تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
امریکی کردار کے بارے میں بانو آپا کا یہ تبصرہ دل کو لگتا ہے، تمام باتیں امریکا پر پوری طرح صادق نظر آتی ہیں۔
''اگر ہم امریکی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اسے دریافت تو کولمبس نے کیا تھا مگر اسے آباد ڈاکوؤں نے کیا تھا اور ڈاکوؤں کی اپنی کچھ بنیادی خصوصیات ہوتی ہیں مثلاً دلیری، بہادری اور زبردستی۔ وہ جب کسی چیز کو ہتھیانا چاہتا ہے تو اپنے آپ کو سینہ زوری پر ابھارنا اس کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہوتا، اس لیے امریکا کو جب سڑکیں بنانے، جنگل کاٹنے اور اشیاء کی بھرمار کرنے کی ضرورت پڑی، اس نے جال ڈال کر نیگرو لوگوں کو ہتھیا کر جہاز میں لادا اور امریکا کی سرزمین پر پھینک دیا۔ جب امریکی لوگوں کو اس سرزمین پر قابض ہونے کا سودا سمایا تو ریڈانڈینز کو امریکی تارکین وطن نے چن چن کر ختم کردیا۔ امریکی ڈاکو اگر ترس کھانے پر آجائے تو رابن ہڈ بن جاتا ہے، اگر ظالم ڈاکو ہو تو اس کو تہس نہس کرنے والا دہشت گرد بن جاتا ہے۔
اسے آپ جرثومے کا کرشمہ کہیں یا پرکھوں کے رسم و رواج کی پروری یا امریکی مزاج کی ایک خوبی، لیکن ایک بات واضح ہے، کسی ایک خطے کے بسنے والوں میں ایک خوبی تو ہوتی ہے اور امریکا آج بھی ڈاکوؤں کی خوبیوں خامیوں سے مرقع ہے، جب چاہے دشنام دے دے، جب آمادہ ہو چاہے خلعت عطا کردے''۔
امریکی کردار کے بارے میں بانو آپا کا یہ تبصرہ دل کو لگتا ہے، تمام باتیں امریکا پر پوری طرح صادق نظر آتی ہیں۔ امریکا ایک ایسا ملک جو آزادی چھیننے کا داعی ہے، اپنی آزادی ثابت کرنے کے لیے وہ کسی کی آزادی سلب کرسکتا ہے، اپنی طاقت کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے کسی بھی ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتا ہے۔ امریکی جنگی جرائم کی فہرست خاصی طویل ہے۔
26 جولائی 1945 کو دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکا نے جاپان کو ہتھیار ڈالنے کا حکم دیا، جاپان نے انکار کردیا، جس کی پاداش میں 16 اور 19 اگست کو جاپان کے دو بڑے شہروں میں ایٹم بم گرائے گئے۔ جب یہ بم ہیروشیما پر گرایا گیا تو آن واحد میں ایک لاکھ چھیاسٹھ ہزار افرد زندہ جل گئے۔ یہی حال ناگاساکی شہر کا ہوا، جہاں بم گرانے کے چند منٹوں میں 80 ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے۔
ویت نام کی مشہور زمانہ جنگ جو یکم نومبر 1955 سے 30 اپریل 1974 یعنی انیس سال جاری رہی۔ اس اشتراکی جنگ میں امریکا نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ایک اندازے کے مطابق امریکا نے ساڑھے پانچ لاکھ امریکی فوجی ویت نام بھیجے۔ اس خون ریز جنگ میں ویت نام اور ویت کانگ میں 11 لاکھ 76 ہزار گمشدگیوں اور ہلاکتوں کی تعداد رہی، جب کہ 6 لا کھ سے زائد زخمی ہوئے۔ امریکی سفاکی کا مظاہرہ ہمیں آج کے عراق میں بھی نظر آتا ہے، جہاں لاکھوں انسانی جانیں ضایع ہوئیں۔
ہر طرف عمارتوں کے کھنڈرات، بارود اور دھواں نظر آتا ہے۔ بھارت ایٹمی دھماکا کرچکا تھا، پاکستان اپنے دفاع کی خاطر ایٹمی دھماکا کرنا چاہتا تھا تو اسے آخر وقت تک روکنے کی کوشش کی گئی۔ نائن الیون کو جواز بنا کر افغانستان پر حملہ کیا گیا۔ افغانستان آج موئن جو دڑو کا نقشہ پیش کررہا ہے، اس کے شہریوں کا کوئی مستقبل نہیں۔ اب مزید اوباما نے افغانستان میں امریکی کردار کی توسیع کردی ہے۔ امریکا نے اس جنگ میں اس کی ہر ممکن مدد کرنے والے پاکستان کو بھی نہیں چھوڑا، جس نے اس جنگ میں اپنی 60 ہزار انسانی جانیں ضایع کیں اور سوا کھرب ڈالر کا نقصان برداشت کیا۔ اس کے باوجود گزشتہ کئی سال سے وہ متواتر پاکستان کے شمالی علاقوں پر ڈرون حملے کرتا رہا ہے۔
امریکا نے پاکستانی سرزمین پر 2004 میں ڈرون حملے کا آغاز کیا۔ یہ حملے سابق امریکی صدر جارج بش، پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کے زمانے میں شروع ہوئے اور آج صدر بارک اوباما کے صدر بننے کے بعد، پاکستان میں نواز حکومت قائم ہونے کے بعد ان حملوں میں ہلاک ہونے والے زیادہ تر تعداد بے گناہ لوگوں کی ہے۔ اس بات کا اعتراف خود امریکی آقاؤں نے اپنی بیان میں کیا ہے۔ امریکا کا دعویٰ ہے کہ ڈرون حملے دہشت گردی کے خلاف پکی مصدقہ معلومات پر کیے جاتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو چند سال قبل کی صبح قبائل کے مابین پہاڑ کی ملکیت پر ہونے والے تنازعہ پر وزیرستان تحصیل دتہ خیل کے علاقے میں امن جرگہ جاری تھا کہ امریکی جاسوس طیارے نے چھ میزائل فائر کیے، جس سے 45 افرد جاں بحق ہوئے اور 80 سے زائد زخمی ہوئے۔ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والے افراد بے گناہ تھے۔
امریکی حکمرانوں نے کتنے ہی غریب ملکوں کو امداد اور تحفظ کی آڑ میں خانہ جنگی اور موت کی دلدل میں دھکیل دیا۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ جس کی آڑ میں انھوں نے عراق اور افغانستان کو تہس نہس کردیا۔ اب پاکستان اس کے حصار میں ہے۔ اس وقت پاکستان افواج آپریشن ضرب غضب کے ذریعے ملک سے دہشت گردی کے تمام ٹھکانوں کو ختم کرنے کا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔
اسی کے ساتھ کوشش کی جارہی تھی کہ افغانستان امن مذاکرات بھی کیے جائیں تاکہ آیندہ ہمیشہ کے لیے دہشتگردی کا سدباب ہوسکے۔ اس کے لیے چار ممالک پر مشتمل گروپ کا مذاکراتی عمل جاری تھا کہ 21 مئی کو کوئٹہ کے علاقے نوشکی میں امریکی ڈرون حملے میں افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور ہلاک کردیے گئے، جس سے افغان مذاکراتی عمل کو شدید دھچکا لگا اور پاکستان کی ساری محنت برباد گئی۔ یہ حملہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے منافی ہے۔ آرمی چیف نے بھی اس کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ڈرون حملہ پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کے خلاف ہے۔
ہم امریکا کو اس کا ذمے دار ٹھہرا سکتے ہیں، یہ ٹھیک بھی ہے، مگر اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ آخر یہ سب کیوں ہورہا ہے، اس میں شروع دن سے اب تک ہمارے اپنے پالیسی ساز کس قدر ذمے دار ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہم اپنے طالع آزماؤں کی لگائی ہوئی آگ میں خاکستر ہورہے ہیں۔ بقول خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز کہ ''امریکا مطلب پرست دوست ہے، ضرورت پڑے تو ہمارے پاس آجاتا ہے، کام نکل جائے تو پوچھتا تک نہیں، اپنا رویہ بدل لیتا ہے، ہماری سیکیورٹی کو اتنی اہمیت نہیں دیتاجتنی دینی چاہیے، امریکا سے تعلقات اب غور طلب ہیں''۔ بے شک امریکا ایک ایسا ملک ہے جو آزادی چھیننے کا داعی ہے، اپنی آزادی اور طاقت کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے قتل کو کرامات کا رخ عطا کرنا اسے خوب آتا ہے۔
اسے آپ جرثومے کا کرشمہ کہیں یا پرکھوں کے رسم و رواج کی پروری یا امریکی مزاج کی ایک خوبی، لیکن ایک بات واضح ہے، کسی ایک خطے کے بسنے والوں میں ایک خوبی تو ہوتی ہے اور امریکا آج بھی ڈاکوؤں کی خوبیوں خامیوں سے مرقع ہے، جب چاہے دشنام دے دے، جب آمادہ ہو چاہے خلعت عطا کردے''۔
امریکی کردار کے بارے میں بانو آپا کا یہ تبصرہ دل کو لگتا ہے، تمام باتیں امریکا پر پوری طرح صادق نظر آتی ہیں۔ امریکا ایک ایسا ملک جو آزادی چھیننے کا داعی ہے، اپنی آزادی ثابت کرنے کے لیے وہ کسی کی آزادی سلب کرسکتا ہے، اپنی طاقت کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے کسی بھی ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتا ہے۔ امریکی جنگی جرائم کی فہرست خاصی طویل ہے۔
26 جولائی 1945 کو دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکا نے جاپان کو ہتھیار ڈالنے کا حکم دیا، جاپان نے انکار کردیا، جس کی پاداش میں 16 اور 19 اگست کو جاپان کے دو بڑے شہروں میں ایٹم بم گرائے گئے۔ جب یہ بم ہیروشیما پر گرایا گیا تو آن واحد میں ایک لاکھ چھیاسٹھ ہزار افرد زندہ جل گئے۔ یہی حال ناگاساکی شہر کا ہوا، جہاں بم گرانے کے چند منٹوں میں 80 ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے۔
ویت نام کی مشہور زمانہ جنگ جو یکم نومبر 1955 سے 30 اپریل 1974 یعنی انیس سال جاری رہی۔ اس اشتراکی جنگ میں امریکا نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ایک اندازے کے مطابق امریکا نے ساڑھے پانچ لاکھ امریکی فوجی ویت نام بھیجے۔ اس خون ریز جنگ میں ویت نام اور ویت کانگ میں 11 لاکھ 76 ہزار گمشدگیوں اور ہلاکتوں کی تعداد رہی، جب کہ 6 لا کھ سے زائد زخمی ہوئے۔ امریکی سفاکی کا مظاہرہ ہمیں آج کے عراق میں بھی نظر آتا ہے، جہاں لاکھوں انسانی جانیں ضایع ہوئیں۔
ہر طرف عمارتوں کے کھنڈرات، بارود اور دھواں نظر آتا ہے۔ بھارت ایٹمی دھماکا کرچکا تھا، پاکستان اپنے دفاع کی خاطر ایٹمی دھماکا کرنا چاہتا تھا تو اسے آخر وقت تک روکنے کی کوشش کی گئی۔ نائن الیون کو جواز بنا کر افغانستان پر حملہ کیا گیا۔ افغانستان آج موئن جو دڑو کا نقشہ پیش کررہا ہے، اس کے شہریوں کا کوئی مستقبل نہیں۔ اب مزید اوباما نے افغانستان میں امریکی کردار کی توسیع کردی ہے۔ امریکا نے اس جنگ میں اس کی ہر ممکن مدد کرنے والے پاکستان کو بھی نہیں چھوڑا، جس نے اس جنگ میں اپنی 60 ہزار انسانی جانیں ضایع کیں اور سوا کھرب ڈالر کا نقصان برداشت کیا۔ اس کے باوجود گزشتہ کئی سال سے وہ متواتر پاکستان کے شمالی علاقوں پر ڈرون حملے کرتا رہا ہے۔
امریکا نے پاکستانی سرزمین پر 2004 میں ڈرون حملے کا آغاز کیا۔ یہ حملے سابق امریکی صدر جارج بش، پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کے زمانے میں شروع ہوئے اور آج صدر بارک اوباما کے صدر بننے کے بعد، پاکستان میں نواز حکومت قائم ہونے کے بعد ان حملوں میں ہلاک ہونے والے زیادہ تر تعداد بے گناہ لوگوں کی ہے۔ اس بات کا اعتراف خود امریکی آقاؤں نے اپنی بیان میں کیا ہے۔ امریکا کا دعویٰ ہے کہ ڈرون حملے دہشت گردی کے خلاف پکی مصدقہ معلومات پر کیے جاتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو چند سال قبل کی صبح قبائل کے مابین پہاڑ کی ملکیت پر ہونے والے تنازعہ پر وزیرستان تحصیل دتہ خیل کے علاقے میں امن جرگہ جاری تھا کہ امریکی جاسوس طیارے نے چھ میزائل فائر کیے، جس سے 45 افرد جاں بحق ہوئے اور 80 سے زائد زخمی ہوئے۔ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والے افراد بے گناہ تھے۔
امریکی حکمرانوں نے کتنے ہی غریب ملکوں کو امداد اور تحفظ کی آڑ میں خانہ جنگی اور موت کی دلدل میں دھکیل دیا۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ جس کی آڑ میں انھوں نے عراق اور افغانستان کو تہس نہس کردیا۔ اب پاکستان اس کے حصار میں ہے۔ اس وقت پاکستان افواج آپریشن ضرب غضب کے ذریعے ملک سے دہشت گردی کے تمام ٹھکانوں کو ختم کرنے کا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔
اسی کے ساتھ کوشش کی جارہی تھی کہ افغانستان امن مذاکرات بھی کیے جائیں تاکہ آیندہ ہمیشہ کے لیے دہشتگردی کا سدباب ہوسکے۔ اس کے لیے چار ممالک پر مشتمل گروپ کا مذاکراتی عمل جاری تھا کہ 21 مئی کو کوئٹہ کے علاقے نوشکی میں امریکی ڈرون حملے میں افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور ہلاک کردیے گئے، جس سے افغان مذاکراتی عمل کو شدید دھچکا لگا اور پاکستان کی ساری محنت برباد گئی۔ یہ حملہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے منافی ہے۔ آرمی چیف نے بھی اس کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ڈرون حملہ پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کے خلاف ہے۔
ہم امریکا کو اس کا ذمے دار ٹھہرا سکتے ہیں، یہ ٹھیک بھی ہے، مگر اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ آخر یہ سب کیوں ہورہا ہے، اس میں شروع دن سے اب تک ہمارے اپنے پالیسی ساز کس قدر ذمے دار ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہم اپنے طالع آزماؤں کی لگائی ہوئی آگ میں خاکستر ہورہے ہیں۔ بقول خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز کہ ''امریکا مطلب پرست دوست ہے، ضرورت پڑے تو ہمارے پاس آجاتا ہے، کام نکل جائے تو پوچھتا تک نہیں، اپنا رویہ بدل لیتا ہے، ہماری سیکیورٹی کو اتنی اہمیت نہیں دیتاجتنی دینی چاہیے، امریکا سے تعلقات اب غور طلب ہیں''۔ بے شک امریکا ایک ایسا ملک ہے جو آزادی چھیننے کا داعی ہے، اپنی آزادی اور طاقت کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے قتل کو کرامات کا رخ عطا کرنا اسے خوب آتا ہے۔