رشی کپور کا اعتراض
رشی کپور کے اس بیان سے جہاں جمہوری بادشاہوں کے خاندان میں ہلچل مچ گئی ہے
KANDAHAR:
رشی کپور کا شمار بھارت کے معروف سینئر اداکاروں میں ہوتا ہے، پچھلے دنوں رشی کپور نے یہ الزام عائد کیا کہ بھارت کے مشہور مقامات کے نام کانگریس اور گاندھی خاندان کے ''اکابرین'' کے نام پر ہی کیوں رکھے جا رہے ہیں، بھارت میں اور بھی مشہور شخصیات ہیں جن کی بہت بڑی قومی خدمات اور قربانیاں ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ کانگریس اور گاندھی خاندان کے غیر عوامی افراد کے ناموں پر قومی اداروں کے نام رکھنے کے بجائے عوامی اور قومی خدمات انجام دینے والوں کے نام پر قومی اداروں کے نام رکھے جائیں۔
رشی کپور کے اس بیان سے جہاں جمہوری بادشاہوں کے خاندان میں ہلچل مچ گئی ہے وہیں بھارت کی روایتی ذہنیت کے خلاف بھی بھارت میں ہلچل مچ گئی ہے۔ عوامی حلقوں کی جانب سے رشی کپور کے بیان کی پرزور حمایت کی جا رہی ہے اور مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ بھارت کے جن قومی اداروں کے نام غیر منطقی طور پر کانگریس کے رہنماؤں اور گاندھی خاندان کے افراد کے ناموں پر رکھے گئے ہیں انھیں تبدیل کرکے عوامی خدمات انجام دینے والوں، ملک و ملت کے لیے قربانیاں دینے والوں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دینے والوں کی خدمات کے صلے میں قومی اداروں کے نام ان کے ناموں پر رکھے جائیں۔
برصغیر چونکہ ہزاروں سال تک بادشاہتوں کے تحت رہا ہے تو اس کی روایات کی سرکاری اس خطے کی نفسیات میں شامل ہوگئی ہے، بھارت اور برصغیر کو برطانوی سامراج سے آزادی دلانے میں جن لوگوں کی جدوجہد شامل ہے ان میں نہرو اور گاندھی شامل ہیں۔ اگر نہرو اور گاندھی کے ناموں پر کسی قومی ادارے کا نام رکھا جاتا ہے تو یہ بات قابل اعتراض نہیں ہوتی لیکن کانگریس اور گاندھی خاندان کے ایسے افراد کے ناموں پر جن کی کوئی قومی خدمات نہیں قومی اداروں کے نام رکھنا کھلی زیادتی ہے اور رشی کپور نے بجا طور پر اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔
ہمارے خطے میں بہت سارے سیاستدانوں کے قتل کے اسباب میں سیاسی رقابتیں اور سیاسی مفادات شامل ہیں، ان حوالوں سے قتل ہونے والوں کو ''شہید'' قرار دے کر ان کی ''شہادت'' کا پروپیگنڈا اس زور و شور سے کیا جاتا ہے کہ اصل حقائق اس پروپیگنڈے کی دھول میں گم ہوجاتے ہیں۔ بھارت میں اندرا گاندھی کا کانگریس کی قیادت سنبھالنا اندرا گاندھی کی کسی قومی خدمت کا صلہ نہیں بلکہ صرف اور صرف نہرو سے ان کے خونی رشتے کا صلہ ہے جو وراثتی سیاست کا آئینہ دار ہے، حالانکہ اندرا گاندھی کا شمار اس کی کارکردگی کے تناظر میں بدترین وزیراعظم میں ہوتا ہے۔ بھارت میں ایمرجنسی کا نفاذ اندرا گاندھی کی پیشانی پر کلنک بنا ہوا ہے لیکن چونکہ وہ نہرو کی بیٹی تھیں لہٰذا اس کی نااہلیت نہرو سے خونی رشتے کی وجہ اہلیت میں بدل گئی۔
گولڈن ٹیمپل کے خلاف آپریشن سے سکھ کمیونٹی کے دلوں میں اندرا گاندھی کے خلاف سخت نفرت پیدا ہوگئی اور یہی نفرت اندرا گاندھی کے قتل کا باعث بن گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اندرا گاندھی کو شہید کا درجہ دیا جاسکتا ہے؟ پاکستان میں لیاقت علی خان پنجاب کی بیورو کریسی کی سازشوں کا شکار ہوگئے لیکن ان کی ''شہادت'' کا پروپیگنڈا دھوم دھام سے نہیں ہوا، اس کی ایک وجہ ان کا مہاجر ہونا بھی مانا جاتا ہے۔ پاکستان میں حسن ناصر اور عباسی دو ایسے رہنما تھے جنھیں محض اس لیے قتل کردیا گیا کہ وہ اس استحصالی ظالمانہ طبقاتی نظام کے خلاف تھے، یہ دونوں رہنما حقیقی معنوں میں شہید کہلانے کے مستحق ہیں لیکن ہماری موقع پرست اور اشرافیائی سیاست میں نہ انھیں شہید تسلیم کیا جاتا ہے نہ ان کے ناموں پر کوئی قومی ادارے کا نام رکھا گیا ہے، اس کی صرف اور صرف ایک وجہ یہ ہے کہ ان کا تعلق پاکستان کی عیار اشرافیہ سے نہیں تھا، ان کی زندگی مزدوروں میں گزری۔
امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں کینیڈی کے علاوہ بھی دوسرے صدور قتل ہوئے لیکن نہ انھیں شہید بناکر ان کی قبروں کو پوجنے کا رواج ڈالا گیا نہ ان کے قتل کو شہادت کا درجہ دیا گیا کیونکہ ان کے قتل کے پیچھے سیاسی محرکات سیاسی رقابتیں تھیں۔ ایسا اس لیے ہوا کہ اس ملک میں جمہوریت ہے جمہوریت کے نام پر بادشاہتیں قائم نہیں ہیں، ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں 1947 سے ہی خاندانی اقتدار کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ اشرافیہ کی سیاست میں بالادستی ہے۔ اگر کسی سیاسی رہنما کی عوامی خدمات کے حوالے سے توقیر کی جاتی ہے تو یہ ایک قابل فہم بات ہے لیکن اگر سیاسی رہنما محض خاندانی رشتوں کی وجہ سے قابل احترام ٹھہرائے جائیں تو عوام ایسے رہنماؤں کی پوجا پاٹ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
بھارت میں اگرچہ پاکستان کے مقابلے میں زیادہ عوامی جمہوریت موجود ہے لیکن ماضی کی فرسودہ روایتوں کے مطابق وہاں بھی خاندانی عظمت اور موروثی سیاست کسی نہ کسی حد تک موجود ہے اور رشی کپور نے بہت منطقی اعتراض کیا ہے کہ بھارت کے قومی اداروں کے نام گاندھی خاندان اور متنازعہ اور بدنام کانگریسیوں کے نام پر نہیں ہونے چاہئیں۔
اس تناظر میں اگر ہم پاکستان کے قومی اداروں، شاہراہوں، بستیوں، شہروں کے ناموں پر نظر ڈالیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ سارے قومی ادارے، بستیاں، شہر اور شاہراہیں ایلیٹ کی جاگیر بنے ہوئے ہیں۔ اس موروثی اور خاندانی جھوٹی عظمت کا خاتمہ کرکے قومی اداروں، شاہراہوں، بستیوں کے نام عوامی خدمات میں ساری زندگی بتا دینے والوں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دینے والوں کے نام پر رکھے جائیں تاکہ آنے والی نسلوں کو معلوم ہوسکے کہ ان کے حقیقی ہیرو کون ہیں۔ اس حوالے سے ایک آزاد اور غیر جانبدار کمیٹی بنانے کی ضرورت ہے جو منصفانہ طور پر قومی اداروں کے نام تجویز کرے۔
رشی کپور کا شمار بھارت کے معروف سینئر اداکاروں میں ہوتا ہے، پچھلے دنوں رشی کپور نے یہ الزام عائد کیا کہ بھارت کے مشہور مقامات کے نام کانگریس اور گاندھی خاندان کے ''اکابرین'' کے نام پر ہی کیوں رکھے جا رہے ہیں، بھارت میں اور بھی مشہور شخصیات ہیں جن کی بہت بڑی قومی خدمات اور قربانیاں ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ کانگریس اور گاندھی خاندان کے غیر عوامی افراد کے ناموں پر قومی اداروں کے نام رکھنے کے بجائے عوامی اور قومی خدمات انجام دینے والوں کے نام پر قومی اداروں کے نام رکھے جائیں۔
رشی کپور کے اس بیان سے جہاں جمہوری بادشاہوں کے خاندان میں ہلچل مچ گئی ہے وہیں بھارت کی روایتی ذہنیت کے خلاف بھی بھارت میں ہلچل مچ گئی ہے۔ عوامی حلقوں کی جانب سے رشی کپور کے بیان کی پرزور حمایت کی جا رہی ہے اور مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ بھارت کے جن قومی اداروں کے نام غیر منطقی طور پر کانگریس کے رہنماؤں اور گاندھی خاندان کے افراد کے ناموں پر رکھے گئے ہیں انھیں تبدیل کرکے عوامی خدمات انجام دینے والوں، ملک و ملت کے لیے قربانیاں دینے والوں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دینے والوں کی خدمات کے صلے میں قومی اداروں کے نام ان کے ناموں پر رکھے جائیں۔
برصغیر چونکہ ہزاروں سال تک بادشاہتوں کے تحت رہا ہے تو اس کی روایات کی سرکاری اس خطے کی نفسیات میں شامل ہوگئی ہے، بھارت اور برصغیر کو برطانوی سامراج سے آزادی دلانے میں جن لوگوں کی جدوجہد شامل ہے ان میں نہرو اور گاندھی شامل ہیں۔ اگر نہرو اور گاندھی کے ناموں پر کسی قومی ادارے کا نام رکھا جاتا ہے تو یہ بات قابل اعتراض نہیں ہوتی لیکن کانگریس اور گاندھی خاندان کے ایسے افراد کے ناموں پر جن کی کوئی قومی خدمات نہیں قومی اداروں کے نام رکھنا کھلی زیادتی ہے اور رشی کپور نے بجا طور پر اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔
ہمارے خطے میں بہت سارے سیاستدانوں کے قتل کے اسباب میں سیاسی رقابتیں اور سیاسی مفادات شامل ہیں، ان حوالوں سے قتل ہونے والوں کو ''شہید'' قرار دے کر ان کی ''شہادت'' کا پروپیگنڈا اس زور و شور سے کیا جاتا ہے کہ اصل حقائق اس پروپیگنڈے کی دھول میں گم ہوجاتے ہیں۔ بھارت میں اندرا گاندھی کا کانگریس کی قیادت سنبھالنا اندرا گاندھی کی کسی قومی خدمت کا صلہ نہیں بلکہ صرف اور صرف نہرو سے ان کے خونی رشتے کا صلہ ہے جو وراثتی سیاست کا آئینہ دار ہے، حالانکہ اندرا گاندھی کا شمار اس کی کارکردگی کے تناظر میں بدترین وزیراعظم میں ہوتا ہے۔ بھارت میں ایمرجنسی کا نفاذ اندرا گاندھی کی پیشانی پر کلنک بنا ہوا ہے لیکن چونکہ وہ نہرو کی بیٹی تھیں لہٰذا اس کی نااہلیت نہرو سے خونی رشتے کی وجہ اہلیت میں بدل گئی۔
گولڈن ٹیمپل کے خلاف آپریشن سے سکھ کمیونٹی کے دلوں میں اندرا گاندھی کے خلاف سخت نفرت پیدا ہوگئی اور یہی نفرت اندرا گاندھی کے قتل کا باعث بن گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اندرا گاندھی کو شہید کا درجہ دیا جاسکتا ہے؟ پاکستان میں لیاقت علی خان پنجاب کی بیورو کریسی کی سازشوں کا شکار ہوگئے لیکن ان کی ''شہادت'' کا پروپیگنڈا دھوم دھام سے نہیں ہوا، اس کی ایک وجہ ان کا مہاجر ہونا بھی مانا جاتا ہے۔ پاکستان میں حسن ناصر اور عباسی دو ایسے رہنما تھے جنھیں محض اس لیے قتل کردیا گیا کہ وہ اس استحصالی ظالمانہ طبقاتی نظام کے خلاف تھے، یہ دونوں رہنما حقیقی معنوں میں شہید کہلانے کے مستحق ہیں لیکن ہماری موقع پرست اور اشرافیائی سیاست میں نہ انھیں شہید تسلیم کیا جاتا ہے نہ ان کے ناموں پر کوئی قومی ادارے کا نام رکھا گیا ہے، اس کی صرف اور صرف ایک وجہ یہ ہے کہ ان کا تعلق پاکستان کی عیار اشرافیہ سے نہیں تھا، ان کی زندگی مزدوروں میں گزری۔
امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں کینیڈی کے علاوہ بھی دوسرے صدور قتل ہوئے لیکن نہ انھیں شہید بناکر ان کی قبروں کو پوجنے کا رواج ڈالا گیا نہ ان کے قتل کو شہادت کا درجہ دیا گیا کیونکہ ان کے قتل کے پیچھے سیاسی محرکات سیاسی رقابتیں تھیں۔ ایسا اس لیے ہوا کہ اس ملک میں جمہوریت ہے جمہوریت کے نام پر بادشاہتیں قائم نہیں ہیں، ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں 1947 سے ہی خاندانی اقتدار کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ اشرافیہ کی سیاست میں بالادستی ہے۔ اگر کسی سیاسی رہنما کی عوامی خدمات کے حوالے سے توقیر کی جاتی ہے تو یہ ایک قابل فہم بات ہے لیکن اگر سیاسی رہنما محض خاندانی رشتوں کی وجہ سے قابل احترام ٹھہرائے جائیں تو عوام ایسے رہنماؤں کی پوجا پاٹ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
بھارت میں اگرچہ پاکستان کے مقابلے میں زیادہ عوامی جمہوریت موجود ہے لیکن ماضی کی فرسودہ روایتوں کے مطابق وہاں بھی خاندانی عظمت اور موروثی سیاست کسی نہ کسی حد تک موجود ہے اور رشی کپور نے بہت منطقی اعتراض کیا ہے کہ بھارت کے قومی اداروں کے نام گاندھی خاندان اور متنازعہ اور بدنام کانگریسیوں کے نام پر نہیں ہونے چاہئیں۔
اس تناظر میں اگر ہم پاکستان کے قومی اداروں، شاہراہوں، بستیوں، شہروں کے ناموں پر نظر ڈالیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ سارے قومی ادارے، بستیاں، شہر اور شاہراہیں ایلیٹ کی جاگیر بنے ہوئے ہیں۔ اس موروثی اور خاندانی جھوٹی عظمت کا خاتمہ کرکے قومی اداروں، شاہراہوں، بستیوں کے نام عوامی خدمات میں ساری زندگی بتا دینے والوں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دینے والوں کے نام پر رکھے جائیں تاکہ آنے والی نسلوں کو معلوم ہوسکے کہ ان کے حقیقی ہیرو کون ہیں۔ اس حوالے سے ایک آزاد اور غیر جانبدار کمیٹی بنانے کی ضرورت ہے جو منصفانہ طور پر قومی اداروں کے نام تجویز کرے۔