رحمتوں سے ریٹنگ تک کا سفر
ایک طرف لوگ چهپ کر اسلام کے نام پر لوگوں کو مار رہے ہیں اور دوسری طرف اسلام کو اپنی روزی روٹی کیلئے بیچ رہے ہیں۔
ہر سال کی طرح اس سال بھی رحمتوں سے مزیّن اور برکتوں سے بھرپور ماہِ صیام کی آمد آمد ہے۔ اِسلامی کیلنڈر میں سب سے معتبر اور متبرک مہینہ ہونے کا اعزاز بھی رمضان ہی کو حاصل ہے۔ رحمتوں اور برکتوں سے بھرپور ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا براہِ راست تعلق قرآن مجید کے نزول سے ہے۔ اس میں مشرق و مغرب کے مسلمان ایک خاص رنگ میں ڈھل جاتے ہیں، گھر کے اندر کا سماں اور باہر کے اوقات تبدیل ہوجاتے ہیں۔ جہاں اِس مہینے میں ہر طرح کی برکات ہیں وہاں ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اس میں ہونے والی نیکیوں کا اجر کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
یہ تو رمضان کی وہ حقیقت ہے جس سے قریباً ہر کوئی واقف ہے- اب بڑھتے ہیں اپنے موضوع کی طرف جس سے کچھ لوگ واقف ہیں، کچھ نا واقف اور بہت سو کی کوئی رائے نہیں۔ وہ جو ہے، جیسا ہے، بس ٹھیک ہے کو بنیاد بنائے ہوئے ہیں۔ مگر معاملہ اتنا سادہ ہوتا تو شاید ہم بھی اس پر لکھنے کی بجائے اپنا قلم کسی اور پیچیده معاملے پر چلا رہے ہوتے۔
بات دراصل یہ ہے کہ ساری مسلم دنیا میں 'رمضان' کا مہینہ بطور 'مبارک اسلامی' مہینے کے طور پر شروع ہوتا ہے اور یہ سلسلہ ہمارے ہاں بھی قائم تھا مگر افسوس کہ اب وہ وقت رہا نہ لوگ۔ سو ہم اس راہ سے ہٹ گئے یا ہٹا دیے گئے اور پہنچ گئے یہاں جہاں ہم آج کھڑے ہیں۔
اب تک ہر ٹی وی چینل، ریڈیو، اخبارات اور رسائل پر آپ 'رمضان ٹرانسمیشن' کے لاتعداد اشتہار دیکھ یا پڑھ ہی چکے ہوں گے۔ اگر یہ سب اب تک آپ کی نظر سے اوجھل رہے تو یقیناً کسی سگنل پر سامنے لگے بڑے سے سائن بورڈ پر رمضان مبارک کے اشتہار نے ضرور آپ کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی ہوگی جسے دیکھنے کے بعد آپ کے منہ سے بے اختیار نکلا ہوگا ماشاللہ! ایسا سلسلہ سارا سال کیوں نہیں چلتا؟ کیوں صرف ایک ہی ماہ ٹی وی چینل پر سب کچھ چھوڑ کر گھنٹوں لمبی ٹرانسمیشن چلائی جاتی ہے؟ اگر یہ سلسلہ پورا سال ہو تو یقیناً اندھیری راہوں پر بھٹکی قوم کو دین کے بارے کوئی آگہی ملے۔
لیکن جناب جس بات پر آپ ماشاءاللہ ماشاءاللہ کہہ رہے ہیں درحقیقت یہ اچھی خبر نہیں بلکہ بُری خبر ہے کہ ایسا تو صرف مزید پیسہ کمانے کے لیے کیا جارہا ہے۔ یہاں رمضان کا چاند نظر آیا اور وہاں دکاندار میدان میں نکل آئے، ایک نے اپنے پروگرام کی ریٹنگز بڑهانے کیلئے حاضرین میں موٹرسائیکل بانٹنے کا اعلان کیا تو دوسرے نے اِک قدم آگے بڑھ کر گاڑی کی پیش کش کردی اور ہماری بھولی بھالی عوام دین اور اہلِ دین کی اس خدمت پر بھلا کیوں میڈیا کو بُرا کہے؟
جب بھی کوئی کمپنی اپنی نئی پراڈکٹ مارکیٹ میں لانے کا فیصلہ کرتی ہے تو اس کی پہلی ترجیح مارکیٹنگ ہوتی ہے کیوںکہ مارکیٹنگ جتنی پُراثر ہوگی اتنے زیادہ لوگ اسے استعمال کریں گے اور کمپنی کے منافع میں اضافہ ہوگا۔ مگر یہاں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے میڈیا نے رمضان کو ایک ایسی پراڈکٹ بنا دیا ہے جس کے وہ نہ مالک ہیں، نہ خالق، ہاں البتہ اپنے تئیں بیچنے کے حقوق بالکل حاصل کرلیے ہیں اور حقوق بھی ایسے جو سب کے پاس ہیں، نہ کوئی کسی کو روک سکتا ہے نہ پوچھ سکتا ہے۔
ایک بنیادی چیز جس سے اکثریت غافل ہے وہ یہ کہ میڈیا ایک کمرشل انڈسٹری ہے- جس طرح ہر کاروبار کا مالک یہ چاہتا ہے کہ اسکے کاروبار میں منافع ہو بالکل اِسی طرح میڈیا میں بھی ہوتا ہے۔ یہاں بھی لوگ اُسی طرف جائیں گے جس طرف سے منافع ہو۔ اب چینی کا کاروبار کرنے والا تاجر ہرگز اس لیے چینی نہیں بیچے گا کہ اگر لوگ اس کو کھیر میں ملا کر صدقہ کریں گے تو اُسے ثواب ہوگا۔ اِسی طرح رمضان ٹرانسمیشن کا مقصد پراڈکٹ کو زیادہ سے زیادہ بیچنا اور اس سے زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہے اور اسی مقصد کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک اور دوسرے سے بڑھ کر تیسرا بیچنے والا موجود ہے-
ایک وقت تھا جب وطن عزیز میں ایک 'نیلام گھر' ہوا کرتا تھا، مگر اب ہر دوسرے چینل پر رمضان ٹرانسمیشن کے نام پر نیلام گھر کھل گئے ہیں۔ کہیں شرکاء کو زبردستی آم کھلائے جارہے ہیں، کہیں پاگل بنا کر اور کپڑے پھاڑ کر ایکٹنگ کروائی جا رہی ہے اور کہیں گانے سنوائے جا رہے ہیں- کہیں گیم شو ہو رہا ہے تو کہیں شو کے پاسز کے حصول کے لیے شرکاء میں کشتی کے مقابلے اور اس سب میں رمضان کا مقصد کہیں کھو کر رہ گیا ہے۔
کل تک جن سروں پر دوپٹے نہیں تهے آج وہ بهی ڈهکے ہوئے نظر آرہے ہیں اور کل تک جو لبرل خواتین و حضرات، اینکرز اور اداکار یہ کہتے تهے کہ دین ہر کسی کا ذاتی معاملہ ہے وہ بهی آج اسی دین کو اپنے انداز میں بیچتے نظر آرہے ہیں۔ گویا اس ملک میں اسلام اور رمضان ہی رہ گیا ہے جس کو ہر کوئی اپنے انداز سے پیش کرتا نظر آرہا ہے۔ ایک وہ لوگ ہیں جو چهپ کر اسلام کے نام پر پاکستانیوں کو مار رہے ہیں اور ایک یہ ہیں جو اسلام کو اپنی روزی روٹی کے لیے بیچ رہے ہیں-
میرا یہاں ہرگز مقصد صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنا نہیں ہے، لیکن یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ رمضان کے اصل مقصد کو تبدیل کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ یہ مہینہ اللہ تعالی کی طرف سے مسلمانوں پر خاص انعام ہے، اور اگر اِس ماہ کی حقیقی اساس کو پالیا تو یقیناً جنت سے نوازا جائے گا۔ اب جس کو جنت مل جائے، بھلا اُس کے لیے لان کے سوٹ اور حقیر سے موبائل کیا حیثیت رکھتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
یہ تو رمضان کی وہ حقیقت ہے جس سے قریباً ہر کوئی واقف ہے- اب بڑھتے ہیں اپنے موضوع کی طرف جس سے کچھ لوگ واقف ہیں، کچھ نا واقف اور بہت سو کی کوئی رائے نہیں۔ وہ جو ہے، جیسا ہے، بس ٹھیک ہے کو بنیاد بنائے ہوئے ہیں۔ مگر معاملہ اتنا سادہ ہوتا تو شاید ہم بھی اس پر لکھنے کی بجائے اپنا قلم کسی اور پیچیده معاملے پر چلا رہے ہوتے۔
بات دراصل یہ ہے کہ ساری مسلم دنیا میں 'رمضان' کا مہینہ بطور 'مبارک اسلامی' مہینے کے طور پر شروع ہوتا ہے اور یہ سلسلہ ہمارے ہاں بھی قائم تھا مگر افسوس کہ اب وہ وقت رہا نہ لوگ۔ سو ہم اس راہ سے ہٹ گئے یا ہٹا دیے گئے اور پہنچ گئے یہاں جہاں ہم آج کھڑے ہیں۔
اب تک ہر ٹی وی چینل، ریڈیو، اخبارات اور رسائل پر آپ 'رمضان ٹرانسمیشن' کے لاتعداد اشتہار دیکھ یا پڑھ ہی چکے ہوں گے۔ اگر یہ سب اب تک آپ کی نظر سے اوجھل رہے تو یقیناً کسی سگنل پر سامنے لگے بڑے سے سائن بورڈ پر رمضان مبارک کے اشتہار نے ضرور آپ کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی ہوگی جسے دیکھنے کے بعد آپ کے منہ سے بے اختیار نکلا ہوگا ماشاللہ! ایسا سلسلہ سارا سال کیوں نہیں چلتا؟ کیوں صرف ایک ہی ماہ ٹی وی چینل پر سب کچھ چھوڑ کر گھنٹوں لمبی ٹرانسمیشن چلائی جاتی ہے؟ اگر یہ سلسلہ پورا سال ہو تو یقیناً اندھیری راہوں پر بھٹکی قوم کو دین کے بارے کوئی آگہی ملے۔
لیکن جناب جس بات پر آپ ماشاءاللہ ماشاءاللہ کہہ رہے ہیں درحقیقت یہ اچھی خبر نہیں بلکہ بُری خبر ہے کہ ایسا تو صرف مزید پیسہ کمانے کے لیے کیا جارہا ہے۔ یہاں رمضان کا چاند نظر آیا اور وہاں دکاندار میدان میں نکل آئے، ایک نے اپنے پروگرام کی ریٹنگز بڑهانے کیلئے حاضرین میں موٹرسائیکل بانٹنے کا اعلان کیا تو دوسرے نے اِک قدم آگے بڑھ کر گاڑی کی پیش کش کردی اور ہماری بھولی بھالی عوام دین اور اہلِ دین کی اس خدمت پر بھلا کیوں میڈیا کو بُرا کہے؟
جب بھی کوئی کمپنی اپنی نئی پراڈکٹ مارکیٹ میں لانے کا فیصلہ کرتی ہے تو اس کی پہلی ترجیح مارکیٹنگ ہوتی ہے کیوںکہ مارکیٹنگ جتنی پُراثر ہوگی اتنے زیادہ لوگ اسے استعمال کریں گے اور کمپنی کے منافع میں اضافہ ہوگا۔ مگر یہاں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے میڈیا نے رمضان کو ایک ایسی پراڈکٹ بنا دیا ہے جس کے وہ نہ مالک ہیں، نہ خالق، ہاں البتہ اپنے تئیں بیچنے کے حقوق بالکل حاصل کرلیے ہیں اور حقوق بھی ایسے جو سب کے پاس ہیں، نہ کوئی کسی کو روک سکتا ہے نہ پوچھ سکتا ہے۔
ایک بنیادی چیز جس سے اکثریت غافل ہے وہ یہ کہ میڈیا ایک کمرشل انڈسٹری ہے- جس طرح ہر کاروبار کا مالک یہ چاہتا ہے کہ اسکے کاروبار میں منافع ہو بالکل اِسی طرح میڈیا میں بھی ہوتا ہے۔ یہاں بھی لوگ اُسی طرف جائیں گے جس طرف سے منافع ہو۔ اب چینی کا کاروبار کرنے والا تاجر ہرگز اس لیے چینی نہیں بیچے گا کہ اگر لوگ اس کو کھیر میں ملا کر صدقہ کریں گے تو اُسے ثواب ہوگا۔ اِسی طرح رمضان ٹرانسمیشن کا مقصد پراڈکٹ کو زیادہ سے زیادہ بیچنا اور اس سے زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہے اور اسی مقصد کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک اور دوسرے سے بڑھ کر تیسرا بیچنے والا موجود ہے-
ایک وقت تھا جب وطن عزیز میں ایک 'نیلام گھر' ہوا کرتا تھا، مگر اب ہر دوسرے چینل پر رمضان ٹرانسمیشن کے نام پر نیلام گھر کھل گئے ہیں۔ کہیں شرکاء کو زبردستی آم کھلائے جارہے ہیں، کہیں پاگل بنا کر اور کپڑے پھاڑ کر ایکٹنگ کروائی جا رہی ہے اور کہیں گانے سنوائے جا رہے ہیں- کہیں گیم شو ہو رہا ہے تو کہیں شو کے پاسز کے حصول کے لیے شرکاء میں کشتی کے مقابلے اور اس سب میں رمضان کا مقصد کہیں کھو کر رہ گیا ہے۔
کل تک جن سروں پر دوپٹے نہیں تهے آج وہ بهی ڈهکے ہوئے نظر آرہے ہیں اور کل تک جو لبرل خواتین و حضرات، اینکرز اور اداکار یہ کہتے تهے کہ دین ہر کسی کا ذاتی معاملہ ہے وہ بهی آج اسی دین کو اپنے انداز میں بیچتے نظر آرہے ہیں۔ گویا اس ملک میں اسلام اور رمضان ہی رہ گیا ہے جس کو ہر کوئی اپنے انداز سے پیش کرتا نظر آرہا ہے۔ ایک وہ لوگ ہیں جو چهپ کر اسلام کے نام پر پاکستانیوں کو مار رہے ہیں اور ایک یہ ہیں جو اسلام کو اپنی روزی روٹی کے لیے بیچ رہے ہیں-
میرا یہاں ہرگز مقصد صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنا نہیں ہے، لیکن یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ رمضان کے اصل مقصد کو تبدیل کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ یہ مہینہ اللہ تعالی کی طرف سے مسلمانوں پر خاص انعام ہے، اور اگر اِس ماہ کی حقیقی اساس کو پالیا تو یقیناً جنت سے نوازا جائے گا۔ اب جس کو جنت مل جائے، بھلا اُس کے لیے لان کے سوٹ اور حقیر سے موبائل کیا حیثیت رکھتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔