رجعت پسندی کو امریکا نے پروان چڑھایا
جہادی رہنماؤں سے جب سوال کیا گیا کہ ’جہاد کے لیے جب آپ لوگوں کو بھیجتے ہیں
بریزنسکی کی جانب سے 3 جولائی 1979 کو یہ انکشاف ہوا کہ جمی کارٹر نے افغان جنگ کے لیے سب سے پہلے 500 ملین امریکی ڈالر کا خفیہ فنڈ مختص کیا۔ یہ فنڈ اتنا خفیہ تھا کہ کانگریس کو بھی اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا۔ اس فنڈ کا مقصد یہ تھا کہ روس کی وسطی ایشیائی ریاستوں کو غیر مستحکم کرنے کے لیے دہشت گرد تنظیموں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اسلامی انتہاپسند تنظیموں کو کام میں لیا جائے۔
جہادی رہنماؤں سے جب سوال کیا گیا کہ 'جہاد کے لیے جب آپ لوگوں کو بھیجتے ہیں اور اپنے بچوں کو جہاد کے لیے کیوں روکتے ہیں؟ دوسرا سوال یہ تھا کہ چار پہیے والی جیپیں اور مسلح پہریدار اور شاندار دفاتر کے اخراجات کی رقوم کہاں سے آتی ہیں اور ان سہولتوں سے عام مجاہدین کیوں سرشار نہیں ہوپاتے؟ تو ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ جمعیت علمائے اسلام سندھ کے جنرل سیکریٹری خالد محمود سومرو مرحوم نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ 'یہ جہادی رہنما کہاں سے قیمتی موبائل فونز اور لینڈ کروزر گاڑیاں حاصل کرتے ہیں، انھیں کون اتنا فنڈ دیتا ہے؟
عوام سے حاصل کردہ فنڈ کی رقوم اتنی زیادہ نہیں ہوسکتی۔ ہم ایک عرصے سے سندھ میں کام کر رہے ہیں، ہمارے 50 ہزار کارکن ہیں، ہمیں کوئی فوجی تربیت نہیں دی گئی اور نہ ہی ہمارا کوئی عسکری دھڑا ہے۔ جے یو آئی افغانستان میں طالبان کی صرف اخلاقی مدد کرتی ہے''۔ مولانا فضل الرحمن خلیل نے کہا کہ امریکا نے رابطہ عالم اسلام کے ذریعے پیغام بھیجا تھا کہ چین کا صوبہ سنکیانگ میں جہاد کیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ ہم اب اس عمر میں آگئے ہیں کہ کسی کے حکم کو نہیں مانتے۔ مفتی نظام الدین نے اس بات کو بے نقاب کیا کہ امریکا، پاکستان میں مذہبی دانشوروں کو خریدنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ یہ خبر ماہنامہ 'ضرب حق' کراچی اپریل 2002 میں چھپی۔
پاکستان کے دس ہزار مدرسوں میں دس لاکھ طلبا زیر تعلیم ہیں۔ پانچ سے سات ہزار طلبا ان مدرسوں سے ہر سال گریجویٹ ہو کر نکلتے ہیں۔ پاکستان میں 104 جہادی تنظیمیں ہیں۔ یقیناً یہ جب تعلیم سے فارغ ہوکر روزگار کی تلاش میں نکلیں گے اور روزگار نہ ملنے پر پانچ پانچ ہزار روپے کی ملازمت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، پھر سامراجی آلۂ کاروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ 1985 کے نومبر میں نیوجرسی، امریکا میں امریکی سی آئی اے نے دنیا بھر سے رابطہ عالم اسلامی کے نمایندگان کا ایک اجلاس بلایا، جس میں روس اور کمیونسٹوں کے اثرورسوخ کے خاتمے اور اسلام کی سربلندی (درحقیقت سامراجی مفادات کی سربلندی) کے لیے یہ اجلاس طلب کیا گیا تھا۔ جنرل ضیاالحق نے پی ٹی وی پر اعلانیہ کہا تھا کہ 'ہمیں مصر کے انورالسادات نے کلاشنکوف فراہم کی تھی، جسے ہم افغان جہاد کے لیے استعمال کررہے ہیں'۔ چونکہ الجزائر، لیبیا، مصر، شام، عراق، لبنان، تیونس وغیرہ میں پرامن اور سماجی ترقی کا ماحول بنا ہوا تھا اور اس کے اثرات عرب بادشاہتوں پر بھی پڑرہے تھے۔
مندرجہ بالا ممالک میں بعث سوشلسٹ پارٹی کی قیادت میں بادشاہتوں کا خاتمہ ہوا اور یہاں تعلیم کو عام کیا گیا، بے روزگاری ختم کی گئی اور جدید معاشرے کی تشکیل کی جانب پیش قدمی ہورہی تھی۔ لیبیا میں ہر شخص کو مکان فراہم کیا گیا، الجزائر تیزی سے ترقی کی جانب پیش قدمی کررہا تھا۔ اسی طرح مصر، شام، عراق اس علاقے کے سب سے زیادہ خواندگی اور عوامی فلاح و بہبود کے حامل ممالک ٹھہرے۔ جب عرب بہار انقلاب برپا ہوا تو عرب بادشاہتیں خوف سے لرزنے لگیں۔ امریکی سامراج نے پہلے ہی سے سامراجی آلۂ کاروں کا جو جال بچھا رکھا تھا اسے مزید پھیلانا شروع کردیا۔ جس خطے میں انتہاپسندی، مسلک کے جھگڑے اور رنگ و نسل کی تفریق نہیں تھی اور اب عراق، شام، لیبیا اور یمن میں سامراجی مداخلت سے یہ خطہ جہنم میں تبدیل ہوگیا ہے۔ کہیں بوکوحرام، کہیں داعش، کہیں النصرۃ، کہیں القاعدہ اور کہیں اسلامی جہاد نے انسانوں کو فرقوں، نسلوں، مذاہب اور مسلکوں میں تقسیم کردیا ہے۔ یہی صورتحال پاکستان اور افغانستان کی ہے۔
افغانستان میں ثور انقلاب (اپریل انقلاب) 1978 میں برپا ہوکر بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور زمین کسانوں میں تقسیم کی گئیں، سود کا نظام یکسر ختم کردیا گیا، تعلیم عام ہوگئی۔ ان عوامل سے ترکی کی انقلابی حکومت سے امریکی سامراج میں لرزہ طاری ہونا شروع ہوگیا۔ پھر پاکستان اور افغانستان میں ڈالروں کی ریل پیل کردی۔ پاک افغان سرحد پر 105 جنگی تربیتی کیمپس قائم ہوئے جہاں یورپ، امریکا اور اسرائیل کے تربیتی انسٹرکٹرز نے مذہبی جہادی جماعتوں کو تربیت دینا شروع کردی۔ مدارس سے طالبان (طلبا) کے ہاتھ میں سفید جھنڈے اور گلے میں قرآن لٹکا کر افغانستان بھیجا گیا۔
شروع میں ملا پارٹیاں آپس میں نبرد آزما تھیں، اس لیے کہا گیا کہ ہم صلح کروانے کے لیے طالبان کو بھیج رہے ہیں اور ان مناظر کو نشر کیا جاتا تھا اور دکھایا جاتا تھا۔ جب طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا تو صلح کے بجائے مسند اقتدار پر براجمان ہوگئے۔ اور جب امریکی سی آئی اے نے ہی اسامہ بن لادن کو افغانستان بھیجا اور اربوں ڈالر خرچ کرکے پہاڑ میں سرنگ اور غار میں تحفظ کے لیے سیفٹی وال بنا کردیے۔
جب روس کی فوج افغانستان سے چلی گئیں تو یہ ملا پارٹیاں آپس میں ہی گتھم گتھا ہوگئیں۔ ایک دوسرے کو ہی قتل کرنے لگے۔ اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد کینیا اور نائیجیریا کے ساحلوں پر لنگر انداز جہازوں پر میزائل مارنے کے الزام میں القاعدہ اور اس کے رہنما اسامہ بن لادن کو امریکا نے ملزم ٹھہرایا۔ امریکا کے ٹوئن ٹاور پر حملے کے بعد امریکا نے افغانستان پر قبضہ کرکے امریکا سے ہی حامد کرزئی کو درآمد کرکے وہاں کا صدر بنادیا گیا۔ اسی طرح عراق میں صدام حسین کو پھانسی دے کر مالکی اور لیبیا میں قذافی کو شہید کرکے امریکی آلہ کار محمد ماگاریاف کو صدر بنادیا۔ مگر یہ عوامل اب خود امریکی سامراج کے گلے پڑگئے ہیں۔ پاکستان کے ایک سرکاری اہلکار کا کہنا ہے کہ طالبان سے مذاکرات امریکا کے کہنے پر شروع ہوتے ہیں اور وہی سبوتاژ کرتا ہے۔
اس وقت عالمی سامراج انتہائی معاشی انحطاط پذیری کا شکار ہے۔ یورپ اور امریکا کی شرح نمو دو فیصد پر آگئی ہے۔ ورلڈ بینک نے اپنے اعلامیے میں کہا ہے کہ ہمارا معاشی شرح نمو کا ہدف 2.9 فیصد تھا، جسے حاصل کرنے کے بجائے 2.4 تک محدود رہا۔ برازیل، چین، روس اور ہندوستان کی شرح نمو تنزلی کی جانب گامزن ہے۔ اس صورتحال میں دنیا بھر میں انقلابی حالات پیدا ہورہے ہیں۔ عوام پریشان اور جھنجھلاہٹ کا شکار ہیں۔ امریکا میں دہائیوں کے بعد برنی سینڈرز کی شکل میں سوشلزم کی آواز بلند ہورہی ہے، برطانیہ میں جیمری کوربون لیبر پارٹی کے سوشلسٹ لیڈر کے طور پر منتخب ہوئے ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور برصغیر میں انتہاپسندوں کو شکست ہورہی ہے۔
جہادی رہنماؤں سے جب سوال کیا گیا کہ 'جہاد کے لیے جب آپ لوگوں کو بھیجتے ہیں اور اپنے بچوں کو جہاد کے لیے کیوں روکتے ہیں؟ دوسرا سوال یہ تھا کہ چار پہیے والی جیپیں اور مسلح پہریدار اور شاندار دفاتر کے اخراجات کی رقوم کہاں سے آتی ہیں اور ان سہولتوں سے عام مجاہدین کیوں سرشار نہیں ہوپاتے؟ تو ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ جمعیت علمائے اسلام سندھ کے جنرل سیکریٹری خالد محمود سومرو مرحوم نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ 'یہ جہادی رہنما کہاں سے قیمتی موبائل فونز اور لینڈ کروزر گاڑیاں حاصل کرتے ہیں، انھیں کون اتنا فنڈ دیتا ہے؟
عوام سے حاصل کردہ فنڈ کی رقوم اتنی زیادہ نہیں ہوسکتی۔ ہم ایک عرصے سے سندھ میں کام کر رہے ہیں، ہمارے 50 ہزار کارکن ہیں، ہمیں کوئی فوجی تربیت نہیں دی گئی اور نہ ہی ہمارا کوئی عسکری دھڑا ہے۔ جے یو آئی افغانستان میں طالبان کی صرف اخلاقی مدد کرتی ہے''۔ مولانا فضل الرحمن خلیل نے کہا کہ امریکا نے رابطہ عالم اسلام کے ذریعے پیغام بھیجا تھا کہ چین کا صوبہ سنکیانگ میں جہاد کیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ ہم اب اس عمر میں آگئے ہیں کہ کسی کے حکم کو نہیں مانتے۔ مفتی نظام الدین نے اس بات کو بے نقاب کیا کہ امریکا، پاکستان میں مذہبی دانشوروں کو خریدنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ یہ خبر ماہنامہ 'ضرب حق' کراچی اپریل 2002 میں چھپی۔
پاکستان کے دس ہزار مدرسوں میں دس لاکھ طلبا زیر تعلیم ہیں۔ پانچ سے سات ہزار طلبا ان مدرسوں سے ہر سال گریجویٹ ہو کر نکلتے ہیں۔ پاکستان میں 104 جہادی تنظیمیں ہیں۔ یقیناً یہ جب تعلیم سے فارغ ہوکر روزگار کی تلاش میں نکلیں گے اور روزگار نہ ملنے پر پانچ پانچ ہزار روپے کی ملازمت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، پھر سامراجی آلۂ کاروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ 1985 کے نومبر میں نیوجرسی، امریکا میں امریکی سی آئی اے نے دنیا بھر سے رابطہ عالم اسلامی کے نمایندگان کا ایک اجلاس بلایا، جس میں روس اور کمیونسٹوں کے اثرورسوخ کے خاتمے اور اسلام کی سربلندی (درحقیقت سامراجی مفادات کی سربلندی) کے لیے یہ اجلاس طلب کیا گیا تھا۔ جنرل ضیاالحق نے پی ٹی وی پر اعلانیہ کہا تھا کہ 'ہمیں مصر کے انورالسادات نے کلاشنکوف فراہم کی تھی، جسے ہم افغان جہاد کے لیے استعمال کررہے ہیں'۔ چونکہ الجزائر، لیبیا، مصر، شام، عراق، لبنان، تیونس وغیرہ میں پرامن اور سماجی ترقی کا ماحول بنا ہوا تھا اور اس کے اثرات عرب بادشاہتوں پر بھی پڑرہے تھے۔
مندرجہ بالا ممالک میں بعث سوشلسٹ پارٹی کی قیادت میں بادشاہتوں کا خاتمہ ہوا اور یہاں تعلیم کو عام کیا گیا، بے روزگاری ختم کی گئی اور جدید معاشرے کی تشکیل کی جانب پیش قدمی ہورہی تھی۔ لیبیا میں ہر شخص کو مکان فراہم کیا گیا، الجزائر تیزی سے ترقی کی جانب پیش قدمی کررہا تھا۔ اسی طرح مصر، شام، عراق اس علاقے کے سب سے زیادہ خواندگی اور عوامی فلاح و بہبود کے حامل ممالک ٹھہرے۔ جب عرب بہار انقلاب برپا ہوا تو عرب بادشاہتیں خوف سے لرزنے لگیں۔ امریکی سامراج نے پہلے ہی سے سامراجی آلۂ کاروں کا جو جال بچھا رکھا تھا اسے مزید پھیلانا شروع کردیا۔ جس خطے میں انتہاپسندی، مسلک کے جھگڑے اور رنگ و نسل کی تفریق نہیں تھی اور اب عراق، شام، لیبیا اور یمن میں سامراجی مداخلت سے یہ خطہ جہنم میں تبدیل ہوگیا ہے۔ کہیں بوکوحرام، کہیں داعش، کہیں النصرۃ، کہیں القاعدہ اور کہیں اسلامی جہاد نے انسانوں کو فرقوں، نسلوں، مذاہب اور مسلکوں میں تقسیم کردیا ہے۔ یہی صورتحال پاکستان اور افغانستان کی ہے۔
افغانستان میں ثور انقلاب (اپریل انقلاب) 1978 میں برپا ہوکر بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور زمین کسانوں میں تقسیم کی گئیں، سود کا نظام یکسر ختم کردیا گیا، تعلیم عام ہوگئی۔ ان عوامل سے ترکی کی انقلابی حکومت سے امریکی سامراج میں لرزہ طاری ہونا شروع ہوگیا۔ پھر پاکستان اور افغانستان میں ڈالروں کی ریل پیل کردی۔ پاک افغان سرحد پر 105 جنگی تربیتی کیمپس قائم ہوئے جہاں یورپ، امریکا اور اسرائیل کے تربیتی انسٹرکٹرز نے مذہبی جہادی جماعتوں کو تربیت دینا شروع کردی۔ مدارس سے طالبان (طلبا) کے ہاتھ میں سفید جھنڈے اور گلے میں قرآن لٹکا کر افغانستان بھیجا گیا۔
شروع میں ملا پارٹیاں آپس میں نبرد آزما تھیں، اس لیے کہا گیا کہ ہم صلح کروانے کے لیے طالبان کو بھیج رہے ہیں اور ان مناظر کو نشر کیا جاتا تھا اور دکھایا جاتا تھا۔ جب طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا تو صلح کے بجائے مسند اقتدار پر براجمان ہوگئے۔ اور جب امریکی سی آئی اے نے ہی اسامہ بن لادن کو افغانستان بھیجا اور اربوں ڈالر خرچ کرکے پہاڑ میں سرنگ اور غار میں تحفظ کے لیے سیفٹی وال بنا کردیے۔
جب روس کی فوج افغانستان سے چلی گئیں تو یہ ملا پارٹیاں آپس میں ہی گتھم گتھا ہوگئیں۔ ایک دوسرے کو ہی قتل کرنے لگے۔ اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد کینیا اور نائیجیریا کے ساحلوں پر لنگر انداز جہازوں پر میزائل مارنے کے الزام میں القاعدہ اور اس کے رہنما اسامہ بن لادن کو امریکا نے ملزم ٹھہرایا۔ امریکا کے ٹوئن ٹاور پر حملے کے بعد امریکا نے افغانستان پر قبضہ کرکے امریکا سے ہی حامد کرزئی کو درآمد کرکے وہاں کا صدر بنادیا گیا۔ اسی طرح عراق میں صدام حسین کو پھانسی دے کر مالکی اور لیبیا میں قذافی کو شہید کرکے امریکی آلہ کار محمد ماگاریاف کو صدر بنادیا۔ مگر یہ عوامل اب خود امریکی سامراج کے گلے پڑگئے ہیں۔ پاکستان کے ایک سرکاری اہلکار کا کہنا ہے کہ طالبان سے مذاکرات امریکا کے کہنے پر شروع ہوتے ہیں اور وہی سبوتاژ کرتا ہے۔
اس وقت عالمی سامراج انتہائی معاشی انحطاط پذیری کا شکار ہے۔ یورپ اور امریکا کی شرح نمو دو فیصد پر آگئی ہے۔ ورلڈ بینک نے اپنے اعلامیے میں کہا ہے کہ ہمارا معاشی شرح نمو کا ہدف 2.9 فیصد تھا، جسے حاصل کرنے کے بجائے 2.4 تک محدود رہا۔ برازیل، چین، روس اور ہندوستان کی شرح نمو تنزلی کی جانب گامزن ہے۔ اس صورتحال میں دنیا بھر میں انقلابی حالات پیدا ہورہے ہیں۔ عوام پریشان اور جھنجھلاہٹ کا شکار ہیں۔ امریکا میں دہائیوں کے بعد برنی سینڈرز کی شکل میں سوشلزم کی آواز بلند ہورہی ہے، برطانیہ میں جیمری کوربون لیبر پارٹی کے سوشلسٹ لیڈر کے طور پر منتخب ہوئے ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور برصغیر میں انتہاپسندوں کو شکست ہورہی ہے۔