فیض اورکرکٹ
کرکٹر نہ بنناان کی زندگی کا سب سے بڑا پچھتاوا تھا۔
کرکٹر بننے کی تمنا پوری نہ ہونے کا ممتاز شاعر فیض احمد فیض کو تمام عمر پچھتاوا رہا۔انھوں نے بارہا اپنی اس نارسائی کا ذکرکیا ہے۔ہم نے ان کے مختلف انٹرویوز میں سے وہ ٹکرے چنے ہیں،جن میں کرکٹ سے، ان کی محبت ظاہر ہوتی ہے۔
فیض صاحب کی باتوں سے معلوم ہوتاہے کہ اس دور میں جب کرکٹ میں آج کے مقابلے میں پیسا نہ ہونے کے برابراور گلیمربھی اتنا نہ تھا، تب بھی اس کھیل کا جنون زوروں پرتھا۔کرکٹ کی بات ہورہی ہے، تو یہ بھی بتاتے چلیں کہ فیض احمد فیض کی پاکستان کرکٹ ٹیم کے پہلے کپتان عبدالحفیظ کاردار سے بھی دوستی رہی۔ لندن میں قیام کے دوران، ان کی ایک دوسرے پاکستانی کپتان، مشتاق محمد سے ملاقات بھی رہی ، جس کا احوال، مشتاق محمد نے اپنی آپ بیتی میں بیان کیا ہے۔
کرکٹ کے شوق سے متعلق فیض صاحب کی باتوں کا سلسلہ ہم ان کے ریڈیو پاکستان سے پینل انٹرویو کے اس اقتباس سے شروع کرتے ہیں۔ '' بچپن میں سوائے کرکٹ کھیلنے کے اور باقی جو لہو ولعب ہیں، جس کا ہمیں آج تک دکھ ہے، ہم اس میں شریک نہیں ہوئے، تو وہ ایک قسم کی محرومی ضرورہے۔اس کی بعد میں کچھ تلافی ہوئی یعنی یہاں پہنچ کر لاہور میں، گورنمنٹ کالج میں۔ایک اور تحیر جس کا ہمیںبچپن میںاحساس ہوا،جب ہم میٹرک میں تھے اس کے بعد بار بار یہ کیفیت طاری ہوئی ہے کہ یکایک دیکھاکہ دھوپ کا رنگ بدل گیا اور بہت سامنے کی چیزبہت دور دکھائی دے رہی ہے، دور کی چیزیں نزدیک دکھائی دیں، طرح طرح کےillusions ۔
مجھے اس کی کیفیت ابھی تک یاد ہے کہ کرکٹ کھیل رہے ہیں اور یکایک بجائے بال کو دیکھنے کے، دور سے کہیں روشنی نظر آتی ہے اور کوئی درخت نظرآیاہے۔اب یہ کیفیت پیدا نہیںہوتی لیکن ایک زمانے تک ایسی کیفیت پیداہوتی رہی،کہ یکایک دیکھا تودنیا کا رنگ ہی بدل گیا، دھوپ بجائے زرد ہونے کے مدھم ہوگئی اور کہیں دھند ہے اور کہیں روشنی ہے اور اس قسم کی چیزیں، وہ کیفیات آتی رہی ہیں۔''
معروف اخبار نویس، آئی اے رحمان ، جو فیض کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے ہیں،انھوں نے ایک انگریزی ماہنامہ کے لیے انٹرویو میں پوچھا''کوئی ایسی خواہش جو پوری نہ ہوئی ہو اور اس کے نتیجے میں مایوسی؟
اس سوال پر فیض صاحب کا جواب تھا''کچھ ایسی خواہشات ہیں،بچپن میں کرکٹر بننے کی خواہش تھی۔کبھی کھیلنے کا موقع نہیں ملا۔''
ممتاز شاعرافتخار عارف کی فیض سے عقیدت ڈھکی چھپی نہیں۔آخری برسوں میں ان کا فیض سے بہت زیادہ ربط ضبط رہا۔انھوں نے ایک مکالمے میں، جس میں ان کے ساتھ احمد فراز بھی شریک تھے،فیض سے پوچھا : عام طور سے آپ کے بارے میں ایک تاثریہ ہے کہ آپ نے انتہائی بھرپور زندگی گزاری ہے اور بڑی کامیاب زندگی گزاری ہے۔ کبھی کوئی پچھتاوا بھی آپ کو ہوا ہوگا؟اس پر فیض بولے''ایک پچھتاوا تو ہے کہ جب ہم اسکول میں پڑھتے تھے تو ہماریAmbition یہ تھی کہ ہم بڑے کرکٹر بنیں۔ابھی تک کبھی کبھی ہم خواب میں دیکھتے ہیں کہ ہم بہت بڑے ٹیسٹ کرکٹر ہیں اور کرکٹ میچ کھیل رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ایک تو ہم نہیں بن سکے۔یہ بہت بڑا پچھتاواہے۔''
اس جواب پراحمد فراز نے لقمہ دیا''صاحب یہاں آپ سے تھوڑی سے عرض کرنا چاہوں گا کہ اگرآپ کرکٹر بن بھی جاتے تو پانچ سات سال تک آپ کا جو خواب تھا،وہ حقیقت کا روپ اختیار کرلیتا۔بعد میں کرکٹ سے ریٹائر ہوکرتو ادھر ہی آنا تھا آپ کو۔''فیض:یہ تو دوسری بات ہے نا۔''
ایک بار کرشن گولڈ نے ان سے پوچھا: ابھی آپ نے کہا کہ کسی زمانے میں تک بندی کیاکرتے تھے۔اس زمانے میں کبھی خیال آیاتھا کہ آپ شاعر بنیں گے؟
فیض :کبھی بھی نہیں، اس وقت تو ہم صرف کرکٹر بننا چاہتے تھے۔ اپنی خواہشات کا دائرہ یہاں تک محدود تھا۔
حسن رضوی نے پوچھا''ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں کے بارے میں آپ کا خیال؟
''میچ کی کمنٹری سنتے ہیںیا میچ دیکھتے ہیں، اس سے زیادہ کوئی رائے نہیں۔''
ایک اور جگہ خیالات کا اظہار یوں ہوتا ہے'' شروع میں خیال ہوا کہ ہم بڑے کرکٹر بن جائیں،کیونکہ لڑکپن سے کرکٹ کاشوق تھااور بہت کھیل چکے تھے۔پھر جی چاہا استاد بنناچاہیے۔ریسرچ کرنے کا بہت شوق تھا۔ان میں سے کوئی بات بھی نہ بنی۔ہم کرکٹر بنے،نہ نقاد اور نہ ریسرچ کیا۔البتہ استاد ہوکر امرتسر چلے گئے۔''
فیض صاحب کی باتوں سے معلوم ہوتاہے کہ اس دور میں جب کرکٹ میں آج کے مقابلے میں پیسا نہ ہونے کے برابراور گلیمربھی اتنا نہ تھا، تب بھی اس کھیل کا جنون زوروں پرتھا۔کرکٹ کی بات ہورہی ہے، تو یہ بھی بتاتے چلیں کہ فیض احمد فیض کی پاکستان کرکٹ ٹیم کے پہلے کپتان عبدالحفیظ کاردار سے بھی دوستی رہی۔ لندن میں قیام کے دوران، ان کی ایک دوسرے پاکستانی کپتان، مشتاق محمد سے ملاقات بھی رہی ، جس کا احوال، مشتاق محمد نے اپنی آپ بیتی میں بیان کیا ہے۔
کرکٹ کے شوق سے متعلق فیض صاحب کی باتوں کا سلسلہ ہم ان کے ریڈیو پاکستان سے پینل انٹرویو کے اس اقتباس سے شروع کرتے ہیں۔ '' بچپن میں سوائے کرکٹ کھیلنے کے اور باقی جو لہو ولعب ہیں، جس کا ہمیں آج تک دکھ ہے، ہم اس میں شریک نہیں ہوئے، تو وہ ایک قسم کی محرومی ضرورہے۔اس کی بعد میں کچھ تلافی ہوئی یعنی یہاں پہنچ کر لاہور میں، گورنمنٹ کالج میں۔ایک اور تحیر جس کا ہمیںبچپن میںاحساس ہوا،جب ہم میٹرک میں تھے اس کے بعد بار بار یہ کیفیت طاری ہوئی ہے کہ یکایک دیکھاکہ دھوپ کا رنگ بدل گیا اور بہت سامنے کی چیزبہت دور دکھائی دے رہی ہے، دور کی چیزیں نزدیک دکھائی دیں، طرح طرح کےillusions ۔
مجھے اس کی کیفیت ابھی تک یاد ہے کہ کرکٹ کھیل رہے ہیں اور یکایک بجائے بال کو دیکھنے کے، دور سے کہیں روشنی نظر آتی ہے اور کوئی درخت نظرآیاہے۔اب یہ کیفیت پیدا نہیںہوتی لیکن ایک زمانے تک ایسی کیفیت پیداہوتی رہی،کہ یکایک دیکھا تودنیا کا رنگ ہی بدل گیا، دھوپ بجائے زرد ہونے کے مدھم ہوگئی اور کہیں دھند ہے اور کہیں روشنی ہے اور اس قسم کی چیزیں، وہ کیفیات آتی رہی ہیں۔''
معروف اخبار نویس، آئی اے رحمان ، جو فیض کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے ہیں،انھوں نے ایک انگریزی ماہنامہ کے لیے انٹرویو میں پوچھا''کوئی ایسی خواہش جو پوری نہ ہوئی ہو اور اس کے نتیجے میں مایوسی؟
اس سوال پر فیض صاحب کا جواب تھا''کچھ ایسی خواہشات ہیں،بچپن میں کرکٹر بننے کی خواہش تھی۔کبھی کھیلنے کا موقع نہیں ملا۔''
ممتاز شاعرافتخار عارف کی فیض سے عقیدت ڈھکی چھپی نہیں۔آخری برسوں میں ان کا فیض سے بہت زیادہ ربط ضبط رہا۔انھوں نے ایک مکالمے میں، جس میں ان کے ساتھ احمد فراز بھی شریک تھے،فیض سے پوچھا : عام طور سے آپ کے بارے میں ایک تاثریہ ہے کہ آپ نے انتہائی بھرپور زندگی گزاری ہے اور بڑی کامیاب زندگی گزاری ہے۔ کبھی کوئی پچھتاوا بھی آپ کو ہوا ہوگا؟اس پر فیض بولے''ایک پچھتاوا تو ہے کہ جب ہم اسکول میں پڑھتے تھے تو ہماریAmbition یہ تھی کہ ہم بڑے کرکٹر بنیں۔ابھی تک کبھی کبھی ہم خواب میں دیکھتے ہیں کہ ہم بہت بڑے ٹیسٹ کرکٹر ہیں اور کرکٹ میچ کھیل رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ایک تو ہم نہیں بن سکے۔یہ بہت بڑا پچھتاواہے۔''
اس جواب پراحمد فراز نے لقمہ دیا''صاحب یہاں آپ سے تھوڑی سے عرض کرنا چاہوں گا کہ اگرآپ کرکٹر بن بھی جاتے تو پانچ سات سال تک آپ کا جو خواب تھا،وہ حقیقت کا روپ اختیار کرلیتا۔بعد میں کرکٹ سے ریٹائر ہوکرتو ادھر ہی آنا تھا آپ کو۔''فیض:یہ تو دوسری بات ہے نا۔''
ایک بار کرشن گولڈ نے ان سے پوچھا: ابھی آپ نے کہا کہ کسی زمانے میں تک بندی کیاکرتے تھے۔اس زمانے میں کبھی خیال آیاتھا کہ آپ شاعر بنیں گے؟
فیض :کبھی بھی نہیں، اس وقت تو ہم صرف کرکٹر بننا چاہتے تھے۔ اپنی خواہشات کا دائرہ یہاں تک محدود تھا۔
حسن رضوی نے پوچھا''ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں کے بارے میں آپ کا خیال؟
''میچ کی کمنٹری سنتے ہیںیا میچ دیکھتے ہیں، اس سے زیادہ کوئی رائے نہیں۔''
ایک اور جگہ خیالات کا اظہار یوں ہوتا ہے'' شروع میں خیال ہوا کہ ہم بڑے کرکٹر بن جائیں،کیونکہ لڑکپن سے کرکٹ کاشوق تھااور بہت کھیل چکے تھے۔پھر جی چاہا استاد بنناچاہیے۔ریسرچ کرنے کا بہت شوق تھا۔ان میں سے کوئی بات بھی نہ بنی۔ہم کرکٹر بنے،نہ نقاد اور نہ ریسرچ کیا۔البتہ استاد ہوکر امرتسر چلے گئے۔''