نماز روزہ قربانی و حج
ان افراد پر 2010 کے حج سیزن کے دوران قومی خزانے کو اربوں روپے نقصان پہنچانے کا الزام تھا
حج کرپشن اسکینڈل میں ملوث سابق وفاقی وزیر برائے مذہبی امور اور سابق ایڈیشنل سیکریٹری کو 16,16 سال جب کہ ڈائریکٹر جنرل حج کو 40 سال قید کی سزا کا حکم دیا گیا ہے۔ عدالت نے سابق وزیر کو 14 کروڑ 84 لاکھ جب کہ ڈی جی حج کو 15 کروڑ 14 لاکھ جرمانہ ادا کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ جرمانہ کی عدم ادائیگی کی صورت میں مزید 10 سال تک سزا بھگتنا ہو گی۔
ان افراد پر 2010 کے حج سیزن کے دوران قومی خزانے کو اربوں روپے نقصان پہنچانے کا الزام تھا۔ ان افراد کے خلاف کارروائی کا آغاز سعودی شہزادہ کی جانب سے چیف جسٹس کو لکھے جانے والے ایک خط کے نتیجے میں ہوا، جس میں تحریر تھا کہ اس کے پاس ان کے کرپشن کے ثبوت ہیں۔ خط پر عدالت عظمیٰ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا تھا اور وزیر موصوف کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔ سرکاری خزانے کو صاحب اختیار و اقتدار لوگوں نے شیر مادر سمجھا ہوا ہے، لیکن اﷲ کے مہمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا گیا شرمناک اور گھناؤنا عمل ہے۔
حج اسلام کا پانچواں رکن اور مسلمانوں کی عالمگیر عبادت ہے جو صرف صاحب استطاعت افراد پر فرض کیا گیا ہے لیکن ہر مسلمان کی زندگی کی بڑی تمنا اور آرزو ہوتی ہے، بعض غریب ترین افراد بھی اپنی بنیادی ضروریات اور خواہشات کو پس انداز کر کے یہ فریضہ ادا کرتے ہیں۔ عازمین حج کے لیے شروع میں حکومت نے غیر منافع بخش بنیادوں پر حج پالیسی متعارف کرائی تھی لیکن وزارت مذہبی امور میں خوف خدا سے بے بہرہ، بددیانت اور نااہل افراد کی تعیناتی اور سیاسی مداخلت، مفادات کی وجہ سے اس کی کارکردگی خراب اور شکایتیں عام ہوتی گئیں جن کا تدارک کرنے کے بجائے حکومت نے پرائیویٹ حج ٹور آپریٹرز کو بھی اس میں شامل کر لیا۔
جس کی وجہ سے کرپشن اور ملی بھگت کا نیا سلسلہ وزارت سے ٹور آپریٹر تک دراز ہو گیا۔ عازمین حج و عمرہ کی پریشانیوں اور شکایتوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا حتیٰ کہ اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ کو ایکشن لینا پڑا، سعودی حکومت نے ٹور آپریٹرز کو بلیک لسٹ کیا خود حکومت پاکستان کو بھی سیکڑوں ٹور آپریٹرز کے لائسنس منسوخ کرنا پڑے۔ یہ ایسا منافع بخش کاروبار بن چکا ہے جس میں سرمایہ کاری اور نقصان کا اندیشہ انتہائی کم یا نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ راتوں رات دولت کے ڈھیر لگانے کے مواقع زیادہ ہیں۔
آج کل حج و عمرہ دکھاوا اور فیشن بنتا جا رہا ہے۔ بعض عناصر حج و عمرہ زائرین کے سامان میں منشیات چھپا کر بھیجنے کے دھندے میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ عازمین حج و عمرہ سرکار کے مقابلے میں کئی گنا رقم کے عوض پرائیویٹ ٹور آپریٹرز کی خدمات محض اس لیے حاصل کرتے ہیں کہ انھیں اچھی سہولیات اور معاونت حاصل ہوسکیں۔ ان آپریٹرز سے عازمین کو یہ شکایات عام ہیں کہ وہ معاہدہ پر عملدرآمد نہیں کرتے، نہ حکومتی ادارے ان سے باز پرس کرتے ہیں۔ گزشتہ دو سال سے سرکاری حج مشن کی کارکردگی میں غیر معمولی فرق دیکھنے میں آیا ہے۔
عازمین حج کے مطابق انھیں وہ سہولیات مہیا کی گئیں جن پر پرائیویٹ طور پر حج پر جانے والے حجاج بھی رشک کر رہے تھے۔ جس کی وجہ سے لوگوں میں سرکاری طور پر حج پر جانے کے رجحان میں اضافہ ہوا تھا مگر بدقسمتی سے اس سال حاجیوں کا نصف کوٹہ پرائیویٹ حج ٹور آپریٹرز کے پاس چلا گیا ہے۔ رمضان کے متبرک ماہ کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس ماہ لوگ کثرت سے عمرہ کرتے ہیں، ہفت روزہ، دس روزہ تراویح، شبینوں، شب بیداریوں، سحر و افطار کے بڑے بڑے پروگرام ہوتے ہیں، ٹی وی چینلز پر رمضان کے پروگراموں کے مقابلے چلتے ہیں۔
شہری راشن و خیرات کی تقسیم کی جاتی ہے، جن میں مستحقین اور پیشہ وروں کی خوب درگت بنتی ہے، اس تقسیم کے دوران بھگدڑ و بدانتظامی کی وجہ سے درجنوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، ذخیرہ اندوزی، مہنگائی، خراب و غیر معیاری اشیا کی تیاری و ترسیل، کم تولنا، جھوٹ بولنا، مہنگا بیچنا اور دھوکا دینا اپنا حق و کاروباری مہارت سمجھی جاتی ہے حالانکہ غیر مسلم ممالک میں بھی ایسے موقعوں پر مسلمانوں کو قیمتوں میں خصوصی رعایت دی جاتی ہے۔
رمضان برکت فضیلتوں اور رحمتوں والا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جس میں رحمت و مغفرت اور جہنم سے بریت ہے جس کے متعلق حضورؐ کا ارشاد ہے کہ ''تباہ ہوگیا وہ شخص جس نے رمضان پایا اور اپنی بخشش نہ کرا پایا''۔ رمضان کا مقصد اللہ کا قرب اور اس کی رحمت و مغفرت کا حصول ہے، جس کا بدلہ دینا اللہ نے خود اپنے ذمے لیا ہے لیکن ہم اس بابرکت مہینے میں اپنے عمل سے اللہ کے غضب کو آواز دیتے ہیں۔ رمضان کے نام پر کاموں کو ٹالنا، وعدوں سے انحراف، ادائیگیوں کو موخر کرنا، اپنی بدمزاجیوں اور بداخلاقیوں کو روزے سے نتھی کردینا عام روایت بن چکی ہے۔
رمضان وعید کا چاند دیکھنے کے معاملے میں بھی قوم منتشر ہے، پچھلے کئی برسوں سے ملک کے مختلف حصوں میں چاند کی رویت کا معاملہ اتنا گمبھیر و متنازعہ ہوچکا ہے کہ دو دو کے بجائے تین تین عیدیں بھی منائی گئی ہیں۔ ارباب اختیار کی اس جانب کوئی توجہ ہی نہیں ہے۔ اس سال پہلی بار ایک ساتھ روزہ رکھنے کی خواہش پوری ہورہی ہے۔ راقم نے پچھلے کالموں میں تجویز پیش کی تھی کہ قوم کو مزید انتشار سے بچانے کے لیے کچھ بنیادی عوامل کا ہمیشہ کے لیے تعین کرلینا چاہیے مثلاً (1) پورے ملک میں ایک دن عید منانے کی شرعی ضرورت کیا ہے؟ (2) اس سلسلے میں ملک کی جغرافیائی حدود کیا شرعی یا تکنیکی حیثیت رکھتی ہے؟
کیونکہ ملک کے مختلف حصوں میں مختلف محل وقوع اور موسموں کے فرق کی وجہ سے نماز، سحر و افطار کے اوقات میں فرق کے علاوہ رویت ہلال کمیٹی کے قیام سے قبل عید کے دنوں میں بھی فرق پایا جاتا تھا اور اس پر کسی کو ایک دوسرے سے اختلاف و بدگمانی بھی نہیں ہوتی تھی۔ (3) پوری قوم کے ایک دن عید منانے سے متعلق یہ دلیل بھی وزن رکھتی ہے کہ اسلام میں نظریہ قومیت نہیں بلکہ نظریہ ملت ہے تو پھر پوری ملت ایک ہی دن عید کیوں نہ منائے اور کیا ایسا عملی طور پر ممکن ہے؟ (4) رویت ہلال سے متعلق اگر دائمی کلینڈر مرتب کر لیا جائے تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟
(5) اس سلسلے میں اس تجویز کو بھی زیر غور لانا چاہیے کہ رویت کے مسئلے پر اگر سعودی عرب کی پیروی کی جائے تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہو گی؟ (6) چاند کی رویت اور عمر سے متعلق ماہرین فلکیات و موسمیات کی پیش گوئی یا رائے کے مستند اور معتبر ہونے اور اس کے شرعی طور پر قبولیت اور استفا دے کے متعلق بھی غوروخوص ہونا چاہیے تاکہ ایسے علاقوں کو جہاں چاند پیدا نہ ہونے یا نظر نہ آنے کی رائے دی گئی ہو انھیں کمیٹی کے اجلاس سے قبل ہی غیر معتبر قرار دے کر خارج کر دیا جائے تا کہ بعد میں بدمزگی پیدا نہ ہو۔
حدیث مبارکہ تو یہ ہے کہ ''چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر چھوڑ دو اگر بادل چھائے ہوں تو شعبان سے گنتی پوری کرو۔'' فرمان الٰہی بھی واضح ہے کہ ''انصاف پر قائم رہو، سچی گواہی دو، خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل نہ چھوڑ دینا۔ اگر تم پیچ دار گواہی دو گے یا شہادت سے بچنا چاہو گے تو اللہ خوب واقف ہے۔''آج کے جدید مواصلاتی دور میں گواہی چھپانا یا رد کردینا یا اس سے متعلق خبروں کی ترسیل کو روکنا ممکن امر ہے ایسا کرنے سے انتشار و بدگمانی کی فضا کم ہونے کے بجائے مزید بڑھے گی۔
ہمارے ہاں قربانی کا مذہبی فریضہ بھی دکھاوے کی رسم بنتا جا رہا ہے۔ اسے اللہ کی خوشنودی کے بجائے بچوں کی خوشی و فرمائش اور اپنی ناک کا مسئلہ بنا لیا گیا ہے۔ جائز و ناجائز کسی بھی صورت میں قربانی کرنا، قربانی کے جانوروں کے نام پر رشوت طلب کرنا عام ہوگیا ہے۔ بعض صاحب ثروت افراد اپنے قیمتی جانوروں کی باقاعدہ نمائش کا اہتمام کرتے ہیں۔ جانوروں کو غیر فطری ماحول میں چھتوں پر پال کر عید کے موقع پر کرینوں کے ذریعے چھتوں سے اتارا جاتا ہے۔ جن میں ٹی وی چینلز کے ذریعے سارا پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا دیکھتی ہے جس پر علما خاموشی اختیار کیے رکھتے ہیں اور جانوروں کے حقوق و تحفظ سے متعلق ذمے دار ادارے اور تنظیمیں بھی خاموشی سادھ لیتی ہیں۔ مذہب کے نام پر اس اسلامی ملک میں جو دھینگا مشتی مچی ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔
ان افراد پر 2010 کے حج سیزن کے دوران قومی خزانے کو اربوں روپے نقصان پہنچانے کا الزام تھا۔ ان افراد کے خلاف کارروائی کا آغاز سعودی شہزادہ کی جانب سے چیف جسٹس کو لکھے جانے والے ایک خط کے نتیجے میں ہوا، جس میں تحریر تھا کہ اس کے پاس ان کے کرپشن کے ثبوت ہیں۔ خط پر عدالت عظمیٰ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا تھا اور وزیر موصوف کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔ سرکاری خزانے کو صاحب اختیار و اقتدار لوگوں نے شیر مادر سمجھا ہوا ہے، لیکن اﷲ کے مہمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا گیا شرمناک اور گھناؤنا عمل ہے۔
حج اسلام کا پانچواں رکن اور مسلمانوں کی عالمگیر عبادت ہے جو صرف صاحب استطاعت افراد پر فرض کیا گیا ہے لیکن ہر مسلمان کی زندگی کی بڑی تمنا اور آرزو ہوتی ہے، بعض غریب ترین افراد بھی اپنی بنیادی ضروریات اور خواہشات کو پس انداز کر کے یہ فریضہ ادا کرتے ہیں۔ عازمین حج کے لیے شروع میں حکومت نے غیر منافع بخش بنیادوں پر حج پالیسی متعارف کرائی تھی لیکن وزارت مذہبی امور میں خوف خدا سے بے بہرہ، بددیانت اور نااہل افراد کی تعیناتی اور سیاسی مداخلت، مفادات کی وجہ سے اس کی کارکردگی خراب اور شکایتیں عام ہوتی گئیں جن کا تدارک کرنے کے بجائے حکومت نے پرائیویٹ حج ٹور آپریٹرز کو بھی اس میں شامل کر لیا۔
جس کی وجہ سے کرپشن اور ملی بھگت کا نیا سلسلہ وزارت سے ٹور آپریٹر تک دراز ہو گیا۔ عازمین حج و عمرہ کی پریشانیوں اور شکایتوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا حتیٰ کہ اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ کو ایکشن لینا پڑا، سعودی حکومت نے ٹور آپریٹرز کو بلیک لسٹ کیا خود حکومت پاکستان کو بھی سیکڑوں ٹور آپریٹرز کے لائسنس منسوخ کرنا پڑے۔ یہ ایسا منافع بخش کاروبار بن چکا ہے جس میں سرمایہ کاری اور نقصان کا اندیشہ انتہائی کم یا نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ راتوں رات دولت کے ڈھیر لگانے کے مواقع زیادہ ہیں۔
آج کل حج و عمرہ دکھاوا اور فیشن بنتا جا رہا ہے۔ بعض عناصر حج و عمرہ زائرین کے سامان میں منشیات چھپا کر بھیجنے کے دھندے میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ عازمین حج و عمرہ سرکار کے مقابلے میں کئی گنا رقم کے عوض پرائیویٹ ٹور آپریٹرز کی خدمات محض اس لیے حاصل کرتے ہیں کہ انھیں اچھی سہولیات اور معاونت حاصل ہوسکیں۔ ان آپریٹرز سے عازمین کو یہ شکایات عام ہیں کہ وہ معاہدہ پر عملدرآمد نہیں کرتے، نہ حکومتی ادارے ان سے باز پرس کرتے ہیں۔ گزشتہ دو سال سے سرکاری حج مشن کی کارکردگی میں غیر معمولی فرق دیکھنے میں آیا ہے۔
عازمین حج کے مطابق انھیں وہ سہولیات مہیا کی گئیں جن پر پرائیویٹ طور پر حج پر جانے والے حجاج بھی رشک کر رہے تھے۔ جس کی وجہ سے لوگوں میں سرکاری طور پر حج پر جانے کے رجحان میں اضافہ ہوا تھا مگر بدقسمتی سے اس سال حاجیوں کا نصف کوٹہ پرائیویٹ حج ٹور آپریٹرز کے پاس چلا گیا ہے۔ رمضان کے متبرک ماہ کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس ماہ لوگ کثرت سے عمرہ کرتے ہیں، ہفت روزہ، دس روزہ تراویح، شبینوں، شب بیداریوں، سحر و افطار کے بڑے بڑے پروگرام ہوتے ہیں، ٹی وی چینلز پر رمضان کے پروگراموں کے مقابلے چلتے ہیں۔
شہری راشن و خیرات کی تقسیم کی جاتی ہے، جن میں مستحقین اور پیشہ وروں کی خوب درگت بنتی ہے، اس تقسیم کے دوران بھگدڑ و بدانتظامی کی وجہ سے درجنوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، ذخیرہ اندوزی، مہنگائی، خراب و غیر معیاری اشیا کی تیاری و ترسیل، کم تولنا، جھوٹ بولنا، مہنگا بیچنا اور دھوکا دینا اپنا حق و کاروباری مہارت سمجھی جاتی ہے حالانکہ غیر مسلم ممالک میں بھی ایسے موقعوں پر مسلمانوں کو قیمتوں میں خصوصی رعایت دی جاتی ہے۔
رمضان برکت فضیلتوں اور رحمتوں والا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جس میں رحمت و مغفرت اور جہنم سے بریت ہے جس کے متعلق حضورؐ کا ارشاد ہے کہ ''تباہ ہوگیا وہ شخص جس نے رمضان پایا اور اپنی بخشش نہ کرا پایا''۔ رمضان کا مقصد اللہ کا قرب اور اس کی رحمت و مغفرت کا حصول ہے، جس کا بدلہ دینا اللہ نے خود اپنے ذمے لیا ہے لیکن ہم اس بابرکت مہینے میں اپنے عمل سے اللہ کے غضب کو آواز دیتے ہیں۔ رمضان کے نام پر کاموں کو ٹالنا، وعدوں سے انحراف، ادائیگیوں کو موخر کرنا، اپنی بدمزاجیوں اور بداخلاقیوں کو روزے سے نتھی کردینا عام روایت بن چکی ہے۔
رمضان وعید کا چاند دیکھنے کے معاملے میں بھی قوم منتشر ہے، پچھلے کئی برسوں سے ملک کے مختلف حصوں میں چاند کی رویت کا معاملہ اتنا گمبھیر و متنازعہ ہوچکا ہے کہ دو دو کے بجائے تین تین عیدیں بھی منائی گئی ہیں۔ ارباب اختیار کی اس جانب کوئی توجہ ہی نہیں ہے۔ اس سال پہلی بار ایک ساتھ روزہ رکھنے کی خواہش پوری ہورہی ہے۔ راقم نے پچھلے کالموں میں تجویز پیش کی تھی کہ قوم کو مزید انتشار سے بچانے کے لیے کچھ بنیادی عوامل کا ہمیشہ کے لیے تعین کرلینا چاہیے مثلاً (1) پورے ملک میں ایک دن عید منانے کی شرعی ضرورت کیا ہے؟ (2) اس سلسلے میں ملک کی جغرافیائی حدود کیا شرعی یا تکنیکی حیثیت رکھتی ہے؟
کیونکہ ملک کے مختلف حصوں میں مختلف محل وقوع اور موسموں کے فرق کی وجہ سے نماز، سحر و افطار کے اوقات میں فرق کے علاوہ رویت ہلال کمیٹی کے قیام سے قبل عید کے دنوں میں بھی فرق پایا جاتا تھا اور اس پر کسی کو ایک دوسرے سے اختلاف و بدگمانی بھی نہیں ہوتی تھی۔ (3) پوری قوم کے ایک دن عید منانے سے متعلق یہ دلیل بھی وزن رکھتی ہے کہ اسلام میں نظریہ قومیت نہیں بلکہ نظریہ ملت ہے تو پھر پوری ملت ایک ہی دن عید کیوں نہ منائے اور کیا ایسا عملی طور پر ممکن ہے؟ (4) رویت ہلال سے متعلق اگر دائمی کلینڈر مرتب کر لیا جائے تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟
(5) اس سلسلے میں اس تجویز کو بھی زیر غور لانا چاہیے کہ رویت کے مسئلے پر اگر سعودی عرب کی پیروی کی جائے تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہو گی؟ (6) چاند کی رویت اور عمر سے متعلق ماہرین فلکیات و موسمیات کی پیش گوئی یا رائے کے مستند اور معتبر ہونے اور اس کے شرعی طور پر قبولیت اور استفا دے کے متعلق بھی غوروخوص ہونا چاہیے تاکہ ایسے علاقوں کو جہاں چاند پیدا نہ ہونے یا نظر نہ آنے کی رائے دی گئی ہو انھیں کمیٹی کے اجلاس سے قبل ہی غیر معتبر قرار دے کر خارج کر دیا جائے تا کہ بعد میں بدمزگی پیدا نہ ہو۔
حدیث مبارکہ تو یہ ہے کہ ''چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر چھوڑ دو اگر بادل چھائے ہوں تو شعبان سے گنتی پوری کرو۔'' فرمان الٰہی بھی واضح ہے کہ ''انصاف پر قائم رہو، سچی گواہی دو، خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل نہ چھوڑ دینا۔ اگر تم پیچ دار گواہی دو گے یا شہادت سے بچنا چاہو گے تو اللہ خوب واقف ہے۔''آج کے جدید مواصلاتی دور میں گواہی چھپانا یا رد کردینا یا اس سے متعلق خبروں کی ترسیل کو روکنا ممکن امر ہے ایسا کرنے سے انتشار و بدگمانی کی فضا کم ہونے کے بجائے مزید بڑھے گی۔
ہمارے ہاں قربانی کا مذہبی فریضہ بھی دکھاوے کی رسم بنتا جا رہا ہے۔ اسے اللہ کی خوشنودی کے بجائے بچوں کی خوشی و فرمائش اور اپنی ناک کا مسئلہ بنا لیا گیا ہے۔ جائز و ناجائز کسی بھی صورت میں قربانی کرنا، قربانی کے جانوروں کے نام پر رشوت طلب کرنا عام ہوگیا ہے۔ بعض صاحب ثروت افراد اپنے قیمتی جانوروں کی باقاعدہ نمائش کا اہتمام کرتے ہیں۔ جانوروں کو غیر فطری ماحول میں چھتوں پر پال کر عید کے موقع پر کرینوں کے ذریعے چھتوں سے اتارا جاتا ہے۔ جن میں ٹی وی چینلز کے ذریعے سارا پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا دیکھتی ہے جس پر علما خاموشی اختیار کیے رکھتے ہیں اور جانوروں کے حقوق و تحفظ سے متعلق ذمے دار ادارے اور تنظیمیں بھی خاموشی سادھ لیتی ہیں۔ مذہب کے نام پر اس اسلامی ملک میں جو دھینگا مشتی مچی ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔