اُردو ہے جس کا نام
اُردو بشمول ہندی دنیا میں بولی جانے والی تیسری بڑی زبان ہے، جس کے رسم الخط مختلف ہیں۔
قوموں کی شناخت کے حوالے سے ان کی بعض علامتیں ہوا کرتی ہیں، جیساکہ قومی گیت و ترانے، قومی پرچم، قومی پھول، قومی شاعر اور قومی زبان وغیرہ وغیرہ۔ ہم جن قوموں کو ترقی یافتہ گردانتے ہیں وہ کیا عوامل تھے جن کو بروئے کار لاکر وہ ترقی یافتہ کہلائیں، انھوں نے کس زبان میں تعلیم حاصل کی اور کس چیز کو سامنے رکھ کر وہ اس مقام پر پہنچے، جہاں کامرانی و ترقی نے ان کے قدم چومے۔
جاپان کو ہی دیکھ لیجیے، انھوں نے اپنی قومی زبان ہی میں تعلیم حاصل کی، چائنا نے چائنیز کو اپنی ترقی کا راستہ بنایا، اٹلی نے اطالوی کو فوقیت دی، فرانس نے فرانسیسی ہی کو ترجیح دی، یہ تمام زبانیں ان ملکوں کی قومی زبانیں ہیں، یعنی دنیا بھر کے علوم چاہے وہ کسی بھی زبان میں ہوں، انھوں نے تمام علوم کو اپنی اپنی قومی زبانوں میں منتقل کرلیا اور آج ان کی زبانیں پھل پھول رہی ہیں وہ اپنی زبانوں پر نازاں ہیں، اور ہم دل گرفتہ اور شرمندہ ہیں، جہاں ہماری قومی زبان کی حیثیت ''گھر کی مرغی دال برابر'' والی ہے، اور ہم نے اب تک اُردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ ہی نہیں کروایا۔
اُردو بشمول ہندی دنیا میں بولی جانے والی تیسری بڑی زبان ہے، جس کے رسم الخط مختلف ہیں، بھارت میں دیوناگری اور پاکستان میں نستعلیق، لیکن عام بول چال کے حوالے سے بلاشبہ اُردو تیسری بڑی زبان ہے۔ کسی بھی زبان کے فروغ میں سرکاری سرپرستی ضروری سمجھی جاتی ہے، چاہے دور جمہوریت ہو یا دور شہنشاہی، لیکن اُردو اس معاملے میں بدقسمت رہی کہ اس کو کبھی سرکاری سرپرستی حاصل نہیں رہی، بلکہ سرے سے اس کو قومی زبان مانا ہی نہیں گیا۔ اُردو رابطہ کی سب سے بڑی زبان ہے اور آئین کی رو سے 1988 تک اس کو سرکاری طور پر دفتری زبان ہوجانا چاہیے تھا۔
سوچیے آپ جس معاشرے میں پیدا ہوئے ہوں، آپ کی نسل جس معاشرے میں سانس لے رہی ہے، وہاں کی مروّجہ رائج زبان ہی کی مدد سے آپ عقل و شعور کی پُرپیچ گتھیاں سلجھاتے ہوئے کاروبارِ زندگی چلاتے ہیں، اگر آپ کے سامنے اس وقت کوئی دوسری زبان نافذ العمل کردی جائے تو آپ اور آپ کے بچے دونوں ہی حیران کن حد تک پریشان ہوجائیں گے۔ اُردو زبان کو بطور ذریعۂ تعلیم ایک آبرو مندانہ مقام دینا ضروری ہے، یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہماری قومی زندگی کے مختلف مراحل پر ہمارے سامنے اپنی تمام تر شدتوں کے ساتھ موجود ہے، لیکن ہم بحیثیت قوم ابھی تک اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر اُردو کو بطورِ ذریعہ تعلیم اپنانے کی مختلف ممکنہ صورتیں ہیں، پرائمری اسکول کی سطح پر جہاں بچے کی نشوونما ارتقائی مراحل سے گزر رہی ہوتی ہے وہیں یہ وہ دور ہوتا ہے جب اس میں مختلف چیزوں کو دیکھنے کی صلاحیت سب سے زیادہ ہوتی ہے، چنانچہ یہی وہ موزوں مقام ہے، پرائمری اسکول کی سطح تک بچے کو کسی بھی زبان کے سیکھنے اور اس کی بنیادی معلومات حاصل کرنا زیادہ مشکل امر نہیں ہے، لیکن معاشرے میں چند اُردو مخالف طبقے نے اُردو کو پریشان کُن حد تک نقصان پہنچایا ہے، حقائق نہایت ہی بھیانک ہیں، اُردو میڈیم اسکولز بند ہوگئے اور ان کی جگہ لے لی نام نہاد انگلش میڈیم اسکولز نے۔ اُردو کا مستقبل پاکستان ہی میں ناگفتہ بہ ہے کسی اور جگہ کا ذکر کیوں کریں، ہاں سعودیہ اور خلیجی ریاستوں میں مقیم اُردو دان طبقے نے اپنے بچوں کو اُردو کے اسرار و رموز سکھانے شروع کردیے ہیں۔ یہ بہت قابلِ تعریف اقدام ہے، کم ازکم اپنی تہذیب و تمدن تو باقی رہے۔ چند لوگوں کے قریب انگلش میڈیم اسکول میں ہی اپنے بچوں کو پڑھوانا باعثِ افتخار ہوتا ہے، احساس کمتری کا عفریت معصوم بچوں کے دماغوں پر ڈال کر انگلش میڈیم کہلوانے کے چکر میں اپنے بچوں کو گھن چکر بنا ڈالتے ہیں، بغیر یہ جانے کہ ان کے بچوں پر کیا بیت رہی ہے۔
کسی بھی زبان کے مقبول ہونے میں کچھ عناصر ہوتے ہیں جن کے برملا اطلاق کے بعد دیکھا جاتا ہے کہ وہ زبان وسعت اور اپنے اندر کیا جزئیات رکھتی ہے، سب سے پہلے زبان عام بول چال میں آسان ہو، محدود افہام و تفہیم رکھتی ہو، ابلاغ کا کام کرسکتی ہو، ایک حلقہ اثر رکھتی ہو، علمی زبان ہو، اس میں اتنی وسعت ہو کہ مختلف علوم کی شرح کرسکے، علمی انداز میں مکالمہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو اور مستحکم علمی روایات کی حامل ہو۔ بلاشبہ اُردو میں ان جزئیات سے زیادہ صلاحیتیں ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس کی ترقی کیوں منجمد ہوگئی؟ پاکستان کی ساری ہی زبانیں خوبصورت ہیں، بلوچی ہوکہ سندھی، سرائیکی ہو کہ پشتو، اُردو ہر پاکستانی جانتا ہے اور بول سکتا ہے۔ کیا مفاد پرستی کسی زبان کی نمو میں اثر انداز ہوسکتی ہے؟ مگر ہم اس بحث میں نہیں پڑیں گے، بقول محسن بھوپالیؔ:
زبان پر مہر لگانا تو کوئی بات نہیں
بدل سکو تو بدل دو مرے خیالوں کو
قانون، سائنس اور تاریخ کی تعلیم کے حوالے سے یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ وہ طالبعلم جو اُردو کو بطور ذریعہ تعلیم اپناتے ہیں اُس مضمون میں ان کی کارکردگی ان طالب علموں کی نسبت بہتر ہوتی ہے، جو انگریزی زبان میں ان مضامین میں مہارت حاصل کرتے ہیں، اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس عمل کے دوران بچے کی بہت سی صلاحیتیں اجنبی زبان کو سمجھنے میں صرف ہوجاتی ہیں اور بیشتر مقامات پر متعلقہ مضمون کا علم ناقص رہ جاتا ہے۔
اُردو زبان کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں ہم معنی اور مترادف الفاظ کثیر تعداد میں موجود ہیں، زبانوں خصوصاً انگریزی میں مترادفات کی اتنی کثیر تعداد موجود نہیں ہے، اسی بناء پر اُردو کے ذخیرۂ الفاظ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
بہت ہی شرمندگی کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جس زبان کے وسیلے سے ہمیں دنیا کا ہر علم اس میں منتقل کرکے اپنے بچوں تک پہنچانا تھا وہاں ہم نے اس کو زندہ درگور کردیا۔ اُردو کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عبرانی زبان بنادیا ہے، جو حال ہم بلوچستان کے ساتھ کر رہے ہیں وہی حال اُردو کے ساتھ ہورہا ہے، اسرائیل نے بھی انیسویں صدی کے آخر تک عبرانی زبان کو جو مردہ ہوئی تھی اس کو پھر زندہ کردیا، عربی ایک فاتح زبان تھی، لیکن مفتوحہ علاقوں پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑگئی، پھر عبدالملک بن مروان 685 تا 805 نے عربی کو سرکاری سرپرستی دے کر اس کا رشتہ روٹی روزی سے جوڑدیا، یہی عمل انگریزی کے ساتھ ہوا، امریکا نے 1914 میں خود کو عالمی زور آور ثابت کردیا تھا، انگلستان کو پیچھے چھوڑ کر وہاں سے انگریزی کو جو عروج حاصل ہوا تو آج تک دنیا کی مقبول ترین زبان ہے، لیکن ہم نے اُردو کو لاطینی ایس۔ ایم۔ ایس کی زبان بنادیا ہے۔
ہفت زبان ہونا اچھی بات ہے، لیکن اپنی زبان کی قربانی دینے کے بعد نہیں۔ وفاقی، صوبائی ضلعی حکومتیں اُردو کو نافذ العمل کروانے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی ایک مایہ ناز ادیب، ماہرِ تعلیم، صحافی ہیں، وہ کہتے ہیں ''میرا خیال ہے ہم آئندہ اپنی نسلوں کو اُردو، اُردو میں نہیں پڑھائیں گے بلکہ رومن اُردو میں پڑھایا اور سمجھایا جائے گا''۔ ہم اُردو کے ساتھ ناروا سلوک کر رہے ہیں اور ذرا بھی شرمسار نہیں۔ خدارا! پاکستان کا حال تو خراب کر ہی دیا ہے، کم ازکم اُردو کو تو بچائیں، میری خواہش ہے کہ دنیا کا ہر علم اس میں ضم ہوجائے اور اتنی ترقی ہو پاکستان میں کہ دنیا انگشت بدنداں رہ جائے۔
اُردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے
جاپان کو ہی دیکھ لیجیے، انھوں نے اپنی قومی زبان ہی میں تعلیم حاصل کی، چائنا نے چائنیز کو اپنی ترقی کا راستہ بنایا، اٹلی نے اطالوی کو فوقیت دی، فرانس نے فرانسیسی ہی کو ترجیح دی، یہ تمام زبانیں ان ملکوں کی قومی زبانیں ہیں، یعنی دنیا بھر کے علوم چاہے وہ کسی بھی زبان میں ہوں، انھوں نے تمام علوم کو اپنی اپنی قومی زبانوں میں منتقل کرلیا اور آج ان کی زبانیں پھل پھول رہی ہیں وہ اپنی زبانوں پر نازاں ہیں، اور ہم دل گرفتہ اور شرمندہ ہیں، جہاں ہماری قومی زبان کی حیثیت ''گھر کی مرغی دال برابر'' والی ہے، اور ہم نے اب تک اُردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ ہی نہیں کروایا۔
اُردو بشمول ہندی دنیا میں بولی جانے والی تیسری بڑی زبان ہے، جس کے رسم الخط مختلف ہیں، بھارت میں دیوناگری اور پاکستان میں نستعلیق، لیکن عام بول چال کے حوالے سے بلاشبہ اُردو تیسری بڑی زبان ہے۔ کسی بھی زبان کے فروغ میں سرکاری سرپرستی ضروری سمجھی جاتی ہے، چاہے دور جمہوریت ہو یا دور شہنشاہی، لیکن اُردو اس معاملے میں بدقسمت رہی کہ اس کو کبھی سرکاری سرپرستی حاصل نہیں رہی، بلکہ سرے سے اس کو قومی زبان مانا ہی نہیں گیا۔ اُردو رابطہ کی سب سے بڑی زبان ہے اور آئین کی رو سے 1988 تک اس کو سرکاری طور پر دفتری زبان ہوجانا چاہیے تھا۔
سوچیے آپ جس معاشرے میں پیدا ہوئے ہوں، آپ کی نسل جس معاشرے میں سانس لے رہی ہے، وہاں کی مروّجہ رائج زبان ہی کی مدد سے آپ عقل و شعور کی پُرپیچ گتھیاں سلجھاتے ہوئے کاروبارِ زندگی چلاتے ہیں، اگر آپ کے سامنے اس وقت کوئی دوسری زبان نافذ العمل کردی جائے تو آپ اور آپ کے بچے دونوں ہی حیران کن حد تک پریشان ہوجائیں گے۔ اُردو زبان کو بطور ذریعۂ تعلیم ایک آبرو مندانہ مقام دینا ضروری ہے، یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہماری قومی زندگی کے مختلف مراحل پر ہمارے سامنے اپنی تمام تر شدتوں کے ساتھ موجود ہے، لیکن ہم بحیثیت قوم ابھی تک اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر اُردو کو بطورِ ذریعہ تعلیم اپنانے کی مختلف ممکنہ صورتیں ہیں، پرائمری اسکول کی سطح پر جہاں بچے کی نشوونما ارتقائی مراحل سے گزر رہی ہوتی ہے وہیں یہ وہ دور ہوتا ہے جب اس میں مختلف چیزوں کو دیکھنے کی صلاحیت سب سے زیادہ ہوتی ہے، چنانچہ یہی وہ موزوں مقام ہے، پرائمری اسکول کی سطح تک بچے کو کسی بھی زبان کے سیکھنے اور اس کی بنیادی معلومات حاصل کرنا زیادہ مشکل امر نہیں ہے، لیکن معاشرے میں چند اُردو مخالف طبقے نے اُردو کو پریشان کُن حد تک نقصان پہنچایا ہے، حقائق نہایت ہی بھیانک ہیں، اُردو میڈیم اسکولز بند ہوگئے اور ان کی جگہ لے لی نام نہاد انگلش میڈیم اسکولز نے۔ اُردو کا مستقبل پاکستان ہی میں ناگفتہ بہ ہے کسی اور جگہ کا ذکر کیوں کریں، ہاں سعودیہ اور خلیجی ریاستوں میں مقیم اُردو دان طبقے نے اپنے بچوں کو اُردو کے اسرار و رموز سکھانے شروع کردیے ہیں۔ یہ بہت قابلِ تعریف اقدام ہے، کم ازکم اپنی تہذیب و تمدن تو باقی رہے۔ چند لوگوں کے قریب انگلش میڈیم اسکول میں ہی اپنے بچوں کو پڑھوانا باعثِ افتخار ہوتا ہے، احساس کمتری کا عفریت معصوم بچوں کے دماغوں پر ڈال کر انگلش میڈیم کہلوانے کے چکر میں اپنے بچوں کو گھن چکر بنا ڈالتے ہیں، بغیر یہ جانے کہ ان کے بچوں پر کیا بیت رہی ہے۔
کسی بھی زبان کے مقبول ہونے میں کچھ عناصر ہوتے ہیں جن کے برملا اطلاق کے بعد دیکھا جاتا ہے کہ وہ زبان وسعت اور اپنے اندر کیا جزئیات رکھتی ہے، سب سے پہلے زبان عام بول چال میں آسان ہو، محدود افہام و تفہیم رکھتی ہو، ابلاغ کا کام کرسکتی ہو، ایک حلقہ اثر رکھتی ہو، علمی زبان ہو، اس میں اتنی وسعت ہو کہ مختلف علوم کی شرح کرسکے، علمی انداز میں مکالمہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو اور مستحکم علمی روایات کی حامل ہو۔ بلاشبہ اُردو میں ان جزئیات سے زیادہ صلاحیتیں ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس کی ترقی کیوں منجمد ہوگئی؟ پاکستان کی ساری ہی زبانیں خوبصورت ہیں، بلوچی ہوکہ سندھی، سرائیکی ہو کہ پشتو، اُردو ہر پاکستانی جانتا ہے اور بول سکتا ہے۔ کیا مفاد پرستی کسی زبان کی نمو میں اثر انداز ہوسکتی ہے؟ مگر ہم اس بحث میں نہیں پڑیں گے، بقول محسن بھوپالیؔ:
زبان پر مہر لگانا تو کوئی بات نہیں
بدل سکو تو بدل دو مرے خیالوں کو
قانون، سائنس اور تاریخ کی تعلیم کے حوالے سے یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ وہ طالبعلم جو اُردو کو بطور ذریعہ تعلیم اپناتے ہیں اُس مضمون میں ان کی کارکردگی ان طالب علموں کی نسبت بہتر ہوتی ہے، جو انگریزی زبان میں ان مضامین میں مہارت حاصل کرتے ہیں، اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس عمل کے دوران بچے کی بہت سی صلاحیتیں اجنبی زبان کو سمجھنے میں صرف ہوجاتی ہیں اور بیشتر مقامات پر متعلقہ مضمون کا علم ناقص رہ جاتا ہے۔
اُردو زبان کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں ہم معنی اور مترادف الفاظ کثیر تعداد میں موجود ہیں، زبانوں خصوصاً انگریزی میں مترادفات کی اتنی کثیر تعداد موجود نہیں ہے، اسی بناء پر اُردو کے ذخیرۂ الفاظ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
بہت ہی شرمندگی کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جس زبان کے وسیلے سے ہمیں دنیا کا ہر علم اس میں منتقل کرکے اپنے بچوں تک پہنچانا تھا وہاں ہم نے اس کو زندہ درگور کردیا۔ اُردو کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عبرانی زبان بنادیا ہے، جو حال ہم بلوچستان کے ساتھ کر رہے ہیں وہی حال اُردو کے ساتھ ہورہا ہے، اسرائیل نے بھی انیسویں صدی کے آخر تک عبرانی زبان کو جو مردہ ہوئی تھی اس کو پھر زندہ کردیا، عربی ایک فاتح زبان تھی، لیکن مفتوحہ علاقوں پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑگئی، پھر عبدالملک بن مروان 685 تا 805 نے عربی کو سرکاری سرپرستی دے کر اس کا رشتہ روٹی روزی سے جوڑدیا، یہی عمل انگریزی کے ساتھ ہوا، امریکا نے 1914 میں خود کو عالمی زور آور ثابت کردیا تھا، انگلستان کو پیچھے چھوڑ کر وہاں سے انگریزی کو جو عروج حاصل ہوا تو آج تک دنیا کی مقبول ترین زبان ہے، لیکن ہم نے اُردو کو لاطینی ایس۔ ایم۔ ایس کی زبان بنادیا ہے۔
ہفت زبان ہونا اچھی بات ہے، لیکن اپنی زبان کی قربانی دینے کے بعد نہیں۔ وفاقی، صوبائی ضلعی حکومتیں اُردو کو نافذ العمل کروانے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی ایک مایہ ناز ادیب، ماہرِ تعلیم، صحافی ہیں، وہ کہتے ہیں ''میرا خیال ہے ہم آئندہ اپنی نسلوں کو اُردو، اُردو میں نہیں پڑھائیں گے بلکہ رومن اُردو میں پڑھایا اور سمجھایا جائے گا''۔ ہم اُردو کے ساتھ ناروا سلوک کر رہے ہیں اور ذرا بھی شرمسار نہیں۔ خدارا! پاکستان کا حال تو خراب کر ہی دیا ہے، کم ازکم اُردو کو تو بچائیں، میری خواہش ہے کہ دنیا کا ہر علم اس میں ضم ہوجائے اور اتنی ترقی ہو پاکستان میں کہ دنیا انگشت بدنداں رہ جائے۔
اُردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے