قومی تہذیب کی تشکیل کے فکری پہلو آخری حصہ
ھر چاہے اس کا ترجمان ڈونلڈ ٹرمپ بنے یا پھر لندن کے صادق خان صاحب ہوں۔
KARACHI:
انسانیت کا بوجھ، ٹرمپ وصادق خان: تاریخ انسانی گواہ ہے کہ قومی (علاقائی و قبائلی) تشخص کے مادہ پرستانہ انتظام معاشرت اور نظام تمدن کی روشنی میں تشکیل پانے والی تہذیبوں کی جڑوں میں انسانی خون کی آبیاری کی جاتی رہی ہے۔
جب کہ موجودہ عالمی تہذیبی منظرنامے میں دنیا کے کونے کو نے سے تعلق رکھنے وا لے انسانی گروہ اپنے اپنے قومی تشخص کے نکھارکی خاطر وحشت میں مبتلا کرنے والے نتائج کے حامل انھی جدید نظریات کو مقدس و متبرک قرار دینے میں جتے ہوئے ہیں جنھیں تاریخ رد کر چکی ہے۔ کیونکہ گزشتہ چار سوسال سے ان جدید نظریات کا کوئی بھی عملی پہلو گروہوں میں بٹے انسانوںمیں عالمگیر اتحادواعتماد کی فضاء کے قیام کے لیے قابل ذکروسازگار ماحول فراہم کرنے میں ناکام رہتا آیا ہے۔ جب کہ آنے والی مزید چار صدیوںتک ایسا ممکن ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ کیونکہ انسانوں کی موجودہ ترقی کرتی گروہی تقسیم کی عملی منظر کشی ان نظریات کی حقیقت سمجھانے کا بہت بڑا سامان اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
جن میں قومی تشخص کے لیے رات دن ایک کرنے کے نتیجے میں ان کی ریاستوں کے اندر مزید مقامی ثقافتوں کے مضبوط ہونے اور مقامی تشخص کے ابھرنے کے ساتھ ساتھ ان میں خود کے محکوم و معتوب ہونے کا احساس روز بروز شدت اختیار کرتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی احساس محرومی کا رونا رونے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ان نظریات کا سب سے اہم و قابل فکر پہلو ہے۔ جس کو تاریخ میں ایک ہی باپ کی اولاد ہونے کا اعزاز رکھنے والی قوم بنی اسرائیل کے مادہ پرستوں کی تاریخ میں ان کی جانب سے اپنے اسلاف کی تعلیمات و تحقیقات سے روگردانی کے نتیجے میں عالم انسانیت کو یکساں انسانی فطرت کے ہاتھوں خونریزی کی شکل میںظاہر ہونے والے لازمی و حتمی نتائج کی بابت ان کی مادہ پرستی کو مثال بنا کر انھیں تمام تفصیل سے آگاہ بھی کیا گیا تھا۔
''القرآن'' گواہی فراہم کرتا ہے کہ بغیر انسانی خون بہائے عالم انسانیت کی قیادت فراہم کرنے کی خاطر بنی اسرائیل کے محققین، منتظمین و مدبرین (انبیائے کرام ؑ) نے اپنی قوم کو ان کے مادہ پرستانہ انسانی فطرت کو رد کیا ، لاینال عہدالظالمین کے آفاقی تحقیقاتی ایک نکاتی آئین پر مشتمل مضبوط مرکزی حکومت قائم کرنے کا موقعہ فراہم کیا ہوا تھا۔ لیکن ان کے مادہ پرستوں نے جلد ہی تحقیقات و تعلیمات ابراہیم ؑ کی روگردانی میں ارض فلسطین کو اپنے بارہ قبیلوں میں تقسیم کر کے خود کمزور کر دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں داخلی شورشوں اور بیرونی حملوںمیں اضافے نے خونریزی کو جنم دیا اور بنی اسرائیل نے انھی جنگوں میں اپنے تاریخی اثاثے بھی گنوا دیے تھے، جو کہ انسانوں کے موجودہ ارتقائی اظہار میں یکساں طور پر رائج مادہ پرستانہ روش کی بہت ہی واضح عقلی و مادی پیمانوں کے مطابق ناقابل تردید مثال ہے۔
جب کہ ایسی صورتحال کے ارتقائی اظہارکی رو شنی میں سمجھنے کے لیے ہمیں پاکستان میں مرکزکو کمزور کرتی اٹھارہویں ترمیم کے ساتھ قبائلی (برادری) بنیادوں کو مضبوط کرتے مقا می حکومتوں کے قیام اور ان کے بھیانک نتائج کو سامنے رکھنا ہو گا، جنھیں سمجھنے کے لیے کسی لاک، روسو، رسل، ٹوئن بی یا اسٹیفن ہاکنگ کی جگر سوزیوں کے نتیجے میں مرتب شد ہ حوالے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ صرف ان مقامی حکومتوںمیں منتخب ہونے والوں کی ہسٹری جغرافیہ یا فزکس کیمسٹری اور اپنے اپنے محلے میں صفائی عملے کی کارکردگی کو حوالے کے طور پرسامنے رکھ کرآسانی سے سمجھ سکتے ہیں ۔ توکیا ایسا انتظام معاشرت ونظام تمدن عالم انسانیت کا بوجھ اٹھا سکتا ہے؟ پھر چاہے اس کا ترجمان ڈونلڈ ٹرمپ بنے یا پھر لندن کے صادق خان صاحب ہوں۔
منافقانہ شکایت: تاریخ کے طالب علم کو آج سب سے بڑی شکایت یہی ہے کہ جنگوں نے تاریخ اور تہذیبوںکی بہت ساری نشانیوں کو ملیامیٹ کیا ہے، لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج انھوں نے جس انسانی گروہ کواپنی نظری، فکری وعملی ترقی کا ماڈل بنایا ہوا ہے وہ نہ صرف اپنی مادی ومذہبی تاریخ کے نظریات کو مسخ کرنے کا ذمے دار ہے۔
جس کے سبب یہ انسانی گروہ اپنے تاریخی اثاثے اور بنی اسرائیلی تشخص کو بھی گنوا بیٹھے ہیں۔انسانی فطرت کے ناقابل تغیر پذیر مرحلے کو پہنچ جانے والے اس انسانی گروہ سے ہم کون سے عقلی پیمانوں پراپنے تشخص کے نکھار اور عالم انسانیت کی فلاح وبہبودکی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں؟ اس کے باوجود بھی تحریف کے مارے ادیب، دانشور و مفکر اپنی علمی تشنگی کی شکایت میں ان کی متعارف کردہ مادہ پرستانہ وجدیدترقی یافتہ انتظام معاشرت ونظام تمدن کو اپنانے کے مشورے دیتے، اپنی ریاستوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے کن بنیادی نکات پر عالم انسانیت کے اتحاد و یکسانیت کی بات کرتے ہیں؟ وہ، جو ٹھوس عقلی و مادی بنیادوں پر''القرآن'' کے بیان کی گواہی میں فراہم کی گئی دریافتوں اور نشانیوںکو رد کرتے رہنے میں اپنی توانائیاں صرف کر نے میں مصروف ہیں۔ کیا وہ جانتے ہیں کہ ان کے لاینال عہدالظالمین کے اصول کی منافی کرنے کے عمل سے وہ انسانی فطرت کے اس ارتقائی مرحلے میں پہنچ جاتے ہیں۔
جس میں انسان کا مقصود و منتہاء اپنی مادی ترقی کی خاطر عالم انسانیت میں تقسیم در تقسیم، انتشار پھیلاتے رہنے والی شکایات کرنا قراردیا جاتا ہے۔ یعنی مغرب جائیں تو مغربی اور مشرق میں پائے جائیں تو مشرقی۔ اس انسانی فطرتی ارتقائی مرحلے کو عربی میں ''منافقت'' کی اصطلاح سے بیان کیا گیا ہے۔ جس میں انسان کا اپنے مادی مفاد (یعنی ہر ایک طریقے سے آسائش حیات کے وسائل و اسباب کی حاصلات) کے علاوہ کسی اور چیز سے کوئی تعلق نہیں رہتا اور ان مفادات کی حاصلات کے لیے انسان کے اس فطرتی ارتقائی مرحلے میں ان کے تمام اعمال دیگر انسانوں کو کچلنے یا ان کو آپس میں خونریزی کی جانب مائل کرانے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتے۔ اس لحاظ سے موجودہ عالمی حالات میں خونریزگروہی تنازعات کے بڑھاوے میں اساسی کردار ادا کرنے والے مہلک ہتھیاروں کی فیکٹریوں کے مالکان سے لے کر ان کی اسمگلنگ میں ملوث ''ہر ایک پہلو'' قابل غور ہے۔
دنیا پر رائج قانون بین الاقوام، اقوام متحدہ سمیت عالمی مالیاتی و امدای اداروں کے محبوب ترین انتظام معاشرت و نظام تمدن ہی کی بدولت قومی تشخص کے نکھار کے لیے ان نظریات کو اپنانے والے ملکوں میں ہونے والی اندھی لوٹ کھسوٹ سے حاصل ہونے والی دولت کا گھوم پھر کر انھی کے بینکوں میں پہنچ جانا بھی قابل غور پہلو ہے ۔کیونکہ عالمی مالیاتی اداروں کی امداد کے نام پر ریاستوں کے اختیارات اور وسائل پر قبضے کی رفتار بھی اپنی انتہاء کو پہنچی ہوئی ہے۔ کیا موجودہ عالمی حالات میں کشمیروفلسطین سمیت دہشتگردی، کرپشن اور اسمگلنگ کے مسائل پر امریکی قومی تشخص رکھنے والے عالمی ٹھیکیدار اور نام نہاد قانون بین الاقوام کا عملی کردار منافقانہ شکایتوں کے علاوہ بھی کچھ حیثیت یا حقیقت رکھتا ہے؟
ناگزیر پہلو: اس سیاق و سباق میں پاکستان کو سمجھنا ہوگا کہ اس کا نظریاتی تشخص کس حال اور کس ارتقائی مرحلے میں ہے، کیونکہ اس نے اپنے منفرد و لاثانی اجزائے ترکیبی سے رقم تاریخ کے مختصر ترین دورانیے میں گروہی تقسیم سے پاکستانی قومی تشخص کے ساتھ ساتھ ''اُمت ''کے مضبوط مرکزی تشخص کو حاصل کیا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان آج ایٹمی قوت ہے۔ جس کا سہرا جمہوریت کی بجائے افواج پاکستان کے سر پہنایا جائے تو شاید ان کو اعتراض ہو کہ جن کے ہمیشہ زندہ رہتے اور قدم بڑھاتے پائے جاتے ہیں۔ جب کہ آج عالمی طور پر تمام دنیا کا پاکستان سے یہ مطالبہ ہے کہ جمہوریت پٹڑی سے اترگئی تو اسے استبدادواستعمار کو مضبوط کرتے رائج قانون بین الاقوام کے خلاف اعلان بغاوت اور گستاخی قرار دیا جائے گا۔ حالانکہ جس طرح سانحہ پیرس کے بعد فرانس کی جانب سے ایمرجنسی کا اطلاق کرکے ملک فوج کے حوالے کیا گیا تھا۔
بالکل اسی طرح پاکستان نے بھی داخلی طور پر تمام اداروں میں جاری لوٹ کھسوٹ سے ہونے والی تباہ کاریوں کو روکنے کے لیے افواج پاکستان کو دعوت دی ہوئی ہے۔ آپریشن ضرب عضب ، رینجرز آپریشن اور فوجی عدالتوں کا قیام اسی دعوت اور مطالبے کی وجہ سے ہیں اور جہاں ملک کے خوشحال مستقبل اور مستحکم تشخص کو گوادرپورٹ اوراقتصادی راہداری کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ان آپریشنز کے سو فی صدی نتائج ملنے سے منسوب کیا جاچکا ہو۔ وہاں ''اُمت''کے تشخص کے اگلے ارتقائی مرحلے میں پاکستانی قومی تشخص سے متعلق ''گیم چینجرکردار'' کے ارتقائی اظہار میں بنیادی تقسیم اور تفریق کو واضح کیے جانے کی ناگزیریت بھی قابل غور پہلو ہے۔
انسانیت کا بوجھ، ٹرمپ وصادق خان: تاریخ انسانی گواہ ہے کہ قومی (علاقائی و قبائلی) تشخص کے مادہ پرستانہ انتظام معاشرت اور نظام تمدن کی روشنی میں تشکیل پانے والی تہذیبوں کی جڑوں میں انسانی خون کی آبیاری کی جاتی رہی ہے۔
جب کہ موجودہ عالمی تہذیبی منظرنامے میں دنیا کے کونے کو نے سے تعلق رکھنے وا لے انسانی گروہ اپنے اپنے قومی تشخص کے نکھارکی خاطر وحشت میں مبتلا کرنے والے نتائج کے حامل انھی جدید نظریات کو مقدس و متبرک قرار دینے میں جتے ہوئے ہیں جنھیں تاریخ رد کر چکی ہے۔ کیونکہ گزشتہ چار سوسال سے ان جدید نظریات کا کوئی بھی عملی پہلو گروہوں میں بٹے انسانوںمیں عالمگیر اتحادواعتماد کی فضاء کے قیام کے لیے قابل ذکروسازگار ماحول فراہم کرنے میں ناکام رہتا آیا ہے۔ جب کہ آنے والی مزید چار صدیوںتک ایسا ممکن ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ کیونکہ انسانوں کی موجودہ ترقی کرتی گروہی تقسیم کی عملی منظر کشی ان نظریات کی حقیقت سمجھانے کا بہت بڑا سامان اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
جن میں قومی تشخص کے لیے رات دن ایک کرنے کے نتیجے میں ان کی ریاستوں کے اندر مزید مقامی ثقافتوں کے مضبوط ہونے اور مقامی تشخص کے ابھرنے کے ساتھ ساتھ ان میں خود کے محکوم و معتوب ہونے کا احساس روز بروز شدت اختیار کرتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی احساس محرومی کا رونا رونے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ان نظریات کا سب سے اہم و قابل فکر پہلو ہے۔ جس کو تاریخ میں ایک ہی باپ کی اولاد ہونے کا اعزاز رکھنے والی قوم بنی اسرائیل کے مادہ پرستوں کی تاریخ میں ان کی جانب سے اپنے اسلاف کی تعلیمات و تحقیقات سے روگردانی کے نتیجے میں عالم انسانیت کو یکساں انسانی فطرت کے ہاتھوں خونریزی کی شکل میںظاہر ہونے والے لازمی و حتمی نتائج کی بابت ان کی مادہ پرستی کو مثال بنا کر انھیں تمام تفصیل سے آگاہ بھی کیا گیا تھا۔
''القرآن'' گواہی فراہم کرتا ہے کہ بغیر انسانی خون بہائے عالم انسانیت کی قیادت فراہم کرنے کی خاطر بنی اسرائیل کے محققین، منتظمین و مدبرین (انبیائے کرام ؑ) نے اپنی قوم کو ان کے مادہ پرستانہ انسانی فطرت کو رد کیا ، لاینال عہدالظالمین کے آفاقی تحقیقاتی ایک نکاتی آئین پر مشتمل مضبوط مرکزی حکومت قائم کرنے کا موقعہ فراہم کیا ہوا تھا۔ لیکن ان کے مادہ پرستوں نے جلد ہی تحقیقات و تعلیمات ابراہیم ؑ کی روگردانی میں ارض فلسطین کو اپنے بارہ قبیلوں میں تقسیم کر کے خود کمزور کر دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں داخلی شورشوں اور بیرونی حملوںمیں اضافے نے خونریزی کو جنم دیا اور بنی اسرائیل نے انھی جنگوں میں اپنے تاریخی اثاثے بھی گنوا دیے تھے، جو کہ انسانوں کے موجودہ ارتقائی اظہار میں یکساں طور پر رائج مادہ پرستانہ روش کی بہت ہی واضح عقلی و مادی پیمانوں کے مطابق ناقابل تردید مثال ہے۔
جب کہ ایسی صورتحال کے ارتقائی اظہارکی رو شنی میں سمجھنے کے لیے ہمیں پاکستان میں مرکزکو کمزور کرتی اٹھارہویں ترمیم کے ساتھ قبائلی (برادری) بنیادوں کو مضبوط کرتے مقا می حکومتوں کے قیام اور ان کے بھیانک نتائج کو سامنے رکھنا ہو گا، جنھیں سمجھنے کے لیے کسی لاک، روسو، رسل، ٹوئن بی یا اسٹیفن ہاکنگ کی جگر سوزیوں کے نتیجے میں مرتب شد ہ حوالے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ صرف ان مقامی حکومتوںمیں منتخب ہونے والوں کی ہسٹری جغرافیہ یا فزکس کیمسٹری اور اپنے اپنے محلے میں صفائی عملے کی کارکردگی کو حوالے کے طور پرسامنے رکھ کرآسانی سے سمجھ سکتے ہیں ۔ توکیا ایسا انتظام معاشرت ونظام تمدن عالم انسانیت کا بوجھ اٹھا سکتا ہے؟ پھر چاہے اس کا ترجمان ڈونلڈ ٹرمپ بنے یا پھر لندن کے صادق خان صاحب ہوں۔
منافقانہ شکایت: تاریخ کے طالب علم کو آج سب سے بڑی شکایت یہی ہے کہ جنگوں نے تاریخ اور تہذیبوںکی بہت ساری نشانیوں کو ملیامیٹ کیا ہے، لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج انھوں نے جس انسانی گروہ کواپنی نظری، فکری وعملی ترقی کا ماڈل بنایا ہوا ہے وہ نہ صرف اپنی مادی ومذہبی تاریخ کے نظریات کو مسخ کرنے کا ذمے دار ہے۔
جس کے سبب یہ انسانی گروہ اپنے تاریخی اثاثے اور بنی اسرائیلی تشخص کو بھی گنوا بیٹھے ہیں۔انسانی فطرت کے ناقابل تغیر پذیر مرحلے کو پہنچ جانے والے اس انسانی گروہ سے ہم کون سے عقلی پیمانوں پراپنے تشخص کے نکھار اور عالم انسانیت کی فلاح وبہبودکی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں؟ اس کے باوجود بھی تحریف کے مارے ادیب، دانشور و مفکر اپنی علمی تشنگی کی شکایت میں ان کی متعارف کردہ مادہ پرستانہ وجدیدترقی یافتہ انتظام معاشرت ونظام تمدن کو اپنانے کے مشورے دیتے، اپنی ریاستوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے کن بنیادی نکات پر عالم انسانیت کے اتحاد و یکسانیت کی بات کرتے ہیں؟ وہ، جو ٹھوس عقلی و مادی بنیادوں پر''القرآن'' کے بیان کی گواہی میں فراہم کی گئی دریافتوں اور نشانیوںکو رد کرتے رہنے میں اپنی توانائیاں صرف کر نے میں مصروف ہیں۔ کیا وہ جانتے ہیں کہ ان کے لاینال عہدالظالمین کے اصول کی منافی کرنے کے عمل سے وہ انسانی فطرت کے اس ارتقائی مرحلے میں پہنچ جاتے ہیں۔
جس میں انسان کا مقصود و منتہاء اپنی مادی ترقی کی خاطر عالم انسانیت میں تقسیم در تقسیم، انتشار پھیلاتے رہنے والی شکایات کرنا قراردیا جاتا ہے۔ یعنی مغرب جائیں تو مغربی اور مشرق میں پائے جائیں تو مشرقی۔ اس انسانی فطرتی ارتقائی مرحلے کو عربی میں ''منافقت'' کی اصطلاح سے بیان کیا گیا ہے۔ جس میں انسان کا اپنے مادی مفاد (یعنی ہر ایک طریقے سے آسائش حیات کے وسائل و اسباب کی حاصلات) کے علاوہ کسی اور چیز سے کوئی تعلق نہیں رہتا اور ان مفادات کی حاصلات کے لیے انسان کے اس فطرتی ارتقائی مرحلے میں ان کے تمام اعمال دیگر انسانوں کو کچلنے یا ان کو آپس میں خونریزی کی جانب مائل کرانے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتے۔ اس لحاظ سے موجودہ عالمی حالات میں خونریزگروہی تنازعات کے بڑھاوے میں اساسی کردار ادا کرنے والے مہلک ہتھیاروں کی فیکٹریوں کے مالکان سے لے کر ان کی اسمگلنگ میں ملوث ''ہر ایک پہلو'' قابل غور ہے۔
دنیا پر رائج قانون بین الاقوام، اقوام متحدہ سمیت عالمی مالیاتی و امدای اداروں کے محبوب ترین انتظام معاشرت و نظام تمدن ہی کی بدولت قومی تشخص کے نکھار کے لیے ان نظریات کو اپنانے والے ملکوں میں ہونے والی اندھی لوٹ کھسوٹ سے حاصل ہونے والی دولت کا گھوم پھر کر انھی کے بینکوں میں پہنچ جانا بھی قابل غور پہلو ہے ۔کیونکہ عالمی مالیاتی اداروں کی امداد کے نام پر ریاستوں کے اختیارات اور وسائل پر قبضے کی رفتار بھی اپنی انتہاء کو پہنچی ہوئی ہے۔ کیا موجودہ عالمی حالات میں کشمیروفلسطین سمیت دہشتگردی، کرپشن اور اسمگلنگ کے مسائل پر امریکی قومی تشخص رکھنے والے عالمی ٹھیکیدار اور نام نہاد قانون بین الاقوام کا عملی کردار منافقانہ شکایتوں کے علاوہ بھی کچھ حیثیت یا حقیقت رکھتا ہے؟
ناگزیر پہلو: اس سیاق و سباق میں پاکستان کو سمجھنا ہوگا کہ اس کا نظریاتی تشخص کس حال اور کس ارتقائی مرحلے میں ہے، کیونکہ اس نے اپنے منفرد و لاثانی اجزائے ترکیبی سے رقم تاریخ کے مختصر ترین دورانیے میں گروہی تقسیم سے پاکستانی قومی تشخص کے ساتھ ساتھ ''اُمت ''کے مضبوط مرکزی تشخص کو حاصل کیا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان آج ایٹمی قوت ہے۔ جس کا سہرا جمہوریت کی بجائے افواج پاکستان کے سر پہنایا جائے تو شاید ان کو اعتراض ہو کہ جن کے ہمیشہ زندہ رہتے اور قدم بڑھاتے پائے جاتے ہیں۔ جب کہ آج عالمی طور پر تمام دنیا کا پاکستان سے یہ مطالبہ ہے کہ جمہوریت پٹڑی سے اترگئی تو اسے استبدادواستعمار کو مضبوط کرتے رائج قانون بین الاقوام کے خلاف اعلان بغاوت اور گستاخی قرار دیا جائے گا۔ حالانکہ جس طرح سانحہ پیرس کے بعد فرانس کی جانب سے ایمرجنسی کا اطلاق کرکے ملک فوج کے حوالے کیا گیا تھا۔
بالکل اسی طرح پاکستان نے بھی داخلی طور پر تمام اداروں میں جاری لوٹ کھسوٹ سے ہونے والی تباہ کاریوں کو روکنے کے لیے افواج پاکستان کو دعوت دی ہوئی ہے۔ آپریشن ضرب عضب ، رینجرز آپریشن اور فوجی عدالتوں کا قیام اسی دعوت اور مطالبے کی وجہ سے ہیں اور جہاں ملک کے خوشحال مستقبل اور مستحکم تشخص کو گوادرپورٹ اوراقتصادی راہداری کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ان آپریشنز کے سو فی صدی نتائج ملنے سے منسوب کیا جاچکا ہو۔ وہاں ''اُمت''کے تشخص کے اگلے ارتقائی مرحلے میں پاکستانی قومی تشخص سے متعلق ''گیم چینجرکردار'' کے ارتقائی اظہار میں بنیادی تقسیم اور تفریق کو واضح کیے جانے کی ناگزیریت بھی قابل غور پہلو ہے۔