طوطن خامن فرعون کا خنجر اور قرآن کا معجزہ
لوہا زمین پر تشکیل نہیں پایا بلکہ ستاروں کے پھٹنے کے عمل سے شہابیوں کی صورت میں ”زمین پر اتارا یا پھینکا گیا ہے‘‘۔
KARACHI:
جہاں مقدس کتاب قرآن کریم کا ایک ایک لفظ معجزے سے کم نہیں ہے وہیں آج ہم آپ کو ایک قرآنی آیت کے حوالے سے ایک نئے معجزے سے متعارف کروانا چاہتے ہیں۔ وہ معجزہ کیا ہے؟ اس کے موضوع کو سمجھنے کیلیئے قرآنی آیت پیش نظر ہے۔
''ہم نے لوہا بھی اتارا جس میں سخت جنگ کے سامان اور لوگوں کے فائدے بھی ہیں۔'' سورہ الحدید (25)
مختلف دھاتوں کا روز مرہ انسانی زندگی میں کردار بہت ہی اہم رہا ہے۔ لوہا جہاں خود بنی نوع انسان کے لیے ایک اہم اور ضروری دھات رہا ہے وہیں صدیوں سے لے کر آج تک ذریعہ معاش میں اس کا اہم کردار رہا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے بھی جب اپنی نعمتوں کی طرف انسان کا دھیان دلوایا اور شکر ادا کرنے کا کہا تو لوہے کی اہمیت بھی بیان کی کہ یہ تمہارے لئے نفع کا ذریعہ ہے لیکن آج ہم اس بات کا موازنہ بطور معجزہ سائنسی تحقیقات سے کریں گے۔
لوہے (iron) کے بارے قرآن کریم کی آیت اور اس لفظ کے لغوی معنی پر غور کریں تو لفظ ''اتارا'' کا استعمال گیا ہے، لیکن جہاں اور بہت ساری نعمتوں کا ذکر ہے وہیں لفظ ''پیدا'' بھی استعمال ہوا ہے۔ بس اگر مندرجہ بالا نکات کو سمجھتے ہوئے غور کیا جائے تو اس آیت کو پڑھنے کے بعد ہمیں یہی سمجھ آتا ہے کہ لوہا زمین پر اتارا گیا ہے، یعنی اگر زمین کی پیدائش کے ساتھ ہی یہ بنا ہوتا تو لفظ ''پیدا'' استعمال کیا جاتا۔ اب ہم اس بات کو جدید سائنسی تحقیقات سے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
موجودہ تحقیق کے مطابق کائنات میں پائی جانے والی بھاری کثافتی دھاتیں بڑے ستاروں کے مرکز (Nucleus) میں پیدا ہوتی ہیں، تاہم ہمارے شمسی نظام کے اندر از خود لوہا پیدا کرنے کے لئے موزوں ڈھانچہ موجود ہی نہیں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سورج سے بہت بڑے سائز کے ستاروں کے اندر ہی پیدا ہوسکتا ہے۔ چونکہ اسے ہمارے سورج کی حدت سے کہیں زیادہ درجہ حرارت مطلوب ہوتا ہے اس لئے اس ڈھانچے کا ہمارے نظام شمسی میں تشکیل پانا ناممکن تھا۔ اگر ہمارے نظام شمسی سے باہر کی بات کریں تو جب بھی کسی ستارے جو کہ ہمارے سورج سے کئی سو گناہ گرم ہے۔ اُن میں بننے والے لوہے کی مقدار ایک خاص حد سے متجاوز ہوجاتی ہے تو وہ اسے زیادہ دیر نہیں سنبھالتا اور ایک بڑے دھماکے کے ساتھ "نوا'' (Nova) یا "سپر نوا'' (Super Nova) کی شکل میں خارج کرتا ہے جو ایک مخصوص قسم کے شہابیے (Meteorites) ہوتے ہیں۔ ان کی بہت بڑی تعداد خلا میں پھیل جاتی ہے اور یہ اس وقت تک حرکت کرتے رہتے ہیں جب تک کسی جرمِ فلکی (Celestial Body) کی قوت جاذبہ یا کشش ثقل انہیں اپنی طرف نہ کھینچ لے۔
امریکی ادارے ناسا میں تحقیقاتی سرگرمیاں انجام دینے والے سائنسدان آرمسٹرانگ سے جب یہ پوچھا گیا کہ زمین میں تمام عناصر کس طرح تشکیل پاتے ہیں؟ تو آرمسٹرنگ نے وضاحت سے اِس کا جواب دیا۔ اُن کے مطابق تشکیل کے مرحلے سے متعلقہ حقائق سائنسدانوں نے حال ہی میں دریافت کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سورج کی ابتدائی مرحلے کی توانائی لوہے کی عنصری تخلیق کے لیے کافی نہیں تھی۔ تفصیل سے وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے بیان کیا کہ "ریاضی کے حساب سے لوہے کے ایک ایٹم کو بنانے کے لئے ہمارے نظام شمسی (جس میں سورج اور آٹھ سیارے شامل ہیں) کی مجموعی توانائی ناکافی ہے۔ لوہے جیسے دھات کے وجود میں آنے کیلئے اس سے کم ازکم چارگنا زیادہ توانائی کی ضرورت ہے۔ سائنسدانوں کو یقین ہے کہ لوہا ایک (Extraterrestrial) ''غیر زمینی شے'' ہے جو کسی دوسرے ذریعے ہی سے زمین پر آئی ہے''۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوہا زمین پر تشکیل نہیں پایا بلکہ ستاروں کے پھٹنے کے عمل سے شہابیوں کی صورت میں "زمین پر اتارا یا پھینکا گیا ہے''۔ بالکل اسی طرح جیسے متذکرہ آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ اب یہ بات واضح ہے کہ اس حقیقت کا سائنسی طور پر ساتویں صدی میں نزول قرآن کے وقت ادراک نہیں ہوسکتا تھا۔ اب ہم چلتے ہیں بالکل اِسی موضوع سے جڑی ایک نئی دریافت کی جانب جو کہ ہمارے مندرجہ بالا موضوع کی تائید بھی کرتی ہے اور قرآن کے بارے آپ کا ایمان مزید مضبوط کرنے کیلیئے بھی کافی ہوگی۔
آج سے 3300 سال قبل وفات پانے والے طوطن خامن جو کہ ایک مشہور فرعون کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ موضوع بھی کسی حد تک اس کے ایک خنجر سے بھی جڑا ہوا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ مصر کے معروف فرعون طوطن خامن کو وفات کے بعد قدیم شاہی رواج کے مطابق ممی بنا دیا گیا تھا۔ رسم کے مطابق شاہی استعمال میں رہنے والی کچھ چیزیں بھی ساتھ دفن کردی جاتی تھیں جن میں سے قابل ذکر کچھ ہتھیار تھے اور ان کے ساتھ دفن کیے جانے والا خنجر تحقیقات کے مطابق ایک شہابیے سے حاصل ہونے والے لوہے سے بنایا گیا تھا۔ یہ ہتھیار ان دو خنجروں میں سے ایک ہے جنھیں سنہ 1925 میں برطانوی ماہر آثار قدیمہ ہاورڈ کارٹر نے دریافت کیا تھا۔
بات صرف یہیں تک نہیں رکی بلکہ خنجر کو زنگ نہ لگنے والے پھل نے تمام محققین کو چکرا کر رکھ دیا کیونکہ اس قسم کی دھات کی قدیم مصر میں موجودگی کوئی معمولی سی بات ہرگز نہیں تھی۔ میٹیوریٹکس اینڈ پلانیٹری سائنس جریدے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق مصر اور اٹلی کے محققین نے اس خنجر کے لوہے کی بناوٹ کی تصدیق کرنے کے لیے بیرونی ایکس رے کی تکنیک کو استعمال کیا اور اس تحقیق کی مرکزی کردار مصنف ڈینیئلا کومیلی کا کہنا ہے کہ 'شہابی لوہے میں واضح طور پر بڑے پیمانے پر ایک دھاتی عنصر جست موجود بھی ہے''۔
یہ تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا تھا کہ 'لوہے کے ساتھ جست اور کوبالٹ کی موجودگی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ابتداء زمین سے باہر کہیں ہوئی۔ اب کسی حد تک اس دھات کا موازنہ اس شہابیے سے کیا جا رہا ہے جو مصری بحیرہ احمر والے ساحل پر دو ہزار کلومیٹر کے دائرے میں کبھی گرا تھا اور خصوصاً ایک اور شہابیہ جو اسکندریہ سے 240 کلومیٹر دور مغرب میں پایا گیا تھا۔ اس میں بھی اسی مقدار میں جست اور کوبالٹ موجود تھا اور اگر آپ اس شائع ہونے والی تحقیق کا مطالعہ کریں تو آپ یقیناً حیران ہوں گے کہ قدیم مصری 13 سو قبل مسیح ہی سے جانتے تھے کہ لوہے کے یہ ٹکڑے آسمان سے گرے ہیں جبکہ یہ بات مغرب کو دو ہزار سال بعد (یعنی آج سے تیرہ سوسال قبل) معلوم ہوئی.
اب اگر بات کی جائے مسلمانوں کی تو انہیں یہ خبر آج سے ساڑھے چودہ سوسال پہلے (یعنی مغرب کے علم میں آنے سے ساڑے ڈیڑھ سو سال قبل) ہی نبی کریم ﷺ نے سنا دی تھی جب مسلمان سائنسی لحاظ سے کچھ خاص تحقیق نہ رکھتے تھے، اور آج آپ یقیناً نبی کریم ﷺ کی خبر اور قرآن کے اس منفرد معجزہ کے معترف ہوں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔