اپنی فلموں کے ذریعے لیاری کے مثبت پہلو دنیا کے سامنے لانا چاہتے ہیں

فلم کی ایڈیٹنگ کے لیے جگہ نہیں ملتی تھی، عالمی ایوارڈیافتہ بلوچی فلم ’’جاور‘‘ کے خالق سید احسان احمد شاہ سے مکالمہ

فلم کی ایڈیٹنگ کے لیے جگہ نہیں ملتی تھی، عالمی ایوارڈیافتہ بلوچی فلم ’’جاور‘‘ کے خالق سید احسان احمد شاہ سے مکالمہ ۔ فوٹو : فائل

لاہور:
یہ رواں ہفتے کی ایک گرم صبح تھی، شہر قائد کے جس علاقے میں ہم کھڑے تھے، اس جگہ کا نام ہی شاید دوسروں کے ہوش اڑانے کے لیے کافی ہو، ہمارے پیروں تلے موجود سڑک کتنے ہی خون آشام دنوں کی گواہ رہ چکی ہے، اسی سڑک پر کبھی خون پانی کی طرح بہا کرتا تھا۔ اسی سڑک نے گذشتہ چند دہائیوں میں طاقت اور قبضے کی جنگ میں کتنی ہی ماؤں کے بیٹوں، بہنوں کے بھائیوں، اور بیویوں کے سہاگ کا خون بہتے دیکھا ہوگا۔ لیکن یہ علاقہ تو اب ایک الگ ہی کہانی پیش کر رہا تھا، گلیوں میں کھیلتے بچے، تَھڑوں پر بیٹھے بے فکری سے گپپیں لگاتے، اسمارٹ فونز استعمال کرتے نوجوان، نہ کسی نامعلوم گولی کا نشانہ بننے کا ڈر نہ کوئی اور خوف۔ یہ ہے لیاری کے علاقے شاہ بیگ لین کی موجودہ صورت حال۔

ہماری یہاں آمد کا مقصد ایک ایسے نوجوان سے ملاقات تھی، جس نے اپنے علاقے کے مسائل کو اجاگر کرکے ایک بین الاقوامی ایوارڈ اپنے نام کرلیا۔ یہ نوجوان ہے، سید احسان احمد شاہ، جس نے بحرین کی حکومت کی جانب سے منعقد کیے جانے والے ''ناصر بن حماد یوتھ کریٹیویٹی ایوارڈفیسٹیول'' میں فلم سازی میں پہلا ایوارڈ جیت کر نہ صرف دنیا کو باور کرایا کہ لیاری صرف گینگ وار کا، خون خرابے کا نام نہیں ہے، لیاری بین الاقوامی سطح پر مشہور ہنرمند، بہ صلاحیت نوجوانوں، کھلاڑیوں، تیراکوں، باکسرز، دانش ورں ادیبوں کی جائے مسکن بھی ہے۔

لیاری ایسا علاقہ ہرگز نہیں، جہاں جنگل کا راج ہے، جہاں دن دہاڑے متحارب گروپ ایک دوسرے پر جدید ہتھیاروں اور دستی بموں سے لیس ہوکر حملہ کرتے رہتے ہیں، لیاری جرائم پیشہ افراد، منشیات فروشوں اور گینگ وار کا گڑھ نہیں۔ لیاری میں بھی حالات اسی طرح خراب ہوتے ہیں جس طرح شہر کے دوسرے علاقوں میں خراب ہوتے ہیں۔ جس طرح شہر کے دوسرے علاقوں میں خون خرابہ ہوتا ہے اسی طرح لیاری میں بھی ہوتا ہے، لیکن لیاری کے نام کے ساتھ جُڑے گینگ وار کے تصور کو ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ لیاری کا روشن پہلو اجاگر کرنے والے نوجوان بہ صلاحیت فلم ساز سید احسان احمد شاہ سے کی گئی گفت گو نذر قارئین ہے۔

ایکسپریس: کچھ اپنے حالات زندگی کے بارے میں بتائیے۔ لیاری ہی میں پیدا ہوئے؟ تعلیم کہاں اور کتنی حاصل کی؟

سید احسان احمد شاہ: میری جائے پیدائش لیاری ہے، ان گلیوں سے بچپن کی یادیں وابستہ ہیں، ادب اور فنون لطیفہ سے آنکھ کھولتے ہی شناسائی ہوگئی تھی۔ بلوچی زبان میں پہلی غزل کہنے والے ملنگ شاہ میرے ابو کے نانا تھے، جو ایران سے ہجرت کر کے لیاری میں رہائش پذیر ہوگئے تھے۔ فلم سازی کے ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ حال ہی میں انٹر کے امتحان سے فارغ ہوا ہوں۔

ایکسپریس: آپ کا ذریعہ معاش کیا ہے؟
سید احسان احمد شاہ: میرا تعلق ایک مڈل کلاس طبقے سے ہے، تو بہت سے متوسط طبقے کے بچوں کی طرح میں بھی اپنی تعلیم کا خرچہ خود ہی اٹھاتا ہوں۔ ذریعہ معاش فلم سازی ہی ہے، میں 2009 سے لیاری میں بلوچی زبان میں مختصر فلمیں بنا رہا ہوں۔ اب تک تین مختصر دستاویزی فلمیں اور دو مختصر فلمیں بنا چکا ہوں۔ پہلی مختصر فلم 'وہیلز' کے نام سے بنائی جس میں لیاری کے سائیکلسٹس کی مہارت اور صلاحیتیوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی۔ دوسری فلم 'ورکنگ وومین آف لیاری' کے نام سے ہم نے لیاری کی اُن ملازمت پیشہ خواتین پر بنائی تھی جو نوکری کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھریلو فرائض بھی دل جمعی سے ادا کرتی ہیں۔

دو سال قبل اسٹریٹ چائلڈ فٹ بال ورلڈ کپ میں تیسری پوزیشن حاصل کرنے والے اسٹریٹ چلڈرن اور لیاری کے فٹ بالرز کو درپیش مسائل پر 'ہڈن ڈائمنڈ آف لیاری' کے نام سے فلم بنائی۔ ان تمام فلموں کو مقامی طور پر کافی سراہا گیا۔ 2011میں ''ہم آزمان'' (آسمان) کے نام سے پہلی مختصر فلم بنائی۔ 14منٹ دورانیے کی اس فکشن فلم میں ہم نے اُس دور میں لیاری میں ہونے والی ٹارگیٹ کلنگ، خون خرابے اور گینگ وار کے نتیجے میں لیاری کے بچوں کے ذہنوں پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کو اجاگر کیا تھا۔

ایکسپریس: 'جاور' کا اسکرپٹ اور ہدایت کاری کے فرائض آپ نے خود ہی سرانجام دیے، ان سب کی تربیت کہاں سے حاصل کی؟
سید احسان احمد شاہ: فلم میکنگ کی باقاعدہ تربیت شرمین عبید چنائے کی کو پروڈیوسر حیا فاطمہ اقبال سے حاصل کی اور درحقیقت اسی عرصے میں دستاویزی فلمیں بنانے کا شوق پروان چڑھا، کیوں کہ ہمارے اسائنمنٹس ہی ڈاکیومینٹریز بنانا ہوتے تھے۔

ایکسپریس: جاور اور دیگر دستاویزی فلموں کے لیے اخراجات اپنی جیب سے ادا کیے یا کسی فرد یا ادارے نے آپ کی مدد کی؟
سید احسان احمد شاہ: جاور سمیت اب تک جتنی بھی دستاویزی اور مختصر فلمیں بنائیں ان کے لیے کسی نے مالی مدد نہیں کی۔ یہ سارے اخراجات ہم اپنی جیب ہی سے کرتے ہیں، ٹیکنیشنز، ایڈیٹرز، اداکار وغیرہ سب دوست یار ہیں، تو بس وہ دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے ہماری فلم میں کام کرلیتے ہیں، بس ان کے کھانے پینے اور سفری اخراجات ہمیں اپنی جیب سے ادا کرنے پڑتے ہیں۔

جاور کا مرکزی کردار 'اختر' بلوچی فلموں کے اداکار اختر دانش نے ادا کیا۔ اختر کے باپ کا کردار یوسف کلمتی نے اور تیسرا کردار شریف رند نے ادا کیا۔ ان تینوں اداکاروں نے 'جاور' میں بلا معاوضہ کام کیا تھا۔ ہم نے ایوارڈ کے ساتھ ملنے والے نقد انعام گیارہ ہزار ڈالر میں سے نصف سے زاید رقم کیمرے، لائٹس، ٹرائی پوڈز وغیرہ کی خریداری پر صرف کی اور باقی رقم سے اپنے اداکاروں اور فلم کی ٹیم میں شامل دیگر دس افراد کو معاوضہ ادا کیا۔ گوکہ انہوں نے معاوضے کا مطالبہ نہیں کیا تھا، لیکن ہم ان کے احسان مند ہیں کہ انہوں نے اس وقت ہماری مدد کی جب ہمارے پاس محدود وسائل تھے۔ جاور لیاری کی وہ فلم ہے جس کے لیے سہیل راہی (جاور کے پروڈیوسر اور سماجی راہ نما) نے پہلی بار لیاری کے تمام فلم میکرز اور تیکنیکی افراد کو ایک بینر تلے جمع کیا۔


ایکسپریس: اس شعبے میں گھر والوں کی حمایت یا مخالفت کس حد تک رہی؟
سید احسان احمد شاہ: شروع میں گھر والے اس کام کی حمایت نہیں کرتے تھے۔ ان کا یہی کہنا تھا کہ''پاکستان میں فلم سازی کا کوئی مستقبل نہیں ہے، ایک تو تم بلوچ، اوپر سے رہتے بھی لیاری میں ہو، تو اس کام میں تمہارے آگے بڑھنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔'' انہیں یہی لگتا تھا کہ میں اس کام میں فقط وقت کا زیاں کر رہا ہوں۔ لیکن جب سے میری فلم نے ایوارڈ جیتا ہے تو اب گھر اور خاندان کے دوسرے لوگ مجھے بہت سپورٹ کر رہے ہیں۔ اور میں آپ کو بتادوں کہ ایک دور تھا جب لیاری سے بڑے بڑے نام نکلے اس دور میں میرے چاچو (معروف اور سینیر صحافی سید نادر شاہ عادل) نے پاکستان کی پہلی بلوچی فلم 'ہمل ماگنج ' میں سائیڈ ہیرو کا کردار ادا کیا تھا، اور ان کی اداکاری کی آج تک تعریف کی جاتی ہے۔ وہ جوانی میں بہت اچھے اداکار تھے۔ یہ ایک بلوچی لو اسٹوری تھی۔

ایکسپریس: وہ کیا عوامل تھے جن کی وجہ سے 'جاور' بنانے کا خیال آیا؟
سید احسان احمد شاہ: ہمارے لیاری میں بہت سارے فلم ساز ایسے ہیں جو لیاری میں ہونے والی گینگ وار کے نتیجے میں ہونے والے جانی و مالی نقصان اور گینگ وار کے ظلم پر فلم بنانا چاہتے ہیں، لیکن انہیں بھی لیاری ہی میں رہنا ہے، اگر ہم کُھل کر ایسے حساس موضوع پر فلم بنائیں گے تو ہم پر حملہ بھی ہوسکتا ہے۔ سب کی طرح میں بھی لوگوں کو لیاری کا اصل چہرہ دکھانا چاہتا تھا، کیوں کہ ہر لیاری والے کو گینگز کا کارندہ کہا اور سمجھا جاتا ہے، ہم (لیاری کے باشندے) گینگز کے کارندے نہیں بل کہ ان کے ظلم کا شکار مظلوم لوگ ہیں۔ تقریباً دو سال قبل لیاری کی جھٹ پٹ مارکیٹ میں گینگز کے مابین لڑائی میں بم چلائے گئے، جس کے نتیجے میں مارکیٹ میں خریداری کے لیے آنے والی خواتین اور بچے ہلاک اور زخمی ہوگئے تھے۔ جاور کے پروڈیوسرسہیل راہی کی خواہش تھی کہ میں اس بلاسٹ پر کوئی فلم بناؤں۔ یہ ان (سہیل راہی) کی کوششوں کا اثر ہے کہ انہوں نے لیاری کے تمام نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور کہا کہ سب مل کر ایک ایسی فلم بناؤ جس کے ذریعے ہم لوگوں کو اپنا پیغام بنا کسی خطرے کے پہنچا سکیں۔

ایکسپریس: جاور کتنے دن میں مکمل ہوئی اور کیا اسے کسی مخصوص فلم فیسٹیول کے لیے بنایا گیا تھا؟
سید احسان احمد شاہ: جاور کی شوٹنگ تو ہم نے تین دن میں مکمل کرلی تھی، لیکن ہمارے پاس ایسی جگہ نہیں ہوتی تھی کہ جہاں سب ایک ساتھ بیٹھ کر ایڈٹ کرسکیں۔ اسی وجہ سے ہمیں فلم کی ایڈیٹنگ میں چھے سے سات ماہ لگے۔ ہمیں جگہ نہیں ملتی تھی، کبھی ایک دوست کے گھر تو کبھی دوسرے دوست کے گھر۔ جاور ہم نے کسی فلم فیسٹیول میں شرکت کے لیے نہیں بنائی تھی۔ ہم نے طے کر رکھا تھا کہ ہر سال چھے ماہ بعد لیاری اور بلوچ عوام پر ایک مختصر فلم ضرور بنائیں گے۔ ہماری فلم کا میڈیم کیوں کہ بلوچی زبان ہے، اس لیے یہ کسی چینل پر نہیں چل سکتی۔ ہم فلم بنانے کے بعد کوئی آڈیٹوریم بک کروا کر اپنی فلم کی اسکریننگ کرتے ہیں اور لیاری کے لوگوں کو مفت میں فلم دکھاتے ہیں۔

جاور کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ بحرین کے 'ناصر بن حماد یوتھ کریٹیویٹی ایوارڈ فیسٹیول' کا معاملہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے ایک دوست ثناء اﷲ بحرین میں بلوچی فلمیں بناتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ بحرین کی حکومت کی جانب سے ایک فیسٹیول ہورہا ہے جس میں پوری دنیا سے فلمیں آرہی ہیں تو تم بھی اپنی فلم اس ایوارڈ کے لیے بھیج دو۔ اس ایوارڈ میں شمولیت فری تھی۔ جب ہماری فلم شارٹ لسٹ ہوکر ٹاپ تھری میں پہنچی تو یہ بات ہی ہمارے لیے قابل فخر تھی کہ پہلی بار بلوچی زبان میں بننے والی فلم ایک بین الاقوامی ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئی۔ باقی دو فلموں میں ایک مِصر کی اور ایک میکسیکن فلم تھی۔ میں خود میکسیکن فلموں کا بہت بڑا شیدائی ہوں اور پہلی بار ہی میرا مقابلہ ایک میکسیکن فلم سے تھا، جو کہ میرے لیے بہت بڑی بات تھی۔ پاسپورٹ کی میعاد گزر جانے کی وجہ سے میں 9 مئی کو بحرین میں ہونے والے فائنل ایوارڈ شو میں شرکت سے قاصر رہا۔

فائنل ایوارڈ والے دن ہم سب نے ایک دوست کے گھر پر جمع ہوکر یوٹیوب پر لائیو اسٹریمنگ پر تقریب دیکھی۔ جب فرسٹ پرائز کے لیے ہماری فلم کا نام لیا گیا تو ہم وہیں خوشی سے چیخنا چلانا شروع ہوگئے۔ پھر میں نے گھر والوں کو فون پر یہ خوش خبری سنائی۔ جب میں دوستوں کے ساتھ گھر پہنچا تو پورا محلہ ہمارے استقبال کے لیے موجود تھا۔ محلے والوں نے ڈھول والوں کو بلا رکھا تھا۔ سب جشن منا رہے تھے۔ ہر کوئی ہم سے گلے مل رہا تھا ، خوشی منا رہا تھا، ناچ رہا تھا۔ بلوچستان کے کچھ فلم سازوں نے جاور میں بلوچی زبان میں دوسری زبانوں کی آمیزش پر ہم پر تنقید کی کہ آپ نے اردو، پنجابی الفاظ شامل کرکے بین الاقوامی سطح پر بلوچی زبان کا صحیح رخ پیش نہیں کیا۔ اُن کا کہنا شاید درست بھی ہے، لیکن ہم نے فلم میں لیاری میں بولی جانے والی بلوچی زبان پیش کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم لیاری کے بلوچ ہیں، کراچی میں رہتے ہیں، لیاری میں آپ کو ہر قومیت ملے گی، اس وجہ سے ہماری بلوچی میں کچھ اردو، پنجابی وغیرہ کی آمیزش ہوگئی ہے۔ فلم میں ہم نے لیاری ہی کا ماحول دکھایا۔

ایکسپریس: فلم کا مرکزی کردار 'اختر' حقیقت پر مبنی ہے یا اسے تخلیق کیا گیا؟
سید احسان احمد شاہ: فلم کا مرکزی کردار اختر گو کہ ایک فرضی کردار ہے، لیکن اگر دیکھا جائے تو یہ کردار 2002سے 2012تک لیاری کے ہر نوجوان میں موجود تھا۔ اس وقت گھر سے باہر نکلنے والوں کو واپس زندہ گھر آنے کی امید کم ہی ہوتی تھی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اختر حقیقت پر مبنی ایک فرضی کردار ہے۔

ایکسپریس: مستقبل میں اسی شعبے سے وابستہ رہنے کا ارادہ ہے؟
سید احسان احمد شاہ: مستقبل میں بھی اسی شعبے سے وابستہ رہنا ہے۔ ابھی لیاری کے کچھ اور روشن پہلو بھی دنیا کو دکھا نے ہیں، لیاری میں صرف باکسر اور فٹ بالر ہی نہیں ہیں، لیاری میں ڈانسر ہیں میوزیشن ہیں، ہمارے پاس تیراک بہت اچھے ہیں۔

ایکسپریس: کیا اردو میں مختصر اور دستاویزی فلمیں بنانے کا ارادہ ہے؟
سید احسان احمد شاہ: اردو میں دستاویزی یا مختصر فلمیں بنانے کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں ہے، کیوں کہ اردو میں تو پہلے ہی بہت سارے لوگ کام کر رہے ہیں، اگر ہم بلوچ ہوتے ہوئے اردو فلمیں بنانا شروع کردیں، تو پھر ہماری زبان اور ثقافت کو کون فروغ دے گا۔
لیکن مستقبل میں ضرور ہم اردو میں مختصر فلمیں بنائیں گے۔ ہم لیاری میں رہتے ہیں۔ لیاری کا نام سن کر ہی ہمیں بہت غلط نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ اگر ہم کسی کو بتائیں کہ ہم لیاری میں رہتے ہیں تو ہر کوئی حیرانی سے ہمیں دیکھتا ہے اور کہتا ہے آہ، لیاری میں رہتے ہو؟ تو ہم اپنی فلموں کے ذریعے لیاری کے مثبت پہلو دنیا کے سامنے لانا چاہتے ہیں۔

ناصر بن حماد انٹر نیشنل یوتھ کریٹیویٹی ایوارڈ
یہ بحرین کی حکومت کی جانب سے دنیا بھر کے 14سے تیس سال عمر کے نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو سراہنے والا ایوارڈ ہے۔ ہر سال فوٹو گرافی، فلم سازی، آرٹس، گرافک ڈیزائننگ، سائنس اور آرکیٹیکچرکے شعبے میں تخلیقی کام کرنے والے نوجوانوں کو اس ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے۔ چھے درجوں میں جیتنے والوں میں ایک لاکھ ڈالر کی رقم مساوی تقسیم کی جاتی ہے۔ اس ایوارڈ میں شرکت کرنے والوں کو عمر کے لحاظ سے تین گروپس میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ 14سے 17سال کی عمر کے نوجوانوں کو گروپ اول، 18سے 24سال کی عمر کے نوجوانوں کو گروپ دوئم اور25سے 30 سال کی عمر کو نوجوانوں کو گروپ سوئم میں رکھا جاتا ہے۔ ہر درجے میں ٹاپ تھری پر آنے والے امیدواروں کو ایوارڈ کی تقریب میں شرکت کے لیے حکومتی خرچے پر بحرین مدعو کیا جاتا ہے۔ ایوارڈ 2015/16 میں فلم سازی کے شعبے میں سید احسان احمد شاہ نے پہلا، مصر کی MAYYE ZAYED نے دوسرا اور میکسیکو کی PAMELA VELÁZQUEZ نے تیسرا انعام حاصل کیا تھا۔
Load Next Story