بس اب بہت برداشت کر لیا
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان بھی کئی سو کلو میٹر کی سرحد ہے
BAHRAIN/MATTA:
بالآخر پاکستان کی مغربی سرحدوں پر پاسپورٹ اور ویزے کے بغیرکسی بھی افغان شہری کے داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اب طورخم سمیت آٹھ مختلف مقامات سے پاکستان داخل ہونیوالوں کو پاکستانی سفارتخانے سے ویزہ لینا ہو گا اور اس کے لیے بنیادی شرط پاسپورٹ کی ہے اگر کسی کے پاس پاسپورٹ نہیں تو وہ شاید اب قانونی طریقے سے پاکستان میں داخل نہ ہو سکے۔
اگر کسی نے غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کی تو اسے پاک فوج کی جانب سے گولی کا نشانہ بھی بنایا جا سکتا ہے گویا قیام پاکستان کے69 سال بعداُدھر والوں کو پاکستان کو ایک آزاد اور خود مختار ملک تسلیم کرنا ہی پڑیگا اگرچہ پاکستانی سفارتخانوں پر کام کا بوجھ بڑھ گیا ہے لیکن حالت جنگ میں ایسے ہی اقدامات کسی بھی ملک و قوم کو کامیابی سے سرفراز کرتے ہیں اور یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستانی سفارتکاربھی اس مشکل وقت میں اپنا بھرپور کردار ادا کریھگے جب تک کہ عملے کی تعداد میں اضافہ نہیں ہو جاتا۔پاسپورٹ اور ویزے کی پابندی کے بعد ابھی تک کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا۔افغانستان کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ویزے کی پابندی ایک ماہ تک بڑھا دی جائے لیکن پاکستان کی جانب سے مثبت جواب نہیں دیا گیا اور اب قانونی دستاویزات والے ہی ایک دوسرے ملک آ جا رہے ہیں۔
بین الاقوامی ریاستی معاہدے کے تحت صرف دونوں جانب سرحد کے بیس کلو میٹر کی حدود کے اند رہائش پذیر افراد کو ایک دوسرے ملک آنے جانے کی اجازت ہوتی ہے تاہم ان کے پاس شناخت کا ہونا لازم ہے اور اگر پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے اس ریاستی معاہدے پر نظر دوڑائی جائے تو اب صرف شنواری قبائل راہداری کے ذریعے بغیر پاسپورٹ اور ویزے کے ایک دوسرے ملک آ جا سکیں گے مگر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ کچھ عرصے بعد انھیں بھی پاسپورٹ کی ضرورت پڑیگی۔
اگر آپ کو کبھی افغانستان جانے کا موقع ملے تو یہ اندازہ لگانے میں مہینے، ہفتے ، گھنٹے نہیں لگیں گے بلکہ چند ہی منٹوں میں یہ واضح ہو جائے گا کہ افغانی پاکستان اور پاکستانیوں سے کس قدر نفرت کرتے ہیں،اس کی بہت سی مثالیں جمع ہو گئی ہیں جو اسی حوالے سے اگلے کسی کالم میں آپ کے گوش گذار کرونگا البتہ اس اقدام کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی کہ اب پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر پاکستان کی حدود میں کسی کو داخل نہیں ہونے دیا جائے گا اس کی وضاحت گذشتہ دنوں عسکری ذرائع نے کی جن کے مطابق انھیں ڈیورنڈ لائن کے بہانے مشکلات سے دوچار کرنیوالوں کو اب یہ جان لینا چاہیے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان انٹرنیشنل بارڈر ہے کیونکہ دستاویزات کی چیکنگ ڈیورنڈ لائن کے تیس گز اندر کی جا رہی ہے اسلیے بین الااقوامی برادری کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان بھی کئی سو کلو میٹر کی سرحد ہے لیکن وہاں سے کتنے دہشتگرد ہمارے ملک میں داخل ہوتے ہیں، کتنی اسمگلنگ ہوتی ہے لیکن پاک افغان سرحد پر سب کچھ الٹ ہو رہا ہے دہشتگرد پاکستان سے بھاگ کر افغانستان میں با آسانی پناہ لے لیتے ہیں اور پھر افغانستان کے اندر سے پاکستانی فوج پر حملے کرتے ہیں، ٹرانزٹ ٹریڈ کا سامان پاکستان کسٹم سے کلئیر ہو کر افغانستان جاتا ہے، کاغذی کارروائیاں پوری کی جاتی ہیں مگر کنٹینر سرحد کے اس پار خالی اور سارا سامان اسمگل ہو کر پاکستان پہنچ جاتا ہے ایسے حالات میں وقت کا تقا ضا ہے کہ سرحد کو محفوظ بنایا جائے اور یہ تبھی ممکن ہے جب پاسپورٹ اور ویزہ کی پابندی ہو۔
ساری دنیا میں پاکستان کو اس لحاظ سے بھی منفرد اہمیت حاصل ہے کہ تیس سال سے یہاں افغان مہاجرین آباد ہیں، شروع میں تو انھیں کیمپوں میں رکھا گیا اور پھر وقفے وقفے سے افغان مہاجرین شہروں میں آباد ہوتے چلے گئے اب پاکستان کا شاید ہی کوئی شہر ایسا ہو جہاں افغان مہاجرین آباد نہ ہوں ۔پشاور انیس لاکھ کی آبادی کا شہر ہے مگر تیس لاکھ سے زیادہ افغان یہاں مقیم ہیں اور باقی مالاکنڈ اور قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنیوالے واپس جانے کو تیار نہیں یہی افغان مہاجرین گرمیوں میں سرد موسم کا مزہ لوٹنے افغانستان چلے جاتے ہیں اور سردیاں شروع ہونے سے پہلے واپس آ جاتے ہیں۔
پاسپورٹ کی پابندی کے بعد یہ بھی پتہ چلے گا کہ حقیقت میں مہاجرین کی تعداد کتنی ہے اور جو اپنے ملک واپس جا سکتے ہیں تو انھیں افغان مہاجر بن کو یہاں رہنے کی اور یہاں کے وسائل پر بوجھ بننے کی کیا ضرورت ہے؟اللہ کرے کہ یہ پاسپورٹ اور ویزے کی پابندی بین الاقوامی برادری کی آنکھوں میں نہ چبھے اور ہمارے سیاستدان بھی کسی کے دباؤ میں نہ آئیں جس کے بعد یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ دہشتگردی کا نیٹ ورک مکمل طور پر ختم اور پاکستان اس لعنت سے بڑی حد تک نجات پا لے گا۔
کچھ بات افواج پاکستان کی ہوجائے جو دہشتگردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑ رہی ہے۔اب تک پاکستان آرمی نے ننانوے فیصد قبائلی علاقہ دہشتگردوں سے پاک کر دیا ہے۔ سال2001 سے2016 ء تک دہشتگردوں کے خلاف جنگ میں پاک فوج کے 4 ہزار188 جوانوں اور افسروں نے جام شہادت نوش کیا جب کہ 14 ہزار840 جوان زخمی ہوئے۔عسکری ذرائع کے مطابق قبائلی علاقوں میں کئی ہزار فٹ بلند پہاڑوں پر مستقل فوجی چوکیاں قائم کر دی گئی ہیں۔ اعدادو شمار کے مطابق رواں سال اب تک 8 فوجی جوانوں نے ملک و قوم کی بقاء اور سالمیت کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے جب کہ42 زخمی ہوئے۔آپریشنزکے دوران 292 دہشتگردوں کو ہلاک کیا گیا جب کہ 159 شدت پسند زخمی بھی ہوئے۔
آپریشنز کے دوران طالبان کے زیر استعمال سرنگوں کا پتہ بھی چلایا گیا۔آپریشن ضرب عضب کے دوران مجموعی طور پر 2 ہزار820 شدت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا ،9 سو43 زخمی ہوئے،ایک ہزار237 سے زائد گرفتاریاں پیش کیں جب کہ ایک ہزار95 شدت پسند گرفتار بھی کیے گئے۔ عسکری ذرائع کے مطابق آپریشن ضرب عضب کے دوران ٹاپ لیڈر شپ کو افغانستان فرار ہونے کی وجہ سے نشانہ نہیں بنایا جا سکا۔اگرچہ ننانوے فیصد قبائلی علاقہ دہشتگردوں سے پاک کر دیا گیا ہے تاہم دو مقامات پر پاک افغان سرحد کے قریب راجگال اور الواڑہ کے علاقے پر قبضہ اس لیے کیا گیا تاکہ دہشتگردوں کو افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے ہلاک کیا جا سکے۔
پاکستانی فورسز افغانستان میں موجود دہشتگردوں کو اس لیے نشانہ نہیں بناتیں کہ افغانستان اور اقوام متحدہ پاکستان پر کوئی الزام عائد نہ کر سکے،دوسری طرف پاک آرمی نے چترال سے جنوبی وزیرستان تک ایک ہزار120 کلومیٹر سرحدی علاقے میں 535 چیک پوسٹیں قائم کر دی ہیں اس طرح پاکستانی حدود میں بنائی جانیوالی یہ پوسٹیں لگ بھگ ہر کلو میٹر کے فاصلے پر بنائی گئی ہیں جب کہ افغانستان نے اتنے ہی علاقے میں صرف 145 چیک پوسٹیں بنائی ہیں جو ہر بیس کلو میٹر کے بعد ایک چیک پوسٹ بنتی ہے۔ان چیک پوسٹوں سے بھی غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنیوالوں پر نظر رکھی جا سکے گی جس پر بلاشبہ پاکستانی فوج مبارکباد کی مستحق ہے کہ جو کام 69 سال میں نہ ہوا پاک فوج نے کر دکھایا ۔
بالآخر پاکستان کی مغربی سرحدوں پر پاسپورٹ اور ویزے کے بغیرکسی بھی افغان شہری کے داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اب طورخم سمیت آٹھ مختلف مقامات سے پاکستان داخل ہونیوالوں کو پاکستانی سفارتخانے سے ویزہ لینا ہو گا اور اس کے لیے بنیادی شرط پاسپورٹ کی ہے اگر کسی کے پاس پاسپورٹ نہیں تو وہ شاید اب قانونی طریقے سے پاکستان میں داخل نہ ہو سکے۔
اگر کسی نے غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کی تو اسے پاک فوج کی جانب سے گولی کا نشانہ بھی بنایا جا سکتا ہے گویا قیام پاکستان کے69 سال بعداُدھر والوں کو پاکستان کو ایک آزاد اور خود مختار ملک تسلیم کرنا ہی پڑیگا اگرچہ پاکستانی سفارتخانوں پر کام کا بوجھ بڑھ گیا ہے لیکن حالت جنگ میں ایسے ہی اقدامات کسی بھی ملک و قوم کو کامیابی سے سرفراز کرتے ہیں اور یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستانی سفارتکاربھی اس مشکل وقت میں اپنا بھرپور کردار ادا کریھگے جب تک کہ عملے کی تعداد میں اضافہ نہیں ہو جاتا۔پاسپورٹ اور ویزے کی پابندی کے بعد ابھی تک کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا۔افغانستان کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ویزے کی پابندی ایک ماہ تک بڑھا دی جائے لیکن پاکستان کی جانب سے مثبت جواب نہیں دیا گیا اور اب قانونی دستاویزات والے ہی ایک دوسرے ملک آ جا رہے ہیں۔
بین الاقوامی ریاستی معاہدے کے تحت صرف دونوں جانب سرحد کے بیس کلو میٹر کی حدود کے اند رہائش پذیر افراد کو ایک دوسرے ملک آنے جانے کی اجازت ہوتی ہے تاہم ان کے پاس شناخت کا ہونا لازم ہے اور اگر پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے اس ریاستی معاہدے پر نظر دوڑائی جائے تو اب صرف شنواری قبائل راہداری کے ذریعے بغیر پاسپورٹ اور ویزے کے ایک دوسرے ملک آ جا سکیں گے مگر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ کچھ عرصے بعد انھیں بھی پاسپورٹ کی ضرورت پڑیگی۔
اگر آپ کو کبھی افغانستان جانے کا موقع ملے تو یہ اندازہ لگانے میں مہینے، ہفتے ، گھنٹے نہیں لگیں گے بلکہ چند ہی منٹوں میں یہ واضح ہو جائے گا کہ افغانی پاکستان اور پاکستانیوں سے کس قدر نفرت کرتے ہیں،اس کی بہت سی مثالیں جمع ہو گئی ہیں جو اسی حوالے سے اگلے کسی کالم میں آپ کے گوش گذار کرونگا البتہ اس اقدام کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی کہ اب پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر پاکستان کی حدود میں کسی کو داخل نہیں ہونے دیا جائے گا اس کی وضاحت گذشتہ دنوں عسکری ذرائع نے کی جن کے مطابق انھیں ڈیورنڈ لائن کے بہانے مشکلات سے دوچار کرنیوالوں کو اب یہ جان لینا چاہیے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان انٹرنیشنل بارڈر ہے کیونکہ دستاویزات کی چیکنگ ڈیورنڈ لائن کے تیس گز اندر کی جا رہی ہے اسلیے بین الااقوامی برادری کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان بھی کئی سو کلو میٹر کی سرحد ہے لیکن وہاں سے کتنے دہشتگرد ہمارے ملک میں داخل ہوتے ہیں، کتنی اسمگلنگ ہوتی ہے لیکن پاک افغان سرحد پر سب کچھ الٹ ہو رہا ہے دہشتگرد پاکستان سے بھاگ کر افغانستان میں با آسانی پناہ لے لیتے ہیں اور پھر افغانستان کے اندر سے پاکستانی فوج پر حملے کرتے ہیں، ٹرانزٹ ٹریڈ کا سامان پاکستان کسٹم سے کلئیر ہو کر افغانستان جاتا ہے، کاغذی کارروائیاں پوری کی جاتی ہیں مگر کنٹینر سرحد کے اس پار خالی اور سارا سامان اسمگل ہو کر پاکستان پہنچ جاتا ہے ایسے حالات میں وقت کا تقا ضا ہے کہ سرحد کو محفوظ بنایا جائے اور یہ تبھی ممکن ہے جب پاسپورٹ اور ویزہ کی پابندی ہو۔
ساری دنیا میں پاکستان کو اس لحاظ سے بھی منفرد اہمیت حاصل ہے کہ تیس سال سے یہاں افغان مہاجرین آباد ہیں، شروع میں تو انھیں کیمپوں میں رکھا گیا اور پھر وقفے وقفے سے افغان مہاجرین شہروں میں آباد ہوتے چلے گئے اب پاکستان کا شاید ہی کوئی شہر ایسا ہو جہاں افغان مہاجرین آباد نہ ہوں ۔پشاور انیس لاکھ کی آبادی کا شہر ہے مگر تیس لاکھ سے زیادہ افغان یہاں مقیم ہیں اور باقی مالاکنڈ اور قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنیوالے واپس جانے کو تیار نہیں یہی افغان مہاجرین گرمیوں میں سرد موسم کا مزہ لوٹنے افغانستان چلے جاتے ہیں اور سردیاں شروع ہونے سے پہلے واپس آ جاتے ہیں۔
پاسپورٹ کی پابندی کے بعد یہ بھی پتہ چلے گا کہ حقیقت میں مہاجرین کی تعداد کتنی ہے اور جو اپنے ملک واپس جا سکتے ہیں تو انھیں افغان مہاجر بن کو یہاں رہنے کی اور یہاں کے وسائل پر بوجھ بننے کی کیا ضرورت ہے؟اللہ کرے کہ یہ پاسپورٹ اور ویزے کی پابندی بین الاقوامی برادری کی آنکھوں میں نہ چبھے اور ہمارے سیاستدان بھی کسی کے دباؤ میں نہ آئیں جس کے بعد یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ دہشتگردی کا نیٹ ورک مکمل طور پر ختم اور پاکستان اس لعنت سے بڑی حد تک نجات پا لے گا۔
کچھ بات افواج پاکستان کی ہوجائے جو دہشتگردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑ رہی ہے۔اب تک پاکستان آرمی نے ننانوے فیصد قبائلی علاقہ دہشتگردوں سے پاک کر دیا ہے۔ سال2001 سے2016 ء تک دہشتگردوں کے خلاف جنگ میں پاک فوج کے 4 ہزار188 جوانوں اور افسروں نے جام شہادت نوش کیا جب کہ 14 ہزار840 جوان زخمی ہوئے۔عسکری ذرائع کے مطابق قبائلی علاقوں میں کئی ہزار فٹ بلند پہاڑوں پر مستقل فوجی چوکیاں قائم کر دی گئی ہیں۔ اعدادو شمار کے مطابق رواں سال اب تک 8 فوجی جوانوں نے ملک و قوم کی بقاء اور سالمیت کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے جب کہ42 زخمی ہوئے۔آپریشنزکے دوران 292 دہشتگردوں کو ہلاک کیا گیا جب کہ 159 شدت پسند زخمی بھی ہوئے۔
آپریشنز کے دوران طالبان کے زیر استعمال سرنگوں کا پتہ بھی چلایا گیا۔آپریشن ضرب عضب کے دوران مجموعی طور پر 2 ہزار820 شدت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا ،9 سو43 زخمی ہوئے،ایک ہزار237 سے زائد گرفتاریاں پیش کیں جب کہ ایک ہزار95 شدت پسند گرفتار بھی کیے گئے۔ عسکری ذرائع کے مطابق آپریشن ضرب عضب کے دوران ٹاپ لیڈر شپ کو افغانستان فرار ہونے کی وجہ سے نشانہ نہیں بنایا جا سکا۔اگرچہ ننانوے فیصد قبائلی علاقہ دہشتگردوں سے پاک کر دیا گیا ہے تاہم دو مقامات پر پاک افغان سرحد کے قریب راجگال اور الواڑہ کے علاقے پر قبضہ اس لیے کیا گیا تاکہ دہشتگردوں کو افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے ہلاک کیا جا سکے۔
پاکستانی فورسز افغانستان میں موجود دہشتگردوں کو اس لیے نشانہ نہیں بناتیں کہ افغانستان اور اقوام متحدہ پاکستان پر کوئی الزام عائد نہ کر سکے،دوسری طرف پاک آرمی نے چترال سے جنوبی وزیرستان تک ایک ہزار120 کلومیٹر سرحدی علاقے میں 535 چیک پوسٹیں قائم کر دی ہیں اس طرح پاکستانی حدود میں بنائی جانیوالی یہ پوسٹیں لگ بھگ ہر کلو میٹر کے فاصلے پر بنائی گئی ہیں جب کہ افغانستان نے اتنے ہی علاقے میں صرف 145 چیک پوسٹیں بنائی ہیں جو ہر بیس کلو میٹر کے بعد ایک چیک پوسٹ بنتی ہے۔ان چیک پوسٹوں سے بھی غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنیوالوں پر نظر رکھی جا سکے گی جس پر بلاشبہ پاکستانی فوج مبارکباد کی مستحق ہے کہ جو کام 69 سال میں نہ ہوا پاک فوج نے کر دکھایا ۔