئے ہوئے اعتماد کو بحال کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
دریں اثنا آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے بدھ کو پاکستان کی اقتصادی کارکردگی کے بارے میں جائزہ مشن کی مرتب کردہ پوسٹ پروگرام مانیٹرنگ رپورٹ کی منظوری دینے اورایمنسٹی اسکیم لانے کے حوالے سے آئی ایم ایف کو اعتماد میں لینے کے لیے پیش کی جانے والی رپورٹ کے بھی جائزہ لینے کی اطلاعات آئی ہیں ۔ عالمی مالیاتی اداروں اور اپنے بینکوں سے لیے جانے والے خطیر قرضوںاور غیرملکی فنڈزکے حصول اور ان کے استعمال کے حوالہ سے عدم شفافیت ایک بڑا مسئلہ ہے جس پر عدلیہ بجا طور پر برہم ہے۔بلاشبہ ملک میں ایک طرف جگر سوزغربت اور دوسری جانب قرضوں کا بوجھ اور کرپشن کا سمندر ہے۔ کیا اس تلاطم میں اہل اقتدار کو خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی کچھ خبر بھی ہے؟