پاکستانی ان پڑھ بچے
ہمارے ان پڑھ بچے بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ معصوم لوگوں پر کسی بھی طرح کے حملے کی منصوبہ بندی غلط ہے۔
پچھلے دنوں پاکستان پھر خبروں میں تھا، نہیں اس بار ہم نے کوئی بم نہیں پھوڑا بلکہ اب کے دنیا کی پریس ہم پر طعنوں کے بم پھاڑ رہی تھی۔
ان کا مسئلہ یہ تھا کہ ہم انڈیا سے تعلیم کے بارے میں کچھ کیوں نہیں سیکھتے؟ دیکھیے سیدھی سی بات ہے ہم انڈیا کو کاپی کرتے ہیں، اس میں کوئی دو رائے نہیں، لڑکیاں پہلے صرف شادیوں میں اور اب کالجوں تک میں انڈین ہیروئینز کے فیشن کرتی نظر آتی ہیں، بچوں کے نام انڈین اداکاروں پر رکھے جاتے ہیں، ہمارے ملک میں بچہ بڑا ہو کر امیتابھ بچن بننا چاہتا ہے، دشمن ہم ہیں، لیکن صرف کرکٹ کے میدان میں، ورنہ ہمارا دل انڈیا کی ہر چیز کو نہ صرف قبول کر چکا ہے بلکہ ہم ان کی کئی چیزوں کو کاپی کرتے پوری طرح اپنا بھی چکے ہیں۔
اس کے باوجود ہم سے کوئی باہر والا انڈیا کی کاپی کرنے کو کہتا ہے تو ہمارے اندر وہی پاکستانی جاگ جاتا ہے جو کرکٹ کے میدان میں انڈیا سے مقابلے پر کھڑا ہے۔ دنیا کو لگتا ہے انڈیا ہم سے کہیں زیادہ تعلیم کو سنجیدگی سے لیتا ہے، کیونکہ جہاں ہم نے سال 2012-13کے لیے اپنے بجٹ سے تعلیم کے لیے دس بلین روپے کم کر دیے ہیں وہیں انڈیا نے اپنا تعلیمی بجٹ پہلے سے کہیں زیادہ بڑھا دیا ہے۔
آج انڈیا میں کُل ملا کر پاکستان سے چالیس گنا زیادہ رقم تعلیم پر خرچ کی جاتی ہے۔ دنیا کو ہمارا ہائر ایجوکیشن کا بجٹ کم کرنا بہت بُرا لگا اور ہمارے تعلیم کو سنجیدگی سے نہ لینے پر ملالہ کی تصویریں لگاکر اُسے ایک نیا رنگ دے کر دنیا کے سامنے پیش کیا اور ان خبروں کو رپورٹ کرنے میں سب سے آگے انڈین میڈیا تھا۔ہم بھوکے، پیاسے، بیروزگار بنا تعلیم کے دوسرے ملکوں سے لیے قرضوں پر زندگی گزار رہے تھے، امریکا نے ہم سے کہا چلو دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑو، وہ جنھیں ہم نے خود زندگی کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے 1981 میں اپنے ملک میں پناہ دی تھی اور جنھیں ہم کئی سالوں سے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد کر رہے تھے، ہم امریکا کی بتائی جنگ میں انھیں کو جا کر مارنے لگے۔
نہ جانے کتنے معصوم اور بے گناہوں کو ہم نے امن کے نام پر مار ڈالا، ایک تین مہینے کے بچے سے لے کر بن لادن تک امریکا نے جسے بھی مارنے کو کہا ہم نے اس کی بلی چڑھا دی، امریکا نے انڈیا میں ڈاکٹرز، انجینئرز پر پیسہ لگایا تو پاکستان میں امن کے نام پر ہونے والی جنگ پر۔
ہم گیارہ سال سے امن کی جنگ لڑ رہے ہیں، ہر پاکستانی خواہ وہ کسی بھی بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھتا ہو اپنے بچوں کو امن کی تعلیم دیتا ہے، چاہے بچہ اسکول نہ جاتا ہو تو بھی اُسے کبھی بھی اس کے ماں باپ یہ نہیں سکھاتے کہ کسی بے گناہ کو مارنا چاہیے، لیکن امریکن تعلیم کچھ مختلف ہے، یہاں تو باقاعدہ یونیورسٹیز میں طالب علموں کو دہشت گرد بنانا سکھایا جا رہا ہے۔
امریکا کے شہر نیویارک کی یونیورسٹی این وائی یُو میں ایک کلاس میں باقاعدہ ''ٹیریرسٹ اٹیک'' کرنا سکھایا جا رہا ہے، نیوی کی ریٹائرڈ آفیسر مریا ہیلن جو اب این وائی یُو میں ٹیچر ہیں، انھوں نے اپنے طالب علموں کو ایک اسائنمنٹ دیا جس میں یہ بتانا تھا کہ ٹیریرسٹ کیسے بنا جاتا ہے؟ اس میں دس سے بارہ صفحوں کا ایک تفصیلی ریسرچ پلان بتانا تھا کہ آپ ایک دہشت گرد ہیں اور آپ اپنا ٹیریرسٹ اٹیک کہاں اور کیسے پلان کریں گے۔
دنیا کے بیشتر بڑے دہشت گرد کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی امریکن یونیورسٹی میں رہ چکے ہیں، جیسے انور ال آواکی جنہوں نے نائن الیون کی ساری پلاننگ کلاراڈو یونیورسٹی میں رہ کر کی تھی۔ایک ٹیریرسٹ انویسٹی گیشن ایکسپرٹ نے این وائی یُو کے کورس کی خبر کے بارے میں سن کر کہا : ''لگتا ہے کہ سی آئی اے کے انور ال آواکی کو مار دینے کے بعد اب امریکن یونیورسٹی دہشت گرد بنانے کی طرف کام کر رہی ہے''۔
این وائی جُو میں دیے گئے اسائنمنٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر مارکوس نے طالب علموں سے کہا ہے کہ پوری طرح تیاری کرو، اپنے ذہن میں اور ہر معاملے اور نکتے پر غور کرو۔ آپ کو پورے ''حملے'' کی نہ صرف تیاری کرنی ہو گی بلکہ یہ بھی بتانا ہو گا کہ آپ کے حملے سے کیا کیا نقصان ہو گا؟ اس کے نتائج کتنے دُور رس ہوں گے؟ آپ کو ایک سے زیادہ پلان کو ذہن میں رکھنا چاہیے، ساتھ ہی یہ بھی مد نظر رہے کہ فنڈنگ کیسے ہو گی؟ کتنے لوگ چاہیے ہوں گے؟
اگر کسی حکومت کے ادارے پر حملہ ہے تو اس کی بلڈنگ کے بارے میں جملہ معلومات حاصل کریں اور یہ سب پلان کرنے کے بعد اپنے اسائنمنٹ کے مکمل ہونے کے بعد اس پر یہ لکھنا ضروری ہے کہ میں یہ سب صرف کاغذ پر لکھ رہا ہوں، اصل میں اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ یہ کوڈ ''ٹاپ سیکرٹ کاغذات'' نہیں ہیں۔ ان کو حاصل کرنا کسی کے لیے بھی مشکل نہیں، اتنی ساری تفصیلات اور طریقے ایک ہی جگہ مل جانے پر دہشت گردوں کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔
NYU کے پروفیسر کو لگتا ہے یہ کورس بالکل صحیح ہے، وہ طلباء کو تیار کر رہے ہیں کہ وہ کس طرح آیندہ زندگی میں ذہانت سے پلاننگ کریں اور کس طرح دہشت گردی کو روکنے میں مدد کریں۔یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ وہ شخص جو دو سال بعد کسی کمپنی میں سیلز یا فنانس کی جاب کر رہا ہو گا کیسے اس اٹیک کی پلاننگ کر کے اپنے مستقبل میں کوئی بہتری پیدا کر سکتا ہے۔
فیصل شہزاد امریکن طالب علم تھے اور کالج کے بعد اچھی جاب نہ ملنے کی وجہ سے پریشان ہو کر امریکا سے کسی بھی طرح بدلہ لینے کے لیے ٹائم اسکوائر پر ناکام بم بلاسٹ کا منصوبہ بنایا تھا جس میں انھیں دو سال لگے تھے، نیویارک کے پروفیسر اپنے طالب علموں کے لیے یہ کام آسان کر رہے ہیں، اگر کل غصے میں وہ طالب علم اپنی قوم سے بدلہ لینے چاہتا ہے تو دو سال پلاننگ میں نہیں لگانے پڑیں گے۔
جہاں تک ہماری تعلیم کا سوال ہے تو ہمارے ان پڑھ بچے بھی اتنے تعلیم یافتہ ہیں کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ معصوم لوگوں پر کسی بھی طرح کے حملے کی منصوبہ بندی غلط ہے۔ رہا سوال انڈیا کے نقش قدم پر چلنے کا تو اگر پاکستان میں بھی امریکن، دہشت گردی کی جگہ ڈاکٹرز، انجینئرز اور بزنس میں پیسہ لگاتے تو آج ہم بھی اپنی تعلیم پر دس بلین روپے کم نہیں، سوبلین زیادہ خرچ کرتے نظر آتے۔
ان کا مسئلہ یہ تھا کہ ہم انڈیا سے تعلیم کے بارے میں کچھ کیوں نہیں سیکھتے؟ دیکھیے سیدھی سی بات ہے ہم انڈیا کو کاپی کرتے ہیں، اس میں کوئی دو رائے نہیں، لڑکیاں پہلے صرف شادیوں میں اور اب کالجوں تک میں انڈین ہیروئینز کے فیشن کرتی نظر آتی ہیں، بچوں کے نام انڈین اداکاروں پر رکھے جاتے ہیں، ہمارے ملک میں بچہ بڑا ہو کر امیتابھ بچن بننا چاہتا ہے، دشمن ہم ہیں، لیکن صرف کرکٹ کے میدان میں، ورنہ ہمارا دل انڈیا کی ہر چیز کو نہ صرف قبول کر چکا ہے بلکہ ہم ان کی کئی چیزوں کو کاپی کرتے پوری طرح اپنا بھی چکے ہیں۔
اس کے باوجود ہم سے کوئی باہر والا انڈیا کی کاپی کرنے کو کہتا ہے تو ہمارے اندر وہی پاکستانی جاگ جاتا ہے جو کرکٹ کے میدان میں انڈیا سے مقابلے پر کھڑا ہے۔ دنیا کو لگتا ہے انڈیا ہم سے کہیں زیادہ تعلیم کو سنجیدگی سے لیتا ہے، کیونکہ جہاں ہم نے سال 2012-13کے لیے اپنے بجٹ سے تعلیم کے لیے دس بلین روپے کم کر دیے ہیں وہیں انڈیا نے اپنا تعلیمی بجٹ پہلے سے کہیں زیادہ بڑھا دیا ہے۔
آج انڈیا میں کُل ملا کر پاکستان سے چالیس گنا زیادہ رقم تعلیم پر خرچ کی جاتی ہے۔ دنیا کو ہمارا ہائر ایجوکیشن کا بجٹ کم کرنا بہت بُرا لگا اور ہمارے تعلیم کو سنجیدگی سے نہ لینے پر ملالہ کی تصویریں لگاکر اُسے ایک نیا رنگ دے کر دنیا کے سامنے پیش کیا اور ان خبروں کو رپورٹ کرنے میں سب سے آگے انڈین میڈیا تھا۔ہم بھوکے، پیاسے، بیروزگار بنا تعلیم کے دوسرے ملکوں سے لیے قرضوں پر زندگی گزار رہے تھے، امریکا نے ہم سے کہا چلو دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑو، وہ جنھیں ہم نے خود زندگی کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے 1981 میں اپنے ملک میں پناہ دی تھی اور جنھیں ہم کئی سالوں سے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد کر رہے تھے، ہم امریکا کی بتائی جنگ میں انھیں کو جا کر مارنے لگے۔
نہ جانے کتنے معصوم اور بے گناہوں کو ہم نے امن کے نام پر مار ڈالا، ایک تین مہینے کے بچے سے لے کر بن لادن تک امریکا نے جسے بھی مارنے کو کہا ہم نے اس کی بلی چڑھا دی، امریکا نے انڈیا میں ڈاکٹرز، انجینئرز پر پیسہ لگایا تو پاکستان میں امن کے نام پر ہونے والی جنگ پر۔
ہم گیارہ سال سے امن کی جنگ لڑ رہے ہیں، ہر پاکستانی خواہ وہ کسی بھی بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھتا ہو اپنے بچوں کو امن کی تعلیم دیتا ہے، چاہے بچہ اسکول نہ جاتا ہو تو بھی اُسے کبھی بھی اس کے ماں باپ یہ نہیں سکھاتے کہ کسی بے گناہ کو مارنا چاہیے، لیکن امریکن تعلیم کچھ مختلف ہے، یہاں تو باقاعدہ یونیورسٹیز میں طالب علموں کو دہشت گرد بنانا سکھایا جا رہا ہے۔
امریکا کے شہر نیویارک کی یونیورسٹی این وائی یُو میں ایک کلاس میں باقاعدہ ''ٹیریرسٹ اٹیک'' کرنا سکھایا جا رہا ہے، نیوی کی ریٹائرڈ آفیسر مریا ہیلن جو اب این وائی یُو میں ٹیچر ہیں، انھوں نے اپنے طالب علموں کو ایک اسائنمنٹ دیا جس میں یہ بتانا تھا کہ ٹیریرسٹ کیسے بنا جاتا ہے؟ اس میں دس سے بارہ صفحوں کا ایک تفصیلی ریسرچ پلان بتانا تھا کہ آپ ایک دہشت گرد ہیں اور آپ اپنا ٹیریرسٹ اٹیک کہاں اور کیسے پلان کریں گے۔
دنیا کے بیشتر بڑے دہشت گرد کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی امریکن یونیورسٹی میں رہ چکے ہیں، جیسے انور ال آواکی جنہوں نے نائن الیون کی ساری پلاننگ کلاراڈو یونیورسٹی میں رہ کر کی تھی۔ایک ٹیریرسٹ انویسٹی گیشن ایکسپرٹ نے این وائی یُو کے کورس کی خبر کے بارے میں سن کر کہا : ''لگتا ہے کہ سی آئی اے کے انور ال آواکی کو مار دینے کے بعد اب امریکن یونیورسٹی دہشت گرد بنانے کی طرف کام کر رہی ہے''۔
این وائی جُو میں دیے گئے اسائنمنٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر مارکوس نے طالب علموں سے کہا ہے کہ پوری طرح تیاری کرو، اپنے ذہن میں اور ہر معاملے اور نکتے پر غور کرو۔ آپ کو پورے ''حملے'' کی نہ صرف تیاری کرنی ہو گی بلکہ یہ بھی بتانا ہو گا کہ آپ کے حملے سے کیا کیا نقصان ہو گا؟ اس کے نتائج کتنے دُور رس ہوں گے؟ آپ کو ایک سے زیادہ پلان کو ذہن میں رکھنا چاہیے، ساتھ ہی یہ بھی مد نظر رہے کہ فنڈنگ کیسے ہو گی؟ کتنے لوگ چاہیے ہوں گے؟
اگر کسی حکومت کے ادارے پر حملہ ہے تو اس کی بلڈنگ کے بارے میں جملہ معلومات حاصل کریں اور یہ سب پلان کرنے کے بعد اپنے اسائنمنٹ کے مکمل ہونے کے بعد اس پر یہ لکھنا ضروری ہے کہ میں یہ سب صرف کاغذ پر لکھ رہا ہوں، اصل میں اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ یہ کوڈ ''ٹاپ سیکرٹ کاغذات'' نہیں ہیں۔ ان کو حاصل کرنا کسی کے لیے بھی مشکل نہیں، اتنی ساری تفصیلات اور طریقے ایک ہی جگہ مل جانے پر دہشت گردوں کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔
NYU کے پروفیسر کو لگتا ہے یہ کورس بالکل صحیح ہے، وہ طلباء کو تیار کر رہے ہیں کہ وہ کس طرح آیندہ زندگی میں ذہانت سے پلاننگ کریں اور کس طرح دہشت گردی کو روکنے میں مدد کریں۔یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ وہ شخص جو دو سال بعد کسی کمپنی میں سیلز یا فنانس کی جاب کر رہا ہو گا کیسے اس اٹیک کی پلاننگ کر کے اپنے مستقبل میں کوئی بہتری پیدا کر سکتا ہے۔
فیصل شہزاد امریکن طالب علم تھے اور کالج کے بعد اچھی جاب نہ ملنے کی وجہ سے پریشان ہو کر امریکا سے کسی بھی طرح بدلہ لینے کے لیے ٹائم اسکوائر پر ناکام بم بلاسٹ کا منصوبہ بنایا تھا جس میں انھیں دو سال لگے تھے، نیویارک کے پروفیسر اپنے طالب علموں کے لیے یہ کام آسان کر رہے ہیں، اگر کل غصے میں وہ طالب علم اپنی قوم سے بدلہ لینے چاہتا ہے تو دو سال پلاننگ میں نہیں لگانے پڑیں گے۔
جہاں تک ہماری تعلیم کا سوال ہے تو ہمارے ان پڑھ بچے بھی اتنے تعلیم یافتہ ہیں کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ معصوم لوگوں پر کسی بھی طرح کے حملے کی منصوبہ بندی غلط ہے۔ رہا سوال انڈیا کے نقش قدم پر چلنے کا تو اگر پاکستان میں بھی امریکن، دہشت گردی کی جگہ ڈاکٹرز، انجینئرز اور بزنس میں پیسہ لگاتے تو آج ہم بھی اپنی تعلیم پر دس بلین روپے کم نہیں، سوبلین زیادہ خرچ کرتے نظر آتے۔