چند روز ایران میں

انقلابوں کی کہانیاں سن رکھی تھیں مگرانقلاب کبھی دیکھا نہیں تھا

zulfiqarcheema55@gmail.com

KARACHI:
دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کا جہاںبھی ذکر ہوگا ۔ تہذیب ِفارس کا تذکرہ ضرور ہوگا اورجب بھی دنیا کی عظیم سلطنتوں کی تاریخ لکھی گئی۔ تو رومن ایمپائر کے ساتھ ایرانی سلطنت کا بھی ذکر ہوا۔ اہلِ فارس کو اپنی جاندار تہذیب اور توانا کلچر پر ہمیشہ فخر رہا ہے، دنیائے اسلام کے چوٹی کے فلسفیوں ، شاعروں اور دانشوروں نے فارسی زبان کو ذریعہء ابلاغ بنایا۔کئی صدیوں تک بر صغیر، افغانستان اور سینٹرل ایشیا کے ممالک کی زبان فارسی رہی ہے۔

انقلابوں کی کہانیاں سن رکھی تھیں مگرانقلاب کبھی دیکھا نہیں تھا۔ اور پھرہماری زندگی میں بھی ایک انقلاب آگیا۔ 1978 میں ایک مردِ دوریش کی قیادت میں ایرانیوں نے ایک طاقتور شہنشاہ کا تاج و تحت الٹ دیا۔ انقلابِ ایران کے وقت ہم پنجاب یونیورسٹی لاء کالج کے طالبِعلم تھے۔ امام خمینی فرانس میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے جہاں سے انھوں نے اپنے دو خصوصی نمایندے مولانا مودودیؒ کے پاس لاہوربھیجے تھے۔ امامِ انقلاب کے نمایندوں کا لاہور میںپر جوش استقبال ہوا۔پنجاب یونیورسٹی کے فیصل آڈیٹوریم میں ان کا خطاب سننے کے لیے ہم بھی بڑے شوق سے گئے تھے، پاکستان کے نوجوان داعیانِ انقلاب کو اپنے سروں اور پلکوں پر اٹھائے پھرتے رہے ۔کئی صدیوں بعد دنیا میں ایک اسلامی انقلاب ظہور پذیر ہورہاتھا ۔ پاکستانی قوم نے دل و جان سے اس انقلاب کا خیر مقدم کیا ۔

ایران میں فی لواقعی ایک ناقابلِ یقین انقلاب آگیا۔ کٹر مذہبی طبقہ (Clergy)ایک لبرل اور سیکولر ملک کا حکمران بن گیا، انقلاب اور انقلابیوں پر بڑے مشکل دو ر بھی آئے ۔ انھیں بہت بڑے چیلنج درپیش رہے، ایک بار دھماکے کے نتیجے میں پوری مرکزی قیادت ختم ہوگئی۔ انقلابی ایران دنیا کی واحد سپر پاور امریکا کے خلاف بھی ڈٹا رہا۔ پھر ایران کے خلاف بڑی سخت پابندیاں عائد کردی گئیں۔ ایسی پابندیوںسے قوموں کے اعصاب جواب دے جاتے ہیں اور ان کے حوصلے ٹوٹ جاتے ہیں مگر ایرانی حکومت اپنے موّقف پر قائم رہی اور ایک طویل مدت کے بعد اس نے اپنے موّقف میں لچک پیدا کی اور پابندیاں اٹھانے کا اعلان ہوگیا جس پر پورے ایران میں جشن منایا گیا۔

میں ایک عرصے سے انقلاب کے بعد کاایران دیکھنے کا خواہشمند تھا بچشم خود مشاہدہ کرنا چاہتا تھا کہ انقلاب نے ایرانی معاشرے پر کیسے اثرات مرتب کیے ہیں، راقم نے فیصلہ کرلیا تھا کہ 2016 میں ایران ضرور جانا ہے ۔ لگتا ہے یونیسکو کواس ارادے کی بھنک پڑ گئی کہ اس نے ہماری خواہش پوری کرنے کا اعزاز اپنے نام لکھ لیا۔ یونیسکو کی طرف سے" فنّی تربیّت کے نئے رجحانات پر علاقائی کانفرنس" کی دعوت ملی تو ہم نے فوراً قبول کرلی۔اسلام آباد ائرپورٹ پر ایف ائی اے کاایک افسر (جو پولیس میں ہمارا ماتحت رہ چکا تھا) بڑے ادب آداب سے ملا اور بورڈنگ کارڈ مجھے پکڑاتے ہوئے کہنے لگا "سر بڑی کوشش کرکے آپ کے لیے بڑی اچھی سیٹ لی ہے آپ بڑے آرام سے بیٹھ سکیں گے"۔ میں نے اس کاشکریہ ادا کیا۔ بڑے بھائی ڈاکٹر نثار احمد صاحب ، فاطمہ اور ابوبکر الوداع کہنے کے لیے ائرپورٹ پر آئے تھے، ابوبکر ترکی میں اپنی یونیورسٹی کی باتیں سناتا رہا کہ وقت کا پتہ ہی نہ چلا اور اعلان ہوگیا کہ پرواز کا وقت ہوگیاہے۔

سیٹ دیکھ کر خاصا اطمینان ہوا کہ کھلی جگہ ہے اور ٹانگیں پسار کر بیٹھا جاسکتا ہے ۔ میرے بیٹھنے کے تھوڑی ہی دیر بعد ایک حسینہ میرے پاس آئیں اور آکر پوچھنے لگیں "اگر آپ سمجھ سکتے ہوں تو کیا میں آپ سے انگریزی زبان میں بات شروع کروں؟" میں نے کہا" بسروچشم تم کسی زبان میںبھی بات کرلو" ۔کہنے لگی" آپ کونسی زبان بولتے وقت زیادہ Comforable رہیں گے؟ " اب میں نے سوچا اسے صاف صاف بتادوں کہ بی بی ! تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے میں مستنصر حسین تارڑ نہیں ہوں۔ پھر بھی اس خیال سے کہ کچھ دیرکے لیے گپ شپ میں کیا حرج ہے۔

میں نے کہا "تم مجھ سے انگریزی میں بات کرسکتی ہو"۔ اب وہ ایک دم استانی بن گئی اورمجھ سے کہنا شروع کیاکہ" دیکھیں آپ کو ایمرجنسی گیٹ کے ساتھ سیٹ دی گئی ہے، آپ پیراشوٹ سے اترنے کا تجربہ تو رکھتے ہوںگے؟" میں نے سینہ تان کر کہا "کیوں نہیں بتّیس سال سیکیوریٹی سروسز میں رہا ہوں پیرا شوٹ سے اترنا تو بائیں ہاتھ کا کھیل ہے"۔ کہنے لگی" ویری گڈ ! اس سیٹ پر آپ جیسے تجربہ کار اور خود اعتماد شخص کوہی بیٹھنا چاہیے، دیکھیں ایمرجنسی کی صورت میں آپ کو یہ گیٹ کھولنا ہوگا اور آپ سے توقّع ہے کہ آپ باقی مسافروں کو اتار کر سب سے آخر میں اتریں گے"۔موڈ تو اس کا پہلا فقرہ سنتے ہی خراب ہوچکا تھا، اب ایمرجنسی گیٹ کھول کر پیراشوٹ سے اترنے کا تصّور کیا تو دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی، ایک دفعہ توخیال آیا کہ اسے صاف صاف کہہ دوں کہ "بی بی بڑے اوکھے امتحان وچ پا دّتاای۔ ایس کم لئی کوئی ہور بندہ لبھ لے(بڑے مشکل امتحان میں ڈال دیا ہے، اس کام کے لیے کوئی اور شخص تلاش کرلو)" مگر غیرت نے گوارا نہ کیا اور دعائیں مانگنی شروع کردیں کہ ایمرجنسی گیٹ کھولنے کی نوبت نہ ہی آئے۔

وقت دعاؤں میں کٹ گیا اور خدا خدا کرکے ابو ظہبی ائرپورٹ پر جہاز نے لینڈ کیا تو اطمینان کا سانس لیا۔ میرے سابق ماتحت نے میری خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر میرے لیے اگلی فلائٹ میں بھی اس طرح کی اچھی سیٹ لے رکھی تھی اور اس کا بورڈنگ کارڈ بھی مجھے دے دیاتھا، اگلی پرواز میں بھی مجھے عین ایمرجنسی گیٹ کے ساتھ والی سیٹ ملی۔ وہاں بھی وہی ڈرامہ دہرایا گیا۔ لہٰذا جب فضائی میزبان نے میرے پاس آکر کہا کہ" اگر آپ انگریزی سمجھ اور بول لیتے ہیںتو آپ سے بات کی جاسکتی ہے؟" تو کسی خوش فہمی میں مبتلا ہوئے بغیر میں نے فوراًکہا "بی بی میں نے زندگی بھر پیراشوٹ کوکبھی ہاتھ نہیں لگایا " مگر بی بی کہاں باز آنے والی تھی۔ اس نے ڈرل مکمل کرنا تھی ، گیٹ اور پیراشوٹ کے متعلق اس نے تمام ہدایات دہرائیں تو میرے منہ سے پھر نکلا "بی بی برا کیوں سوچنی ایں۔۔ اﷲ کولوں خیر منگ۔ اﷲ خیر کرے گا(پیراشوٹ والی باتیں کیوں کرتی ہو۔ اﷲ سے خیریت کی دعا کرو۔ اﷲتعالیٰ خیریت رکھیں گے)"۔ تہران ائیرپورٹ پر بخیریت اترگئے تو ائیرہوسٹس نے بڑے متشکرانہ انداز میں میرا شکریہ ادا کیا۔


کچھ ایرانی لڑکیاں جو ابوظہبی ایئرپورٹ کے لاؤنج میں مغربی لباس میں ملبوس تھیں، تہران کی پرواز پر سوار ہوئیں تودورانِ سفر بھی ان کا مغربی انداز برقرار رہا۔ جونہی وہ تہران ائرپورٹ پر اتریں انھوں نے اپنے بیگ اور پرس کھول کر اسکارف اور ایپرن نکال لیے۔ابوظہبی ایئرپورٹ پر سینہ تان کر چلنے والی خواتین نے ایران کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی سر اور سینے ڈھانپ لیے۔ انقلاب نے شہر میں داخل ہونے سے پہلے ہی اپنی موجودگی کا احساس دلادیا۔ پاکستانی سفارتخانے کے ڈرائیور نے ائرپورٹ سے ہوٹل پہنچا دیا۔

ہم اتوار کو علی الصبح تہران پہنچے تھے اورکانفرنس پیرسے شروع ہونا تھی ویسے بھی ساری رات سفر میں کٹی تھی اس لیے نیند سے آنکھیں بوجھل تھیں ،کمرے میں پہنچتے ہی لیٹ گیا۔ ابھی ایک گھنٹہ بھی نہیںگزراتھا کہ فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ ریسیپشنسٹ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہنے لگا " مسٹر صفدر آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں"۔ پروگرام کے مطابق صفدر ہوٹل پہنچ گئے تھے، صفدرCSSکے امتحان کے ذریعے انکم ٹیکس سروس میں آئے تھے اور اپنی دیانتداری ، لگن اور محنت کے سبب پوری سروس میں بڑی عزّت اور احترام سے دیکھے جاتے ہیں۔ 2013 میں جب وطنِ عزیز میں پاسپورٹ ڈیپارٹمنٹ ایک سنگین بحران کا شکار ہوگیا توراقم کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ بحران کی نوعیّت سمجھنے کے فوراً بعدراقم نے محکمے کے بدنام اور ناقابلِ اصلاح عناصر کو فارغ کیااور اپنی ٹیم میں نیک نام لوگوں کو شامل کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔

ان کوششوں کے دوان بہت سے افسروں کے انٹرویو کیے گئے مگر وہ مطلوبہ معیار پر پورا نہ اترے اور بالآخر صفدر صاحب کا (جو ایف بی آر میں سیکریٹری کے عہدے پر تعینات تھے) انتخاب کیا گیا اور انھیں امیگریشن اینڈ پاسپورٹ ڈیپارٹمنٹ میں پراجیکٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر تعینات کیا گیا۔ بلاشبہ صفدر جیسے اعلیٰ کردار کے افسر کسی بھی ادارے کے لیے بہت بڑا سرمایہ ہوتے ہیں۔

بحران حل ہوجانے کے بعد میرا تبادلہ ہوگیا مگر صفدر وہیں رہے اور میرے بعد آنے والے ڈائریکٹر جنرل راجہ سکندرکے تبادلے کے بعد ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر کام کرتے رہے۔ وہیں سے ان کی (ECO)اکنامک کوآپریشن آرگنائزیشن (جو پاکستان، ترکی، ایران اور سینٹرل ایشیا کے ممالک پر مشتمل ہے) میں سلیکشن ہوگئی اور آج کل تہران میں تعیّنات ہیں۔

میں تیار ہوکر نیچے ہوٹل کی لابی میں آگیا جہاں صفدر اور وقار (سرگودھا کا شستہ اطواراور خوش گفتار نوجوان جو آجکل ECOمیں ہی تعینات ہے) میرا انتظار کررہے تھے، میں ان کی معیت یا رہنمائی میں تہران کی سیر کے لیے نکل پڑا۔تہران کو سب سے پہلے قاچار حکمران آغا محمد خان نے دارلحکومت بنایا اس سے پہلے اصفہان اور نیشاپور بھی دارلحکومت رہ چکے ہیں۔کوہِ البرز کے دامن میں واقع ڈیڑھ کروڑ آبادی کے میگاسٹی تہران کے بارے میں سب سے پہلاتاثر۔ اس کی صفائی نے قائم کیا کہیں گندگی یا کوڑے کے ڈھیر نظر نہیں آئے ۔

جگہ جگہ پھولوں اورگھاس کے تراشے ہوئے قطع نظر آئے لگتا تھا کہ ان کی دیکھ بھال اور تراش خراش باقاعدگی سے ہوتی ہے ۔ پوچھا تو معلوم ہوا کہ آدھی رات کے بعد سارے تہران بلکہ ہر شہر کی صفائی ہوتی ہے۔ ایران میں لوکل گورنمنٹ سسٹم بڑا مضبوط اور انتہائی کامیاب ہے تہران میں اربوں ڈالر کے منصوبے میئربناتا ہے اور وہی افتتاح کرتا ہے۔ بلاشبہ لوکل گورنمنٹ سسٹم ہی اصل جمہوریت کی بنیاد ہے۔ انقلاب کی جدوجہد اور قربانیوں کی تاریخ ہر گلی اور ہر چوک پر نظر آتی ہے۔ انقلابی جدوجہد میں جس چوک پر سب سے زیادہ جلسے ہوتے تھے اس کا نام میدانِ انقلاب رکھا گیا جوہمارے ہوٹل کے بالکل قریب تھا۔ کوئی آزادی چوک ہے اور کوئی انقلاب چوک، ہر سڑک ، ہرگلی، ہر چوک، ہرکالج اور یونیورسٹی کا نام کسی شہید کے نام پر رکھا گیا ہے۔ شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کے خلاف جدوجہد میں ہلاکتیں کم ہوئی تھیں اور عمارتیں بھی محفوظ رہی تھیں۔ ایرانیوں کی زیادہ ہلاکتیں انقلاب کے بعد دھماکوں کے نتیجے میں اور پھر عراق کے خلاف جنگ کے دوران ہوئی تھیں۔

سیر کا آغاز صفوی حکمران طہاسپ خان کے زمانے میں تعمیر ہونے والے کاخِ گلستان سے ہوا۔ بادشاہوں کے محلات جہاں بھی دیکھے ایک جیسے ہی نظر آئے، وسیع و عریض، اونچے دروازے ، اونچی چھتیں، وسیع دالان، بڑے بڑے ہال نما دربار اور اپنے زمانے کے لحاظ سے مہنگاترین فرنیچراور سونے اورچاندی کے برتن ۔قدیم محل کے بعد ہم ایران کے آخری بادشاہ رضا شاہ پہلوی کاجدیدمحل (کاخِ نیاوران )دیکھنے گئے۔ زندگی کے آخری سال وہ ملکہ فرح دیبا اور بچّوں کے ساتھ اسی محل میں رہائش پذیرتھے۔ یہ محل دیکھنے کے لیے ٹکٹ لگادیا گیا ہے۔ ایک اہم عمارت پیسہ کمانے کا ذریعہ بن گئی ہے جسکی وجہ سے غیر ملکی ٹورسٹ بھی بڑی تعدادمیں آتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسے حالات ہوتے تو ایسے محل کے بارے میں دو قسم کی آوازیں یا آراء سامنے آتیں اور ان پر عمل ہوچکا ہوتا۔ پہلے آواز بلند ہوتی "اسے آگ لگادو"دوسری آواز آتی" اسے یونیورسٹی بنادو"۔ ہم یا تو اسے جلا چکے ہوتے یا اسے یونیورسٹی بنانے کا غلط فیصلہ کرکے پچھتا رہے ہوتے ۔

(جاری ہے)
Load Next Story