وزیراعظم میاں نواز شریف کے لیے دعا
والٹیئر کا قول ہے کہ ’’کسی قوم کی قسمت کا زیادہ تر دارومدار اس کے وزیراعظم کے نظام ہاضمہ پر ہوتا ہے
پانامہ گیٹ اسکینڈل کے منظر عام پر آتے ہی ہمارے وزیراعظم کو طبی معائنے کے لیے برطانیہ کے دورے کی ضرورت پیش آگئی۔ وہاں ان کے کئی میڈیکل ٹیسٹ ہوئے جس کے بعد انھیںصحت مند قرار دے دیا گیا۔ چنانچہ وہ وطن واپس آگئے۔ اس کے بعد انھوں نے عوامی جلسوں سے خطاب کا سلسلہ شروع کردیا ۔ دریں اثنا انھوں نے بیرونی دورے بھی کیے۔ لیکن چند ہفتوں ہی بعد ان کی طبیعت اچانک پھر ناساز ہوگئی اور 22 مئی کو وہ اپنے علاج معالجے کے لیے لندن روانہ ہوگئے۔ اس مرتبہ ان کے لیے اوپن ہارٹ سرجری تجویز کی گئی۔ بقول شاعر:
یہ معاملہ ہے دل کا
کوئی دل لگی نہیں ہے
والٹیئر کا قول ہے کہ ''کسی قوم کی قسمت کا زیادہ تر دارومدار اس کے وزیراعظم کے نظام ہاضمہ پر ہوتا ہے۔'' بے چاری پاکستانی قوم کا مسئلہ تو اس لحاظ سے اور بھی گمبھیر ہے کیونکہ اس کے وزیراعظم تو دل کا روگ لگا بیٹھے ہیں۔ ان کے حامیوں اور وفاداروں پر بڑا کڑا وقت آن پڑا ہے کیونکہ اس حوالے سے انھیں طرح طرح کی تاویلیں اور صفائیاں پیش کرنا پڑ رہی ہیں۔ کوئی کچھ کہہ رہا ہے اور کوئی کچھ، بس جتنے منہ اتنی ہی باتیں۔ ظاہر ہے کہ ہر ایک کی اپنی سوچ ہے۔ فکر ہر کس بقدر ہمت اوست۔
ڈاکٹر برٹ ای پارک نے اپنی حال ہی میں شایع ہونے والی کتاب The Impact of Illness on World Leaders میں بڑے پتے کی بات کہی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ قائدانہ صلاحیتوں پر بڑھاپے اور بیماری کے اثرات بڑا اہم مسئلہ ہے، جسے لوگ عام طور پر نظرانداز کردیتے ہیں۔ جو معالج برسر اقتدار شخصیات کا طبی معائنہ کرتے ہیں ان کی جان بھی بڑی مشکل میں پھنسی رہتی ہے، کیونکہ انھیں ہر بات صیغہ راز میں رکھنی پڑتی ہے۔ بقول شاعر:
زباں کو حکم ہی کہاں جو داستان غم کہیں
اس کے علاوہ مقتدر شخصیات کے اردگرد کے لوگوں خصوصاً اعلیٰ سرکاری اہلکاروں کو بھی انتہائی محتاط ہونا پڑتا ہے اور اپنے ہونٹوں پر تالے ڈالنے پڑتے ہیں۔ وہ بے چارے بھی اس کے سوائے اور کچھ نہیں کہہ سکتے کہ سب خیر خیریت ہے۔ مگر یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دنیا میں یہ روایت بہت پرانی ہے۔ ہٹلر کی بیماری پر بھی تمام وقت پردہ ہی پڑا رہا تھا۔ تاہم ڈاکٹر پارک کا مشورہ ہے کہ عوامی قائدین کی صحت کی باقاعدگی سے مانیٹرنگ ہونی چاہیے اور اگر انھیں کوئی شدید عارضہ لاحق ہوجائے تو انھیں تبدیل کردینا چاہیے، کیونکہ صحت کا اچھا نہ ہونا ان کی کارکردگی پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ پوری قوم کو وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی علالت پر گہری تشویش ہے اور سب ہی ان کی صحت کی جلد ازجلد بحالی کے لیے اﷲ تعالیٰ سے دعاگو ہیں۔
وزیراعظم کی اچانک علالت نے نہ صرف پوری قوم کو فکرمند کردیا، بلکہ ایک سنگین مسئلہ یہ بھی پیدا ہوگیا کہ ان کی عدم موجودگی میں ملک کی باگ ڈور کون سنبھالے گا۔ چونکہ اس قسم کی صورتحال اس سے پہلے کبھی پیدا نہیں ہوئی تھی، اسی لیے اس مسئلے نے مزید گمبھیر شکل اختیار کرلی۔ سب سے اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ آئین اس بارے میں خاموش ہے۔
نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان آہستہ آہستہ بنانا ری پبلک بنتا جارہا ہے۔ ابھی چند روز پہلے ملا منصور کو ہلاک کرنے کے لیے امریکا نے پاکستان کی سرحدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے بلوچستان کے علاقے پر ڈرون حملہ کردیا اور ہم اس کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے۔ کہاں کی علاقائی سالمیت اور کیسی خودمختاری۔ ملک اندرونی اور بیرونی خطرات میں گھرا ہوا ہے اور ہمارے وزیراعظم لندن میں بستر علالت پر دراز ہیں اور اسکائپ کے ذریعے عنان حکومت سنبھالے ہوئے ہیں۔ بیماری کی نوعیت بھی ایسی ہے کہ ان کا علاج معالجہ طول بھی پکڑ سکتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وزیراعظم کے حواری اس معاملے کی گمبھیرتا کو یہ کہہ کر ہلکا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں کیونکہ کام کسی نہ کسی طرح سے چلتا ہی رہے گا۔ اگر اس استدلال کو تسلیم کرلیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ بقول غالب:
بند ہیں کون سے کام غالب خستہ کے بغیر
اس صورتحال نے غلام محمد کے دور حکمرانی کی یاد تازہ کردی جو اپنی شدید اور مسلسل علالت کے دوران ایک اینگلو انڈین سیکریٹری کی مدد سے کاروبار حکومت چلاتے رہے۔
جمہوریت کا حسن ملاحظہ ہو کہ ملک کے وزیراعظم لندن میں بیٹھ کر ویڈیو لنک کے ذریعے کابینہ کے بجٹ اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں جوکہ انتہائی اہم اجلاس ہوتا ہے۔ صدقے واری جائیے اس جمہوریت کے۔ یہ ملک کس طرح سے چل رہا ہے اس پر ہمیں یہ دلچسپ عبارت یاد آرہی ہے جو شاید آپ نے بھی بعض موٹرگاڑیوں پر لکھی ہوئی دیکھی ہوگی:
کمال ڈرائیور نہ انجن کی خوبی
چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے
وزیراعظم کی علالت کے بارے میں اگر پارلیمان کو پہلے سے اعتماد میں لیا گیا ہوتا اور ان کی عدم موجودگی میں ملک کو چلانے کا کوئی طریقہ کار متفقہ طور پر طے کرلیا جاتا تو یہ جمہوری نظام اور اس کی بقا کے لیے بہت بہتر ہوتا۔ کاش ہم جمہوریت کا محض راگ الاپنے کے بجائے اس کے استحکام کے لیے عملی اور ٹھوس اقدامات کریں تاکہ جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوں اور اس کے پٹڑی سے اترنے کا اندیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔ جمہوریت کی اصل خدمت یہی ہے۔
وزیراعظم کے علاج کے حوالے سے یہ بات قابل ستائش ہے کہ اس سلسلے کے تمام اخراجات ان کی فیملی برداشت کرے گی اور قومی خزانے پر اس کا کوئی بوجھ نہیں پڑنے دیا جائے گا۔ اگر واقعی ایسا ہوا تو یہ آیندہ کے لیے ایک صحت مند اور قابل تقلید روایت ہوگی۔ آخر میں یہ دعائے خیر کہ اللہ تعالیٰ وزیراعظم کو صحت عاجلہ اور شفائے کاملہ عطا فرمائے، آمین۔
(نوٹ: جس وقت یہ کالم تحریر کیا جا رہا تھا اس وقت تک وزیراعظم میاں نواز شریف کا دل کا آپریشن نہیں ہوا تھا۔ ہم ان کے کامیاب آپریشن پر انھیں اور ان کے اہل خانہ کو دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں اور ان کی صحت کی جلد از جلد بحالی کے لیے صدق دل سے دعا بھی کرتے ہیں۔)
یہ معاملہ ہے دل کا
کوئی دل لگی نہیں ہے
والٹیئر کا قول ہے کہ ''کسی قوم کی قسمت کا زیادہ تر دارومدار اس کے وزیراعظم کے نظام ہاضمہ پر ہوتا ہے۔'' بے چاری پاکستانی قوم کا مسئلہ تو اس لحاظ سے اور بھی گمبھیر ہے کیونکہ اس کے وزیراعظم تو دل کا روگ لگا بیٹھے ہیں۔ ان کے حامیوں اور وفاداروں پر بڑا کڑا وقت آن پڑا ہے کیونکہ اس حوالے سے انھیں طرح طرح کی تاویلیں اور صفائیاں پیش کرنا پڑ رہی ہیں۔ کوئی کچھ کہہ رہا ہے اور کوئی کچھ، بس جتنے منہ اتنی ہی باتیں۔ ظاہر ہے کہ ہر ایک کی اپنی سوچ ہے۔ فکر ہر کس بقدر ہمت اوست۔
ڈاکٹر برٹ ای پارک نے اپنی حال ہی میں شایع ہونے والی کتاب The Impact of Illness on World Leaders میں بڑے پتے کی بات کہی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ قائدانہ صلاحیتوں پر بڑھاپے اور بیماری کے اثرات بڑا اہم مسئلہ ہے، جسے لوگ عام طور پر نظرانداز کردیتے ہیں۔ جو معالج برسر اقتدار شخصیات کا طبی معائنہ کرتے ہیں ان کی جان بھی بڑی مشکل میں پھنسی رہتی ہے، کیونکہ انھیں ہر بات صیغہ راز میں رکھنی پڑتی ہے۔ بقول شاعر:
زباں کو حکم ہی کہاں جو داستان غم کہیں
اس کے علاوہ مقتدر شخصیات کے اردگرد کے لوگوں خصوصاً اعلیٰ سرکاری اہلکاروں کو بھی انتہائی محتاط ہونا پڑتا ہے اور اپنے ہونٹوں پر تالے ڈالنے پڑتے ہیں۔ وہ بے چارے بھی اس کے سوائے اور کچھ نہیں کہہ سکتے کہ سب خیر خیریت ہے۔ مگر یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دنیا میں یہ روایت بہت پرانی ہے۔ ہٹلر کی بیماری پر بھی تمام وقت پردہ ہی پڑا رہا تھا۔ تاہم ڈاکٹر پارک کا مشورہ ہے کہ عوامی قائدین کی صحت کی باقاعدگی سے مانیٹرنگ ہونی چاہیے اور اگر انھیں کوئی شدید عارضہ لاحق ہوجائے تو انھیں تبدیل کردینا چاہیے، کیونکہ صحت کا اچھا نہ ہونا ان کی کارکردگی پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ پوری قوم کو وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی علالت پر گہری تشویش ہے اور سب ہی ان کی صحت کی جلد ازجلد بحالی کے لیے اﷲ تعالیٰ سے دعاگو ہیں۔
وزیراعظم کی اچانک علالت نے نہ صرف پوری قوم کو فکرمند کردیا، بلکہ ایک سنگین مسئلہ یہ بھی پیدا ہوگیا کہ ان کی عدم موجودگی میں ملک کی باگ ڈور کون سنبھالے گا۔ چونکہ اس قسم کی صورتحال اس سے پہلے کبھی پیدا نہیں ہوئی تھی، اسی لیے اس مسئلے نے مزید گمبھیر شکل اختیار کرلی۔ سب سے اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ آئین اس بارے میں خاموش ہے۔
نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان آہستہ آہستہ بنانا ری پبلک بنتا جارہا ہے۔ ابھی چند روز پہلے ملا منصور کو ہلاک کرنے کے لیے امریکا نے پاکستان کی سرحدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے بلوچستان کے علاقے پر ڈرون حملہ کردیا اور ہم اس کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے۔ کہاں کی علاقائی سالمیت اور کیسی خودمختاری۔ ملک اندرونی اور بیرونی خطرات میں گھرا ہوا ہے اور ہمارے وزیراعظم لندن میں بستر علالت پر دراز ہیں اور اسکائپ کے ذریعے عنان حکومت سنبھالے ہوئے ہیں۔ بیماری کی نوعیت بھی ایسی ہے کہ ان کا علاج معالجہ طول بھی پکڑ سکتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وزیراعظم کے حواری اس معاملے کی گمبھیرتا کو یہ کہہ کر ہلکا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں کیونکہ کام کسی نہ کسی طرح سے چلتا ہی رہے گا۔ اگر اس استدلال کو تسلیم کرلیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ بقول غالب:
بند ہیں کون سے کام غالب خستہ کے بغیر
اس صورتحال نے غلام محمد کے دور حکمرانی کی یاد تازہ کردی جو اپنی شدید اور مسلسل علالت کے دوران ایک اینگلو انڈین سیکریٹری کی مدد سے کاروبار حکومت چلاتے رہے۔
جمہوریت کا حسن ملاحظہ ہو کہ ملک کے وزیراعظم لندن میں بیٹھ کر ویڈیو لنک کے ذریعے کابینہ کے بجٹ اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں جوکہ انتہائی اہم اجلاس ہوتا ہے۔ صدقے واری جائیے اس جمہوریت کے۔ یہ ملک کس طرح سے چل رہا ہے اس پر ہمیں یہ دلچسپ عبارت یاد آرہی ہے جو شاید آپ نے بھی بعض موٹرگاڑیوں پر لکھی ہوئی دیکھی ہوگی:
کمال ڈرائیور نہ انجن کی خوبی
چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے
وزیراعظم کی علالت کے بارے میں اگر پارلیمان کو پہلے سے اعتماد میں لیا گیا ہوتا اور ان کی عدم موجودگی میں ملک کو چلانے کا کوئی طریقہ کار متفقہ طور پر طے کرلیا جاتا تو یہ جمہوری نظام اور اس کی بقا کے لیے بہت بہتر ہوتا۔ کاش ہم جمہوریت کا محض راگ الاپنے کے بجائے اس کے استحکام کے لیے عملی اور ٹھوس اقدامات کریں تاکہ جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوں اور اس کے پٹڑی سے اترنے کا اندیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔ جمہوریت کی اصل خدمت یہی ہے۔
وزیراعظم کے علاج کے حوالے سے یہ بات قابل ستائش ہے کہ اس سلسلے کے تمام اخراجات ان کی فیملی برداشت کرے گی اور قومی خزانے پر اس کا کوئی بوجھ نہیں پڑنے دیا جائے گا۔ اگر واقعی ایسا ہوا تو یہ آیندہ کے لیے ایک صحت مند اور قابل تقلید روایت ہوگی۔ آخر میں یہ دعائے خیر کہ اللہ تعالیٰ وزیراعظم کو صحت عاجلہ اور شفائے کاملہ عطا فرمائے، آمین۔
(نوٹ: جس وقت یہ کالم تحریر کیا جا رہا تھا اس وقت تک وزیراعظم میاں نواز شریف کا دل کا آپریشن نہیں ہوا تھا۔ ہم ان کے کامیاب آپریشن پر انھیں اور ان کے اہل خانہ کو دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں اور ان کی صحت کی جلد از جلد بحالی کے لیے صدق دل سے دعا بھی کرتے ہیں۔)