امریکا اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے
امریکا اور یورپ وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے حوالے سے بھارت کے ساتھ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کی طرف بڑھ رہے ہیں
پاکستان اور امریکا کے درمیان مختلف ایشوز پر پیدا ہونے والی حالیہ بداعتمادی کے حوالے سے بیانات سامنے آ رہے ہیں۔گزشتہ روز واشنگٹن میں امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان مارک ٹونر نے میڈیا بریفنگ میں نیوکلیئر سپلائر گروپ میں بھارت کی حمایت کے حوالے سے بھی بات کی۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت سے تعلقات کی نوعیت مختلف ہے، نیوکلیئر سپلائر گروپ کی مرضی ہے، پاکستان کو رکنیت دے یا نہ دے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ دونوں ممالک کشیدگی کم کرنے کے لیے اقدامات کریں۔ امریکا پاک بھارت مذاکرات کی حوصلہ افزائی جاری رکھے گا۔
ادھر پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے اگلے روز افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل جان نکلسن اور پاکستان و افغانستان کے لیے امریکی نمایندہ خصوصی رچرڈ اولسن سے جی ایچ کیو میں ملاقات کی ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق اس ملاقات میں پاک فوج کے سربراہ نے بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کی خلاف ورزی ہے۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ امریکا افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان اور ملا فضل اللہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنائے۔
دفتر خارجہ کے مطابق مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے امریکا کے خصوصی نمایندہ برائے افغانستان و پاکستان رچرڈ اولسن اور نیشنل سیکیورٹی کونسل میں سینئر مشیر ڈاکٹر پیٹر لاوے سے ملاقات کی۔ اس وفد میں پاکستان میں امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل بھی موجود تھے۔ مشیر خارجہ نے بلوچستان میں ڈرون حملے پر احتجاج ریکارڈ کرایا اور اس حملے کو پاکستان کی خودمختاری اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی بھی خلاف ورزی قرار دیاہے۔
پاکستان اور امریکا کے درمیان افغانستان اور بھارت کے معاملات پر ترجیحات کا فرق موجود ہے۔ کولڈ وار کے خاتمے کے بعد امریکا اور بھارت کے درمیان تعلقات نے جو رخ اختیار کیا ہے، اس کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان ہم آہنگی متاثر ہوئی ہے۔ امریکا اور یورپ وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے حوالے سے بھارت کے ساتھ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ امریکا افغانستان میں بھی بھارت کے کردار کو مسلسل بڑھانے کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔
نیوکلیئر سپلائر گروپ میں شمولیت کے حوالے سے امریکی دفتر خارجہ کا مؤقف سفارتی چابکدستی کی مثال ہے حالانکہ یہ بات عیاں ہے کہ امریکا بھارت کو نیوکلیئر سپلائر گروپ میں شامل کرانے کے لیے لابنگ کر رہا ہے جب کہ پاکستان کے حوالے سے اس کا یہ کردار نہیں ہے۔ امریکی دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ نیوکلیئر سپلائر گروپ کی مرضی ہے، پاکستان کو رکنیت دے یا نہ دے۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ امریکا اس معاملے میں پاکستان کی مدد نہیں کرے گا جب کہ بھارت کے لیے وہ سب کچھ کر رہا ہے۔ ایسی صورت میں پاکستان کے لیے کیا آپشن بچتی ہے؟
پاکستان کے پاس چین کا آپشن اختیار کرنے کے سوا کوئی اور راستہ موجود نہیں ہے۔ امریکی یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت باہمی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اقدامات کریں لیکن اس کے لیے عملی طور پر اقدامات کے لیے تیار نہیں، ظاہر سی بات ہے کہ جب امریکا جیسی سپر طاقت بھارت پر دباؤ نہیں ڈالے گی تو وہ پاکستان کے خلاف ہٹ دھرمی پر مبنی مؤقف میں کیسے لچک پیدا کرے گا۔ دوسرے لفظوں میں امریکا بھارت کی حوصلہ افزائی ہی کر رہا ہے۔ جہاں تک افغانستان میں قیام امن کا تعلق ہے تو اس حوالے سے بھی امریکا کی پالیسی زمینی حقائق کے مطابق نہیں۔
امریکا افغانستان کی حکومت میں موجود پاکستان مخالف لابی کے مطالبات کو سامنے رکھ کر افغانستان میں امن قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ افغانستان میں قیام امن کی راہ میں یہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکا، چین، پاکستان اور ایران کوششیں کر رہے ہیں، افغان طالبان بھی مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے آمادہ نظر آتے تھے کہ اس دوران بلوچستان میں ڈرون حملے میں افغان طالبان کے سربراہ ملا منصور کو نشانہ بنایا گیا۔
اس معاملے پر امریکا، افغانستان یا بھارت کا کچھ بھی مؤقف ہو لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس حملے سے پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اصولی طور پر اگر امریکی حکام کو ملا منصور کی موجودگی کی اطلاع موجود تھی تو اسے پاکستان کو اس معاملے سے آگاہ کرنا چاہیے تھا تاکہ پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیاں اپنی کارروائی کر سکتیں لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ امریکا کی دوعملی اس حقیقت سے بھی واضح ہوتی ہے کہ پاکستان تحریک طالبان کے سربراہ فضل اللہ اور دیگر قیادت افغانستان میں بیٹھی ہے۔
افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی فوجیں بھی موجود ہیں لیکن وہاں ڈرون حملے نہیں کیے جا رہے، یہ معاملات پاکستان کے لیے یقینا باعث تشویش ہیں۔ امریکا اگر اس خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے اور افغانستان میں امن کے قیام کے لیے پاکستان کو نظرانداز کرے گا تو صورت حال مزید خراب ہوتی چلی جائے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکا افغانستان اور بھارت کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے۔
ادھر پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے اگلے روز افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل جان نکلسن اور پاکستان و افغانستان کے لیے امریکی نمایندہ خصوصی رچرڈ اولسن سے جی ایچ کیو میں ملاقات کی ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق اس ملاقات میں پاک فوج کے سربراہ نے بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کی خلاف ورزی ہے۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ امریکا افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان اور ملا فضل اللہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنائے۔
دفتر خارجہ کے مطابق مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے امریکا کے خصوصی نمایندہ برائے افغانستان و پاکستان رچرڈ اولسن اور نیشنل سیکیورٹی کونسل میں سینئر مشیر ڈاکٹر پیٹر لاوے سے ملاقات کی۔ اس وفد میں پاکستان میں امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل بھی موجود تھے۔ مشیر خارجہ نے بلوچستان میں ڈرون حملے پر احتجاج ریکارڈ کرایا اور اس حملے کو پاکستان کی خودمختاری اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی بھی خلاف ورزی قرار دیاہے۔
پاکستان اور امریکا کے درمیان افغانستان اور بھارت کے معاملات پر ترجیحات کا فرق موجود ہے۔ کولڈ وار کے خاتمے کے بعد امریکا اور بھارت کے درمیان تعلقات نے جو رخ اختیار کیا ہے، اس کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان ہم آہنگی متاثر ہوئی ہے۔ امریکا اور یورپ وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے حوالے سے بھارت کے ساتھ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ امریکا افغانستان میں بھی بھارت کے کردار کو مسلسل بڑھانے کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔
نیوکلیئر سپلائر گروپ میں شمولیت کے حوالے سے امریکی دفتر خارجہ کا مؤقف سفارتی چابکدستی کی مثال ہے حالانکہ یہ بات عیاں ہے کہ امریکا بھارت کو نیوکلیئر سپلائر گروپ میں شامل کرانے کے لیے لابنگ کر رہا ہے جب کہ پاکستان کے حوالے سے اس کا یہ کردار نہیں ہے۔ امریکی دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ نیوکلیئر سپلائر گروپ کی مرضی ہے، پاکستان کو رکنیت دے یا نہ دے۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ امریکا اس معاملے میں پاکستان کی مدد نہیں کرے گا جب کہ بھارت کے لیے وہ سب کچھ کر رہا ہے۔ ایسی صورت میں پاکستان کے لیے کیا آپشن بچتی ہے؟
پاکستان کے پاس چین کا آپشن اختیار کرنے کے سوا کوئی اور راستہ موجود نہیں ہے۔ امریکی یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت باہمی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اقدامات کریں لیکن اس کے لیے عملی طور پر اقدامات کے لیے تیار نہیں، ظاہر سی بات ہے کہ جب امریکا جیسی سپر طاقت بھارت پر دباؤ نہیں ڈالے گی تو وہ پاکستان کے خلاف ہٹ دھرمی پر مبنی مؤقف میں کیسے لچک پیدا کرے گا۔ دوسرے لفظوں میں امریکا بھارت کی حوصلہ افزائی ہی کر رہا ہے۔ جہاں تک افغانستان میں قیام امن کا تعلق ہے تو اس حوالے سے بھی امریکا کی پالیسی زمینی حقائق کے مطابق نہیں۔
امریکا افغانستان کی حکومت میں موجود پاکستان مخالف لابی کے مطالبات کو سامنے رکھ کر افغانستان میں امن قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ افغانستان میں قیام امن کی راہ میں یہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکا، چین، پاکستان اور ایران کوششیں کر رہے ہیں، افغان طالبان بھی مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے آمادہ نظر آتے تھے کہ اس دوران بلوچستان میں ڈرون حملے میں افغان طالبان کے سربراہ ملا منصور کو نشانہ بنایا گیا۔
اس معاملے پر امریکا، افغانستان یا بھارت کا کچھ بھی مؤقف ہو لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس حملے سے پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اصولی طور پر اگر امریکی حکام کو ملا منصور کی موجودگی کی اطلاع موجود تھی تو اسے پاکستان کو اس معاملے سے آگاہ کرنا چاہیے تھا تاکہ پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیاں اپنی کارروائی کر سکتیں لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ امریکا کی دوعملی اس حقیقت سے بھی واضح ہوتی ہے کہ پاکستان تحریک طالبان کے سربراہ فضل اللہ اور دیگر قیادت افغانستان میں بیٹھی ہے۔
افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی فوجیں بھی موجود ہیں لیکن وہاں ڈرون حملے نہیں کیے جا رہے، یہ معاملات پاکستان کے لیے یقینا باعث تشویش ہیں۔ امریکا اگر اس خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے اور افغانستان میں امن کے قیام کے لیے پاکستان کو نظرانداز کرے گا تو صورت حال مزید خراب ہوتی چلی جائے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکا افغانستان اور بھارت کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے۔