عوامی طوفان

وہ بھائی پہلے سے شادی شدہ اور ایک بچے کا باپ ہے۔ ذرا سوچیے ایک اسکول ماسٹر اور ایسا گھناؤنا کردار

CHITRAL/HARIPUR:
پہلے پتا نہیں چلتا تھا، اب میڈیا اور وہ بھی اتنا تیز میڈیا! چھوٹے سے چھوٹے گاؤں کی خبر بھی ''بریکنگ نیوز'' بن کر سامنے آجاتی ہے۔ ایک بری خبر کے اثرات ختم نہیں ہوپاتے کہ دوسری بری خبر آجاتی ہے، مری میں 19 سالہ لڑکی کو ایک اسکول ماسٹر نے تیزاب ڈال کر اور پھر مارپیٹ کر پھینک دیا، محض اس بات پر کہ اس لڑکی نے اسکول ماسٹر کے بھائی سے شادی پر انکار کردیا تھا۔

وہ بھائی پہلے سے شادی شدہ اور ایک بچے کا باپ ہے۔ ذرا سوچیے ایک اسکول ماسٹر اور ایسا گھناؤنا کردار۔ ایک اور خبر کہ ایک میڈیکل کالج کا طالبعلم رات میں ہوسٹل کی چھت پر موبائل فون سنتے ہوئے نیچے گرگیا اور مرگیا۔ ادھر کراچی میں چار سالہ عبداﷲ شہر کراچی کیا پورے ملک کو رلا رہا ہے۔ اس بچے کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ننھے عبداﷲ کی کہانی پچھلے چار دن سے جاری ہے اور ہر روز کہانی میں نیا موڑ آجاتا ہے ادھر پورے ملک میں نرسیں سڑکوں پر دھرنا دیے ہوئے ہیں، لاہور، اسلام آباد، پشاور، ملتان اور کوئٹہ میں پھر سے ڈاکٹر حضرات سڑکوں پر آگئے ہیں۔ غریب ہی سرکاری اسپتالوں میں علاج کے لیے جاتے ہیں اب ان کا کیا بنے گا سب جانتے ہیں مگر جاننا نہیں چاہتے۔

المعروف ''جوتے والا وڈیرہ'' نوشہرو فیروز کا جس کی پجیرو گاڑی سے گدھا گاڑی ٹکراگئی تھی۔ اس کا کیا بنا۔ وہ کہاں اور کس حال میں ہے۔ جب یہ واقعہ سامنے آیا تھا، تب خیرپور کے سائیں وڈیرے قائم علی شاہ نے ''جوتا وڈیرے'' کو فوری گرفتار کروا کے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا۔ اگلے روز سائیں نے عوامی غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے وڈیرے کے خلاف ایف آئی آر کٹوا کر مقدمہ درج کروادیا۔ اب کیس عدالت میں چلتا رہے گا اللہ اللہ خیر صلا۔یہ سارے واقعات ہوتے ہی رہتے ہیں۔

تیزاب گردی، کتے چھوڑ دیے، ہاتھ کاٹ دیے، بھٹے میں میاں بیوی کو پھینک دیا، وغیرہ وغیرہ کہ اچانک پانامہ لیکس آف شور کمپنیز کا شور شرابہ شروع ہوگیا۔ ہم تو اپنے مقامی ظالموں کے خلاف صف بندی کے بارے میں سوچ بچار کر رہے تھے کہ ایک زبردست بھونچال بنام پانامہ آگیا۔ ضرب عضب خاصا بلکہ بہت زیادہ کام کرچکا، خصوصاً شہ رگ پاکستان کراچی میں دہشت گرد، قاتل، لٹیرے، بھتہ خوروں کا صفایا ہوگیا، مگر ہم پاکستان کے مظلوم اپنی صف بندی کے بارے میں سوچ بچار کر رہے تھے۔ ہم اپنوں کو جمع کر رہے تھے اور ہر ملنے جلنے والے خواہ اس کا تعلق لکھنے پڑھنے سے ہو، سرکاری نیم سرکاری اداروں سے ہو، چھوٹا تاجر، دکاندار ہو، ہم ہر ایک سے ایک ہی سوال کر رہے تھے۔

ایک ظلم کرتا ہے، ایک ظلم سہتا ہے

آپ کا تعلق ہے کون سے گھرانے سے؟

یہ فیصل آباد کے شاعر نصرت صدیقی کا شعر ہے اور اس ایک شعر نے ہی نصرت صدیقی کا نام دور دور تک پہنچادیا ہے۔ خیر پانامہ لیکس آیا، سب سے پہلا نام ہمارے وزیراعظم کا اچھل کر باہر آیا، خود نواز شریف نے تو کچھ نہیں کیا مگر ان کے بچوں کے نام تھے۔ باپ تو آخر باپ ہوتا ہے، کیا غلط کیا صحیح۔ یہ فیصلہ تو ہوتا رہے گا مگر باپ اپنے بچوں کے لیے پریشان ہوگیا باپ کا پریشان ہونا فطری تھا، ڈاکٹروں نے ''بائی پاس'' کا کہہ رکھا تھا، نواز شریف نے ''بائی پاس'' کو 2018 تک اٹھائے رکھنے کو کہا۔ یقینا 2018 کے حوالے سے وزیراعظم کے سامنے آنیوالے الیکشن تھے انھوں نے سوچا ہوگا کہ 2018 کے عام انتخابات جیت کر ''بائی پاس'' کروا لیں گے مگر ''پانامہ'' نے مہلت نہ دی اور وزیراعظم اپنے معالج کے پاس لندن چلے گئے۔

پاکستان میں آج بھی ایسا اسپتال ایسے معالج نہیں ہیں کہ جہاں ہمارے سیاستدانوں کا علاج معالجہ ہوسکے، وہ ماحول، وہ استرے، قینچیاں، وہ صفائی ستھرائی، وہ سب ''یہاں'' کہاں۔ ہمارے ملک کے سرکاری اسپتالوں میں غریب لوگ تو مرنے کے لیے داخل ہوتے ہیں اور زندگی کے آخری چند دن بغیر دوا دارو کاٹ کے مرجاتے ہیں۔ وزیراعظم کا ''بائی پاس'' بہت بڑا تھا، ایک نہیں چار بائی پاس ہوئے پانچ گھنٹے آپریشن تھیٹر میں گزرے، کس طرح ٹانگوں سے نسیں نکال کر دل کی شریانوں سے جوڑی گئیں، وزیراعظم نے دو دن انتہائی نگہداشت والے کمرے میں گزارے، اب وہ اپنے کمرے میں آگئے ہیں، ہلکی غذا اور چہل قدمی کے مراحل بھی طے ہوگئے ہیں، وزیراعظم نے اپنی والدہ سے بات بھی کی ہے۔

گھر والوں سے بھی ملاقات ہو چکی۔ بس اب وہ معمول کا وقت گزار رہے ہیں اور سنا ہے کہ مزید پندرہ بیس روز کے بعد اپنے ملک واپس آجائینگے جہاں آنسو ہیں، آہیں ہیں، چیخیں ہیں، '' قدم قدم پر ہیں غم کے مارے'' اور ''یہ غم کا طوفان نگر نگر ہے'' جہاں مسلسل ''رات کا سفر ہے'' اور رات کے مسافر صبح نو کے یقین کو رہبر و رہنما بنائے اپنے ساتھیوں سے کہہ رہے ہیں کہ ''بجھے نہ دل، رات کا سفر ہے'' اور وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں، انھیں یقین ہے کہ ایک دن، بالآخر ایک دن

ہنسیں گی سہمی ہوئی نگاہیں


چمک اٹھیں گی وفا کی راہیں

ہزار ظالم سہی اندھیرا

سحر بھی لیکن قریب تر ہے

یہ مصرعے سہمے ہوئے عوام کے شاعر حبیب جالب کے ہیں۔ وہ جالب جو شعر کہتا تھا اور پھر ہزاروں لاکھوں کے مجمع میں پڑھتا بھی تھا، اور پھر جیل بھی جاتا تھا۔ بہرحال وزیراعظم صحت و تندرستی کے ساتھ واپسی اپنے بھوکے ننگے ملک آجائیں گے، جہاں مسائل ہیں، یہی مسائل ہیں جنھوں نے عوام کو ''سائل'' بنادیا ہے۔ 70 سال سے عوام سائل بنے ہوئے ہیں اور حاکم مزے لے رہے ہیں۔ اربوں کھربوں کی جاگیروں پر قابضوڈیرے اور جاگیردار بہت جلد اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں، صدیوں سے مسائل میں گھرے ہوئے عوام اب اٹھنے ہی والے ہیں اور پھر بپھرے ہوئے عوامی سمندر کے سامنے جو بھی ''نقش کہن'' آیا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹ جائے گا۔ علامہ اقبال بہت کچھ اور بھی کہنا چاہتے تھے بس میں اتنا ہی کہوں گا اور اب حضرت علامہ کے اشعار سن لیجیے:

اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو

کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی

اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ

جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو

یہ جو آندھیاں، طوفانی بارشیں ہو رہی ہیں ان سے کئی گنا زیادہ شدت کے ساتھ ''عوامی طوفان '' اٹھنے کو ہے، پھر سب محل، منارے زمین بوس ہوجائیں گے، وقت دیکھ رہا ہے یہ ہونے ہی والا ہے۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کے لیے دس فیصد اضافہ اور پارلیمنٹیرینز کے لیے کئی گنا اضافے، سب کا حساب ہوگا۔ یوم حساب آگیا ہے۔ عوام اپنا حق ابھی اور اسی وقت لیں گے۔
Load Next Story