’’پاکستان بھر میں اس ناول کی تین سے زیادہ کاپیاں فروخت نہیں ہوں گی‘‘

تیکھے لفظوں سے اپنے فن کی صورت گری کرتے ناول نویس اور صحافی کچھ پُرانے قصے چھیڑتے ہیں۔

محمد حنیف۔ فوٹو: فائل

شہرت اور نام وری کی تمنا کِسے نہیں ہوتی، لوگ تو اس کے لیے سو طرح کے جتن کرتے ہیں، بہت پاپڑ بیلتے ہیں، لیکن محمد حنیف نہایت عجیب ہیں۔

قسمت کی دیوی ایک دن اُن پر مہربان ہوئی اور انھیں شہرت دان کرنا چاہی، لیکن انھوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

کیا جاتا، اگر وہ تھوڑی مار پیٹ سہہ لیتے اور عقوبت خانے کا مزہ چکھتے۔ یہ ان کے لیے نہ صرف ایک نیا تجربہ ہوتا بلکہ اس طرح وہ 'کشتگانِ سیاست' میں گِنے جاتے اور 'مجاہدینِ صحافت' میں شمار ہوتے۔

محمد حنیف کا تعارف پڑھنے کے بعد آپ اُن واقعات سے لطف اندوز ہوں گے، جو انھوں نے ''بھلا نہ سکے'' کے لیے ہمیں سنائے۔

دیہی ماحول کے پروردہ محمد حنیف روایت شکن ثابت ہوئے۔ ان کی فکر اور سوچنے کا ڈھب دوسروں سے مختلف نکلا اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے قلم تھاما، تو بہ حیثیت صحافی ان کا مختلف نقطۂ نظر سامنے آیا، ان کی تحریریں، انھیں ایک دور اندیش، روشن خیال اور تعمیری فکر کی حامل شخصیت ثابت کرتی ہیں۔ وہ صحافی، ڈراما نویس اور ناول نگار کی حیثیت سے متعدد اعزازات حاصل کر چکے ہیں۔ 2008 میں ان کا پہلا ناول A Case of Exploding Mangoes جب کہ 2011 میں دوسرا Our Lady of Alice Bhatti منظر عام پر آیا۔ بہ حیثیت صحافی طویل عرصے سے بی بی سی سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے بی بی سی اردو سروس کے سربراہ کی حیثیت سے بھی اپنی ذمے داریاں نبھائی ہیں۔

یہ 1995 کی بات ہے، جب انھوں نے 'ہیرو' بننے کا اپنے ہاتھ لگنے والا ایک 'چانس' گنوا دیا۔۔۔!

محمد حنیف بتاتے ہیں: '' اس واقعے کا سبب میرا ایک مضمون بنا، جس میں صوبۂ سندھ کے اس وقت کے گورنر پر میں نے گہرا طنز کیا تھا اور بعض سطور میں انھیں مذاق کا نشانہ بھی بنایا تھا۔ ان دنوں میں 'نیوز لائن' کے لیے بہ حیثیت رپورٹر کام کر رہا تھا۔ اس مضمون کی اشاعت پر گویا 'بحرِ سیاست' میں بھونچال آ گیا، کیوں کہ میرا 'ہدف' صرف ایک سیاست داں ہی نہیں، بلکہ صوبے میں وفاق کا نمایندہ، یعنی گورنر بھی تھا۔''

محمد حنیف کو اُس 'جرم' کی سزا دینے کے لیے 'کارروائی' گویا 'ناگزیر' ہو چکی تھی۔ حکم صادر ہوا، اور محکمۂ پولیس حرکت میں آ گیا۔

وہ بتاتے ہیں،''رات کے وقت پولیس نے میری گرفتاری کے لیے گھر پر چھاپا مارا، لیکن میں وہاں نہیں تھا۔ دراصل میں اپنی ٹانگ میں فریکچر کی وجہ سے اُس رات اپنے سسرال میں ٹھیرا تھا۔ پولیس نے مجھے گھر پر نہ پا کر 'نیوز لائن' کی ایڈیٹر رضیہ بھٹی کے گھر کا رُخ کیا۔ اس کی تفصیل میں نے اگلے دن رضیہ بھٹی کی زبانی سُنی۔ انھوں نے صبح مجھے فون کیا اور بتایا کہ پولیس اہل کار اُن سے میرا 'ٹھکانا' معلوم کرنے کے لیے رات کے وقت اُن کے گھر پہنچے تھے۔ انھوں نے روایتی انداز میں میرے بارے میں اُن سے پوچھ گچھ کی اور اس میں ناکامی پر سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی دی۔ یہ بات ''نیوزلائن'' رضیہ بھٹی کے علم میں تھی کہ میں اپنے سسرال میں ہوں، لیکن انھوں نے میرے بارے میں کچھ نہیں بتایا اور اُن کی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لائیں۔''

'مجرم' کو بچانے کے لیے 'قانون' کو اندھیرے میں رکھنے والی رضیہ بھٹی نے محمد حنیف کو صبح فون کیا، تو 'پولیس گردی' کی تفصیل بتانے سے پہلے ایک سوال کیا، جو خاصا دل چسپ تھا:


''مجھے بتاؤ، تم 'ہیرو' بننا چاہتے ہو یا نہیں؟''

محمد حنیف کے مطابق، یہ بات اُنھوں نے ہنستے ہوئے کہی تھی، اور پھر تمام تفصیل اُن کے گوش گزار کر دی۔

''مجھے آج بھی اُن کا سوال، اُن کا وہ لہجہ یاد ہے۔ انھوں نے کہا تھا، اگر ہیرو بننا چاہتا ہے، تو گرفتاری دے دو۔ مجھے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ ایک عورت ہونے کے باوجود انھوں نے پولیس کے سامنے کم زوری نہیں دکھائی اور انھیں ناکام لوٹنے پر مجبور کر دیا۔ یہ میرے ذہن میں محفوظ یادوں میں سے ایک واقعہ ہے۔''

مدعی کوئی 'بڑا' ہو تو ہماری پولیس 'مجرم' تک پہنچنے کے لیے دیوانگی کی حد تک 'متحرک' ہو جاتی ہے۔ اس لیے یہ کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ پولیس نے اپنی 'روایت' قائم رکھی اور رضیہ بھٹی سے بدتمیزی سے پیش آئی، انھیں ہراساں کرتی رہی، لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئیں اور یوں 'ہیرو' بننے کا ایک زبردست موقع محمد حنیف کے ہاتھ سے نکل گیا۔

پاکستان میں اپنے ناول A case of exploding mangoes کی اشاعت سے جڑا ایک اور واقعہ محمد حنیف نے اپنی یادوں کی گٹھڑی میں محفوظ کر رکھا ہے۔ اس کی تفصیل ان کی زبانی کچھ یوں ہے:

''یہ 2008 کی بات ہے، میں لندن میں تھا، جہاں میرا ناول منظرِ عام پر آنے والا تھا۔ ہر تخلیق کار کی طرح ان دنوں میں بھی خوش تھا اور ناول کی اشاعت کا بے چینی سے انتظار کر رہا تھا۔ میری خواہش تھی کہ پاکستان میں بھی اس کی اشاعت ممکن بنائی جائے۔ اس سلسلے میں یہاں کے دو بڑے پبلشرز سے رابطہ کیا، لیکن انھوں نے میرا ناول چھاپنے سے انکار کر دیا۔ اُن سے مایوس ہو کر میں نے ایک اور پبلشر سے بات کی اور ناول سے متعلق تفصیلات بتائیں۔ موصوف نے مجھ سے اس کا مسودہ طلب کیا اور کہا کہ وہ اسے پڑھنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کریں گے۔ میں نے انھیں مسودہ بھجوا دیا اور جواب کا انتظار کرنے لگا۔''

۔۔۔اور ایک دن ناشر نے محمد حنیف کو 'جواب دے دیا!'

وہ بتاتے ہیں،''ناشر کے مطابق، ان کے مارکیٹنگ ڈیپارٹمینٹ نے اس ناول سے متعلق مایوسی ظاہر کی ہے اور کہا ہے کہ پاکستان بھر میں اس ناول کی تین سے زیادہ کاپیاں فروخت نہیں ہوں گی۔''

ناشر کا جواب مایوس کُن ہی نہیں بلکہ حوصلہ شکن بھی تھا۔ محمد حنیف کو یقیناً اس سے تکلیف پہنچی ہو گی، لیکن تیزی سے گزرتے وقت نے اس کا ازالہ کر دیا۔

'' لندن میں انگریزی زبان میں میرے ناول کی اشاعت کے بعد اس کا دیگر زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور وہ دنیا کے مختلف ملکوں میں قارئین تک پہنچا اور ان کی توجہ حاصل کی۔ اس طرح اُس اشاعتی ادارے کے شعبۂ مارکیٹنگ کا اندازہ غلط ثابت ہو گیا۔ وہ پبلشر آج بھی مجھے ملتے ہیں، اور یہ ذکر نکلتا ہے، تو ہمارے درمیان اس سے متعلق تھوڑا مذاق بھی ہو جاتا ہے۔''
Load Next Story