رول ماڈل
یورپی یونین کے کئی ملکوں کے درمیان بغیر قانونی دستاویزات کے سفر کرنے کی آزادی ہے۔
KARACHI:
دنیا میں بسنے والے 7 ارب انسانوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے اور معاشی ترقی کی راہ ہموار کرنے کے لیے جو کوششیں کی جاتی رہی ہیں ان میں یورپی یونین کا قیام سرفہرست ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد جب دنیا شدید معاشی ابتری کا شکار تھی، چھ یورپی ممالک نے اپنی کوئلے اور اسٹیل کی صنعتوں میں اشتراک کا فیصلہ کیا، اس اتحاد و اشتراک کا ایک مقصد اتحاد میں شامل ملکوں کے درمیان اتنی قربت اور اعتماد پیدا کرنا تھا کہ ان ملکوں کے درمیان جنگ کا امکان ہی نہ رہے، ایک دوسرے کے قریب آنے کی ترغیب دراصل دو عالمی جنگوں نے فراہم کی جن کی پیدا کردہ تباہیوں نے انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے اور جنگوں کے امکانات کو ختم کرنے پر مجبور کیا۔ چھ ملکوں کا یہ اتحاد آگے چل کر 28 ملکوں کے اتحاد میں بدل گیا اور اس اتحاد کو ''یورپی یونین'' کا نام دیا گیا۔
اسی حوالے سے ہر سال 9 مئی کو یورپ ڈے منایا جاتا ہے۔ یورپی یونین دنیا میں تعاون اور یکجہتی کی ایسی مثال ہے جو اس خطے میں رہنے والے 500 ملین انسانوں میں اجنبیت دور کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ یورپی یونین میں شامل 19 ملکوں کی ایک مشترکہ کرنسی ہے جسے یورو کہا جاتا ہے، یورپی یونین کے کئی ملکوں کے درمیان بغیر قانونی دستاویزات کے سفر کرنے کی آزادی ہے۔
براعظم ایشیا رقبے و آبادی کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا براعظم ہے، لیکن اس براعظم کے عوام کی یہ بدقسمتی ہے کہ یہ براعظم نہ صرف مختلف متحارب ملکوں کے درمیان بٹا ہوا ہے بلکہ اس میں شامل کئی ملک ایک دوسرے کے حریف بھی ہیں۔
آبادی کے حوالے سے دو سب سے بڑے ملک چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعات ہیں، اس تنازع کی وجہ 1962ء میں دونوں ملکوں کے درمیان ایک خطرناک سرحدی جنگ بھی ہو چکی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں اور آج بھی دونوں ملکوں کے درمیان شدید کشیدگی موجود ہے، اور اس کشیدگی کا سب سے بڑا سبب مسئلہ کشمیر ہے۔
برصغیر کی تقسیم کے بعد اس وقت کی بھارتی قیادت اتنی مضبوط تھی کہ وہ کشمیر کے مسئلے کو بڑی آسانی سے حل کر سکتی تھی لیکن اس قیادت کی کوتاہ بینی کی وجہ سے یہ مسئلہ سلجھنے کے بجائے الجھتا چلا گیا۔ اس مسئلے کی وجہ سے ان دو غریب اور پسماندہ ملکوں کے درمیان ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہوئی جو اس خطے کے عوام کی معاشی پسماندگی کا اہم سبب بن گئی ہے۔ جنوبی ایشیا کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور اس خطے کے ملکوں کے درمیان معاشی تعاون کے لیے ''سارک'' کی تنظیم قائم کی گئی لیکن ایک دوسرے پر عدم اعتماد کی وجہ سے یہ تنظیم اپنے مقاصد کے حصول میں اب تک ناکام رہی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان میں رہنے والے 50 فیصد سے زیادہ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور ان دونوں ملکوں کے حکمران طبقات دفاع پر اپنے بجٹ کا ایک بھاری حصہ ضایع کر رہے ہیں۔
بھارت ایک عرصے تک غیر جانبدار ملکوں کا سربراہ بنا رہا جس کی وجہ سے دنیا میں بھارت کی پذیرائی ہوتی رہی لیکن آج بھارت امریکا کا دفاعی پارٹنر بنا ہوا ہے امریکا اور بھارت کے درمیان دفاعی معاہدے ہو چکے ہیں اور بھارت چین کی مخالفت کے حوالے سے ایشیا میں امریکا کا سب سے بڑا اتحادی بنا ہوا ہے۔ امریکا کا حکمران طبقہ بھارت کو چین کے خلاف ایک مضبوط دیوار کی طرح استعمال کر رہا ہے۔ ماضی میں پاکستان کی سیٹو اور سینٹو جیسے دفاعی معاہدوں میں شرکت کی وجہ سے بھارت پاکستان کا سب سے بڑا مخالف ملک بنا ہوا تھا، آج وہی بھارت امریکا کے ساتھ دفاعی معاہدوں میں شریک ہو کر ایشیا میں سامراجی طاقتوں کے مقاصد پورے کر رہا ہے اور چین سے دفاعی مسابقت کی وجہ جوہری ہتھیاروں کی تباہ کن ترقی میں لگا ہوا ہے۔ حال ہی میں اس نے ایسے میزائل بنائے ہیں جو حریف ملکوں کے میزائلوں کو فضا ہی میں تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
جنوبی ایشیا کے ممالک سماجی اور اقتصادی حوالے سے دنیا کے پسماندہ ترین ملک ہیں، ان حقائق کا تقاضا یہ ہے کہ سارک کو یورپی یونین کی طرز پر ایک ایسے اتحاد میں بدلا جائے جس میں جنگ کے امکانات ختم ہو جائیں لیکن جب تک بھارت کا چین سے سرحدی تنازعہ اور پاکستان سے کشمیر کا تنازعہ حل نہ ہو سارک ایک علامتی تنظیم بنی رہے گی جو جنوبی ایشیا کے غریب عوام کی غربت دور کرنے اور انھیں ایک دوسرے کے قریب لانے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتی۔ جنوبی ایشیا سمیت دنیا بھر میں عدم اعتماد، اختلافات اور نفرتوں کی جو فضا بنی ہوئی ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں اختیارات اور فیصلے کرنے والے سیاستدان انتہائی تنگ نظر ہیں۔ پھر سرمایہ دارانہ نظام کے خالقوں نے قومی ریاستوں کے فلسفے کو مضبوط بنا کر عوام کو اس طرح تقسیم کر رکھا ہے کہ ان کا ایک دوسرے کے قریب آنا ناممکن ہو گیا ہے۔
اصل میں حکمران طبقات نے پاسپورٹ، ویزا کی سخت پابندیوں میں عوام کو جکڑ کر انھیں ایک دوسرے سے اس طرح الگ کر دیا ہے کہ وہ عوامی یکجہتی کی طرف پیشرفت کرنے کے قابل ہی نہیں رہے ہیں۔ جب تک تنگ نظر اور متعصب حکمران طبقہ برسر اقتدار رہے گا نہ بھارت چین سرحدی تنازعہ حل ہو سکتا ہے نہ مسئلہ کشمیر حل ہو سکتا ہے۔ دونوں ملکوں کے اہل علم، اہل دانش، ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ تنگ نظر حکمران طبقات کے خلاف رائے عامہ کو بیدار کرنے میں کردار ادا کریں تا کہ جنوبی ایشیا کی تنظیم سارک بھی یورپی یونین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس خطے میں بسنے والوں کے درمیان اجنبیت ختم کر کے انھیں ایک دوسرے کے قریب لانے اور معاشی پسماندگی سے نکالنے میں کردار ادا کر سکے۔ یورپی یونین دنیا کے لیے ایک رول ماڈل ہے جس کی اتباع دنیا کو کرنا چاہیے۔
دنیا میں بسنے والے 7 ارب انسانوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے اور معاشی ترقی کی راہ ہموار کرنے کے لیے جو کوششیں کی جاتی رہی ہیں ان میں یورپی یونین کا قیام سرفہرست ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد جب دنیا شدید معاشی ابتری کا شکار تھی، چھ یورپی ممالک نے اپنی کوئلے اور اسٹیل کی صنعتوں میں اشتراک کا فیصلہ کیا، اس اتحاد و اشتراک کا ایک مقصد اتحاد میں شامل ملکوں کے درمیان اتنی قربت اور اعتماد پیدا کرنا تھا کہ ان ملکوں کے درمیان جنگ کا امکان ہی نہ رہے، ایک دوسرے کے قریب آنے کی ترغیب دراصل دو عالمی جنگوں نے فراہم کی جن کی پیدا کردہ تباہیوں نے انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے اور جنگوں کے امکانات کو ختم کرنے پر مجبور کیا۔ چھ ملکوں کا یہ اتحاد آگے چل کر 28 ملکوں کے اتحاد میں بدل گیا اور اس اتحاد کو ''یورپی یونین'' کا نام دیا گیا۔
اسی حوالے سے ہر سال 9 مئی کو یورپ ڈے منایا جاتا ہے۔ یورپی یونین دنیا میں تعاون اور یکجہتی کی ایسی مثال ہے جو اس خطے میں رہنے والے 500 ملین انسانوں میں اجنبیت دور کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ یورپی یونین میں شامل 19 ملکوں کی ایک مشترکہ کرنسی ہے جسے یورو کہا جاتا ہے، یورپی یونین کے کئی ملکوں کے درمیان بغیر قانونی دستاویزات کے سفر کرنے کی آزادی ہے۔
براعظم ایشیا رقبے و آبادی کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا براعظم ہے، لیکن اس براعظم کے عوام کی یہ بدقسمتی ہے کہ یہ براعظم نہ صرف مختلف متحارب ملکوں کے درمیان بٹا ہوا ہے بلکہ اس میں شامل کئی ملک ایک دوسرے کے حریف بھی ہیں۔
آبادی کے حوالے سے دو سب سے بڑے ملک چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعات ہیں، اس تنازع کی وجہ 1962ء میں دونوں ملکوں کے درمیان ایک خطرناک سرحدی جنگ بھی ہو چکی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں اور آج بھی دونوں ملکوں کے درمیان شدید کشیدگی موجود ہے، اور اس کشیدگی کا سب سے بڑا سبب مسئلہ کشمیر ہے۔
برصغیر کی تقسیم کے بعد اس وقت کی بھارتی قیادت اتنی مضبوط تھی کہ وہ کشمیر کے مسئلے کو بڑی آسانی سے حل کر سکتی تھی لیکن اس قیادت کی کوتاہ بینی کی وجہ سے یہ مسئلہ سلجھنے کے بجائے الجھتا چلا گیا۔ اس مسئلے کی وجہ سے ان دو غریب اور پسماندہ ملکوں کے درمیان ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہوئی جو اس خطے کے عوام کی معاشی پسماندگی کا اہم سبب بن گئی ہے۔ جنوبی ایشیا کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور اس خطے کے ملکوں کے درمیان معاشی تعاون کے لیے ''سارک'' کی تنظیم قائم کی گئی لیکن ایک دوسرے پر عدم اعتماد کی وجہ سے یہ تنظیم اپنے مقاصد کے حصول میں اب تک ناکام رہی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان میں رہنے والے 50 فیصد سے زیادہ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور ان دونوں ملکوں کے حکمران طبقات دفاع پر اپنے بجٹ کا ایک بھاری حصہ ضایع کر رہے ہیں۔
بھارت ایک عرصے تک غیر جانبدار ملکوں کا سربراہ بنا رہا جس کی وجہ سے دنیا میں بھارت کی پذیرائی ہوتی رہی لیکن آج بھارت امریکا کا دفاعی پارٹنر بنا ہوا ہے امریکا اور بھارت کے درمیان دفاعی معاہدے ہو چکے ہیں اور بھارت چین کی مخالفت کے حوالے سے ایشیا میں امریکا کا سب سے بڑا اتحادی بنا ہوا ہے۔ امریکا کا حکمران طبقہ بھارت کو چین کے خلاف ایک مضبوط دیوار کی طرح استعمال کر رہا ہے۔ ماضی میں پاکستان کی سیٹو اور سینٹو جیسے دفاعی معاہدوں میں شرکت کی وجہ سے بھارت پاکستان کا سب سے بڑا مخالف ملک بنا ہوا تھا، آج وہی بھارت امریکا کے ساتھ دفاعی معاہدوں میں شریک ہو کر ایشیا میں سامراجی طاقتوں کے مقاصد پورے کر رہا ہے اور چین سے دفاعی مسابقت کی وجہ جوہری ہتھیاروں کی تباہ کن ترقی میں لگا ہوا ہے۔ حال ہی میں اس نے ایسے میزائل بنائے ہیں جو حریف ملکوں کے میزائلوں کو فضا ہی میں تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
جنوبی ایشیا کے ممالک سماجی اور اقتصادی حوالے سے دنیا کے پسماندہ ترین ملک ہیں، ان حقائق کا تقاضا یہ ہے کہ سارک کو یورپی یونین کی طرز پر ایک ایسے اتحاد میں بدلا جائے جس میں جنگ کے امکانات ختم ہو جائیں لیکن جب تک بھارت کا چین سے سرحدی تنازعہ اور پاکستان سے کشمیر کا تنازعہ حل نہ ہو سارک ایک علامتی تنظیم بنی رہے گی جو جنوبی ایشیا کے غریب عوام کی غربت دور کرنے اور انھیں ایک دوسرے کے قریب لانے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتی۔ جنوبی ایشیا سمیت دنیا بھر میں عدم اعتماد، اختلافات اور نفرتوں کی جو فضا بنی ہوئی ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں اختیارات اور فیصلے کرنے والے سیاستدان انتہائی تنگ نظر ہیں۔ پھر سرمایہ دارانہ نظام کے خالقوں نے قومی ریاستوں کے فلسفے کو مضبوط بنا کر عوام کو اس طرح تقسیم کر رکھا ہے کہ ان کا ایک دوسرے کے قریب آنا ناممکن ہو گیا ہے۔
اصل میں حکمران طبقات نے پاسپورٹ، ویزا کی سخت پابندیوں میں عوام کو جکڑ کر انھیں ایک دوسرے سے اس طرح الگ کر دیا ہے کہ وہ عوامی یکجہتی کی طرف پیشرفت کرنے کے قابل ہی نہیں رہے ہیں۔ جب تک تنگ نظر اور متعصب حکمران طبقہ برسر اقتدار رہے گا نہ بھارت چین سرحدی تنازعہ حل ہو سکتا ہے نہ مسئلہ کشمیر حل ہو سکتا ہے۔ دونوں ملکوں کے اہل علم، اہل دانش، ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ تنگ نظر حکمران طبقات کے خلاف رائے عامہ کو بیدار کرنے میں کردار ادا کریں تا کہ جنوبی ایشیا کی تنظیم سارک بھی یورپی یونین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس خطے میں بسنے والوں کے درمیان اجنبیت ختم کر کے انھیں ایک دوسرے کے قریب لانے اور معاشی پسماندگی سے نکالنے میں کردار ادا کر سکے۔ یورپی یونین دنیا کے لیے ایک رول ماڈل ہے جس کی اتباع دنیا کو کرنا چاہیے۔