امداد باہمی کا سماج کیسے قائم ہو گا

انقلابیوں کے لیے سوشلزم منزل مقصود نہیں بلکہ راہ گزر ہے۔

zb0322-2284142@gmail.com

انقلابیوں کے لیے سوشلزم منزل مقصود نہیں بلکہ راہ گزر ہے۔ منزل مقصود تو کمیونسٹ سماج یا امداد باہمی کا آزاد معاشرہ ہے۔ صرف چند صدیوں پرانا جبر کا ریاستی ادارہ کیونکر معلوم تاریخ کے پچاس ہزار سال پر محیط قدیم کمیونسٹ یا پنچایتی یا امداد باہمی کا سماج قائم رہا۔ جہاں طبقات تھے، ذاتی ملکیت تھی اور نہ جائیداد۔ مل کر پیداوار کرتے تھے اور مل کر بانٹ لیتے تھے۔

چین کے معروف ماہر سماجیات ثنگ باؤ نے کہا ہے کہ دسیوں ہزار برس قبل چین میں ایسے سماج کو 'نیلی جنت' کہا جا تا تھا،ْ جب کہ ہندوستان میں 'پنچایتی نظام' کہا جاتا تھا، مگر یہ پنچایتی نظام نہیں جو آج کل ہندوستان پرمسلط ہے، جہاں سرپنچ گاؤں کا سب سے بڑا دولت مند آدمی ہوتا ہے، بلکہ قدیم پنچایتی نظام میں سر پنچ کا کوئی وجود نہیں تھا۔ ہاں مگر اجناس کی تقسیم کرنے والا بھاگوان کہلاتا تھا اور سب کو برابرضرورت کے لحاظ سے اجناس تقسیم کرتا تھا اور خود بھی اتنا ہی لیتا تھا جتنا اوروں کو دیتا تھا۔ جب ریاست وجود میں آئی توطبقاتی تفریق کی وجہ سے برابری کا نظام نہ رہا جس کے نتیجے میں بھاگوان اوپر چلا گیا پھر غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا گیا۔ مو ئن جو دڑو، مہرگڑھ، ہڑپہ اور ٹیکسلا میں اسے پانچ اور چھ ہزار سال قبل کمیون نظام قائم تھا۔ وہاں پیداوار کی اجتما عی کاشت ہوتی تھی اور سب مل کر بانٹ لیتے تھے۔

آج ان علاقوں میں سب کچھ دریافت ہوا ہے لیکن اسلحہ نہیں ملا۔ اس لیے کہ طبقات تھے، نجی جائیداد تھی، ملکیت تھی اور نہ ذخیرہ کی ہوئی دولت۔ چونکہ چند لوگوں کے پاس دولت کا انبار نہ تھا، اس لیے کسی کو اپنی حفاظت کے لیے پہرے دارکی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ اس وجہ سے یہ سماج پر امن، خوشحال اور محبت سے لبریز تھا۔ کمیونسٹ سماج ایک خواب ہے، مگر خواب دیکھے بغیر ہم حقیقت کی جانب پیش قدمی کر بھی نہیں سکتے، اگر پرندوں کو دیکھ کر اڑنے کا خواب نہ دیکھتے توہوائی جہاز بھی ایجاد نہ ہوتا۔

انسان نے غلامی نظام کے خاتمے کا خواب دیکھا اور بعد ازاں اسے نسیت و نابودکر دیا ۔ جاگیرداری کے خلاف خواب دیکھا اور اسے بھی چند پسماندہ ملکوں کے علاوہ ختم کر دیا۔ اب سرمایہ داری کے خلاف کمیونزم یا امداد باہمی کا آزاد معاشرے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ہو بہو سو فیصد یا آئیڈئیل خواب نہ ہو۔ ایک خام خاکہ ہو جسے نافذکر نے کے دوران ایک بہتر شکل اختیار کرتی جائے، کمیو نسٹ سماج کی قیام کے بعد ان اداروں کا متبادل خود انحصار، خود مختار اور مقامی بنیا دوں پر انجمنیں اور عبوری عوامی کمیٹیاں قائم ہونگی۔


مثال کے طور پر زراعت کے شعبے کو لے لیں۔ وہاں کسانوں پر مشتمل ایک عبوری کمیٹی تشکیل دے کر زراعت کی پیداوار کے تمام مراحل سے گزرنے کے بعد اگر اس گاؤں کی سو میٹرک ٹن گندم کی ضرورت ہے اور ایک سو پچاس میٹرک ٹن کی پیداوار ہوئی ہے تو اس زائد پیداوار کو پڑوسی گاؤں کی کمیٹی کے حوالے کر دیا جائے گا۔ صنعتوں کی دیکھ بھال، پیداوار، اسٹوریج، سپلائی اور تبادلے ہر فیکٹری کی مزدوروں کی عبو ری عوامی کمیٹیاں انجام دیں گی۔ صنعتی پیداوار ہو یا زراعتی، اشیائے خور و نوش کوکرنسی کے بجائے اجناس کی مابین تبادلے کیے جائیں گے، چونکہ کھیتوں اور فیکٹریوں میں جبری طور پہ من مانے اوقات کار میں کام نہیں لیا جائے گا، اس لیے ہر شخص کے پاس وافر مقدار میں اتنے اوقات کار ہوں گے کہ وہ با آسانی اور خوشی خوشی لوگوں کو تعلیم کے زیورات سے مالا مال کر کے مسرت حاصل کرے گا۔

فوج اور پو لیس کا مکمل خاتمہ کر دیا جائے گا۔ عوام کو دفاع کے لیے مسلح تربیت دی جائے گی، چونکہ پڑوسی ممالک کے خلاف توسیع پسندانہ عزائم ہی نہیں ہوں گے، اس لیے تقریبا جنگ کا تصور بھی ختم ہو جائے گا، اگر محلے، گاؤں یا گلیوں میں کبھی کبھار ناچاقی اور نا خوشگوار جھگڑے ہو بھی جا جائیں تو مقامی عبوری کمیٹیاں متاثرین اور محلے کے لوگوں میں سے ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دیکر فریقین کے مابین بآسانی صلح کروانے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ اس کے باوجود اگرکوئی عوامی فیصلوں کو نہ مانے تو اس کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے گا۔ جب ہر محلے، گاؤں اورگلیوں میں انصاف مہیا ہونے لگیں گے تو پھرموجودہ کرپٹ نظام کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہے گی۔

بے روزگاری سے جرائم جنم لیتے ہیں۔ ہمت والا ڈا کے ڈالتا ہے، مایوس افراد منشیات نوشی کرنے لگتے ہیں۔ کچھ بھیک مانگنے لگتے ہیں۔ عورتیں پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے عزت فروشی کرتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ جب ڈھیروں کارخانے لگائے جائیں گے، کوئی بے روزگار نہیں ہو گا، پھر جرائم بھی رفتہ رفتہ ختم ہو جائیں گے۔ چونکہ سرمایہ داری اور جاگیرداری نہیں ہو گی، اس لیے دو لت مند بھی نہیں ہوں گے، لوگ دولت کس سے چھینیں گے۔ ثقافت، فن، روایات اور کھیل چونکہ پیسوں کے حصول اور دولت مند بننے کے لیے استعمال نہیں ہو گا، اس لیے ثقافتی سرگرمیاں اپنے حقیقی رنگ میں عروج پر ہونگی اور عوام اس کے فوائد سے بھرپور لطف اندوز ہوں گے۔ اس وقت کھربوں ڈالر صرف اسلحے کی پیداوار، تجارت، دیکھ بھال اور استعمال پر ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے ہزاروں لوگ روز قتل ہوتے ہیں، جنگوں میں کروڑوں مارے جاتے ہیں۔

میڈیا پر محنت کش عوام کی سرگرمیوں کے با رے میں نشر ہونے والی خبریں برائے نام ہوتی ہیں، اگر اشتہارات پر اربوں ڈالر خرچ ہو تے ہیں تو اس کے عوض کھربوں ڈالر سرمایہ دار بٹورتا بھی ہے۔ ہمارے سرمایہ دارانہ معاشرے میں مسابقت ہر قدم، ہر شعبے اور ہر موقعے پر ہوتے ہیں۔ مسابقت ختم کر دیں پھر لوگ اپنی بہترین صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے نت نئے، کارآمد اور قابل ذکر روزمرہ کی استعمال کی اشیا اور خور و نوش کی پیداوار ایجاد کریں گے اور انسا نی زندگی کو بامقصد، پرتعیش اور کارآمد بنا دیں گے۔ پھر لوگوں کے پاس تخلیق کر نے کے لیے وافر مقدار میں وقت ہو گا۔

چوبیس گھنٹوں میں صرف دو ایک گھنٹے کام کر نے ہونگے، چونکہ منافع خوری کے لیے اور غیرمحفوظ صنعتوں کی تعمیر کے لیے جنگلات کو جس بے دردی سے کاٹا جا رہا ہے، یہ عمل رک جائیں گے اور دنیا درختوں اور پودوں سے بھر جائے گی۔ نتیجتاً سیلاب، گلوبل وارمنگ اور ماحولیات شفاف اور صاف ستھرے ہو جائیں گے جس کے باعث لوگوں کی زندگی بامسرت اور طویل ہو جائے گی، بیماریاں ختم ہو جائیں گی۔ بیماری کے اسباب ختم کر دیں تو ویسے ہی آدھی بیماری ناپید ہو جائے گی۔ ملاوٹ کی غذا ئیں اور صاف ماحول کی وجہ سے بہت سی بیماریاں نہیں ہونگی۔ مزید بہتری اپنے تجربوں اور عوامل سے لوگ سیکھتے جائیں گے۔ سماج میں کوئی حتمی یا آئیڈیل ہدف نہیں ہو سکتا۔
Load Next Story