این آر او حکومت نے جارحانہ حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا

25جولائی کو حکومت اورعدلیہ کے درمیان بڑے معرکے کی توقع،سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ بطور ثبوت پیش کیا جائیگا

25جولائی کو حکومت اورعدلیہ کے درمیان بڑے معرکے کی توقع،سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ بطور ثبوت پیش کیا جائیگا،ایکسپریس ٹریبیون۔ فوٹو ایکسپریس

حکومت نے 25جولائی کو سپریم کورٹ میں نیشنل ری کنسیلیشن آرڈیننس (این آر او) عملدرآمد کیس کا جارحانہ طور پر دفاع کرنے کے لیے نئی حکمت عملی تیارکرلی ہے جس کے تحت موقف اختیارکیا جائیگا کہ 2007میں اس وقت کے اٹارنی جنرل تمام ایگزیکٹو اتھارٹیز کی حمایت سے سوئس حکام کو خط لکھ چکے ہیں۔

ذرائع نے ایکسپریس ٹریبون کو بتایا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی قانونی ٹیم این آر او کیس میں اپنی ماضی کی حکمت عملی کے برعکس اپنے تمام آپشن بروئے کارلائے گی۔حکومت کے ایک قانونی ماہر نے بتایا ہے کہ قانونی ٹیم نے کیس کے سلسلے میں جامع اور موثر جواب تیار کرلیا ہے جس میں وزارت قانون کی سمری بھی شامل ہے جبکہ حکومتی کیس کو تقویت دینے کے لیے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا جائے گا۔آئندہ ہفتہ حکومت کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا کیونکہ پیر کو اسے توہین عدالت کے حوالے سے بننے والے نئے قانون سے متعلق سپریم کورٹ میں اپنی پوزیشن واضح کرنی ہوگی۔

جبکہ دو روز بعد عدالت عظمیٰ این آر اوکیس کی سماعت شروع کرے گی جس میں وزیر اعظم راجا پرویز اشرف سے سوئس حکام کو خط لکھ کر صدر آصف زرداری کے خلاف رشوت کے کیسز دوبارہ کھلوانے سے متعلق اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لیے وضاحت طلب کی جاچکی ہے۔صدرآصف زرداری کے خلاف کیسز کا معاملہ2007میں اس وقت پس پشت چلا گیا تھا جب اٹارنی جنرل ملک قیوم نے این آر او کے نفاذ کے بعد سوئس حکام کو خط تحریر کیا تھا تاہم 2009میں سپریم کورٹ نے این آر او کالعدم قرار دیکر تمام بند کیے گئے مقدمات کو تاحال کھلے رہنے کا حکم جاری کیا تھا اور سابق اٹارنی جنرل کے خلاف غیرقانونی خطوط لکھنے پر کارروائی کی ہدایت کی تھی۔


رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی کی حکومت نے تنقید کے خدشات کے پیش نظر این آر او کیس میں اب تک کوئی ٹھوس موقف اختیار نہیں کیا تھا تاہم گزشتہ ماہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی بے دخلی اور موجودہ وزیر اعظم کے غیر یقینی مستقبل کے باعث حکومت نے نئی حکمت عملی اختیارکرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس حوالے سے 25جولائی کو حکومت اور عدلیہ کے درمیان ایک بڑے معرکے کی توقع ہے کیونکہ حکومت ملک قیوم کی جانب سے سوئس حکام کو مقدمات بند کرنے کے لیے لکھے گئے خطوط کو جائز قرار دے چکی ہے۔

سیکریٹری قانون یاسمین عباسی نے اپنے نوٹ میں تمام حکومتی محکموں کو انتباہ کیا ہے کہ سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے خطوط قانونی تھے اور اس حوالے سے ان کے خلاف کوئی ریفرنس دائر کرنے یا کوئی اور کارروائی کی ضرورت نہیں کیونکہ جب ملک قیوم نے خطوط لکھے اس وقت این آر او نافذ تھا۔اٹارنی جنرل عرفان قادر نے پیشرفت کی تصدیق کرتے ہوئے ایکسپریس ٹریبون کو بتایا کہ جب وہ سیکریٹری قانون تھے تو وہ اس حوالے سے کارروائی کا آغاز کرچکے تھے تاہم انہیں فوری اٹارنی جنرل بنانے کے بعد بقیہ کام ان کی پیشرو نے مکمل کرلیا ہے اور اس حوالے سے سپریم کورٹ کو بھی آگاہ کردیا گیا ہے۔

ایک قانونی ماہر نے ایکسپریس ٹریبون کو بتایا کہ حتیٰ کہ سوئس حکام کو خط لکھ دیا جائے تو بھی صدر زرداری کے خلاف بند کیے گئے مقدمات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور سوئس حکام ملک قیوم کے خطوط کو قانونی تصور کریں گے کیونکہ انہیں حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ملک قیوم جو اس وقت لندن میں ہیں، نے قومی احتساب بیورو کواپنے تحریری جواب میں بتایا ہے کہ انھوں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا ہے۔

ان کے جواب کی ایکسپریس ٹریبون کوموصول ہونے والی کاپی سے انکشاف ہوا ہے کہ وفاقی حکومت،دفتر خارجہ، وزارت قانون اور نیب سوئس حکام کو لکھے جانے والے خطوط سے آگاہ تھے۔ انھوں نے مزید کہا کہ انھوں نے سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے این آر او ایکٹ کا نفاذ کیا۔ ملک قیوم کے جواب کے مطابق اس وقت کی جرمنی میں پاکستانی سفیر عائشہ ریاض نے سوئس حکام کو خطوط ارسال کیے تھے۔
Load Next Story