تین سیاسی جماعتوں کا انضمام

۔قیام پاکستان کے بعد بائیں بازو کو اسٹبلشمنٹ کی چیرہ دستیوں کا سامنا کرنا پڑا۔لیکن بائیں بازو نے اپنا وجود برقرار رکھا

muqtidakhan@hotmail.com

دنوں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی تین جماعتوں ورکرز پارٹی پاکستان، لیبر پارٹی پاکستان اور عوامی جمہوری پارٹی نے باہم ضم ہوکر پاکستان میں ترقی پسند، روشن خیال اور سیکولر سیاست کے لیے گنجائش (Space) پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔

لہٰذا نئی جماعت عوامی ورکرز پارٹی پاکستان کے محنت کش، متوسط اور نچلے متوسط طبقات کے لیے امید کی ایک کرن ہے ۔ اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو بائیں بازو کو متحد اورمنظم کرنے کے جس عمل کا آغاز تین دہائی قبل کامریڈ انیس ہاشمی مرحوم نے کیا تھا،ان کے رفقاء اسے تسلسل کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

تین برس قبل، جب کچھ جماعتوں کے انضمام کے نتیجے میں ورکرز پارٹی پاکستان وجود میں آئی تھی، تو اس وقت بھی اس خواہش کا اظہار کیا گیا تھا کہ اس عمل میں لیبر پارٹی سمیت بائیں بازو کی دیگرجماعتوں کو بھی شامل ہونا چاہیے،تاکہ قومی سیاسی منظرنامے میں ایک فعال اور متحرک متبادل سیاسی قوت سامنے آسکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں محنت کش، متوسط اور نچلے متوسط طبقات کے مسائل کی صحیح معنی میں ترجمانی کرنے والی کوئی ملک گیر سیاسی جماعت موجود نہیںہے۔

پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوںسے بالعموم اور9/11 کے بعد بالخصوص ایک ایسی سیاسی جماعت کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے، جو ترقی پسندانہ رجحانات کی حامل ضرور ہو،لیکن بائیں بازو کی روایتی قدامت پسندی پر اصرار نہ کرتی ہو۔ ایک ایسی جماعت جو فکری کثرتیت، سیکیولرطرز حیات اور جمہوری اقدار پر یقین رکھتی ہو۔ محنت کشوں کے ساتھ معاشرے کے دیگر طبقات کو بھی ساتھ لے کر چلنے پرآمادہ ہو۔

گلوبلائزیشن اور فری مارکیٹ اکنامی کے غریب ممالک پر اثرات کے بارے میں صرف آگہی ہی نہیں بلکہ عوام دوست معاشی پالیسیاں تشکیل دینے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو ۔جس کی خطے کی تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال پر گہری نظر ہو اور اس حوالے سے خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں لانے اور اس پرعمل درآمدکی اہلیت رکھتی ہو۔جو اس بات میں واضح ہو کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری پاکستان کودرپیش بیشتر مسائل کو کم کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔

پاکستان کی تاریخ پر نظرڈالی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس ملک میں بائیں بازو کے لیے حالات کبھی سازگار نہیں رہے ۔قیام پاکستان کے فوراً بعد بائیں بازو کو اسٹبلشمنٹ کی چیرہ دستیوں کا سامنا کرنا پڑا۔لیکن پہلے پچیس برس کے دوران بائیں بازو نے جیسے تیسے اپنے وجود کو برقرار رکھا ماور مختلف سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے ترقی پسندانہ سوچ کو آگے بڑھانے کی کوشش جاری رکھی۔لیکن سقوط ڈھاکہ کے بعد بائیں بازو کی سیاست تیزی کے ساتھ اضمحلال کا شکار ہونا شروع ہوگئی،جس کے کئی اسباب تھے۔

اول، مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کی وجہ سے پاکستان کی سیاست میں مڈل کلاس کا کردار کمزور ہوا،جس کے براہ راست اثرات بائیں بازو کی سیاست پر پڑے۔دوئم، نیشنل عوامی پارٹی نے سقوط ڈھاکہ کے بعد قوم پرست سیاست کو اپنا محور بنایا، جس کی وجہ سے محمود الحق عثمانی سمیت بڑی تعداد میں ترقی پسندکارکن اس جماعت سے علیحدہ ہونے پر مجبورہوئے۔ سوئم، نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی اور بلوچستان آپریشن نے بھی ترقی پسند قوتوں کو کمزور اور منتشرکرنے میں اہم کردار ادا کیا۔


چہارم،ٹریڈ یونین اور طلبہ سیاست پر مختلف ادوار میں مختلف نوعیت کی پابندیوں نے نئے کیڈر کے سیاست میں آنے کا راستہ روک کر بائیں بازوکو نقصان پہنچایا۔پنجم، جنرل ضیاء کی فوجی آمریت نے ترقی پسند عناصر کے خلاف تاریخ کی بدترین کارروائی کرکے بائیں بازو کو تتر بتر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ان تمام عوامل نے بائیں بازو کو پاکستان کی سیاست سے عملاً نکال باہر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

لیکن قصورصرف بیرونی عوامل کا نہیںہے ،بلکہ بائیں بازو کی اپنی کمزوریوںاورکوتاہیوں نے بھی اسے قومی سیاست میں غیر فعال بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ غیر جانبداری کے ساتھ مطالعہ کیا جائے توبایاں بازو گزشتہ کئی دہائیوں سے فکری انتشار، معروضیت سے عاری سیاسی رویوںاورغیرمنطقی دھڑے بندیوں کی وجہ سے قومی سیاست میں اپنی افادیت کھو بیٹھا ہے۔ حالانکہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ایسے کئی مواقعے آئے، جب بایاں بازو ایک نئے انداز میں عوام کو منظم کرسکتا تھا۔

مگر ان تمام مواقعے کو گنوا دیا گیا، جس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔اول، سرد جنگ کے خاتمے کے بعد عالمی منظرنامے میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں ،ان کو سمجھتے ہوئے اپنی سیاسی فکر، حکمت عملیوں اور طریقہ کار پر نظر ثانی کی ضرورت تھی۔تاکہ ایسی پالیسیاں تشکیل دی جاسکیں، جوتبدیل ہوتی عالمی صورتحال کا سامنا کرسکیں۔مگربائیں بازو نے اپنے بے لچک روئیوں کے سبب یہ موقع ضایع کردیا ۔ اسی طرح 9/11 کے بعدبائیںبازوکو ایک بارپھرمنظم ہونے اور عوام کو امریکی سامراج کے خلاف مجتمع کرنے کا موقع ہاتھ آیا تھا۔ لیکن فکری انتشاراور معروضیت سے عاری سوچ کی وجہ سے یہ موقع بھی ہاتھ سے نکل گیا۔

بائیں بازو کی ناکامی کا ایک دوسرا سبب یہ ہے کہ اس نے جمہوریت کے حوالے سے کبھی اپنی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش نہیںکی۔مذہبی جماعتوں کی طرح بائیں بازو کے دانشور اور سیاسی رہنما اٹھتے بیٹھتے جمہوریت کو مغربی سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار قراردیتے ہیں۔اگر ایک طرف مذہبی جماعتیںخلافت کا نظام قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کرتی ہیں تو دوسری طرف بائیں بازو کی جماعتیں پرولتاری ڈکٹیٹرشپ قائم کرنے کا دعویٰ کرتی نظر آتی ہیں ۔لہٰذا عوام کی اکثریت جو لبرل ہے اور انتخابی عمل کے ذریعہ سیاسی عمل کا حصہ بننا چاہتی ہے ، مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ بائیں بازوکو بھی جمہوریت مخالف سمجھنے پر مجبور ہے۔لیکن بائیں بازو کی سیاسی قیادت اور دانشوروں نے اپنے خلاف پائے جانے والے اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے عملاًکوئی اقدام نہیں کیا۔

ملک میں ایک ایسی سیاسی جماعت کی گنجائش موجود ہے، جو گلوبلائزیشن اور فری مارکیٹ اکنامی کے اس دورمیں ایسی متبادل معاشی پالیسیاں ترتیب دے سکے،جن کا براہ راست فائدہ محنت کش ،متوسط اور نچلے متوسط طبقات کو پہنچ سکے۔ جو زرعی اصلاحات کے بارے میں واضح ہو اور اسے سائنسی انداز میں اس طرح حل کرسکے کہ اس کے زراعت اور زرعی شعبہ پر منفی اثرات مرتب نہ ہوسکیں۔لبرل اور سیکیولرسماجی ڈھانچے کی تشکیل کو یقینی بنانے کے لیے معاشرے کے تمام شراکت داروں کو ساتھ لے کرچلنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔

خارجہ پالیسی میں کلیدی تبدیلیاں کرتے ہوئے خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کی راہ ہموار کرسکے۔افغانستان کے بارے میں حقیقت پسندانہ(Rational)پالیسی تیار کرکے اس پر عمل درآمد کرسکے۔کیونکہ افغانستان سے امریکا کا نکل جانا اس وقت اہم ایشو نہیں ہے بلکہ ایساف اور نیٹو افواج کے نکلنے کے بعد افغانستان میں پیدا ہونے والے ممکنہ بحران میں پاکستان کاکردار زیادہ اہم ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کا اولین مسئلہ سوشلزم نہیں بلکہ سیکولرازم کی بنیاد پر شراکتی جمہوریت کا فروغ ہے۔یعنی فکری کثرتیت کو یقینی بنانا ہے۔دوسرا مسئلہ بھارت سمیت جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری ہے۔تیسرے محنت کش، متوسط اور نچلے متوسط طبقات کے ساتھ اقلیتوں کے مساوی حقوق کوضمانت فراہم کرناہے۔چوتھا توجہ طلب مسئلہ زرعی اصلاحات ہیں۔

اس لیے اگر نئی قائم ہونے والی جماعت عوامی ورکرزپارٹی درج بالا توقعات پر پورا اترنے کی خاطر اپنے کینوس کو وسیع کرنے پر آمادہ ہوتی ہے، تو یہ کہاجا سکتا ہے کہ وہ ایک متبادل سیاسی قوت کے طور پر ابھرکر سامنے آسکتی ہے۔ بہرحال عوامی ورکرز پارٹی کی تشکیل نے ٹھہرے ہوئے پانی میں ارتعاش پیداکیا ہے اور بائیں بازوکی سیاست کو ایک بار پھر زندہ ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔
Load Next Story