وادیِ کشمیر کا رابن ہڈ
مقبوضہ کشمیر میں نئی پود غاصب بھارتیوں سے نبرد آزما ہو کر تحریکِ آزادی کی فصل کو اپنے لہو سے سیراب کرنے لگی
یہ 2010ء کے موسم گرما کی بات ہے' برہان اپنے بھائی خالد اور دوست عمران کے ساتھ جنگل کی سیر کرنے موٹر سائیکل پر نکلا۔ وہ وادی کشمیر کے خوبصورت علاقے' ترال میں واقع ایک دیہہ' شریف آباد کا باسی تھا۔
ترال کا علاقہ گھنے جنگلوں' فلک بوس پہاڑوں اور گنگناتے چشموں سے بھرا پڑا ہے۔یہ تینوں کشمیری نوجوان حسین وجمیل فطری مناظر کی دلکشی سے حظ اٹھاتے گپ شپ لگاتے چلے جا رہے تھے کہ ایک جگہ بھارتی فوجیوں نے انہیں روک لیا۔ فوجیوں نے تینوں کشمیری نوجوانوں کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا جیسے وہ ان کے جدی پشتی غلام ہوں۔ پھر انہیں حکم دیا کہ وہ ان کے لیے سگریٹ لے کر آئیں۔ برہان خون کے گھونٹ بھر کر رہ گیا مگر ا پنے بھائی کو بچانے کی خاطر سگریٹیں لے آیا جسے بھارتی فوجیوں نے یرغمال بنا لیا تھا۔ سگریٹیں پا کر فوجیوں نے خالد کو تھپڑ مارے اور تینوں کشمیری نوجوانوں سے پھر حقارت آمیز سلوک کیا۔
برہان کے والد' مظفر احمد وانی علاقے کی معزز شخصیت تھے۔ وہ استاد اور مقامی ہائی سکول کے پرنسپل تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹوں کو صبر و برداشت' نرمی و تحمل کی تعلیم دی تھی ۔ مگر بھارتی فوجیوں کے توہین آمیز سلوک نے خصوصاً برہان مظفر وانی کو چراغ پا کر دیا۔پہلے بھی بھارتی فوجی اس کے گائوں آ کر خواہ مخواہ لوگوں کی تذلیل کرتے تھے۔وہ ظلم کے یہ انسانیت سوز مناظر دیکھ کر پلا بڑھا ۔مگر اب اس میں شعور آ چکا تھا۔وہ غلاموں کی سی زندگی گزارنے کے لیے ہرگز تیار نہ تھا۔ اس نے دل ہی دل فیصلہ کر لیا کہ ظالم اور مغرور بھارتی فوجیوں کو منہ توڑ جواب دیا جائے۔
چند ماہ بعد برہان نے اپنے گھر کو خیر باد کہا اور کشمیری مجاہدین کی صفوں میں جا شامل ہوا جوکم وسیلہ ہوتے ہوئے بھی نہایت د لیری و پامردی سے بھارتی غاصبوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اب گھر کے پُرآسائش ماحول کے بجائے جنگل کی سخت زندگی اس کا ملجا و ماوی بن گئی۔ مگر برہان نے ہنستے کھیلتے اسی نئی زندگی کی سختیاں اور کٹھنائیاں برداشت کیں اور تجربے کار مجاہدین سے عسکری تربیت حاصل کرنے لگا۔
کچھ عرصے بعد برہان کشمیری مجاہدوں کی سب سے بڑی جماعت ''حزب المجاہدین'' میں شامل ہو گیا۔ اس نے پھر ساتھیوں کی معیت میں بھارتی فوجیوں کے خلاف گوریلا کارروائیوں میں حصہ لیا اور کئی معرکوں میں بزدلوں کو ناکوں چنے چبوائے۔ اپنی دلیری و بہادری کے باعث برہان نے مجاہدین کی صفوں میں تیزی سے ترقی کی اور آج وہ ضلع پلوامہ میں حزب المجاہد ین کا کمانڈر بن چکا ہے۔
اخوت اسلامی سے سرشار نوجوان برہان کی سعی ہوتی ہے کہ وہ عام کشمیریوں کو بھارتی سکیورٹی فورسز کے مظالم سے بچائے۔وہ جنگل میں مقیم رہ کر وقتاً فوقتاً ساتھیوں سمیت اپنے سے کہیں زیادہ طاقتور سکیورٹی فورسز پر کاری حملے کرتا ہے۔ اس کا مقابلہ بھارت کی پٹھو مقامی حکومت سے بھی ہے جس کے کرتا دھرتا اقتدار' جاہ اور مال کی ہوس میں گرفتار ہیں۔ جنگلوں میں رہ کر دشمنوں پر وار اور عوام کی حمایت کرنے پر وہ علاقے میں ''رابن ہڈ'' کی حیثیت سے مشہورہو چکا۔
بھارتی حکومت وادی کشمیر کے اس بے باک رابن ہڈ سے بہت تنگ ہے۔ دراصل برہان مظفر کی دلیرانہ کارروائیاں اور بہادری دیکھ کر دیگر کشمیری نوجوان بھی تحریک آزادی میں شامل ہو رہے ہیں۔ حکومت نے برہان کے سر پر دس لاکھ روپے کا انعام مقرر کر رکھا ہے۔ مگر برہان سینہ تان کر غاصبوں پر وار کرتا اور میدان جنگ میں داد شجاعت دیتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ برہان اور دیگر نوجوان کشمیری مجاہدین نے اپنی دلیری اور جوش وولولے سے جدوجہد آزادی کشمیر کے نیم جاں لاشے میں نئی روح پھونک دی ۔
تحریک آزادی کشمیر
برف پوش پہاڑوں' سرسبز مرغزازوں اور دمکتے چشموں کا مسکن خطہ کشمیر ماضی میں بھی امن پسند اور اپنے پرائے سے محبت کرنے والے لوگوں کا دیس رہا ہے۔ یہاں صوفیاء کی تبلیغ سے اسلام پھیلا ۔ان کی تعلیمات کے باعث بھی کشمیری صلح جو اور جنگ وجدل سے پرہیز کرنے والے انسان بن گئے ۔ یہی وجہ ہے ' انہوں نے حملہ آور منگولوں' ترکوں' مغلوں اورافغانوں کے آگے سر تسلیم خم کر دیا۔ تاہم دو سوسال قبل ڈوگرہ ہندوئوں نے ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ کیا' تو انہوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی۔
امن پسند ہونے کی وجہ سے کشمیری عوام ڈوگرہ حکمرانوں کے مظالم برداشت کرتے رہے۔ مگر صبر وبرداشت کی بھی حد ہوتی ہے۔ آخر بیسویں صدی کے اوائل میں بعض کشمیری مسلمانوں نے ڈوگرہ حکومت کے خلاف علم آزادی بلند کر دیا جسے بغاوت کا نام بھی دیا گیا۔
مشہور فرانسیسی ادیب و مفکر' البرٹ کامیو نے اپنی منفرد کتاب''باغی'' (The Rebel)میں لکھا ہے:''ایک انسان اپنی نا انصافیوں کا بدلہ لینے کے علاوہ دوسروں کی خاطر بھی باغی بنتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ بغاوت ہمیشہ انسان کی عزت اور خودی محفوظ و مامون بنانے کے لیے جنم لیتی ہے، چاہے و ہ کہیں بھی سامنے آئے۔'' اسی واسطے دین اسلام میں غازیوں اور شہدا کا مقام نہایت ارفع واعلی ہے جو جان ہتھیلی پر رکھ کر پوری قوم کا دفاع کرتے اور اسے دشمنوں سے بچاتے ہیں۔
تحریک آزادی کشمیر کے مختلف ادوار ہیں۔ بدقسمتی سے دشمنو ں کی چالوں اور اپنوںکی غداری کے باعث یہ تحریک اب تک کامیاب نہیں ہو سکی۔ 1947ء میں اقتدار کے بھوکے ''شیر کشمیر'' نے ریاست جموں وکشمیر کو بھارت کی جھولی میں ڈال دیا۔ 1989 ء کے بعد وادی میں مسلح جدوجہد شروع ہوئی' تو اسے بھارتی خفیہ ایجنسیوں ''را'' اور ''آئی بی'' نے شاطرانہ چالیں چل کے ہائی جیک کر لیا۔پچھلے چند برسوں کے دوران انکشاف ہو چکا کہ مجاہدین کی مختلف تنظیموں کو باہم لڑا دینا بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی مخصوص چال تھی۔
جدوجہد آزادی کا نیا باب
خطہِ کشمیر میں سال 2010ء کا سورج ایک نئے انداز سے طلوع ہوا۔اس سال ماہ اپریل میں بھارتی فوج نے تین کشمیری نوجوان ''پاکستانی درانداز'' قرار دے کر شہید کر ڈالے۔ اس ریاستی دہشت گردی نے پوری وادی میں غم و غصّے کی لہر دوڑا دی۔ نوجوان اور لڑکے بالے جانوں کی پروا کیے بغیر سڑکوں گلیوں میں نکل آئے اور بھارتی درندوں کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔ بھارتی سکیورٹی فورسز نے پتھر کا جواب گولی سے دیا اور ایک سو سے زائد کشمیری شہید کر دیئے۔
بھارتی سکیورٹی فورسز کے خوفناک مظالم نے کشمیری عوام کو باور کرا دیا کہ بھارتی حکمران طبقے کی نظروں میں ان کی حیثیت غلاموں سے بھی کمتر ہے۔ یہ احساس ہواتو ان کے من میں آزادی حاصل کرنے کی امنگ جاگ اٹھی اور وہ بھارتی استعمار کے خلاف نبرد آزما ہو گئے۔ آج پورے مقبوضہ کشمیر میں ہزار ہا کشمیری نوجوان مسلح جدوجہد کے حامی بن چکے... یہ ایک حیرت انگیز انقلاب ہے کیونکہ اب کشمیری نوجوان اپنی روایتی امن پسندی اور صلح جوئی ترک کر کے بھارتی ظالموں کا دلیری سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں ایک اور تعجب خیز تبدیلی یہ آئی کہ اب عام لوگ مجاہدین کے حامی بن رہے ہیں۔ وہ مجاہدین کو پناہ ہی نہیں دیتے بلکہ ضرورت پڑنے پہ انہیں بھارتی فوجیوں سے بچاتے بھی ہیں۔ پچھلے چند برس سے یہ عجوبہ جنم لے چکا کہ بھارتی فوج کسی جگہ مجاہد کو گرفتار کر نے جائے' تو وہاں مرد، عورتیں، بچے غرض پورا گاؤں انھیں دیکھ کر اکٹھا ہو جاتا ہے۔ وہ پھر بھارتی فوجیوں پر بلا خوف و خطر زبردست سنگ باری کرتے ہیں حتیٰ کہ فوجی بزدلوں کی طرح دم دبا کر بھاگنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں۔
ماضی میں کشمیری والدین کی اکثریت اپنے نوجوان بیٹے بیٹیوں کو مسلح جدوجہد آزادی کرنے سے روکتی تھی۔آج ہزار ہا کشمیری خاندان اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ان کے بہادر سپوت بے وسیلہ ہوتے ہوئے بھی طاقتور دشمن سے نبردآزما ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں غازی و شہید کے خاندان کو آج رشک اور ستائش بھری نظروں سے سے دیکھا جاتا ہے۔ جب کوئی مجاہد بھارتی غاصبوں سے دوبدو لڑتا شہید ہو' تو اس کے جنازے پر پورا علاقہ امڈ آتا ہے۔اس موقع پر ''ہمیں آزادی چاہیے'' کے فلک شگاف نعرے بھارتی حکمرانوں کا دل دہلا دیتے ہیں اور انہیں زمین کانپتے ہوئے محسوس ہوتی ہے۔
جب کسی کشمیری خاندان کا نوجوان مجاہدین سے جا ملے تو اس کے سبھی افراد بھارتی سکیورٹی فورسز کی نگاہوں میں مشکوک ٹھہرتے ہیں۔ انہیں پھر مختلف طریقوں سے مصائب اور پریشانیوں میں گرفتار کیا جاتا ہے۔ اس اذیت ناک سلوک کی وجہ سے بھی کئی نوجوان تحریک آزادی کشمیر میں شامل ہونے سے کتراتے تھے۔ مگر مقبوضہ کشمیر میں یہ بے مثال تبدیلی بھی آئی کہ اب ہزار ہا خاندان آزادی کی خاطر ہر قسم کی مصیبت و پریشانی جھیلنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا کوئی نوجوان مجاہدین سے جا ملے تو اب وہ اسے نہیں روکتے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں چاہے بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں انہیں اذیت ناک سلوک برداشت کرنا پڑے۔اس تبدیلی کی بہترین مثال مظفر احمد وانی ہیں جو تمام تر حکومتی دبائو کے باوجود اپنے بیٹے کی جدوجہد کو جائز قرار دیتے اور اس کی دلیری کے بہت مداح ہیں۔بھارتی فوج ان کے بیٹے خالد کو شہید کرچکی۔
تحریک آزادی کشمیر میں ایک اور بڑی تبدیلی جنم لے چکی۔ ماضی میں کشمیری نوجوان تحریک آزادی سے اپنا تعلق خفیہ رکھتے تھے مگر یہ رجحان بھی ختم ہو رہا ہے۔ اب مقبوضہ کشمیر کے نوجوان اسلحہ تھامے اور چہرے پر فخر کی مسکراہٹیں سجائے تصاویر کھنچواتے اور طمطراق سے انہیں سوشل میڈیا میں پھیلاتے ہیں۔ جہاد ان کا زیور ہے اور بہادری ان کی باندی! وہ سبھی کشمیری نوجوانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ خطہ کشمیر کو بھارتی غاصبوں کے چنگل سے چھڑانے کی خاطر کھڑے ہو جاؤ اور اسلحہ تھام لو ۔یہ نوجوان آزادی حاصل کرنے تک چین سے بیٹھنے کو تیار نہیں اور ظالموں کا قلع قمع چاہتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکمران طبقے نے سات لاکھ سے زائد سپاہ بٹھا رکھی ہے۔ اس کے باوجود یہ فوج ظفر موج کشمیر میں آزادی کی شمع بجھا نہ سکی جس کی لو اب آہستہ آہستہ شعلہ جوالا بن رہی ہے۔ وہ دن دور نہیں جب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز کو قدم قدم پر مجاہدین کے زبردست حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اُدھر بھارتی میڈیا اس امر پر بہت تشویش کا اظہار کر رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی گھر گھر پھیل رہی ہے۔ کیا بچے' کیابڑے' سبھی اب اپنے دیس کو ہندوؤں اور ان کے پٹھو مسلمانوں کی قید سے آزاد دیکھنا چاہتے ہیں ۔ پہلے بھارتی میڈیا اپنے حکمرانوں کی طرح یہی رٹ لگائے رکھتا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں آئی ایس آئی ''دہشت گردی'' کرا رہی ہے۔ لیکن اب کشمیری نوجوانوں کو مجاہدین کے روپ میں دیکھ کر بھارتی میڈیا گنگ ہے۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی کہ نرم مزاج اور شریفانہ طبیعت رکھنے والے کشمیری نوجوان ہتھیار کیوں اٹھا رہے ہیں۔یہ بات سمجھنے کے لیے بھارتی میڈیا کو دور جدید کے سب سے بڑے باغی، نیلسن منڈیلا کا قول پڑھنا چا ہے:''جب انسان کو حسب خواہش زندگی نہ گزارنے دی جائے تو وہ بندوق تھام لیتا ہے۔''
کشمیری تو پچھلے دو سو برس سے حسب منشا اپنی زندگیاں نہیں گزار پا رہے۔ آج بھی وہ لاکھوں بھارتی فوجیوں کی بندوقوں کے سائے تلے زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں ۔مگر ظلم و ستم کا سلسلہ کبھی نہ کبھی ختم ہو کر رہتا ہے۔ اب ظالموں کے دن گنے جا چکے اور مقبوضہ کشمیر میں آزادی کا تابناک و روشن سورج ضرور طلوع ہو گا' انشاء اللہ!
ترال کا علاقہ گھنے جنگلوں' فلک بوس پہاڑوں اور گنگناتے چشموں سے بھرا پڑا ہے۔یہ تینوں کشمیری نوجوان حسین وجمیل فطری مناظر کی دلکشی سے حظ اٹھاتے گپ شپ لگاتے چلے جا رہے تھے کہ ایک جگہ بھارتی فوجیوں نے انہیں روک لیا۔ فوجیوں نے تینوں کشمیری نوجوانوں کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا جیسے وہ ان کے جدی پشتی غلام ہوں۔ پھر انہیں حکم دیا کہ وہ ان کے لیے سگریٹ لے کر آئیں۔ برہان خون کے گھونٹ بھر کر رہ گیا مگر ا پنے بھائی کو بچانے کی خاطر سگریٹیں لے آیا جسے بھارتی فوجیوں نے یرغمال بنا لیا تھا۔ سگریٹیں پا کر فوجیوں نے خالد کو تھپڑ مارے اور تینوں کشمیری نوجوانوں سے پھر حقارت آمیز سلوک کیا۔
برہان کے والد' مظفر احمد وانی علاقے کی معزز شخصیت تھے۔ وہ استاد اور مقامی ہائی سکول کے پرنسپل تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹوں کو صبر و برداشت' نرمی و تحمل کی تعلیم دی تھی ۔ مگر بھارتی فوجیوں کے توہین آمیز سلوک نے خصوصاً برہان مظفر وانی کو چراغ پا کر دیا۔پہلے بھی بھارتی فوجی اس کے گائوں آ کر خواہ مخواہ لوگوں کی تذلیل کرتے تھے۔وہ ظلم کے یہ انسانیت سوز مناظر دیکھ کر پلا بڑھا ۔مگر اب اس میں شعور آ چکا تھا۔وہ غلاموں کی سی زندگی گزارنے کے لیے ہرگز تیار نہ تھا۔ اس نے دل ہی دل فیصلہ کر لیا کہ ظالم اور مغرور بھارتی فوجیوں کو منہ توڑ جواب دیا جائے۔
چند ماہ بعد برہان نے اپنے گھر کو خیر باد کہا اور کشمیری مجاہدین کی صفوں میں جا شامل ہوا جوکم وسیلہ ہوتے ہوئے بھی نہایت د لیری و پامردی سے بھارتی غاصبوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اب گھر کے پُرآسائش ماحول کے بجائے جنگل کی سخت زندگی اس کا ملجا و ماوی بن گئی۔ مگر برہان نے ہنستے کھیلتے اسی نئی زندگی کی سختیاں اور کٹھنائیاں برداشت کیں اور تجربے کار مجاہدین سے عسکری تربیت حاصل کرنے لگا۔
کچھ عرصے بعد برہان کشمیری مجاہدوں کی سب سے بڑی جماعت ''حزب المجاہدین'' میں شامل ہو گیا۔ اس نے پھر ساتھیوں کی معیت میں بھارتی فوجیوں کے خلاف گوریلا کارروائیوں میں حصہ لیا اور کئی معرکوں میں بزدلوں کو ناکوں چنے چبوائے۔ اپنی دلیری و بہادری کے باعث برہان نے مجاہدین کی صفوں میں تیزی سے ترقی کی اور آج وہ ضلع پلوامہ میں حزب المجاہد ین کا کمانڈر بن چکا ہے۔
اخوت اسلامی سے سرشار نوجوان برہان کی سعی ہوتی ہے کہ وہ عام کشمیریوں کو بھارتی سکیورٹی فورسز کے مظالم سے بچائے۔وہ جنگل میں مقیم رہ کر وقتاً فوقتاً ساتھیوں سمیت اپنے سے کہیں زیادہ طاقتور سکیورٹی فورسز پر کاری حملے کرتا ہے۔ اس کا مقابلہ بھارت کی پٹھو مقامی حکومت سے بھی ہے جس کے کرتا دھرتا اقتدار' جاہ اور مال کی ہوس میں گرفتار ہیں۔ جنگلوں میں رہ کر دشمنوں پر وار اور عوام کی حمایت کرنے پر وہ علاقے میں ''رابن ہڈ'' کی حیثیت سے مشہورہو چکا۔
بھارتی حکومت وادی کشمیر کے اس بے باک رابن ہڈ سے بہت تنگ ہے۔ دراصل برہان مظفر کی دلیرانہ کارروائیاں اور بہادری دیکھ کر دیگر کشمیری نوجوان بھی تحریک آزادی میں شامل ہو رہے ہیں۔ حکومت نے برہان کے سر پر دس لاکھ روپے کا انعام مقرر کر رکھا ہے۔ مگر برہان سینہ تان کر غاصبوں پر وار کرتا اور میدان جنگ میں داد شجاعت دیتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ برہان اور دیگر نوجوان کشمیری مجاہدین نے اپنی دلیری اور جوش وولولے سے جدوجہد آزادی کشمیر کے نیم جاں لاشے میں نئی روح پھونک دی ۔
تحریک آزادی کشمیر
برف پوش پہاڑوں' سرسبز مرغزازوں اور دمکتے چشموں کا مسکن خطہ کشمیر ماضی میں بھی امن پسند اور اپنے پرائے سے محبت کرنے والے لوگوں کا دیس رہا ہے۔ یہاں صوفیاء کی تبلیغ سے اسلام پھیلا ۔ان کی تعلیمات کے باعث بھی کشمیری صلح جو اور جنگ وجدل سے پرہیز کرنے والے انسان بن گئے ۔ یہی وجہ ہے ' انہوں نے حملہ آور منگولوں' ترکوں' مغلوں اورافغانوں کے آگے سر تسلیم خم کر دیا۔ تاہم دو سوسال قبل ڈوگرہ ہندوئوں نے ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ کیا' تو انہوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی۔
امن پسند ہونے کی وجہ سے کشمیری عوام ڈوگرہ حکمرانوں کے مظالم برداشت کرتے رہے۔ مگر صبر وبرداشت کی بھی حد ہوتی ہے۔ آخر بیسویں صدی کے اوائل میں بعض کشمیری مسلمانوں نے ڈوگرہ حکومت کے خلاف علم آزادی بلند کر دیا جسے بغاوت کا نام بھی دیا گیا۔
مشہور فرانسیسی ادیب و مفکر' البرٹ کامیو نے اپنی منفرد کتاب''باغی'' (The Rebel)میں لکھا ہے:''ایک انسان اپنی نا انصافیوں کا بدلہ لینے کے علاوہ دوسروں کی خاطر بھی باغی بنتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ بغاوت ہمیشہ انسان کی عزت اور خودی محفوظ و مامون بنانے کے لیے جنم لیتی ہے، چاہے و ہ کہیں بھی سامنے آئے۔'' اسی واسطے دین اسلام میں غازیوں اور شہدا کا مقام نہایت ارفع واعلی ہے جو جان ہتھیلی پر رکھ کر پوری قوم کا دفاع کرتے اور اسے دشمنوں سے بچاتے ہیں۔
تحریک آزادی کشمیر کے مختلف ادوار ہیں۔ بدقسمتی سے دشمنو ں کی چالوں اور اپنوںکی غداری کے باعث یہ تحریک اب تک کامیاب نہیں ہو سکی۔ 1947ء میں اقتدار کے بھوکے ''شیر کشمیر'' نے ریاست جموں وکشمیر کو بھارت کی جھولی میں ڈال دیا۔ 1989 ء کے بعد وادی میں مسلح جدوجہد شروع ہوئی' تو اسے بھارتی خفیہ ایجنسیوں ''را'' اور ''آئی بی'' نے شاطرانہ چالیں چل کے ہائی جیک کر لیا۔پچھلے چند برسوں کے دوران انکشاف ہو چکا کہ مجاہدین کی مختلف تنظیموں کو باہم لڑا دینا بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی مخصوص چال تھی۔
جدوجہد آزادی کا نیا باب
خطہِ کشمیر میں سال 2010ء کا سورج ایک نئے انداز سے طلوع ہوا۔اس سال ماہ اپریل میں بھارتی فوج نے تین کشمیری نوجوان ''پاکستانی درانداز'' قرار دے کر شہید کر ڈالے۔ اس ریاستی دہشت گردی نے پوری وادی میں غم و غصّے کی لہر دوڑا دی۔ نوجوان اور لڑکے بالے جانوں کی پروا کیے بغیر سڑکوں گلیوں میں نکل آئے اور بھارتی درندوں کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔ بھارتی سکیورٹی فورسز نے پتھر کا جواب گولی سے دیا اور ایک سو سے زائد کشمیری شہید کر دیئے۔
بھارتی سکیورٹی فورسز کے خوفناک مظالم نے کشمیری عوام کو باور کرا دیا کہ بھارتی حکمران طبقے کی نظروں میں ان کی حیثیت غلاموں سے بھی کمتر ہے۔ یہ احساس ہواتو ان کے من میں آزادی حاصل کرنے کی امنگ جاگ اٹھی اور وہ بھارتی استعمار کے خلاف نبرد آزما ہو گئے۔ آج پورے مقبوضہ کشمیر میں ہزار ہا کشمیری نوجوان مسلح جدوجہد کے حامی بن چکے... یہ ایک حیرت انگیز انقلاب ہے کیونکہ اب کشمیری نوجوان اپنی روایتی امن پسندی اور صلح جوئی ترک کر کے بھارتی ظالموں کا دلیری سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں ایک اور تعجب خیز تبدیلی یہ آئی کہ اب عام لوگ مجاہدین کے حامی بن رہے ہیں۔ وہ مجاہدین کو پناہ ہی نہیں دیتے بلکہ ضرورت پڑنے پہ انہیں بھارتی فوجیوں سے بچاتے بھی ہیں۔ پچھلے چند برس سے یہ عجوبہ جنم لے چکا کہ بھارتی فوج کسی جگہ مجاہد کو گرفتار کر نے جائے' تو وہاں مرد، عورتیں، بچے غرض پورا گاؤں انھیں دیکھ کر اکٹھا ہو جاتا ہے۔ وہ پھر بھارتی فوجیوں پر بلا خوف و خطر زبردست سنگ باری کرتے ہیں حتیٰ کہ فوجی بزدلوں کی طرح دم دبا کر بھاگنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں۔
ماضی میں کشمیری والدین کی اکثریت اپنے نوجوان بیٹے بیٹیوں کو مسلح جدوجہد آزادی کرنے سے روکتی تھی۔آج ہزار ہا کشمیری خاندان اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ان کے بہادر سپوت بے وسیلہ ہوتے ہوئے بھی طاقتور دشمن سے نبردآزما ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں غازی و شہید کے خاندان کو آج رشک اور ستائش بھری نظروں سے سے دیکھا جاتا ہے۔ جب کوئی مجاہد بھارتی غاصبوں سے دوبدو لڑتا شہید ہو' تو اس کے جنازے پر پورا علاقہ امڈ آتا ہے۔اس موقع پر ''ہمیں آزادی چاہیے'' کے فلک شگاف نعرے بھارتی حکمرانوں کا دل دہلا دیتے ہیں اور انہیں زمین کانپتے ہوئے محسوس ہوتی ہے۔
جب کسی کشمیری خاندان کا نوجوان مجاہدین سے جا ملے تو اس کے سبھی افراد بھارتی سکیورٹی فورسز کی نگاہوں میں مشکوک ٹھہرتے ہیں۔ انہیں پھر مختلف طریقوں سے مصائب اور پریشانیوں میں گرفتار کیا جاتا ہے۔ اس اذیت ناک سلوک کی وجہ سے بھی کئی نوجوان تحریک آزادی کشمیر میں شامل ہونے سے کتراتے تھے۔ مگر مقبوضہ کشمیر میں یہ بے مثال تبدیلی بھی آئی کہ اب ہزار ہا خاندان آزادی کی خاطر ہر قسم کی مصیبت و پریشانی جھیلنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا کوئی نوجوان مجاہدین سے جا ملے تو اب وہ اسے نہیں روکتے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں چاہے بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں انہیں اذیت ناک سلوک برداشت کرنا پڑے۔اس تبدیلی کی بہترین مثال مظفر احمد وانی ہیں جو تمام تر حکومتی دبائو کے باوجود اپنے بیٹے کی جدوجہد کو جائز قرار دیتے اور اس کی دلیری کے بہت مداح ہیں۔بھارتی فوج ان کے بیٹے خالد کو شہید کرچکی۔
تحریک آزادی کشمیر میں ایک اور بڑی تبدیلی جنم لے چکی۔ ماضی میں کشمیری نوجوان تحریک آزادی سے اپنا تعلق خفیہ رکھتے تھے مگر یہ رجحان بھی ختم ہو رہا ہے۔ اب مقبوضہ کشمیر کے نوجوان اسلحہ تھامے اور چہرے پر فخر کی مسکراہٹیں سجائے تصاویر کھنچواتے اور طمطراق سے انہیں سوشل میڈیا میں پھیلاتے ہیں۔ جہاد ان کا زیور ہے اور بہادری ان کی باندی! وہ سبھی کشمیری نوجوانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ خطہ کشمیر کو بھارتی غاصبوں کے چنگل سے چھڑانے کی خاطر کھڑے ہو جاؤ اور اسلحہ تھام لو ۔یہ نوجوان آزادی حاصل کرنے تک چین سے بیٹھنے کو تیار نہیں اور ظالموں کا قلع قمع چاہتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکمران طبقے نے سات لاکھ سے زائد سپاہ بٹھا رکھی ہے۔ اس کے باوجود یہ فوج ظفر موج کشمیر میں آزادی کی شمع بجھا نہ سکی جس کی لو اب آہستہ آہستہ شعلہ جوالا بن رہی ہے۔ وہ دن دور نہیں جب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز کو قدم قدم پر مجاہدین کے زبردست حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اُدھر بھارتی میڈیا اس امر پر بہت تشویش کا اظہار کر رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی گھر گھر پھیل رہی ہے۔ کیا بچے' کیابڑے' سبھی اب اپنے دیس کو ہندوؤں اور ان کے پٹھو مسلمانوں کی قید سے آزاد دیکھنا چاہتے ہیں ۔ پہلے بھارتی میڈیا اپنے حکمرانوں کی طرح یہی رٹ لگائے رکھتا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں آئی ایس آئی ''دہشت گردی'' کرا رہی ہے۔ لیکن اب کشمیری نوجوانوں کو مجاہدین کے روپ میں دیکھ کر بھارتی میڈیا گنگ ہے۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی کہ نرم مزاج اور شریفانہ طبیعت رکھنے والے کشمیری نوجوان ہتھیار کیوں اٹھا رہے ہیں۔یہ بات سمجھنے کے لیے بھارتی میڈیا کو دور جدید کے سب سے بڑے باغی، نیلسن منڈیلا کا قول پڑھنا چا ہے:''جب انسان کو حسب خواہش زندگی نہ گزارنے دی جائے تو وہ بندوق تھام لیتا ہے۔''
کشمیری تو پچھلے دو سو برس سے حسب منشا اپنی زندگیاں نہیں گزار پا رہے۔ آج بھی وہ لاکھوں بھارتی فوجیوں کی بندوقوں کے سائے تلے زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں ۔مگر ظلم و ستم کا سلسلہ کبھی نہ کبھی ختم ہو کر رہتا ہے۔ اب ظالموں کے دن گنے جا چکے اور مقبوضہ کشمیر میں آزادی کا تابناک و روشن سورج ضرور طلوع ہو گا' انشاء اللہ!