کراچی خوف کی علامت
کراچی میں امن کا قیام گویا پورے ملک کے امن کے مترادف ہے، کراچی بے سکون ہو پورا ملک تشویش میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
تقریباً ڈیڑھ کروڑ کی آبادی پر مشتمل عروس البلاد اور روشنیوں کا شہر کہلانے والا کراچی ایک عرصے سے آگ و خون میں ڈوبا ہوا ہے۔
درندگی، بربریت، وحشت اور خوف و ہراس نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، اغواء کار، بھتہ خور، ٹارگٹ کلر اور جرائم پیشہ افراد شہر کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک دندناتے پھر رہے ہیں، معصوم و بے گناہ لوگوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں اور کوئی انھیں روکنے والا نہیں ہے، شہر کے مختلف علاقوں میں فائرنگ اور پُر تشدد واقعات میں روزانہ 10/12 افراد کی ہلاکت معمول بنتی جا رہی ہے، سیاسی، لسانی، گروہی، نسلی اور مذہبی و فرقہ وارانہ تقسیم کے باعث کشیدگی عروج پر ہے اور یہاں امن کا قیام جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
ہر چند کہ کراچی کے حساس علاقوں میں پولیس و رینجرز کی بھاری نفری تعینات ہے، چوکیاں بھی قائم ہیں اور اسنیپ چیکنگ و پٹرولنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے اس کے باوجود خونی وارداتوں کا ارتکاب کرنے والے بلا خوف و خطر اپنے ٹارگٹ کو نشانہ بنا کر غائب ہو جاتے ہیں، قانون کے محافظوں کے لیے قاتلوں دہشت گردوں کی گرفتاری یقیناً ایک بڑا چیلنج ہے۔
کراچی منی پاکستان کہلاتا ہے کیونکہ یہاں ملک کے چاروں صوبوں کے لوگ روزگار کی تلاش میں آتے ہیں اور پھر یہیں آباد ہو جاتے ہیں اس لیے کراچی میں امن کا قیام گویا پورے ملک کے امن کے مترادف ہے، کراچی بے سکون ہو پورا ملک تشویش میں مبتلا ہو جاتا ہے یہاں پھیلنے والی بد امنی بعض اوقات سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے یہی وجہ ہے کہ صدر سے لے کر وزیراعظم تک گورنر سے لے کر وزرائے اعلیٰ تک اور تمام خفیہ ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کراچی میں امن کے قیام پر خصوصی توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے کراچی کے مخدوش حالات کے پیشِ نظر از خود نوٹس لیا اور احکامات بھی جاری کیے لیکن دہشت گرد سب پر حاوی ہیں، صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک بھی حالات کی سنگینی اور نزاکت سے پوری طرح آگاہ ہیں، صدر زرداری نے مختلف مواقعوں پر اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کراچی میں امن کے قیام کے لیے سخت ہدایات جاری کیں، اس حوالے سے چند روز پیشتر انھوں نے آئی جی سندھ سے باز پرس بھی کی اور انھیں شہری امن قائم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھانے کی سخت ہدایت بھی کی۔
وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے اعلیٰ سطح پر مشاورت کے بعد یکم محرم الحرام کو کراچی و کوئٹہ میں دہشت گردی ہونے کی خفیہ اطلاعات کے بعد صرف ایک دن کے لیے صبح 6 بجے سے شام 6 بجے تک موٹر سائیکل چلانے اور موبائل فون سروس پر پابندی عائد کر دی تھی، کیونکہ ان کے بقول دہشت گردی کی زیادہ تر وارداتوں میں موٹرسائیکل استعمال ہوتی ہے۔ تاہم سندھ ہائی کورٹ نے اس پابندی کو معطل کر دیا، لیکن ایک دن بعد ہی کراچی کے علاقے عباس ٹاؤن میں امام بارگاہ کے قریب موٹر سائیکل پر نصب بم دھماکے نے وزیر داخلہ کی بات کو سچ ثابت کر دیا۔ رحمٰن ملک صاحب نے ایوان بالا میں خطاب کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ موبائل فونز اور موٹر سائیکل پر پابندی لگانے سے دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی۔
محرم الحرام کے پہلے عشرے کے دوران ملک کے حساس شہروں کراچی، کوئٹہ، پشاور اور جھنگ وغیرہ میں گزشتہ کئی سالوں سے دہشت گردی، بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں سیکڑوں لوگ لقمۂ اجل بن چکے ہیں ان دنوں پورا ملک شیعہ سنی کشیدگی کے باعث فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں رہتا ہے۔ کسی غیر معمولی سانحے سے بچنے کے لیے سخت حفاظتی اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں تا کہ نہ صرف عام لوگوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے بلکہ امام عالی مقام کے عقیدت مندوں کی مجالس عزا اور تعزیتی جلوسوں کو امکانی حادثے سے بچایا جا سکے، کراچی اور کوئٹہ تو ملک کے دو ایسے بدقسمت شہر ہیں جہاں سال کے 12 مہینے کربلا کا موسم رہتا ہے یہاں ہر روز شامِ غریباں برپا ہوتی ہے، گلی گلی جنازے اُٹھتے ہیں اور گھروں میں ماتم ہوتا ہے بالخصوص کراچی تو لگتا ہے کسی مقتل گاہ میں تبدیل ہو گیا ہے۔
جہاں صبح و شام لاشے اٹھائے جاتے ہیں، اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر 2011 سے 10؍ نومبر 2012 تک کے عرصے میں کراچی میں 2250 افراد دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ بھتہ خوری اور اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ کراچی پاکستان کا معاشی حب کہلاتا ہے، یہ حکومت کو سب سے زیادہ ریونیو دینے والا صنعتی و تجارتی شہر ہے۔ لیکن آج اس شہر غریباں کے تاجر و صنعتکار بھی بھتہ خوروں اور اغواء کار مافیا کا نشانے پر ہیں۔
ان پر بھی دہشت گردوں کا خوف و ہراس مسلط ہو گیا ہے تاجر برادری اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور ہو گئی ہے بہت سے تاجر اور صنعتکار اپنا سرمایہ ملک کے محفوظ علاقوں میں منتقل کر رہے ہیں یا بیرون ملک ہجرت کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ نتیجتاً شہر کی معاشی سرگرمیاں ماند پڑتی جا رہی ہیں اور لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں اور معاشرتی جرائم کے گروہ کا حصہ بن کر وارداتیں کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
کراچی میں غیر قانونی اسلحے کی بھی بھرمار ہے جس کا قانون شکن عناصر آزادانہ استعمال کر رہے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق کراچی میں چار ہزار کے قریب طالبان بھی موجود ہیں جو بلا خوف و خطر جرم کی سنگین وارداتوں میں ملوث ہیں اور اپنے مخصوص ایجنڈے کراچی کے باسیوں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں، آج ہزاروں طالبان نے کراچی کے مختلف علاقوں میں اپنے ٹھکانے بنا لیے ہیں جو کراچی کے امن کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے ایم کیو ایم کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران یقین دہانی کرائی ہے کہ کراچی کے حالات چند روز میں بہتر ہو جائیں گے۔ حکومت یہاں قیام امن کے لیے اقدامات اٹھا رہی ہے۔
بعض ذرایع کے مطابق الیکشن سے قبل کراچی میں سات مراحل پر مشتمل ایک بڑے آپریشن کی تیاری کی جا رہی ہے جس میں فوج کو ہائی الرٹ رکھا جائے گا اور رینجرز کو زیادہ با اختیار بنایا جائے گا اس ممکنہ آپریشن کی نگرانی وزیر اعلیٰ سندھ خود کریں گے۔ امید کی جانی چاہیے کہ حکومت کے آیندہ اقدامات سے کراچی میں امن کے قیام میں مدد ملے گی اور لوگ سکون کا سانس لے سکیں گے۔ کراچی خوف کی علامت بنتا جا رہا ہے اسے امن کا گہوارہ بنانے کے لیے طویل المدت اور ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔
درندگی، بربریت، وحشت اور خوف و ہراس نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، اغواء کار، بھتہ خور، ٹارگٹ کلر اور جرائم پیشہ افراد شہر کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک دندناتے پھر رہے ہیں، معصوم و بے گناہ لوگوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں اور کوئی انھیں روکنے والا نہیں ہے، شہر کے مختلف علاقوں میں فائرنگ اور پُر تشدد واقعات میں روزانہ 10/12 افراد کی ہلاکت معمول بنتی جا رہی ہے، سیاسی، لسانی، گروہی، نسلی اور مذہبی و فرقہ وارانہ تقسیم کے باعث کشیدگی عروج پر ہے اور یہاں امن کا قیام جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
ہر چند کہ کراچی کے حساس علاقوں میں پولیس و رینجرز کی بھاری نفری تعینات ہے، چوکیاں بھی قائم ہیں اور اسنیپ چیکنگ و پٹرولنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے اس کے باوجود خونی وارداتوں کا ارتکاب کرنے والے بلا خوف و خطر اپنے ٹارگٹ کو نشانہ بنا کر غائب ہو جاتے ہیں، قانون کے محافظوں کے لیے قاتلوں دہشت گردوں کی گرفتاری یقیناً ایک بڑا چیلنج ہے۔
کراچی منی پاکستان کہلاتا ہے کیونکہ یہاں ملک کے چاروں صوبوں کے لوگ روزگار کی تلاش میں آتے ہیں اور پھر یہیں آباد ہو جاتے ہیں اس لیے کراچی میں امن کا قیام گویا پورے ملک کے امن کے مترادف ہے، کراچی بے سکون ہو پورا ملک تشویش میں مبتلا ہو جاتا ہے یہاں پھیلنے والی بد امنی بعض اوقات سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے یہی وجہ ہے کہ صدر سے لے کر وزیراعظم تک گورنر سے لے کر وزرائے اعلیٰ تک اور تمام خفیہ ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کراچی میں امن کے قیام پر خصوصی توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے کراچی کے مخدوش حالات کے پیشِ نظر از خود نوٹس لیا اور احکامات بھی جاری کیے لیکن دہشت گرد سب پر حاوی ہیں، صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک بھی حالات کی سنگینی اور نزاکت سے پوری طرح آگاہ ہیں، صدر زرداری نے مختلف مواقعوں پر اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کراچی میں امن کے قیام کے لیے سخت ہدایات جاری کیں، اس حوالے سے چند روز پیشتر انھوں نے آئی جی سندھ سے باز پرس بھی کی اور انھیں شہری امن قائم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھانے کی سخت ہدایت بھی کی۔
وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے اعلیٰ سطح پر مشاورت کے بعد یکم محرم الحرام کو کراچی و کوئٹہ میں دہشت گردی ہونے کی خفیہ اطلاعات کے بعد صرف ایک دن کے لیے صبح 6 بجے سے شام 6 بجے تک موٹر سائیکل چلانے اور موبائل فون سروس پر پابندی عائد کر دی تھی، کیونکہ ان کے بقول دہشت گردی کی زیادہ تر وارداتوں میں موٹرسائیکل استعمال ہوتی ہے۔ تاہم سندھ ہائی کورٹ نے اس پابندی کو معطل کر دیا، لیکن ایک دن بعد ہی کراچی کے علاقے عباس ٹاؤن میں امام بارگاہ کے قریب موٹر سائیکل پر نصب بم دھماکے نے وزیر داخلہ کی بات کو سچ ثابت کر دیا۔ رحمٰن ملک صاحب نے ایوان بالا میں خطاب کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ موبائل فونز اور موٹر سائیکل پر پابندی لگانے سے دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی۔
محرم الحرام کے پہلے عشرے کے دوران ملک کے حساس شہروں کراچی، کوئٹہ، پشاور اور جھنگ وغیرہ میں گزشتہ کئی سالوں سے دہشت گردی، بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں سیکڑوں لوگ لقمۂ اجل بن چکے ہیں ان دنوں پورا ملک شیعہ سنی کشیدگی کے باعث فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں رہتا ہے۔ کسی غیر معمولی سانحے سے بچنے کے لیے سخت حفاظتی اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں تا کہ نہ صرف عام لوگوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے بلکہ امام عالی مقام کے عقیدت مندوں کی مجالس عزا اور تعزیتی جلوسوں کو امکانی حادثے سے بچایا جا سکے، کراچی اور کوئٹہ تو ملک کے دو ایسے بدقسمت شہر ہیں جہاں سال کے 12 مہینے کربلا کا موسم رہتا ہے یہاں ہر روز شامِ غریباں برپا ہوتی ہے، گلی گلی جنازے اُٹھتے ہیں اور گھروں میں ماتم ہوتا ہے بالخصوص کراچی تو لگتا ہے کسی مقتل گاہ میں تبدیل ہو گیا ہے۔
جہاں صبح و شام لاشے اٹھائے جاتے ہیں، اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر 2011 سے 10؍ نومبر 2012 تک کے عرصے میں کراچی میں 2250 افراد دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ بھتہ خوری اور اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ کراچی پاکستان کا معاشی حب کہلاتا ہے، یہ حکومت کو سب سے زیادہ ریونیو دینے والا صنعتی و تجارتی شہر ہے۔ لیکن آج اس شہر غریباں کے تاجر و صنعتکار بھی بھتہ خوروں اور اغواء کار مافیا کا نشانے پر ہیں۔
ان پر بھی دہشت گردوں کا خوف و ہراس مسلط ہو گیا ہے تاجر برادری اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور ہو گئی ہے بہت سے تاجر اور صنعتکار اپنا سرمایہ ملک کے محفوظ علاقوں میں منتقل کر رہے ہیں یا بیرون ملک ہجرت کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ نتیجتاً شہر کی معاشی سرگرمیاں ماند پڑتی جا رہی ہیں اور لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں اور معاشرتی جرائم کے گروہ کا حصہ بن کر وارداتیں کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
کراچی میں غیر قانونی اسلحے کی بھی بھرمار ہے جس کا قانون شکن عناصر آزادانہ استعمال کر رہے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق کراچی میں چار ہزار کے قریب طالبان بھی موجود ہیں جو بلا خوف و خطر جرم کی سنگین وارداتوں میں ملوث ہیں اور اپنے مخصوص ایجنڈے کراچی کے باسیوں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں، آج ہزاروں طالبان نے کراچی کے مختلف علاقوں میں اپنے ٹھکانے بنا لیے ہیں جو کراچی کے امن کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے ایم کیو ایم کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران یقین دہانی کرائی ہے کہ کراچی کے حالات چند روز میں بہتر ہو جائیں گے۔ حکومت یہاں قیام امن کے لیے اقدامات اٹھا رہی ہے۔
بعض ذرایع کے مطابق الیکشن سے قبل کراچی میں سات مراحل پر مشتمل ایک بڑے آپریشن کی تیاری کی جا رہی ہے جس میں فوج کو ہائی الرٹ رکھا جائے گا اور رینجرز کو زیادہ با اختیار بنایا جائے گا اس ممکنہ آپریشن کی نگرانی وزیر اعلیٰ سندھ خود کریں گے۔ امید کی جانی چاہیے کہ حکومت کے آیندہ اقدامات سے کراچی میں امن کے قیام میں مدد ملے گی اور لوگ سکون کا سانس لے سکیں گے۔ کراچی خوف کی علامت بنتا جا رہا ہے اسے امن کا گہوارہ بنانے کے لیے طویل المدت اور ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔