اتحاد ہو تو ایسا
جرمنی کا قانون دیگر یورپی ممالک کی طرح اقلیتوں کو تحفظ اور انھیں ان کے دینی شعائر کی ادائیگی کی اجازت دیتا ہے۔
آپ یقین کریں یا نہ کریں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ مسلمان، یہودی اور عیسائی متحد ہو چکے ہیں، ایسا کرنے پر انھیں ایک عدالتی فیصلے نے اُکسایا ہے۔
امر واقع یہ ہے کہ جرمن شہر کولون کی صوبائی عدالت نے فیصلہ سنایا ہے کہ ''جرمنی میں مذہبی وجوہات کی بناء پر بچوں کا ختنہ انھیں نقصان پہنچانے کے مترادف ہے، اس لیے بچوں کے ختنے پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔'' واضح رہے کہ مسلمان، یہودی اور عیسائی اپنے یہاں پیدا ہونے والے نو مولود لڑکے کا ختنہ کرواتے ہیں جو کہ مذہبی عقائد میں شامل ہے۔
مسلمانوں کے خلاف پابندیوں کے حق میں رہنے والی جرمنی یہودی کمیونٹی نے یورپ بھر میں اقلیتی امتیازات کے شکار مسلمانوں کے حق میں اس سے قبل کبھی بھی آواز نہیں اُٹھائی ہے۔ اب کولون کی عدالت کی جانب سے ختنے پر پابندی کو یہودی اپنے خلاف جرمنی میں پائے جانے والی نفرت کا نتیجہ سمجھ رہے ہیں۔ تینوں مذاہب میں ختنہ کے باہمی اشتراک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہود نے اپنے خلاف جرمنی میں نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے کوششیں شروع کر دی ہیں۔ اس غرض کے لیے مسلمانوں اور عیسائیوں کو ساتھ ملایا ہے۔
واضح رہے کہ جرمنی عیسائی ملک ہے تاہم وہاں کا قانون دیگر یورپی ممالک کی طرح اقلیتوں کو تحفظ اور انھیں ان کے دینی شعائر کی ادائیگی کی اجازت دیتا ہے۔ جرمنی میں سب سے بڑی اقلیت مسلمان ہیں، جن کی تعداد چار ملین (چالیس لاکھ) بتائی جاتی ہے جب کہ ان کے مقابلے میں یہودی کمیونٹی کی تعداد فقط ایک لاکھ 20 ہزار ہے، لیکن اس کے باوجود جرمنی کی حکومت مسلمانوں کے لیے ہمیشہ سے امتیازی سلوک برتنے میں ڈنمارک اور بیلجیئم کی طرح سخت واقع ہوئی ہے، حالانکہ یورپ میں اسلام قبول کرنے کی سب سے بڑی شرح جرمنی کے باشندوں کی ہے، جرمن باشندے اسلام اور مسلمانوں سے محبت رکھتے ہیں۔
اس کے باوجود جرمنی میں حجاب پر پابندی لگائی جا چکی ہے جب کہ حلال گوشت کی خرید و فروخت بھی ماضی میں ممنوع قرار دی جا چکی ہے۔ علاوہ ازیں جرمن حکومت ہر سال ملک میں مسلمانوں کے خلاف گرفتاریوں کی مہم چلاتی ہے، لیکن ان کے مقابلے میں یہودیوں کی تعداد کم ہونے کے باوجود بھی انھیں ہر قسم کی سہولیات اور آزادیاں حاصل ہیں اور ان کے خلاف کوئی خاص کارروائی سامنے نہیں آئی ہے جب کہ جرمنی کے یہودی جرمنی کے بجائے اسرائیل کو پسند کرتے ہیں۔
حالانکہ اسرائیل کے اعلیٰ حکومتی عہدیداران جرمنی سے نازی ازم کی وجہ سے نفرت کرتے ہیں اور اسرائیلی مسلح افواج کے اکثر افسران جرمنی کی بنی ہوئی مصنوعات کے استعمال سے گریز بھی کرتے ہیں، انھی وجوہات کی بناء پر یہودیوں کا خیال ہے کہ جرمنی کی حکومت مسلمانوں کے مقابلے میں یہودی کمیونٹی کی زیادہ مخالف ہے اور حالیہ ختنہ پابندی یہودیوں کو تنگ کرنے کے لیے عائد کی گئی یہ جو یہودیوں کے خلاف ایک منظم مہم کا آغاز ہے اور اس وجہ سے انھوں نے مسلمانوں اور عیسائیوں کو ساتھ ملایا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق جرمنی کے میڈیکل ایسوسی ایشن نے تمام ڈاکٹروں سے کہا ہے کہ وہ قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے بچوں کا ختنہ نہ کریں سوائے اس کے کہ یہ عمل طبی طور پر لازم اور ضروری ہو۔ کولون کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی حکم پر عملدرآمد کی اطلاعات ہیں۔ عدالت کے اس حکم کا مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں اور عیسائیوں نے بھی بُرا منایا ہے اور اس کی مذمت کر رہے ہیں۔ ڈاکٹرز اسپتالوں میں ختنہ کرنے سے انکار کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ڈاکٹروں کو بھی شدید پریشانی لاحق ہے کیونکہ گھروں میں نومولود بچوں کے ختنے کے عمل سے بچوں کے جسم سے خون زیادہ بہہ جاتا ہے اور اسپتالوں میں ایسے کئی بچوں کو لایا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس عدالتی پابندی کا سب سے بڑا اثر یہودیوں پر پڑا ہے کیونکہ جرمنی میں ختنہ کرنے والے اسپتالوں کی اکثریت یہودی کمیونٹی کے افراد پر مشتمل ہے، ایک بچے کے ختنے کے عوض وہ تین سے پانچ سو ڈالر فیس وصول کرتے ہیں جب کہ یہودی مذہب میں بچے کی ولادت کے آٹھویں روز ختنہ کرنا لازمی امر ہے۔ جرمنی میں عدالتی پابندی عائد ہونے کے بعد کولون میں ختنے کرنے والا واحد یہودی اسپتال بند کر دیا گیا ہے جہاں ماہانہ کم از کم تین سو بچوں کا ختنہ کیا جاتا تھا۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق جرمنی میں پہلی مرتبہ مسلمان، یہودی اور عیسائی تینوں آسمانی مذاہب کے پیروکار ختنے پر پابندی کے مسئلے پر جرمن حکومت ک خلاف متحد ہو چکے ہیں اور اس کے لیے یورپ بھر کے عیسائیوں اور مذہبی رہنماؤں نے گذشتہ دنوں برلن میں ایک کانفرنس بلائی تھی جس میں تینوں مذاہب کے سرکردہ افراد نے شرکت کی تھی اور عدالت کے اس فیصلے کے خلاف قانونی جنگ لڑنے کا عزم کیا ہے۔
یہودی راہبوں کی یورپی کانفرنس کے صدر پنکاس گولڈ شمٹ نے کہا ہے کہ اگر اس فیصلے کو مزید اداروں نے بھی اپنایا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جرمنی میں آبادی کے بڑے گروہوں کا کوئی مستقبل نہیں رہے گا۔ انھوں نے ملک کے قانون سازوں پر دباؤ میں اضافہ کر دیا ہے کہ وہ ختنے کو قانونی جرم قرار نہ دیں۔جرمنی کی اپوزیشن کی گرین پارٹی کی لیڈر ریناتے کیون آسٹ کا کہنا ہے کہ وہ جرمنی میں یہودیوں اور مسلمانوں کی موجودگی کی حامی ہیں، لیکن وہ بچے کی جسمانی حفاظت اور سلامتی کو بھی ضروری سمجھتی ہیں کہ جرمنی کے آئین میں تحریر ہے کہ ہر شہری کو زندہ رہنے اور ہر قسم کے جانی نقصانات سے محفوظ رہنے کا حق حاصل ہے۔
جرمنی کی گرین پارٹی کے ایک اور رکن فولکر بیک کا کہنا ہے کہ ایک آزاد معاشرے میں ریاست کسی مذہب کو اصلاحات پر مجبور نہیں کر سکتی بلکہ اسے مذہبی برادری کے ضوابط کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرنا ہوتا ہے، مذہبی برادریوں کی جگہ ریاست یہ فیصلہ نہیں کر سکتی کہ ختنہ صحیح ہے یا غلط۔یہاں ہم مذہبی عقائد کو چھیڑے بغیر عالمی ادارہ صحت کی اس وضاحت کی طرف توجہ مبذول کرائیں گے جس میں کہا گیا ہے کہ ''ختنہ کرانا ایڈز سے بچاؤ کی بنیادی تدبیر ہے۔'' اس رپورٹ کی وجہ سے جون 2012 میں زمبابوے کی پارلیمنٹ کے 44 اراکین نے ختنہ کرایا ہے۔
امر واقع یہ ہے کہ جرمن شہر کولون کی صوبائی عدالت نے فیصلہ سنایا ہے کہ ''جرمنی میں مذہبی وجوہات کی بناء پر بچوں کا ختنہ انھیں نقصان پہنچانے کے مترادف ہے، اس لیے بچوں کے ختنے پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔'' واضح رہے کہ مسلمان، یہودی اور عیسائی اپنے یہاں پیدا ہونے والے نو مولود لڑکے کا ختنہ کرواتے ہیں جو کہ مذہبی عقائد میں شامل ہے۔
مسلمانوں کے خلاف پابندیوں کے حق میں رہنے والی جرمنی یہودی کمیونٹی نے یورپ بھر میں اقلیتی امتیازات کے شکار مسلمانوں کے حق میں اس سے قبل کبھی بھی آواز نہیں اُٹھائی ہے۔ اب کولون کی عدالت کی جانب سے ختنے پر پابندی کو یہودی اپنے خلاف جرمنی میں پائے جانے والی نفرت کا نتیجہ سمجھ رہے ہیں۔ تینوں مذاہب میں ختنہ کے باہمی اشتراک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہود نے اپنے خلاف جرمنی میں نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے کوششیں شروع کر دی ہیں۔ اس غرض کے لیے مسلمانوں اور عیسائیوں کو ساتھ ملایا ہے۔
واضح رہے کہ جرمنی عیسائی ملک ہے تاہم وہاں کا قانون دیگر یورپی ممالک کی طرح اقلیتوں کو تحفظ اور انھیں ان کے دینی شعائر کی ادائیگی کی اجازت دیتا ہے۔ جرمنی میں سب سے بڑی اقلیت مسلمان ہیں، جن کی تعداد چار ملین (چالیس لاکھ) بتائی جاتی ہے جب کہ ان کے مقابلے میں یہودی کمیونٹی کی تعداد فقط ایک لاکھ 20 ہزار ہے، لیکن اس کے باوجود جرمنی کی حکومت مسلمانوں کے لیے ہمیشہ سے امتیازی سلوک برتنے میں ڈنمارک اور بیلجیئم کی طرح سخت واقع ہوئی ہے، حالانکہ یورپ میں اسلام قبول کرنے کی سب سے بڑی شرح جرمنی کے باشندوں کی ہے، جرمن باشندے اسلام اور مسلمانوں سے محبت رکھتے ہیں۔
اس کے باوجود جرمنی میں حجاب پر پابندی لگائی جا چکی ہے جب کہ حلال گوشت کی خرید و فروخت بھی ماضی میں ممنوع قرار دی جا چکی ہے۔ علاوہ ازیں جرمن حکومت ہر سال ملک میں مسلمانوں کے خلاف گرفتاریوں کی مہم چلاتی ہے، لیکن ان کے مقابلے میں یہودیوں کی تعداد کم ہونے کے باوجود بھی انھیں ہر قسم کی سہولیات اور آزادیاں حاصل ہیں اور ان کے خلاف کوئی خاص کارروائی سامنے نہیں آئی ہے جب کہ جرمنی کے یہودی جرمنی کے بجائے اسرائیل کو پسند کرتے ہیں۔
حالانکہ اسرائیل کے اعلیٰ حکومتی عہدیداران جرمنی سے نازی ازم کی وجہ سے نفرت کرتے ہیں اور اسرائیلی مسلح افواج کے اکثر افسران جرمنی کی بنی ہوئی مصنوعات کے استعمال سے گریز بھی کرتے ہیں، انھی وجوہات کی بناء پر یہودیوں کا خیال ہے کہ جرمنی کی حکومت مسلمانوں کے مقابلے میں یہودی کمیونٹی کی زیادہ مخالف ہے اور حالیہ ختنہ پابندی یہودیوں کو تنگ کرنے کے لیے عائد کی گئی یہ جو یہودیوں کے خلاف ایک منظم مہم کا آغاز ہے اور اس وجہ سے انھوں نے مسلمانوں اور عیسائیوں کو ساتھ ملایا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق جرمنی کے میڈیکل ایسوسی ایشن نے تمام ڈاکٹروں سے کہا ہے کہ وہ قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے بچوں کا ختنہ نہ کریں سوائے اس کے کہ یہ عمل طبی طور پر لازم اور ضروری ہو۔ کولون کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی حکم پر عملدرآمد کی اطلاعات ہیں۔ عدالت کے اس حکم کا مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں اور عیسائیوں نے بھی بُرا منایا ہے اور اس کی مذمت کر رہے ہیں۔ ڈاکٹرز اسپتالوں میں ختنہ کرنے سے انکار کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ڈاکٹروں کو بھی شدید پریشانی لاحق ہے کیونکہ گھروں میں نومولود بچوں کے ختنے کے عمل سے بچوں کے جسم سے خون زیادہ بہہ جاتا ہے اور اسپتالوں میں ایسے کئی بچوں کو لایا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس عدالتی پابندی کا سب سے بڑا اثر یہودیوں پر پڑا ہے کیونکہ جرمنی میں ختنہ کرنے والے اسپتالوں کی اکثریت یہودی کمیونٹی کے افراد پر مشتمل ہے، ایک بچے کے ختنے کے عوض وہ تین سے پانچ سو ڈالر فیس وصول کرتے ہیں جب کہ یہودی مذہب میں بچے کی ولادت کے آٹھویں روز ختنہ کرنا لازمی امر ہے۔ جرمنی میں عدالتی پابندی عائد ہونے کے بعد کولون میں ختنے کرنے والا واحد یہودی اسپتال بند کر دیا گیا ہے جہاں ماہانہ کم از کم تین سو بچوں کا ختنہ کیا جاتا تھا۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق جرمنی میں پہلی مرتبہ مسلمان، یہودی اور عیسائی تینوں آسمانی مذاہب کے پیروکار ختنے پر پابندی کے مسئلے پر جرمن حکومت ک خلاف متحد ہو چکے ہیں اور اس کے لیے یورپ بھر کے عیسائیوں اور مذہبی رہنماؤں نے گذشتہ دنوں برلن میں ایک کانفرنس بلائی تھی جس میں تینوں مذاہب کے سرکردہ افراد نے شرکت کی تھی اور عدالت کے اس فیصلے کے خلاف قانونی جنگ لڑنے کا عزم کیا ہے۔
یہودی راہبوں کی یورپی کانفرنس کے صدر پنکاس گولڈ شمٹ نے کہا ہے کہ اگر اس فیصلے کو مزید اداروں نے بھی اپنایا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جرمنی میں آبادی کے بڑے گروہوں کا کوئی مستقبل نہیں رہے گا۔ انھوں نے ملک کے قانون سازوں پر دباؤ میں اضافہ کر دیا ہے کہ وہ ختنے کو قانونی جرم قرار نہ دیں۔جرمنی کی اپوزیشن کی گرین پارٹی کی لیڈر ریناتے کیون آسٹ کا کہنا ہے کہ وہ جرمنی میں یہودیوں اور مسلمانوں کی موجودگی کی حامی ہیں، لیکن وہ بچے کی جسمانی حفاظت اور سلامتی کو بھی ضروری سمجھتی ہیں کہ جرمنی کے آئین میں تحریر ہے کہ ہر شہری کو زندہ رہنے اور ہر قسم کے جانی نقصانات سے محفوظ رہنے کا حق حاصل ہے۔
جرمنی کی گرین پارٹی کے ایک اور رکن فولکر بیک کا کہنا ہے کہ ایک آزاد معاشرے میں ریاست کسی مذہب کو اصلاحات پر مجبور نہیں کر سکتی بلکہ اسے مذہبی برادری کے ضوابط کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرنا ہوتا ہے، مذہبی برادریوں کی جگہ ریاست یہ فیصلہ نہیں کر سکتی کہ ختنہ صحیح ہے یا غلط۔یہاں ہم مذہبی عقائد کو چھیڑے بغیر عالمی ادارہ صحت کی اس وضاحت کی طرف توجہ مبذول کرائیں گے جس میں کہا گیا ہے کہ ''ختنہ کرانا ایڈز سے بچاؤ کی بنیادی تدبیر ہے۔'' اس رپورٹ کی وجہ سے جون 2012 میں زمبابوے کی پارلیمنٹ کے 44 اراکین نے ختنہ کرایا ہے۔