ایک سپر اسٹار چلا گیا

لوگ آتے اور جاتے رہتے ہیں، یہ کارخانہ قدرت ایسا ہی ہے، نئے پھول کھلتے اور پرانے مرجھا جاتے ہیں

anisbaqar@hotmail.com

لوگ آتے اور جاتے رہتے ہیں، یہ کارخانہ قدرت ایسا ہی ہے، نئے پھول کھلتے اور پرانے مرجھا جاتے ہیں مگر 1942ء میں کھلنے والے اس سیاہ گلاب کے متعلق کسی کو کیا خبر تھی کہ اس کی مہک عالمگیر ہو گی، اس کو رنگت کا اثر یعنی محمد علی کو عمر بھر رہا، کیونکہ معنوی اعتبار سے سیاہی کو ہمارے معاشرے میں مثبت طور پر استعمال نہیں کیا گیا ہے، اکثر ہنسی مذاق کے موقع پر محمد علی اس کا اظہار یوں کیا کرتے تھے۔

مثلاً سیاہ بلی، کالا کھانے میں آنا، سیاہی کا منفی اثر۔ مگر ہمارے نبیؐ نے 1437 برس پہلے حضرت بلال کو حرم میں بلندی پر کھڑا کر کے بڑے بڑے دنیاوی مراتب والوں کے سامنے حرم میں سربلند کر کے اذان دلوائی اور عملاً یہ بتایا کہ دیکھو دنیا والو نہ گورے کو کالے پر فوقیت ہے اور نہ کالے کو گورے پر۔ جب کہ محمد علی نے 1960ء میں جب پہلی بار ہیوی ویٹ باکسنگ میں گولڈ میڈل جیتا اور وہ ریستوران میں چائے پینے گئے تو ویٹریس نے ان کو امریکا میں سروس نہ دی۔ آج جس مساوات کا درس جدید دنیا ہمیں دیتی ہے یہ ہمارے رہبر اعظم احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ کا دیا ہوا ہے۔

جس کو مارٹن لوتھر کنگ اور پھر محمد علی ، اور سیکڑوں دانشوروں نے عام کیا اور اس پیغام سے متاثر ہوکر 1964ء میں محمد علی نے اسلام کا دامن پکڑا، وہ بھی صوفیا کا مسلک، آپ نے داتا دربار پر بھی حاضری دی، مگر نرم گوشہ ہر مسلک کے لوگوں کے لیے رکھا، نگاہیں فرش راہ کرتے رہے تمام لوگوں کے لیے، مگر میدان کارزار میں آہن۔ تاریخ عالم میں کوئی بھی ایسا ہیوی ویٹ چیمپئن نہ گزرا جس نے 3 بار یہ اعزاز اپنے سینے پر سجایا ہو اور اپنی حیات میں جہاں جہاں بھی محمد علی کا جسد خاکی جاتا ان کے مداحوں کے ہاتھوں میں گلدستے سجے ہوتے تھے، اپنی اپنی یادوں کو مختلف طریقے سے لوگ سجائے ہوئے تھے۔

ایک آدمی جو حیات نہیں، جو کوئی منفعت دے نہیں سکتا، اس سے اتنا پیار آخر کیوں؟ انجان لوگوں کی طرف سے محض اس لیے کہ ان کے آدرشوں سے محمد علی کو پیار تھا۔ وہ آدرش لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں، عام سادہ لوح لوگوں کے دلوں میں۔ جس طرح انسان کے خون کی رنگت یکساں ہے اسی طرح جذبات اور احساس کا پرتو بھی یکساں ہوتا ہے۔دراصل محمد علی محض ایک بلند پایہ اسپورٹس مین تو تھا ہی مگر اس کے سیاسی اور سماجی افکار بھی بلند تھے۔ اپنی جوانی کے دور میں وہ امریکی باشندے تھے اور وہ عالمی سرد جنگ کا زمانہ تھا، امریکا کا سائیگائی پر قبضہ تھا اور وہیں سے پورے ویتنام پر حملے کرتا تھا۔ جو بھی ویتنام جنگ کی مخالفت کرتا تھا 70-60ء کے عشرے میں، اس کو ملک کا غدار سمجھا جاتا تھا۔

مثلاً اگر آپ کے ملک کی کسی ملک سے جنگ چل رہی ہو اور آپ اپنے ملک کی مخالفت کریں تو یہ عمل کتنا مشکل ہے اور خاص طور پر اگر آپ مشہور شخصیت ہوں۔ ویتنام کی جنگ میں شرکت سے نہ صرف صاف انکار کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ میں کسی ویتنامی کو کیوں ماروں جب کہ کسی ویتنامی نے میرے ملک پر نہ حملہ کیا، نہ میرے لوگوں کو ہلاک کیا، میں خوامخواہ ان کے خلاف کیوں کمربستہ ہو جاؤں؟ محمد علی کا انداز خطابت پرکشش اور جذباتی تھا اور وہ میڈیا سے منسلک رہے، اسی لیے وہ عوام میں مقبول رہے اور ان کا انداز فکر عوام کو متاثر کرتا رہا اور آخرکار ایسے افکار سے جڑے رہنے کی بدولت سیاہ و سفید کی دیوار گر گئی۔محمد علی کو دنیا نے بڑا مقام دیا، بقول مغربی دانشوروں کے محمد علی کی آواز آج ہوانا سے ہنوئی تک، مانٹریال سے پیکنگ تک، جاپان سے آسٹریلیا تک پھیل گئی ہے۔ گو کہ محمد علی کوئی سیاسی لیڈر نہ تھے مگر ان کی روشن خیالی لوگوں میں مقبولیت کا ایک بڑا سبب بنی رہی اور امریکا کی ڈیموکریٹک حکومت نے بھی محمد علی کی موت کو خاصی اہمیت دی۔


امریکی پرچم سرنگوں ہونا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ محمد علی کی موت کو یادگار بنا دینے سے ڈیموکریٹک پارٹی کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہوئی ہے کیونکہ موجودہ الیکشن میں محمد علی کے افکار کی تشہیر ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ پر کھلی ضرب کے مترادف ہے۔ امریکا کے صدارتی امیدوار ٹرمپ نے مسلمانوں کے خلاف ایک زبردست مہم شروع کر رکھی ہے، جب کہ خصوصیت کے ساتھ ہیلری کے سیاسی موقف محمد علی کے افکار سے مماثلت رکھتے ہیں۔

عامر خان بھی محمد علی کے زبردست مداح نکلے۔ چند ماہ قبل جب باکسر عامر خان لندن سے پاکستان آئے تو انھوں نے نہایت خوبصورتی سے کراچی آ کر باکسنگ کلب کا آغاز کیا۔ ان کو اس بات کا ادراک تھا کہ کراچی سے ورلڈ فیم نکلے گا۔ انھوں نے کراچی آ کر محمد علی کے طرز باکسنگ پر روشنی ڈالی تھی اور یہاں ان علاقوں پر توجہ دی جو لوگ ماضی میں افریقی نژاد اور اپنی تاریخ رکھتے ہیں۔ ان کو یقین تھا کہ کراچی کے ان علاقوں سے عظیم باکسر پیدا ہوں گے۔ انھوں نے کراچی میں جو باکسنگ کلب قائم کیے وہ لیاری اور پرانا گولیمار میں، جو نسلی اور جینیاتی اعتبار سے محمد علی کی ہی نسل کے لوگ ہیں اور ان کو وہی گیم پسند ہیں جو افریقی نژاد لوگوں کو پسند ہیں اور جسمانی اعتبار سے یہ لوگ سخت جان اور مضبوط اسٹیمنا کے مالک ہیں۔

اسی لیے عامر خان نے خصوصی طور پر کراچی کے ان دو علاقوں کا انتخاب کیا۔ ان میں انھوں نے ویمن باکسنگ کلب بھی قائم کیے مگر یہ تمام کھیل کود اور اسپورٹس کلب اس وقت تک مقام نہیں پا سکتے جب تک حکومت اور میڈیا ان کی پذیرائی نہ کریں۔ مگر اتنی دور سے بیٹھ کر بھی لوگ محمد علی کی شخصیت سے اتنے متاثر ہو رہے تھے، یہ ایک روحانی اثر ہے جو اعلیٰ قسم کے کردار اور اصول پسندی سے پیدا ہوتے ہیں، یہ روحانی سفر اور بامقصد زندگی گزارنے والوں میں ہی جنم لیتے ہیں، قوتیں روحانی اور مادی کیفیت کو پیدا کرتی ہیں، اسی لیے محمد علی کی موت پر ایسا لگا کہ پاکستان سمیت مغرب ہل کے رہ گیا۔ 24 گھنٹے انھی کی موت اور حیات پر میڈیا پر تذکرے، کیونکہ محمد علی نے کوئی ایسی بات نہیں کہی جو کسی فرقے، مذہب پر گراں گزرے۔ بڑی باتیں کرنا بڑے کردار کی بات ہے، جو محمد علی میں موجود تھیں۔ اسی لیے اس کا جنازہ اس دھوم سے اٹھا کہ شہنشاہ رشک کریں۔ موت کے 3 دن بعد ان کا جسد خاکی اپنے آبائی شہر لیوزویل کینٹکی کے لیے روانہ ہوگیا جہاں ان کی نماز جنازہ ہو گی۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ آج مغرب و مشرق میں محمد علی کے جن اوصاف پر گفتگو ہو رہی ہے لوگوں نے ان کی طویل علالت میں ان کو بھلائے رکھا۔ یہ اس دنیا کا دستور ہے کہ انسان کو وہ بلندی نہ ملی جس کا محمد علی خود اپنی زبان سے بیان کیا کرتے تھے، وہ اپنی زبان سے خود کو گریٹسٹ کہا کرتے تھے، جو موت نے ان کے مرتبے کو آشکار کیا۔ جمعہ 10 جون کو ان کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی اور ان کی عظمت کا جلوس روانہ ہو گا، اس طرح ایک بے مثل اسپورٹس مین تاریخ انسانی میں ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔ واقعی یہ حقیقت ہے کہ:

نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر

نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر
Load Next Story